اے وہ لوگو! جن کے جسم یکجا اور خواہشیں جدا جدا ہیں،تمہاری باتیں تو سخت
پتھروں کو بھی نرم کر دیتی ہیں،اور تمہارا عمل ایسا ہے کہ جو دشمنوں کر تم
پر دندانِ آز تیز کرنے کا موقع دیتا ہے اپنی مجلسوں میں تم کہتے پھرتے ہو
کہ یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے ، جب جنگ چھڑ ہی جاتی ہے تو تم اس سے پناہ
مانگنے لگتے ہو ، جو تم کو مدد کے لیے پکارے اس کی صدا بے وقعت ،اور جس کا
تم جیسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہو،اس کا دل ہمیشہ بے چین ہے، حیلے حوالے ہیں
غلط سلط ،اور مجھ سے جنگ میں تاخیر کرنے کی خواہشیں ہیں،جیسے نادہندہ
مقروض اپنے قرض خواہ کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے۔ذلیل آدمی ذلت آمیز
زیادتیوں کی روک تھام نہیں کر سکتااور حق تو بلا کوشش کے نہیں ملا کرتا،اس
گھر کے بعد اور کون سا گھر ہے جس کی حفاظت کرو گے،اور میرے بعد اور کس
امام کے ساتھ ہو کر جہاد کرو گے،خدا کی قسم جسے تم نے دھوکا دے دیا ہو،اس
کے فریب خوردہ ہونے میں کوئی شک نہیں،اور جسے تم جیسے لوگ ملے ہوں اس کے
حصہ میں وہ تیر آتا ہے جو خالی ہوتا ہے،اور جس نے تم کو(تیروں کی طرح )
دشمنوں پر پھینکا ہو، اس نے گویا ایسا تیر پھینکا ہے جس کا سوفار ٹوٹ چکا
ہو اور پیکان بھی شکستہ ہو خدا کی قسم میری کیفیت تو اب یہ ہے کہ نہ میں
تمہاری کسی بات کی تصدیق کر سکتا ہوں ، اور نہ تمہاری نصرت کی مجھے آس
باقی رہی ہے،اور نہ تمہاری وجہ سے دشمن کو جنگ کی دھمکی دے سکتا ہوں،تمہیں
کیا ہوگیا،تمہارا مرض کیا ہے،اور اس کا چارہ کیا ہے،اس قوم کے افراد بھی
تو تمہاری ہی شکل و صورت کے مرد ہیں کیا باتیں ہی باتیں رہیں گی جانے
بوجھے بغیر اور صرف غفلت و مدہوشی ہے تقویٰ و پرہیز گاری کے بغیر (بلندی
کی) حرص ہی حرص ہے مگر بلکل ناحق۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ نے خوارج کا قول’’لا حکم الااللہ‘‘( حکم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے) سنا تو فرمایا:۔
یہ جملہ تو صحیح ہے ،مگر جو مطلب وہ لیتے ہیں وہ غلط ہے۔ ہاں بے شک حکم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے،مگر یہ لوگ تو کہنا چاہتے ہیں،کہ حکومت بھی اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی،حالانکہ لوگوں کے لیے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے،خواہ وہ اچھا ہو یا برا( اگر اچھا ہو گا) تو مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا،اور ( برا ) ہو گا تو کافر اس کے عہد میں لذائذ سے بہرہ اندوز ہو گا،اور اللہ اس نظامِ حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حد وں تک پہنچا دے گا،اسی حاکم کی وجہ سے مال( خراج و غنیمت) جمع ہوتا ہے،دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں،اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے،یہاں تک کہ نیک حاکم ( مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے ،اور برے حاکم ( کے مرنے یا معزول ہونے سے) دوسروں کو راحت پہنچے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
وفائے عہد اور سچائی دونوں کا ہمیشہ ہمیشہ کا ساتھ ہے،میرے علم میں اس سے بڑھ کر حفاظت کی اور کوئی سپر نہیں،جو شخص اپنی بازگشت کی حقیقت جان لیتا ہے،وہ کبھی غداری نہیں کرتا،مگر ہمارا زمانہ ایسا ہے جس میں اکثر لوگوں نے عذر و فریب کو عقل و فراست سمجھ لیا ہے،اور جاہلوں نے ان ( کی چالوں ) کو حسنِ تدبیر سے منسوب کر دیا ہے،اللہ انہیں غارت کرے انہیں کیا ہو گیا ہے،وہ شخص جو زمانہ کی اونچ نیچ دیکھ چکا ہے،اور اس کے ہیر پھیر سے آگاہ ہے،وہ کبھی کوئی تدبیر اپنے لیے دیکھتا ہے مگر اللہ کے اوامر و نواہی اس کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو وہ اس حیلہ و تدبیر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اس پر قابو پانے کے باوجود چھوڑ دیتا ہے،اور جسے کوئی دینی احساس سدِ راہ نہیں ہے، وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا لے جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ نے خوارج کا قول’’لا حکم الااللہ‘‘( حکم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے) سنا تو فرمایا:۔
یہ جملہ تو صحیح ہے ،مگر جو مطلب وہ لیتے ہیں وہ غلط ہے۔ ہاں بے شک حکم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے،مگر یہ لوگ تو کہنا چاہتے ہیں،کہ حکومت بھی اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی،حالانکہ لوگوں کے لیے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے،خواہ وہ اچھا ہو یا برا( اگر اچھا ہو گا) تو مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا،اور ( برا ) ہو گا تو کافر اس کے عہد میں لذائذ سے بہرہ اندوز ہو گا،اور اللہ اس نظامِ حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حد وں تک پہنچا دے گا،اسی حاکم کی وجہ سے مال( خراج و غنیمت) جمع ہوتا ہے،دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں،اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے،یہاں تک کہ نیک حاکم ( مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے ،اور برے حاکم ( کے مرنے یا معزول ہونے سے) دوسروں کو راحت پہنچے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
وفائے عہد اور سچائی دونوں کا ہمیشہ ہمیشہ کا ساتھ ہے،میرے علم میں اس سے بڑھ کر حفاظت کی اور کوئی سپر نہیں،جو شخص اپنی بازگشت کی حقیقت جان لیتا ہے،وہ کبھی غداری نہیں کرتا،مگر ہمارا زمانہ ایسا ہے جس میں اکثر لوگوں نے عذر و فریب کو عقل و فراست سمجھ لیا ہے،اور جاہلوں نے ان ( کی چالوں ) کو حسنِ تدبیر سے منسوب کر دیا ہے،اللہ انہیں غارت کرے انہیں کیا ہو گیا ہے،وہ شخص جو زمانہ کی اونچ نیچ دیکھ چکا ہے،اور اس کے ہیر پھیر سے آگاہ ہے،وہ کبھی کوئی تدبیر اپنے لیے دیکھتا ہے مگر اللہ کے اوامر و نواہی اس کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو وہ اس حیلہ و تدبیر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اس پر قابو پانے کے باوجود چھوڑ دیتا ہے،اور جسے کوئی دینی احساس سدِ راہ نہیں ہے، وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا لے جاتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment