روایتِ معراج
ابنِ عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
کہ جب خداوند عالم مجھے معراج میں لے گیا تو میں نے ایک آواز سنی کہ اے
محمد!
میں نے کہا اے خدائے عظمت لبیک! اس وقت مجھ پر وحی ہوئی کہ اے محمد! فرشتوں نے کس چیز پر نزاع کی ہے۔ میں نے کہا پروردگار! مجھے علم نہیں ہے۔ خدا نے کہا اے محمد! تم نے انسانوں میں کسی کو اپنا وزیر، بھائی اور اپنے بعد وصی منتخب کیا ہے؟ میں نے عرض کیا پروردگار میں کسے منتخب کروں؟ تو خود میرے لیے منتخب فرما دے۔
وحی آئی اے محمد! میں نے سارےآدمیوں میں علی ابنِ ابی طالب کو تمہارے لئے منتخب کیا ہے۔ میں نے عرض کی پروردگار میرے ابنِ عم کو؟تو اللہ نے وحی کی کہ اے محمد! علی تمہارا وارث ہے اور تمہارے بعد تمہارے علم کا وارث ہے اور قیامت کے دن تمہارا لواء حمد اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہی ساقی کوثر بھی ہے جو تمہاری امت کے آنے والے مومنین کو سیراب کرے گا۔
پھر خدا وند عالم نے وحی کی اے محمد! میں نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ تمہارا دشمن اور تمہارے اہلیبیت اور ذریت طیبہ کا دشمن ہرگز ہرگز آبِ کوثر پی نہ سکے گا۔ اے محمد! تمہاری امت کو جنت میں داخل کروں گا مگر وہ داخل نہ ہو گا جو خود انکار کرے۔
میں نے عرض کی پروردگار! کیا کوئی ایسا بھی ہے جو جنت میں داخل نہ ہونا چاہے۔ فرمایا کہ ہاں! میں نے عرض کی کہ وہ کیسے انکار کرے گا؟ تو اللہ نے مجھ پر وحی کی کہ اے محمد! میں نے تمہیں اپنی خلق سے منتخب کیا ہے اور تمہارے لئے تمہارے بعد وصی بھی منتخب کیا ہے اور اس کی اور تمہاری نسبت ہارون اور موسی کی نسبت قرار دی ہے فرق صرف یہ ہے کہ تمہارے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا اور میں نے اس کی محبت تمہارے دل میں ڈالی ہے اور اسے تمہاری اولاد کا باپ قرار دیا ہے۔ تمہارے بعد تمہاری امت پر اس کا وہی حق قرار دیا ہے جو تمہارا اپنی امت پر اپنی زندگی میں ہے جس نے اس کے حق کا انکار کیا اس نے تمہارے حق کا انکار کیا اور جس نے اس کی محبت کا انکار کیا اس نے تمہاری محبت کا انکار کیا اور جس نے تمہاری محبت سے انکار کیا اس نے جنت میں داخل ہونے سے انکار کیا۔
یہ سن کر میں ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدے میں گر پڑا اس وقت آواز آئی اے محمد اپنے سر کو اٹھاؤ اور مجھ سے جو چاہو مانگو، تاکہ میں عطا کروں۔ میں نے عرض کی کہ اے پروردگار! میرے بعد میری پوری امت کو علی ابنِ ابی طالب کے دوستوں میں قرار دے کہ وہ سب قیامت کے دن حوضِ کوثر پر میرے پاس آ سکیں۔
وحی آئی اے محمد! میں نے اپنے بندوں کی تخلیق سے قبل فیصلے کیے ہیں اور وہ طے ہو چکے ہیں۔ تاکہ جو گمراہ ہو اسے ہلاک کر دوں اور جو راہِ راست پر چلے اس کی ہدایت کروں میں نے تمہارے بعد تمہارا علم علی کو دیا ہے، میں نے اسے تمہارا وزیر بنایا ہے اور میں نے اسے تمہارے بعد تمہارے اہل و عیال اور تمہاری امت پر خلیفہ قرار دیا ہے۔ یہ میرا حتمی فیصلہ ہے جو اس سے دشمنی کرے، جو اس سے بغض رکھے اور تمہارے بعد اس کی فوری ولایت کا انکار کرے وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا تو جس نے اس سے بغض رکھا اس نے تجھ سے بغض رکھا اور جس نے تم سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے اس سے دشمنی کی اس نے تجھ سے دشمنی کی اور جس نے تم سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے اس سے محبت کی اس نے تم سے محبت کی اور جس نے تم سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔
اور میں نے یہ فضیلت اس لیے قرار دی ہے اور تمہیں یہ عطا کیا ہے کہ میں اس کے صلب سے اور بتول کی نسل سے تمہاری ذریت سے گیارہ مہدی قرار دوں گا اور ان میں آخری وہ ہو گا جس کے پیچھے عیسی ابنِ مریم نماز پڑھیں گے وہ زمین کو عدل و داد سے بھر دے گا جیسی کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔ میں اسی کے ذریعہ انسانوں کو ہلاکت سے نجات دوں گا گمراہی سے ہدایت کی طرف لاؤں گا اور اسی کے ذریعے اندھے کو بینا بناؤں گا اور اسی کے ذریعہ مریض کو شفا یاب کروں گا۔
میں نے عرض کی پروردگار یہ کب ہو گا! وحی آئی کہ جب علم اٹھا لیا جائے گا۔ اور جب جہالت ظاہر ہو جائے۔ اور جب قاریانِ قرآن کی کثرت ہو جائے۔ اور جب عمل کم ہو جائے۔ اور جب قتل کی کثرت ہو جائے۔ اور جب فقہائے ہدایت کم ہو جائیں۔ اور جب گمراہ و خائن فقہا کی کثرت ہو جائے۔ اور جب شعراء کی کثرت ہو جائے۔
اور جب تمہاری امت کے لوگ قبرستان کو مسجد بنا لیں۔ اور جب قرآن آراستہ کیے جائیں۔ اور جب مسجدوں میں نقش و نگار بنائے جائیں اور جب ظلم وفساد بہت بڑھ جائے۔ اور جب برائیاں ظاہر ہو جائیں اور آپ کی امت کو اسی کی ترغیب دی جائے۔ اچھائیوں سے روکا جائے۔ مرد اکتفا کریں مردوں پر عورتیں عورتوں پر۔ اور جب حکمران کافر ہو جائیں۔ اور جب ان کے اعمال فاجر ہو جائیں۔ اور جب ان کے مددگار ظالم ہو جائیں۔ اور جب ان میں جو صاحبانِ رائے ہوں فاسق ہو جائیں۔ تو اس وقت تین علاقوں میں زمینیں دھنس جائیں گی۔ اور جب مشرق میں اور مغرب میں، جزیرۃ العرب میں اور شہر بصرہ میں تمہاری ذریت کے ہاتھوں تباہ ہو گا، جس کی پیروی سیاہ فام کریں گے ۔ اور حسن بن علی کی اولاد سے ایک شخص خروج کرے گا۔ اور مشرق میںاور مشرق میں دجال علاقہ سجستان( اس سے مراد سیستان ہے) سے خروج کرے گا۔ اور سفیانی کا ظہور ہو گا۔
میں نے عرض کیا پروردگار! میرے بعد کیا کیا فتنے ہوں گے؟ خدا نے وحی کی اور بنی امیہ اور میرے عم زادوں(بنی عباس) کے فتنے سے آگاہ کیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے وہ سب کچھ بتا دیا۔ تو جب زمین پر آیا تو میں نے وہ سب بطورِ وصیت اپنے ابنِ عم(علی) کو بتا دیا اور اپنے عملِ رسالت کو انجام دیا۔ پس میں اس کی حمد کرتا ہوں جیسا کہ انبیاء نے کی ہے اور جیسا کہ ہر شے قبل میں حمد کرتی رہی ہےاور مستقبل میں خلق ہونے والی اشیاء قیامت تک حمد کرتی رہیں گی۔(بحار الانوار جلد 52 صفحہ نمبر 276)
میں نے کہا اے خدائے عظمت لبیک! اس وقت مجھ پر وحی ہوئی کہ اے محمد! فرشتوں نے کس چیز پر نزاع کی ہے۔ میں نے کہا پروردگار! مجھے علم نہیں ہے۔ خدا نے کہا اے محمد! تم نے انسانوں میں کسی کو اپنا وزیر، بھائی اور اپنے بعد وصی منتخب کیا ہے؟ میں نے عرض کیا پروردگار میں کسے منتخب کروں؟ تو خود میرے لیے منتخب فرما دے۔
وحی آئی اے محمد! میں نے سارےآدمیوں میں علی ابنِ ابی طالب کو تمہارے لئے منتخب کیا ہے۔ میں نے عرض کی پروردگار میرے ابنِ عم کو؟تو اللہ نے وحی کی کہ اے محمد! علی تمہارا وارث ہے اور تمہارے بعد تمہارے علم کا وارث ہے اور قیامت کے دن تمہارا لواء حمد اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہی ساقی کوثر بھی ہے جو تمہاری امت کے آنے والے مومنین کو سیراب کرے گا۔
پھر خدا وند عالم نے وحی کی اے محمد! میں نے اپنی ذات کی قسم کھائی ہے کہ تمہارا دشمن اور تمہارے اہلیبیت اور ذریت طیبہ کا دشمن ہرگز ہرگز آبِ کوثر پی نہ سکے گا۔ اے محمد! تمہاری امت کو جنت میں داخل کروں گا مگر وہ داخل نہ ہو گا جو خود انکار کرے۔
میں نے عرض کی پروردگار! کیا کوئی ایسا بھی ہے جو جنت میں داخل نہ ہونا چاہے۔ فرمایا کہ ہاں! میں نے عرض کی کہ وہ کیسے انکار کرے گا؟ تو اللہ نے مجھ پر وحی کی کہ اے محمد! میں نے تمہیں اپنی خلق سے منتخب کیا ہے اور تمہارے لئے تمہارے بعد وصی بھی منتخب کیا ہے اور اس کی اور تمہاری نسبت ہارون اور موسی کی نسبت قرار دی ہے فرق صرف یہ ہے کہ تمہارے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا اور میں نے اس کی محبت تمہارے دل میں ڈالی ہے اور اسے تمہاری اولاد کا باپ قرار دیا ہے۔ تمہارے بعد تمہاری امت پر اس کا وہی حق قرار دیا ہے جو تمہارا اپنی امت پر اپنی زندگی میں ہے جس نے اس کے حق کا انکار کیا اس نے تمہارے حق کا انکار کیا اور جس نے اس کی محبت کا انکار کیا اس نے تمہاری محبت کا انکار کیا اور جس نے تمہاری محبت سے انکار کیا اس نے جنت میں داخل ہونے سے انکار کیا۔
یہ سن کر میں ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے لئے سجدے میں گر پڑا اس وقت آواز آئی اے محمد اپنے سر کو اٹھاؤ اور مجھ سے جو چاہو مانگو، تاکہ میں عطا کروں۔ میں نے عرض کی کہ اے پروردگار! میرے بعد میری پوری امت کو علی ابنِ ابی طالب کے دوستوں میں قرار دے کہ وہ سب قیامت کے دن حوضِ کوثر پر میرے پاس آ سکیں۔
وحی آئی اے محمد! میں نے اپنے بندوں کی تخلیق سے قبل فیصلے کیے ہیں اور وہ طے ہو چکے ہیں۔ تاکہ جو گمراہ ہو اسے ہلاک کر دوں اور جو راہِ راست پر چلے اس کی ہدایت کروں میں نے تمہارے بعد تمہارا علم علی کو دیا ہے، میں نے اسے تمہارا وزیر بنایا ہے اور میں نے اسے تمہارے بعد تمہارے اہل و عیال اور تمہاری امت پر خلیفہ قرار دیا ہے۔ یہ میرا حتمی فیصلہ ہے جو اس سے دشمنی کرے، جو اس سے بغض رکھے اور تمہارے بعد اس کی فوری ولایت کا انکار کرے وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا تو جس نے اس سے بغض رکھا اس نے تجھ سے بغض رکھا اور جس نے تم سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے اس سے دشمنی کی اس نے تجھ سے دشمنی کی اور جس نے تم سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی اور جس نے اس سے محبت کی اس نے تم سے محبت کی اور جس نے تم سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی۔
اور میں نے یہ فضیلت اس لیے قرار دی ہے اور تمہیں یہ عطا کیا ہے کہ میں اس کے صلب سے اور بتول کی نسل سے تمہاری ذریت سے گیارہ مہدی قرار دوں گا اور ان میں آخری وہ ہو گا جس کے پیچھے عیسی ابنِ مریم نماز پڑھیں گے وہ زمین کو عدل و داد سے بھر دے گا جیسی کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہو گی۔ میں اسی کے ذریعہ انسانوں کو ہلاکت سے نجات دوں گا گمراہی سے ہدایت کی طرف لاؤں گا اور اسی کے ذریعے اندھے کو بینا بناؤں گا اور اسی کے ذریعہ مریض کو شفا یاب کروں گا۔
میں نے عرض کی پروردگار یہ کب ہو گا! وحی آئی کہ جب علم اٹھا لیا جائے گا۔ اور جب جہالت ظاہر ہو جائے۔ اور جب قاریانِ قرآن کی کثرت ہو جائے۔ اور جب عمل کم ہو جائے۔ اور جب قتل کی کثرت ہو جائے۔ اور جب فقہائے ہدایت کم ہو جائیں۔ اور جب گمراہ و خائن فقہا کی کثرت ہو جائے۔ اور جب شعراء کی کثرت ہو جائے۔
اور جب تمہاری امت کے لوگ قبرستان کو مسجد بنا لیں۔ اور جب قرآن آراستہ کیے جائیں۔ اور جب مسجدوں میں نقش و نگار بنائے جائیں اور جب ظلم وفساد بہت بڑھ جائے۔ اور جب برائیاں ظاہر ہو جائیں اور آپ کی امت کو اسی کی ترغیب دی جائے۔ اچھائیوں سے روکا جائے۔ مرد اکتفا کریں مردوں پر عورتیں عورتوں پر۔ اور جب حکمران کافر ہو جائیں۔ اور جب ان کے اعمال فاجر ہو جائیں۔ اور جب ان کے مددگار ظالم ہو جائیں۔ اور جب ان میں جو صاحبانِ رائے ہوں فاسق ہو جائیں۔ تو اس وقت تین علاقوں میں زمینیں دھنس جائیں گی۔ اور جب مشرق میں اور مغرب میں، جزیرۃ العرب میں اور شہر بصرہ میں تمہاری ذریت کے ہاتھوں تباہ ہو گا، جس کی پیروی سیاہ فام کریں گے ۔ اور حسن بن علی کی اولاد سے ایک شخص خروج کرے گا۔ اور مشرق میںاور مشرق میں دجال علاقہ سجستان( اس سے مراد سیستان ہے) سے خروج کرے گا۔ اور سفیانی کا ظہور ہو گا۔
میں نے عرض کیا پروردگار! میرے بعد کیا کیا فتنے ہوں گے؟ خدا نے وحی کی اور بنی امیہ اور میرے عم زادوں(بنی عباس) کے فتنے سے آگاہ کیا اور جو کچھ قیامت تک ہونے والا ہے وہ سب کچھ بتا دیا۔ تو جب زمین پر آیا تو میں نے وہ سب بطورِ وصیت اپنے ابنِ عم(علی) کو بتا دیا اور اپنے عملِ رسالت کو انجام دیا۔ پس میں اس کی حمد کرتا ہوں جیسا کہ انبیاء نے کی ہے اور جیسا کہ ہر شے قبل میں حمد کرتی رہی ہےاور مستقبل میں خلق ہونے والی اشیاء قیامت تک حمد کرتی رہیں گی۔(بحار الانوار جلد 52 صفحہ نمبر 276)
توضیح
(1)
عام معاشرتی حالات بیان فرمانے کے بعد مشرق، مغرب اور جزیرۃ العرب کے خسف
کو بیان کیا گیا ہے۔ خسف کے معنی زمین کے دھنس جانے کے ہیں۔ زمین کا یہ
دھنسنا اتنی اہم علامت ہے کہ اسے مستقل طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس بات کی
وضاحت نہیں ہے کہ یہ زمین قدرتی اسباب کے ذریعہ دھنسے گی یا جنگوں میں
بمباری وغیرہ کے سبب سے۔ قرین قیاس یہی ہے کہ یہ واقعہ بمباری وغیرہ کے
سبب ہو گا۔ یہ تینوں خسف پے در پے ہوں گے یا فاصلہ کے ساتھ اس کی بھی
وضاحت نہیں ہے۔ اگر فاصلے کے ساتھ ہوں تو پھر مشرق کے خسف کے حوالے سے
ہیروشیما اور ناگاساکی کی بمباری پر بھی توجہ کرنی چاہیے۔
(2) خسف کی متعدد روایات پائی جاتی ہیں۔ یہ عمل مختلف علاقوں میں ہو گا خصوصیت کے ساتھ بعض علاقوں کے نام روایات میں بیان کیے گئے ہیں۔
الف:۔ شام کا ایک دیہات جابیہ یا خرستا یا ترستا یا خرسا،خرسنا، مرمرسی روایات میں یہ نام مذکورہ بالا طریقوں سے نقل ہوا ہے، لیکن صحیح جابیہ ہے۔بقول سید محسن امین عاملی کہ دمشق کا محلہ باب الجابیہ دلیل ہے کہ دمشق کے قریب ایک دیہات جابیہ نامی موجود تھا۔
ب:۔ مسجدِ دمشق کا مغربی حصہ
ج:۔ بلاد جبل کا بعض علاقہ۔ بلادِ جبل قم قزوین، ہمدان اور کردستان و کرمان شاہ پر مشتمل ہے اس خسف سے شہرِ قم مستثنی ہے۔
د:۔ بصرہ میں خسف ہو گا، خون ریزی ہو گی گھر منہدم ہوں گے اور لوگ فنا ہوں گے اس کے علاوہ منارہ بصرہ کے خسف کا بھی ذکر روایات میں ہے۔
ہ:۔ مصر میں بھی خسف ہو گا۔
(3) خروج سفیانی سے قبل سید حسنی کا خروج ہو گا اور اس خروج کے بین الاقوامی اثرات مرتب ہوں گے، جن کے سبب کرہ ارض پر لڑی جانے والی جنگوں کا ظہرو ہر گا۔ بعض علماء نے اولادِ حسن کی جگہ اولادِ حسین تحریر کیا ہے۔ اگرچہ بیشتر نسخوں میں اولادِ حسن ہی تحریر ہے لیکن اگر دوسرے نسخے کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ خروج کرنے والے سید حسینی ہوں گے ان کے بارے میں تفصیلات نہیں ملتیں کہ یہ کون ہیں کہاں سے خروج کریں گے؟ اور ان کی جنگ کن لوگوں سے ہو گی جیسے کہ سید حسنی کے سلسلہ میں تفصیلات ملتی ہیں۔
(4) اس روایت میں جس دجال کا ذکر کیا گیا ہے یہ مشہور دجال نہیں ہے جس کا تذکرہ بکثرت روایات میں پایا جاتا ہے اس لئے کہ وہ نزولِ عیسی کے وقت ظاہر ہو گا، وہ دجال جو مشرق سے خروج کرے گا اس کی تفصیلات نہیں معلوم ، ہو سکتا ہے یہ کوئی ایسا باطل پرست سرکردہ شخص ہو جو سید حسنی یا حسینی کے مقابل خروج کرے۔
(2) خسف کی متعدد روایات پائی جاتی ہیں۔ یہ عمل مختلف علاقوں میں ہو گا خصوصیت کے ساتھ بعض علاقوں کے نام روایات میں بیان کیے گئے ہیں۔
الف:۔ شام کا ایک دیہات جابیہ یا خرستا یا ترستا یا خرسا،خرسنا، مرمرسی روایات میں یہ نام مذکورہ بالا طریقوں سے نقل ہوا ہے، لیکن صحیح جابیہ ہے۔بقول سید محسن امین عاملی کہ دمشق کا محلہ باب الجابیہ دلیل ہے کہ دمشق کے قریب ایک دیہات جابیہ نامی موجود تھا۔
ب:۔ مسجدِ دمشق کا مغربی حصہ
ج:۔ بلاد جبل کا بعض علاقہ۔ بلادِ جبل قم قزوین، ہمدان اور کردستان و کرمان شاہ پر مشتمل ہے اس خسف سے شہرِ قم مستثنی ہے۔
د:۔ بصرہ میں خسف ہو گا، خون ریزی ہو گی گھر منہدم ہوں گے اور لوگ فنا ہوں گے اس کے علاوہ منارہ بصرہ کے خسف کا بھی ذکر روایات میں ہے۔
ہ:۔ مصر میں بھی خسف ہو گا۔
(3) خروج سفیانی سے قبل سید حسنی کا خروج ہو گا اور اس خروج کے بین الاقوامی اثرات مرتب ہوں گے، جن کے سبب کرہ ارض پر لڑی جانے والی جنگوں کا ظہرو ہر گا۔ بعض علماء نے اولادِ حسن کی جگہ اولادِ حسین تحریر کیا ہے۔ اگرچہ بیشتر نسخوں میں اولادِ حسن ہی تحریر ہے لیکن اگر دوسرے نسخے کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ خروج کرنے والے سید حسینی ہوں گے ان کے بارے میں تفصیلات نہیں ملتیں کہ یہ کون ہیں کہاں سے خروج کریں گے؟ اور ان کی جنگ کن لوگوں سے ہو گی جیسے کہ سید حسنی کے سلسلہ میں تفصیلات ملتی ہیں۔
(4) اس روایت میں جس دجال کا ذکر کیا گیا ہے یہ مشہور دجال نہیں ہے جس کا تذکرہ بکثرت روایات میں پایا جاتا ہے اس لئے کہ وہ نزولِ عیسی کے وقت ظاہر ہو گا، وہ دجال جو مشرق سے خروج کرے گا اس کی تفصیلات نہیں معلوم ، ہو سکتا ہے یہ کوئی ایسا باطل پرست سرکردہ شخص ہو جو سید حسنی یا حسینی کے مقابل خروج کرے۔
0 comments:
Post a Comment