علامات کا تعارف
علاماتِ ظہور سے متعلق روایات کا ذخیرہ بھی اتنی بڑی کمیت میں ہے کہ اگر
ان سب کو جمع کیا جائے تو متعدد ضخیم جلدوں پر مشتمل ہو گا۔یہاں کچھ منتخب
روایات درج کی جا رہی ہیں اس لیے کہ مقصد فقط یہ ہے کہ ایک عام قاری کو ان
علامات سے روشناس کرایا جائے تاکہ اس کے ذہن میں ظہور سے قبل ایک خاکہ
تشکیل پا سکے۔
علاماتِ ظہورِ مہدی کی دو قسمیں ہیں۔“خاصہ اور عامہ“۔ “خاصہ“ وہ علامات ہیں جن کا تعلق صرف اور صرف مہدی علیہ اسلام سے ہے جیسے تلوار کا آپ سے گفتگو کرنا یا پرچم کا خود بخود کھل جانا۔“ عامہ“ وہ علامات ہیں جو عوام الناس کے لئے ہیں۔ ایک اعتبار سے ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ علاماتِ کلیہ یعنی قبلِ ظہور کے عام سیاسی و معاشرتی اور معاشی حالات دینی اور لادینی افکار و نظریات طرزِ تعمیر، طرزِ زندگی اور خاندان اور برادریوں کے مسائل جو انسانی معاشروں پر کُلی اور مجموعی طور پر طاری ہوں گے۔ علاماتِ جزئیہ جو کسی خاص فرد، قوم یا معاشرہ یا ملک یا طبقہ یا جغرافیائی خطہ سے متعلق ہوں۔
مذکورہ بالا تقسیم کے علاوہ علامات کی چار قسمیں ہیں۔
(1):۔ علاماتِ بعیدہ:۔
ان علامات و واقعات کے بیان سے بظاہر یہ بتلانا مقصود تھا کہ یہ ظہور سے قبل واقع ہوں گے، لیکن کتنے قبل واقع ہونگے یہ بیان کرنا مقصود نہیں تھا۔ لہذا اگر کوئی علامت پوری ہو جائے یا کوئی واقعہ رونما ہو جائے اور امام مہدی کا ظہور نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ روایت نادرست ہے۔ بلکہ اس کے بیان کی غرض ہی صرف اتنی تھی کہ بتلا دیا جائے، کہ ظہورِ مہدی سے قبل یہ واقعہ رونما ہو گا۔
علاماتِ ظہور کے ذخیرہ میں بکثرت ایسی روایات ملتی ہیں جن میں بنی امیہ کا زوال، بنی عباس کی حکومت اور ان کا زوال، بصرہ اور کوفہ وغیرہ کی تباہی و ویرانی اور خراسان سے سیاہ پرچموں والے مغلوں کی آمد اور ایسے بہت سے دوسرے واقعات کو فرج(آزادی و کشادگی) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جب کہ حتمی اور یقینی فرج مہدی کا ظہور ہے۔ تاریخِ اسلام کے طالبِ علم جانتے ہیں کہ آلِ محمد کے چاہنے والوں کی تاریخ ترکِ وطن کی ،ہجرتوں کی، اور دور دراز علاقوں میں پوشیدہ ہونے کی اور سروں پر لٹکتی تلواروں کی تاریخ ہے۔ ان کی تاریخ ، گھٹن پریشانی، بیم و ترس اور خوفِ مال و جان کی تاریخ ہے۔ روایاتِ فرج کا مقصد یہ تھا کہ ان چاہنے والوں کو ان سے مستقل آگاہ رکھا جائے تاکہ صدیوں پر محیط ان کٹھن حالات میں وہ ہمت نہ ہار بیٹھیں اور ظہور سے نا امید نہ ہو جائیں لہذا انہیں آسائش اور کشادگی کے جو مواقع وقتآ فوقتآ ملنے والے تھے انہیں بتلا دیا گیا۔ فرج کہ یہ ساری روایات بھی علاماتِ ظہور کے ذیل میں مندرج ہیں۔ اس لیے کہ اگر ایک طرف یہ علامات وقتی فرج اور آسائش کا اعلان تھیں تو دوسری طرف ظہورِ مہدی کے عہد کی طرف پیش رفت کا بھی۔ اس لئے کہ ان کا وقوع پذیر ہو جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کہ عہدِ ظہور نسبتآ قریب ہوتا جا رہا ہے۔
(2) علاماتِ قریبیہ:۔
موضوع زیرِ بحث کی اصل اور بنیادی روایات وہی ہیں جو حقیقتآ ظہورِ مہدی کی علامات کے طور پر بیان کی گئی ہیں اور جن کے ظہور کا زمانہ ظہورِ مہدی سے نسبتآ قریب ہے۔ ان میں عام سیاسی و معاشرتی حالات وغیرہ بھی ہیں۔ مختلف شہروں اور ملکوں کی تباہی و بربادی کا تذکرہ بھی ہے اور مختلف علاقوں سے خروج کرنے والوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ وہ علامتیں ہیں کہ جب تک رونما نہ ہوں ظہور نہیں ہو گا۔ ان علامات میں سے ہر علامت کا ظہور اس بات کی دلیل ہے کہ ظہورِ مہدی کا وقت قریب آ رہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس علامت کے پورا ہوتے ہیں فورآ ظہور ہو جائے گا۔ البتہ بعض علامتیں ایسی ہیں جس میں یہ تصریح ہے کہ وہ ظہور سے متصل ہیں۔
(3) علاماتِ حتمیہ:۔
ان کے ساتھ کوئی قید یا شرط نہیں ہے۔ انہیں بہر حال ظہور سے قبل پورا ہونا ہے۔ مثلآ خروجِ دجال، بحوالہ روایتِ کمال الدین، صیحئہ آسمانی بحوالہ روایتِ مفضل ابنِ عمر، خروجِ سفیانی بحوالہ بحار الانوار وغیرہ۔
(4) علاماتِ غیر حتمیہ:۔
یہ مشروط علامات ہیں۔ اگر ان کی شرط پوری ہو گی تو یہ بھی پوری ہونگی ورنہ نہیں، ان کا تعلق خدا وندِ عالم کے قانون محوو اثبات یا با صطلاحِ دیگر قانونِ بداء سے ہے۔ اگر بعض واقعات مذکورہ قانون کے تحت وقوع پذیر نہ ہوں تو یہ روایت کے غلط ہونے کا ثبوت نہیں ہو گا۔
روایاتِ علامات میں بیشتر خبر واحد ہیں۔ ان میں صحیح و ضعیف بھی ہیں اور مسند و مرسل بھی غرضکہ ہر قسم کی روایات موجود ہیں۔ ان کے راویوں میں مجہول الحال اور غیر موثق افراد بھی ہیں اور ثقہ بھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی روایات مجموعآ مفید یقین نہیں ہیں پھر یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ مہدویت کے دعویداروں نے بھی اپنے مفاد کی خاطر ان میں تحریفیں کی ہوں گی۔ لہذا روایات کی اسناد اور دوسرے داخلی اور خارجی قرائن کو پرکھنے کے بعد ہی کسی نتیجہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ میری یہاں کوشش یہ ہو گی کہ جن روایات کو بیشتر علماء و محدثین نے نقل فرمایا ہے انہیں کی جمع آوری ہو البتہ یہ ساری کی ساری روایات ایک ایسے محقق کا انتظار کر رہی ہیں، جو راویوں کی تحقیق کرے اور وہ قرینے تلاش کرے، جن کی مدد سے کسی بھی روایت کی صحت یا عدم صحت پر حکم لگایا جا سکے۔
حدیث کی صحت کو پرکھنے کے لئے عمومآ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ سند کے ذریعہ متن کی توثیق کی جاتی ہے۔ یعنی اگر کسی روایت کے راوی ثقہ اور معتبر ہیں تو اس روایت کے متن پر اعتبار کیا جاتا ہے، لیکن ایک محقق کا یہ قول اپنے اندر بڑی ہی معنویت رکھتا ہے کہ بعض متن اپنی ذات میں اتنے بلند اور بے عیب ہوتے ہیں کہ اپنے سلسلہ سند کی توثیق کر دیتے ہیں۔ یہاں اس کے بیان کا مقصد یہ ہے اور قاری بھی میری اس بات سے اتفاق کرے گا کہ روایات زیرِ مطالعہ میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے بیشتر لفظ بلفظ اور حرف بحرف وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ یعنی ایسی روایات کی تعداد کم ہو گی، جنہیں تنقید کی کسوٹی پر پرکھنا ہو گا، لیکن اگر ان ان روایات کو عمل تنقید و تحقیق سے گزار دیا گیا تو اب سے ظہورِ مہدی تک کا جامع اور بے عیب خاکہ ہماری نظروں میں آ سکتا ہے۔ اسی طرح واقعات کی تقدیم و تاخیر کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے کہ اگر کسی موضوع کی ساری روایات جمع کر لی جائیں یا روایات سے وہ جملے نکال لئے جائیں جو موضوع سے متعلق ہیں تو اس کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں کہ وہ موضوع کب وقوع پذیر ہو گا۔ اس سے زیادہ وضاحت نہ قرینِ مصلحت ہے اور نہ تقاضائے وقت۔(واللہ اعلم بالصواب)
علاماتِ ظہورِ مہدی کی دو قسمیں ہیں۔“خاصہ اور عامہ“۔ “خاصہ“ وہ علامات ہیں جن کا تعلق صرف اور صرف مہدی علیہ اسلام سے ہے جیسے تلوار کا آپ سے گفتگو کرنا یا پرچم کا خود بخود کھل جانا۔“ عامہ“ وہ علامات ہیں جو عوام الناس کے لئے ہیں۔ ایک اعتبار سے ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ علاماتِ کلیہ یعنی قبلِ ظہور کے عام سیاسی و معاشرتی اور معاشی حالات دینی اور لادینی افکار و نظریات طرزِ تعمیر، طرزِ زندگی اور خاندان اور برادریوں کے مسائل جو انسانی معاشروں پر کُلی اور مجموعی طور پر طاری ہوں گے۔ علاماتِ جزئیہ جو کسی خاص فرد، قوم یا معاشرہ یا ملک یا طبقہ یا جغرافیائی خطہ سے متعلق ہوں۔
مذکورہ بالا تقسیم کے علاوہ علامات کی چار قسمیں ہیں۔
(1):۔ علاماتِ بعیدہ:۔
ان علامات و واقعات کے بیان سے بظاہر یہ بتلانا مقصود تھا کہ یہ ظہور سے قبل واقع ہوں گے، لیکن کتنے قبل واقع ہونگے یہ بیان کرنا مقصود نہیں تھا۔ لہذا اگر کوئی علامت پوری ہو جائے یا کوئی واقعہ رونما ہو جائے اور امام مہدی کا ظہور نہ ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ روایت نادرست ہے۔ بلکہ اس کے بیان کی غرض ہی صرف اتنی تھی کہ بتلا دیا جائے، کہ ظہورِ مہدی سے قبل یہ واقعہ رونما ہو گا۔
علاماتِ ظہور کے ذخیرہ میں بکثرت ایسی روایات ملتی ہیں جن میں بنی امیہ کا زوال، بنی عباس کی حکومت اور ان کا زوال، بصرہ اور کوفہ وغیرہ کی تباہی و ویرانی اور خراسان سے سیاہ پرچموں والے مغلوں کی آمد اور ایسے بہت سے دوسرے واقعات کو فرج(آزادی و کشادگی) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ جب کہ حتمی اور یقینی فرج مہدی کا ظہور ہے۔ تاریخِ اسلام کے طالبِ علم جانتے ہیں کہ آلِ محمد کے چاہنے والوں کی تاریخ ترکِ وطن کی ،ہجرتوں کی، اور دور دراز علاقوں میں پوشیدہ ہونے کی اور سروں پر لٹکتی تلواروں کی تاریخ ہے۔ ان کی تاریخ ، گھٹن پریشانی، بیم و ترس اور خوفِ مال و جان کی تاریخ ہے۔ روایاتِ فرج کا مقصد یہ تھا کہ ان چاہنے والوں کو ان سے مستقل آگاہ رکھا جائے تاکہ صدیوں پر محیط ان کٹھن حالات میں وہ ہمت نہ ہار بیٹھیں اور ظہور سے نا امید نہ ہو جائیں لہذا انہیں آسائش اور کشادگی کے جو مواقع وقتآ فوقتآ ملنے والے تھے انہیں بتلا دیا گیا۔ فرج کہ یہ ساری روایات بھی علاماتِ ظہور کے ذیل میں مندرج ہیں۔ اس لیے کہ اگر ایک طرف یہ علامات وقتی فرج اور آسائش کا اعلان تھیں تو دوسری طرف ظہورِ مہدی کے عہد کی طرف پیش رفت کا بھی۔ اس لئے کہ ان کا وقوع پذیر ہو جانا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کہ عہدِ ظہور نسبتآ قریب ہوتا جا رہا ہے۔
(2) علاماتِ قریبیہ:۔
موضوع زیرِ بحث کی اصل اور بنیادی روایات وہی ہیں جو حقیقتآ ظہورِ مہدی کی علامات کے طور پر بیان کی گئی ہیں اور جن کے ظہور کا زمانہ ظہورِ مہدی سے نسبتآ قریب ہے۔ ان میں عام سیاسی و معاشرتی حالات وغیرہ بھی ہیں۔ مختلف شہروں اور ملکوں کی تباہی و بربادی کا تذکرہ بھی ہے اور مختلف علاقوں سے خروج کرنے والوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یہ وہ علامتیں ہیں کہ جب تک رونما نہ ہوں ظہور نہیں ہو گا۔ ان علامات میں سے ہر علامت کا ظہور اس بات کی دلیل ہے کہ ظہورِ مہدی کا وقت قریب آ رہا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس علامت کے پورا ہوتے ہیں فورآ ظہور ہو جائے گا۔ البتہ بعض علامتیں ایسی ہیں جس میں یہ تصریح ہے کہ وہ ظہور سے متصل ہیں۔
(3) علاماتِ حتمیہ:۔
ان کے ساتھ کوئی قید یا شرط نہیں ہے۔ انہیں بہر حال ظہور سے قبل پورا ہونا ہے۔ مثلآ خروجِ دجال، بحوالہ روایتِ کمال الدین، صیحئہ آسمانی بحوالہ روایتِ مفضل ابنِ عمر، خروجِ سفیانی بحوالہ بحار الانوار وغیرہ۔
(4) علاماتِ غیر حتمیہ:۔
یہ مشروط علامات ہیں۔ اگر ان کی شرط پوری ہو گی تو یہ بھی پوری ہونگی ورنہ نہیں، ان کا تعلق خدا وندِ عالم کے قانون محوو اثبات یا با صطلاحِ دیگر قانونِ بداء سے ہے۔ اگر بعض واقعات مذکورہ قانون کے تحت وقوع پذیر نہ ہوں تو یہ روایت کے غلط ہونے کا ثبوت نہیں ہو گا۔
روایاتِ علامات میں بیشتر خبر واحد ہیں۔ ان میں صحیح و ضعیف بھی ہیں اور مسند و مرسل بھی غرضکہ ہر قسم کی روایات موجود ہیں۔ ان کے راویوں میں مجہول الحال اور غیر موثق افراد بھی ہیں اور ثقہ بھی۔ ظاہر ہے کہ ایسی روایات مجموعآ مفید یقین نہیں ہیں پھر یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ مہدویت کے دعویداروں نے بھی اپنے مفاد کی خاطر ان میں تحریفیں کی ہوں گی۔ لہذا روایات کی اسناد اور دوسرے داخلی اور خارجی قرائن کو پرکھنے کے بعد ہی کسی نتیجہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ میری یہاں کوشش یہ ہو گی کہ جن روایات کو بیشتر علماء و محدثین نے نقل فرمایا ہے انہیں کی جمع آوری ہو البتہ یہ ساری کی ساری روایات ایک ایسے محقق کا انتظار کر رہی ہیں، جو راویوں کی تحقیق کرے اور وہ قرینے تلاش کرے، جن کی مدد سے کسی بھی روایت کی صحت یا عدم صحت پر حکم لگایا جا سکے۔
حدیث کی صحت کو پرکھنے کے لئے عمومآ طریقہ یہ ہوتا ہے کہ سند کے ذریعہ متن کی توثیق کی جاتی ہے۔ یعنی اگر کسی روایت کے راوی ثقہ اور معتبر ہیں تو اس روایت کے متن پر اعتبار کیا جاتا ہے، لیکن ایک محقق کا یہ قول اپنے اندر بڑی ہی معنویت رکھتا ہے کہ بعض متن اپنی ذات میں اتنے بلند اور بے عیب ہوتے ہیں کہ اپنے سلسلہ سند کی توثیق کر دیتے ہیں۔ یہاں اس کے بیان کا مقصد یہ ہے اور قاری بھی میری اس بات سے اتفاق کرے گا کہ روایات زیرِ مطالعہ میں جو باتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے بیشتر لفظ بلفظ اور حرف بحرف وقوع پذیر ہو رہی ہیں۔ یعنی ایسی روایات کی تعداد کم ہو گی، جنہیں تنقید کی کسوٹی پر پرکھنا ہو گا، لیکن اگر ان ان روایات کو عمل تنقید و تحقیق سے گزار دیا گیا تو اب سے ظہورِ مہدی تک کا جامع اور بے عیب خاکہ ہماری نظروں میں آ سکتا ہے۔ اسی طرح واقعات کی تقدیم و تاخیر کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے کہ اگر کسی موضوع کی ساری روایات جمع کر لی جائیں یا روایات سے وہ جملے نکال لئے جائیں جو موضوع سے متعلق ہیں تو اس کا اندازہ لگانا چنداں دشوار نہیں کہ وہ موضوع کب وقوع پذیر ہو گا۔ اس سے زیادہ وضاحت نہ قرینِ مصلحت ہے اور نہ تقاضائے وقت۔(واللہ اعلم بالصواب)
0 comments:
Post a Comment