• Feed RSS
 جناب فاطمہ جگر رسول کے آگے
شہید ہو کے کیا ماں کو سرخرو تم نے
جناب حضرت زینب گواہی دیتی ہیں
شہید ہو کر رکھی ہے بہنوں کی آبرو تم نے

وطن کی بیٹیاں مائیں سلام کہتی ہیں
چند طالبِ علم دورانِ تربیت میس میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ ساتھ ساتھ آپس میں باتیں بھی ہو رہی تھیں۔اچانک ایک طالبِ علم کے لبوں سے کلا۔
“محمود غزنوی کہاں کا ہیرو تھا؟ وہ تو بیرونی حملہ آور اور ڈاکو تھا۔“
“خاموش“ دوسرے طالبِ علم کی مدھ بھری آنکھوں میں ایک دم غصے اور طیش کی جوت جل اٹھی۔“ ایک لفظ بھی مزید کہا تو میں تمہاری زبان گدی سے کھینچ لوں گا۔“
پہلا طالبِ علم سہم گیا۔
“میں نے کیا کہہ دیا بھئی؟“ وہ ہکلا کر بولا۔
“تم نے وہ کہا جو تمہیں سوچنا بھی نہیں چاہیے تھا۔ تاریخ پڑھتے ہوئے تم یہ ضرور دیکھو کہ تم کس کی تحریر پڑھ رہے ہو؟ تماس زہریلے پروپیگنڈے سے متاثر ہو مسٹر جو ہندوؤں نے ہمیشہ مسلمانوں کے کانوں میں تاریخی سچائی کے نام پر اتارا ہے اور ہمارے نام نہاد، بے غیرت ترقی پسندوں نے اسے فرض سمجھ کر آگے بڑھایا ہے۔محمود غزنوی اگر ڈاکو تھا تو سومنات کا مندر توڑتے وقت “بُت شکن“ نہ کہلاتا بلکہ مال و دولت لے کر لوٹ جاتا۔“
“میں شرمندہ ہوں بھٹی۔“ طالبِ علم کی آنکھیں ندامت سے جھک گئیں۔
“آئیندہ احتیاط کرنا۔“ بھٹی کی جلتی ہوئی آنکھوں میں شبنم اتر آئی۔“ اپنے اسلاف کی عزت نہ کرنے والی قومیں تاریخ میں بے نشان ہو جایا کرتی ہیں۔“ بھٹی نے نرم لہجے میں کہا اور کھانے کی میز سے اٹھ گئے۔
یہ میجر راجہ عزیز بھٹی تھے جن کو بہادری اور بہادر دونوں سے عشق تھا۔وہ اپنی اسلامی اور علاقائی تاریخ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ غلط اور گمراہ کُن فقرہ تک برداشت نہ کرتے تھے۔
تربیت مکمل ہوئی اور لیفٹیننٹ کا میڈل ان کے سینے پر سجا دیا گیا۔ایک روز بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچنے والے ایک کیپٹن سے ملاقات ہوئی۔ کیپٹن نے اپنی اب تک کی مشکلات کا رانا روتے ہوئے کہا۔“ہمیں پاکستان آ کر کیا ملا۔ نہ رہنے کو ذاتی مکان نہ کھیتی کے نام پر زمین اور نہ ہی۔۔۔۔۔۔۔۔“
“زبان کو لگام دو کیپٹن۔“ بھٹی نے طیش میں آ کر کہا۔“ ورنہ میں یہ بھول جاؤں گا کہ تم مجھ سے عہدے میں بڑے ہو۔مجھے صرف یہ یاد رہ جائے گا کہ تم نے میرے وطن کو بُرا بھلا کہا ہے اور اس کے لئے میں تم کو معاف نہیں کروں گا۔“
“میں تو صرف اپنی مشکلات بتا رہا تھا۔“ کیپٹن نے سہم کر کہا۔
“صرف مشکلات بتاؤ تاکہ تدارک کیا جا سکے۔ اس سر زمین کے بارے میں اگر تم نے اپنی زبان سے ایک لفظ بھی نکالا جو اس کی توہین کے لئے ادا ہوا تو مجھ سے بُرا کوئی نہ ہو گا۔“
کیپٹن کو مست آنکھوں والے بھٹی کی شکل میں وہ شیر نظر آیا جو اپنی زمین کی حفاظت کے لئے آپے سے باہر ہو رہا تھا۔
اس نے غنیمت جانا کہ اپنی بات پر معذرت کرے اور دم دبا کر اٹھ جائے۔
1955 کے اواخر میں وہ کیپٹن راجہ عزیز بھٹی ہو گئے۔مزید ٹریننگ کے لئے وہ کوئٹہ چلے گئے۔ سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے وہ یہاں بھی فائنل امتحان میں پہلی پوزیشن لے کر کامیاب ہوئے۔ان کا شاندار ریکارڈ دیکھتے ہوئے اعلٰی افسران نے ان کو خصوصی تعلیمی ٹریننگ کے لئے کینیڈا بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ کیپٹن راجہ عزیز بھٹی کو اس تربیت کے لئے نتخب کیا گیا تو ان کے حصے میں ایک اور اعزاز آیا کہ انہیں ساتھ ہی میجر کے عہدے پر ترقی دے دی گئی۔
کنیڈا سے تربیت مکمل کرنے کے بعد وطن واپس لوٹے تو کسی اہم کام کی تکمیل کے لئے انہیں خصوصی طور پر لاہور بھیجا گیا۔ ان کے پاس بے حد خفیہ دستاویزات تھیں جو انہیں لاہور ہیڈکوارٹر پہنچانی تھیں۔
فوجی ٹرک میں وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جب مریدکے پہنچے تو ٹرک کو حادثہ پیش آ گیا۔ ٹرک بلکل تباہ ہو گیا۔ عزیز بھٹی کو بے حد خطرناک چوٹیں آئیں۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی فریکچر ہو گئی۔گردن کا ایک مہرہ مضروب ہوا جس کے باعث گردن کا گھومنا تو ایک طرف گردن حرکت کرنے کے قابل بھی نہ رہی۔ نیم بے ہوشی کے عالم میں وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ لاہور جانے والی پرائیویٹ بس میں سوار ہوئے اور سب سے پہلا فقرہ جو ان کی زبان سے ادا ہوا وہ یہ تھا۔
“کاغذات تو محفوظ ہیں نا؟“
“یس سر“ ساتھی نے جواب دیا اور رمی تھیلہ اپنے سینے کے ساتھ بندھا پا کران کا دل مطمئن ہو گیا۔
اس جان لیوا حادثے کے باوجود وہ اپنے فرض سے غافل نہ ہوئے۔ لاہور کے آرمی ہاسپٹل میں ڈاکٹر ان کے علاج کے دوران حیران تھے کہ اتنے خوفناک حادثے کے بعد میجر صاحب زندہ کیسے رہے۔میجر صاحب نے بے ہوشی کی دوا لینے سے پہلے خفیہ دستاویزات اعلٰی فوجی حکام کے سپرد کر کے اپنا فرض پورا کیا۔ پھر علاج کے لئے آمادگی ظاہر کی۔
ان کی ادائیگی فرض کے لئے اس قدر مضبوط قوت ارادی نے ان کو تین ماہ بعد ہی تمام ضربوں اور زخموں سے صحت یاب کر دیا اور اپنے پیروں پر چل کر ہاسپٹل سے رخصت ہوئے۔
سادگی پسند، مطالعے کے شوقین، سادہ لباس کے رسیا، صوم و صلوۃ کے پابند میجر صاحب نہ سگریٹ پیتے تھے نہ پان کھاتے تھے۔ سینما بینی کرتے اور نہ کوئی اور فضول مشغلہ پال رکھا تھا۔سردیوں میں نماز پڑھنے جاتے تو عام لوگوں کی طرح گرم چادر یا کمبل جسم پر لپیٹ لیتے۔ ان کے اخلاق اور بندہ پروری سے سب ہی متاثر تھے۔
اپنی محنت شاقہ، بے پناہ خوبیوں اور بہترین صلاحیتوں کے باعث ہی ان کو اپنی بٹالین کا افسر اعلٰی چنا گیا۔ ان کے دوست ان سے محبت کرتے تھے تو اساتذہ ان پر فخر کرتے تھے۔ ماضی اور حال کے فوجی جرنیلوں کے حالات و واقعات کا مطالعہ کرنا ان کی سب سے بڑی دلچسپی تھی جسے وہ ہر صورتِ حال میں اختیار کئے رہے۔
میجر صاحب کی شخصیت کا ایک پہلو ایمانداری تھا جس پر وہ کبھی کوئی سجھوتہ نہ کرتے تھے۔ دورانِ تربیت ایک مرتبہ ان کے کلاس انچارج نے پوری کلاس سے سبق یاد کر کے لانے کو کہا۔دوسرے دن جب پہلے ہی لڑکے سے سوال کیا گیا تو پتہ چلا ہ اسے سبق یاد ہے مگر وہ ہوم ورک کر کے نہیں لایا۔
“بھٹی“۔ کلاس انچارج نے میجر صاحب کو مخاطب کیا۔“تمام لڑکوں کے نام لکھو جو آج ہوم ورک کر کے نہیں لائے۔“
“یس سر“ میجر صاحب نے جواب میں کہا اور چند منٹ بعد ایک فہرست استاد کی خدمت میں پیش کر دی۔
“یہ کیا؟“ استاد نے فہرست میں سب سے اوپر خود میجر صاحب کا نام لکھا دیکھ کر حیرت سے کہا۔“تم نے اپنا نام سب سے اوپر کیوں لکھا؟“
“ اس لئے سر۔“ میجر صاحب کی خوبصورت آنکھیں مسکرا اٹھیں۔“کہ میں بھی ہوم ورک کر کے نہیں لایا۔“
“مگر تم اپنا نام نہ بھی لکھتے تو کیا حرج تھا؟“ استاد کی نظریں ان پر جم گئیں۔
“نو سر جب میں کام کر کے نہیں لایا تو ایمانداری کا تقاضہ ہے کہ اپنا نام بھی لکھو اور سب سے اوپر لکھوں تاکہ اپنے دل میں ایسا خیال آنے کا لمحہ پیدا ہی نہ ہو۔“انہوں نے ادب سے جواب دیا۔
“شاباش بھٹی۔“ استاد کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک لہرائی۔“میری بات یاد رکھنا۔ تم ایک دن کوئی بہت بڑا کارنامہ انجام دو گے۔ اللہ نے تمہیں ایسی عادات یونہی ودیعت نہیں کیں۔ وہ تم سے کوئی خاص کام لینا چاہتا ہے۔“
اور میجر صاحب مسکرا کر رہ گئے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کے استاد نے کتنی بڑی سچائی کی خوشبو سونگھ لی تھی۔
شرافت، دیانت، اخلاق اور شجاعت کا یہ پیکر عزیز بھٹی 6 اگست 1923 کو ہانک کانگ کے ایک خوبصورت جزیرے میں پیدا ہوا۔ ان کے والد ماسٹر محمد عبداللہ اس جزیرے پر اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہ رہے تھے۔ابتدائی تعلیم کے لئے ان کو وہیں داخل کرایا گیا۔ان کے والد وہیں ایک مقامی سکول میں معلم تھے۔ بہن بھائیوں میں میجر صاحب کا نمبر چوتھا تھا۔ ان سے بڑے دو بھائی اورایک بہن پہلے سے موجود تھے۔والدین نے ان کا نام عزیز احمد رکھا مگر میجر صاحب کے خوبصورت نقوش نے ان کو “راجہ“ کا ایسا نام دے دیا جو آج بھی ان کے نام کے ساتھ جگمگا رہا ہے شہزادوں جیسی چھب اور شخصیت کے حامل عزیز بھٹی کو جس نے بھی پکارا، راجہ یا بھٹی صاحب کہہ کر پکارا۔
ہانک کانگ کے اس جزیرے کے ایک سکول میں بھولے بھالے اور سیدھے سادھے میجر عزیز بھٹی کیبڑی بڑی، مدھ بھری آنکھیں اور گھنگھریالے بال اساتذہ سے لے کر دوست طابِ علموں تک سب کے لئے ایک ایسی کشش رکھتی تھیں جس کے جواب میں صرف اور‌صرف پیار امڈتا تھا۔ اس جزیرے پر ایک چینی نجومی نے ایک بار میجر صاحب کو دیکھا تو بے اختیار پیشن گوئی کی۔
“یہ بچہ زندگی میں بے حد نام کمائے گا۔ جب یہ دنیا سے رخصت ہو گا تو اس کی شہرت زبان زدِ عام ہو گی۔“
میجر صاحب زمانہ طالبِ علمی میں ہی سے کرک، ہاکی، ٹینس اور فٹ بال کے بہترین کھلاڑی تھے۔ ان کھیلوں سے ان کی شخصیت میں مستعدی، ڈسپلن اور بہترین قواعد زندگی کے جوہر پیدا ہوئے۔
میجر صاحب کے والد کے بعد ان کے بڑے بھائی نذیر احمد بھٹی، اعلٰی تعلیم کے بعد اسی سکول میں استاد کے عہدے پر فائز ہو گئے جہاں ان کے والد پڑھایا کرتے تھے۔ میجر صاحب نے میٹرک ایسے اچھے نمبروں سے پاس کیا کہ ان کو انگلستان کی ایک یونیورسٹی نے اعلٰی تعلیم کے لئے وظیفے کی پیش کش کی۔
اسی زمانے میں دوسری جنگِ عظیم کے شعلے بھڑک اٹھے۔1941 میں جاپان نے ہانگ کانگ پر قبضہ کر لیا اور اس ساتھ ہی میجر صاحب کے گھرانے پر مصائب و آلام نے حملہ کر دیا۔ حالات اتنے دگرگوں ہو گئے کہ میجر صاحب کو اپنے بڑے بھائی سردار محمد کے ساتھ چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے گھر چلانا پڑا مگر میجر صاحب مسلسل اپنی کوششوں میں لگے رہے اور ایک وقت آیا کہ ان کو اپنی بے مناہ قابلیت، محنت اور ذہانت کی وجہ سے بحری فوج میں ملازمت مل گئی۔
دوسری جنگِ عظیم میں دوسری قباحتوں کے ساتھ جو سب سے بڑا طوفان برپا ہوا وہ کھانے پینے کی اشیاء کی عدم دستیابی تھی۔ اشیائے خورو نوش کی کمی نے ہر طرف کرپشن کو جنم دیا۔ حال یہ تھا کہ چولہا جلانے کے لئے لکڑی تک ناپید تھی اور جو ملتی تھی وہ اس قدر مہنگے داموں کہ عام لوگوں کی دسترس سے باہر تھی۔لوگوں نے ان حالات میں مکانوں، دکانوں اور گوداموں کے دروازے، کھڑکیاں اور چھتیں توڑ توڑ کر جلانا شروع کر دیں۔جاپانی حکومت کے اہل کاروں نے اس صورتحال میں پابندی لگا دی کہ کسی کو کھڑکیوں، دروازوں کی لکڑی جلاتے ہوئے پایا گیا تو قید و جرمانے کی سزا دی جائے گی۔
انہی دنوں ایک جاپانی نے میجر صاحب سے پوچھا۔
“کیوں راجہ!لکڑی تو مل نہیں رہی۔ چولہا کیسے جل رہا ہے؟“
میجر صاحب نے روایتی سادگی اور سچائی کا دامن اس نامساعد صورت حال میں بھی نہ چھوڑا اور صاف صاف جواب دیا۔
“مکان کی کھڑکیاں اور دروازے توڑ توڑ کر چولہا گرم کرتے ہیں۔“
“یہ جانتے ہوئے بھٹی کہ یہ جرم ہے؟“ جاپانی حیرت سے بولا۔
“زندہ رہنے کے لئے اور کیا کریں؟“ میجر صاحب نے صاف گوئی سے کہا۔
“تم جانتے ہو راجہ۔ میں ایک جاپانی ہوں اور تم نے اپنے جرم کا اقرار میرے سامنے کیا ہے؟“
“جانتا ہوں۔“
“اور اس کی سزا سے بھی واقف ہو؟“
“واقف ہوں۔“
“پھر تم نے جھوٹ بول کر خود کو بچا کیوں نہیں لیا؟“ جاپانی اب بھی حیران تھا۔
“میں جھوٹ نہیں بول سکتا۔ یہ میری مجبوری ہے۔“ میجرصاحب نے نرمی سے جواب دیا۔
جاپانی نے پہلے انہیں حیرت سے، پھر احترام سے دیکھا اور مزید کوئی باز پرس کئے بغیر لوٹ گیا۔
یہ سچ کی طاقت تھی جس نے ایک سخت دل حاکم کے دل میں نرمی کا وہ گوشہ پیدا کر دیا تھا جس کو ایک سچ بولنے والے ہی کی ضرورت تھی۔
دوسری جنگِ عظیم کا اختتام اگست 1946 میں ہوا۔حالات کو دیکھتے ہوئے میجر صاحب کے والدین نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا اور بچوں کو ساتھ لے کر پاکستان چلے آئے۔ ان کی منزل ان کا آبائی گاؤں لادیاں تھا جو ضلع گجرات میں واقع ہے۔یہ گاؤں میجر صاحب کے بزرگوں کی آماجگاہ ہے۔
لادیاں میں رہائش پذیر ہوئے ابھی چند ہی ہفتے گزرے تھے کہ میجر صاحب کو ایک حادثہ پیش آیا۔
ہوا یہ کہ میجر صاحب اپنے بھائی نذیر احمد کے ساتھ سائیکل پر کہیں جا رہے تھے کہ ایک ہندو لڑکا سائیکل کے سامنے آ گیا۔رکتے رکتے بھی سائیکل اس سے جا ٹکرائی۔لڑکا شدید زخمی ہو گیا۔دونوں بھائیوں نے لڑکے کو اٹھایا اور دولت نگر ہاسپٹل میں ڈاکٹر نے لڑکے کی مرہم پٹی کی اور ایک دوائی لکھ کر دی جو اسے سٹرک پر پیش آنے والے حادثے کے مضر اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری تھی۔
“یہ دوا کہاں سے مل سکے گی ڈاکٹر صاحب؟“ میجر صاحب نے پوچھا۔
“لالہ موسٰی سے“ ڈاکٹر نے جواب دیا اور وارڈ سے نکل گیا۔
“لالہ موسٰی سے؟“نذیر احمد نے میجر صاحب کی جانب دیکھا۔“ وہ تو چودہ پندرہ میل دور ہے!“
“جانا تو پڑ گا بھائی جان۔یہ اس لڑکے کی زندگی کا مسئلہ ہے۔“میجر صاحب نے بیڈ پر پٹیوں میں جکڑے لڑکے کی جانب دیکھ کر کہا۔
چنانچہ سخت گرمی،ٹوٹی پھوٹی سٹرک اور پندرہ میل کے فاصلے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دونوں بھائی سائیکل پر لالہ موسٰی پہنچے اور دوا لے کر جب ہاسپٹل واپس پہنچے تو ڈاکٹر ان کی انسانی ہمدردی سے بے حد متاثر ہوا۔
“تم دونوں نے ایک غیر مسلم زخمی کی اس طرح مدد کر کے بہترین مثال قائم کی ہے۔“
“یہ ہمارا فرض تھا ڈاکٹر صاحب۔“میجر صاحب نے جواب دیا اور لڑکے سے مل کر ہاسپٹل سے رخصت ہو گئے۔
ایک سال بعد یعنی 1947 میں میجر صاحب کی شادی اپنے ہی گاؤں میں صوبیدار اکرام الدین بھٹی کی صاحب زادی محترمہ زرینہ بیگم سے ہو گئی۔یہ شادی ان کے لئے اچھی زندگی کی نوید لے کر آئی۔شادی کے کچھ ہی عرصہ بعد میجر صاحب اور ان کے بھائی نذیر احمد اور سردار محمد انڈین ائیرفورس میں بھرتی ہو گئے۔اسی سال اگست میں پاکستان معرض وجود میں آ گیا اور ان کے متعلقہ دستے راولپنڈی آ گئے۔ یہاں آتے ہی میجر صاحب نے پاک آرمی میں کمیشن کے لئے درخواست دے دی جو خوبی قسمت سے منظور ہو گئی اور وہ پاک آرمی میں چلے گئے۔
پاکستان بننے کے بعد ایب آباد کے قریب کاکول میں ملٹری اکیڈمی میں فوجی ٹریننگ کی کلاسز کا اجراء ہوا۔ میجر صاحب نے بے پناہ محنت اور سخت مقابلے کے امتحان میں کامیابی کے بعد اس ٹریننگ کے لئے داخلہ حاصل کر لیا۔
اس تربیتی ادارے کا ہر امتحان انتہائی محنت کا متقاضی تھا۔مقابلہ بے حد سخت اور سفارش و رعایت کا کوئی چانس نہ تھا۔میجر صاحب نے ادارے کے تمام تربیتی امتحانات بہت اچھے نمبروں سے پاس کئے۔اس ادارے کا سب سے بڑا انعام “نادرن گولڈ میڈل“ تھا جو میجر صاحب نے اپنی محنت اور مسلسل کوشش کے نتیجے میں حاصل کر کے ثابت کر دیا کہ وہ جس کام کا ارادہ کر لیتے تھے اس میں کامیاب ہو کر ہی رہتے تھے۔
اب فوج میں ان کی عملی اور تربیتی زندگی ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔انہی دنوں میجر صاحب اپنی کمپنی کے ساتھ جنگی مشقوں کے لئے اٹک کے پُل کے پاس پہنچے۔مشقیں پوری ترتیب اور شدت کے ساتھجاری تھیں۔ان کے ایک افسر تھے کرنل محمد اکبر، وہ روٹیں کے تحت میجر صاحب کی کمپنی کی جنگی مشقیں دیکھنے کے لئے اٹک چلے آئے۔ان دنوں میجر صاحب کی کمپنی کے سپرد پہاڑی علاقے میں مورچے کھودنے کا کام تھا۔کرنل صاحب جب وہاں پہنچے تو دیکا کہ میجر صاحب کی کمپنی کے افراد بڑی جانفشانی سے مورچے کھود رہے ہیں۔ادھر اُدھر جائزہ لیتے ہوئے کرنل صاحب نے محسوس کیا کہ مدھ مست آنکھوں والے میجر صاحب اپنی کمپنی کے جوانوں کے ساتھ دکھائی نہیں دے رہے۔انہوں نے اپنے طور پر علاقے کے دو تین چکر لگائے مگر میجر صاحب کا کہیں پتہ نہ تھا۔ یہ ڈسپلن اور قواعد کے خلاف تھا۔ انہوں نے غصہ ضبط کرتے ہوئے ایک جوان کو پاس بلایا اور پوچھا۔
“بھئی تمہارے راجہ صاحب کہاں ہیں؟“
“سر“ جوان نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔“وہ دیکھئے ہمارے راجہ صاحب ہمارے ساتھ مورچہ کھود رہے ہیں!“
کرنل صاحب نے حیرت سے اس طرف دیکھا جدھر فوجی جوان نے اشارہ کیا تھا۔گھونگھریالے بالوں اور مست والے میجر راجہ عزیز بھٹی کو عام جوانوں کے ساتھ غبار آلود لباس میں مورچہ کھودتے دیکھ کر وہ خاموش رہ گئے۔ پسینے میں بھیگے بدن کے ساتھ بنیان اور نیکر میں ملبوس میجر صاحب بڑی تندہی سے پہاڑوں کا سینہ چیرنے کے لئے کدال چلا رہے تھے۔
کرنل صاحب اسی لئے میجر صاحب کو نی پہچان سکے کہ وہ عام فوجیوں میں رچے بسے کام کر رہے تھے۔افسرانہ خو بو سے محروم میجر صاحب کا یہ روپ دیکھ کر کرنل صاحب بے حد خوش ہوئے۔قریب جا کر ان پر ایک اور انکشاف ہوا۔ میجر صاحب کا کھودا ہوا مورچہ، باقی جوانوں کے مقابلے میں بہتر، کشادہ اور گہرا تھا۔ کرنل صاحب نے بعد میں بتایا۔
“میں نے اس ایک صفت کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ میجر عزیز بھٹی عم انسانوں میں ایک خاص انسان ہے جس سے قدرت کو کوئی اہم کام لینا مقصود ہے۔“
برکی کا علاقہ بے پناہ فوجی اہمیت کا حامل ہے۔ 29 مئی 1965 کو میجر صاحب کو اس علاقے میں موجود پاک فوج کے دستے کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ چارج لینے سے چند دن بعد کی بات ہے کہ ان کے دوست میجر خوش دل آفریدی کی شہادت کی خبر پھیل گئی۔میجر خوش دل آفریدی جون 1965 میں رن کچھ کے علاقے میں ایک بارودی سرنگ پھٹنے سے شدید زخمی ہو کر بھارتی فوج کے ہاتھوں قید ہو گئے اور خر یہ پھیل گئی کہ وہ شہید ہو گئے ہیں۔چونکہ تردید یا تصدیق کا کوئی ذریعہ نہ تھا اس لئے اسے سچ ہی مان لیا گیا مگر محکمانہ طور پر ابھی معاملہ زیرِ تحقیق ہی تھا۔
اس معاملے کی محکمانہ کاروائی چل رہی تھی کہ میجر صاحب نے چارج لینے کے کچھ عرصہ بعد 19 جولائی 1965 سے 18 ستمبر 1965 تک دو ماہ کی چھٹی لی اور گھر چلے آئے۔
گھر پہنچے تو میجر صاحب کی بیگم نے میجر آفریدی کے بارے میں پوچھا۔ میجر صاحب نے بات کو ٹال دیا اور کوئی تسلی آمیز جواب نہ دیا۔ بیگم نے ذرا کرید کر سوال کیا تو میجر صاحب نے جواباََ پوچھا۔
“تم اتنی شدت سے کیوں جواب چاہ رہی ہو؟“
“اس لئے کہ مجھے لگتا ہے کہ آپ میجر آفریدی کی شہادت سے پریشان ہیں“ بیگم نے ان کے چہرے کو غور سے دیکھ کر کہا۔
“پگلی ہو تم“ میجر صاحب ہنس پڑے۔“دیکھو ابھی تک تو آفریدی کی شہادت کی تصدیق نہیں ہوئی۔ تفتیش چل رہی ہے۔تحقیق کے مراحل طے ہو رہے ہیں۔لیکن اگر آفریدی شہید ہو گیا ہے تو اس سے بڑھ کر اس کے لئے خوش نصیبی اور کیا ہو گی۔ اس کے لئے دین اور دنیا میں یہ سب سے بڑا اعزاز ہے اور میرے لئے فخر کی بات یہ ہے کہ شہید ہونے والا آفریدی میرا دوست ہے۔“
“میں سمجھی شاید آپ“ بیگم نے کہنا چاہا۔
“زرینہ یہ زندگی اگر اللہ کی راہ میں خرچ ہو جائے۔ موت آئے اور شہادت کے روپ میں آئے تو اللہ سے مانگنے کے لئے بندے کے پاس کیا رہ جاتا ہے۔“
بیگم ان کے جواب سے مطمئن ہو گئیں اور میجر صاحب کے بارے میں ان کے دل میں عزت و احترام کے جذبات دو چند ہو گئے۔
29 اگست 1965 کا دن تھا جب ان کو اطلاع ملی کہ ان کی چھٹی منسوخ کر دی گی ہے اور ہنگامی حالات کے تحت ان کو فوراََ ڈیوٹی پر حاضر ہونے کا حکم دیا جاتا ہے۔میجر صاحب نے اگلی صبح ہی ڈیوٹی پر لوٹ جانے کے لئے تیاری شروع کر دی۔وہ ان کی اپنے اہل و عیال کے ساتھ آخری رات تھی جب وہ رات کے ھانے پر ان کے ساتھ بیٹھے بات چیت کر رہے تھے۔
“ہنگامی حالات کے باعث تو چھٹی منسوخ ہو گئی۔کیا حالات درست ہونے پر دوبارہ چھٹی مل سکے گی؟“ بیگم نے افسردگی سے پوچھا۔
“ضور مل سکے گی۔تم اداس کیوں ہو رہی ہو۔ایک فوجی کی زندگی میں تو یہ اتار چڑھاؤ آتے ہی رہتے ہیں۔“میجر صاحب نے ہنس کر کہا۔
“ابا جان! کیا بھارت سے ہماری جنگ ہونے والی ہے؟“ اچانک ان کے چھوٹے بیٹے ذوالفقار نے سوال کیا۔
“ہاں بیٹا لگتا ہے اب جنگ ہو کر رہے گی۔ حالات اس قدر خراب کبھی نہیں رہے جس قدر ان دنوں ہیں۔“ میجر صاحب نے سنجیدگی سے جواب دیا۔
“تو ابا جان جنگ میں پیٹھ نہ دکھانا۔“بھولپن میں جوش بھرے لہجے میں بیٹے نے ہاتھ کا مکا بنا کر کہا۔
“شاباش“ میجر صاحب نے بیٹے کو چوم لیا۔ “دیکھا زرینہ۔“ انہوں نے اپنی بیگم کی طرف دکھ کر کہا۔“سنا تم نے۔ تمہارا بیٹا کیا کہہ رہا ہے؟“
پھر بیٹے سے مخاطب ہو کر بولے۔
“تم بھی میری ایک بات یاد رکھنا بیٹا!“
“حکم دیجئے ابا جان۔“ننھا ذوالفقار مستعدی سے بولا۔
“اگر میں جنگ میں لڑتا ہوا شہید ہو گیا تو آنسو مت بہانا۔“میجر صاحب نے جیسے بیٹے سے عہد لے لیا۔
5 ستمبر کی تاریخی صبح تھی جب میجر صاحب نے فجر کی نماز کے بعد حسب معمول قرآن پاک کی تلاوت کی۔ ترجمہ پڑھا۔ سب سے چھوٹے بیٹے جاوید اقبال کو گود میں اٹھا کر پیار کیا۔اسی وقت جیپ ان کو لینے آ گئ۔ ان کے خادم نادر نے سامان جیپ میں رکھا۔میجر صاحب بچوں کے بعد بیوی سے ملے۔ باقی گھر والوں سے ملاقات کی اور سب کو اللہ حافظ کہہ کر ڈیوٹی پر روانہ ہو گئے۔
6 ستمبر 1965 وہ تاریخی دن جب مکار، عیار اور بزدل بھارت نے فجر سے پہلے ہمارے پاک وطن پر چوری چھپے حملہ کیا۔
کفر کا ایک بدبودار سیلاب تھا جو اسلحے سے لیس فوجیوں کی صورت میں لاہور بارڈر پر واقع گاؤں ہڈیارہ پر قبضہ کرنے کے بعد برکی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف نے بڑ ہانکی تھی کہ “ہم چھ ستمبر کو دوپہر کا کھانا لاہور جم خانہ کلب میں کھائیں گے۔“بھارت کا خواب تھا کہ وہ پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹا دے گا مگر جس ملک کے رکھوالوں میں میجر عزیز بھٹی جیسے جیالے شامل ہوں اس کی طرف اٹھنے والی پر آنکھ بے بصر ہو جایا کرتی ہے۔
بھارتی فوج اپنے بے پناہ اور جدید اسلحے کے زعم میں لاہور کی طرف بڑھی چلی آ رہی تھی۔ پاک فوج کی طرف سے ڈیڑھ سو کے قریب سرفروشان وطن بھارتی فوج کے اس سیل بے پناہ پر بندھ باندھنے کے لئے روانہ کئے گئے۔ مختصر سے اس دستے نے واہگہ بارڈر کے قریب بی آر بی نہر عبور کی اور اپنی اپنی جگہ پہنچ کر مورچے سنبھال لئے۔
پاک فوج کے ایک آفیسر عبدالرحمٰن کا فوجی دستہ برکی سے آگے میدانِ جنگ میں مشرقی جانب مورچہ سنبھال چکا تھا۔
ایک دوسرے آفیسر محمد سلیمان نے اپنے دستے کے ساتھ برکی اور بی آر بی کے درمیان پوزیشن سنبھال لی۔
ایک تیسرے فوجی آفیسر محمد نذیر اپنے فوجی دستے سمیت میدان سے ہٹ کر اعلٰی حکام کے حکم کر انتظار کر رہے تھے۔ان کی مدد کے لئے توپ خانہ بھی موجود تھا۔ اس توپ خانے کے نگران نائیک محمد الیاس اور خان محمد بھی کیپٹن محمد انور کی قیادت میں محاذ پر پہنچ چکے تھے۔اس توپ خانے کے ساتھ توپ خانے کو ہدایات جاری کرنے والے اور دشمن فوج پر گولہ باری کرانے والے ماہرین یعنی او پی حضرات بھی تھے۔
محاذ کا ٹیکنیکل انداز میں جائزہ لینے کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ دشمن پر گولہ باری کرانے اور اپنے توپ خانے کو حملہ کے وقت ہدایات جاری کرنے کے لئے برکی کے علاقہ میں ایک اونچے مکان کے چوبارے پر او پی حضرات کو تعینات کیا جائے۔
صبح طلوع آفتاب کے فوراََ بعد بی آر بی کے پُل پر سے ایک فوجی جیپ تیز رفتاری سے گزری اور پُل سے کچھ فاصلے پر آ کر ٹھہر گئی۔
جیپ سے میجر عزیز بھٹی اترے اور مذکورہ تمام دستوں کا معائنہ کرتے ہوئے آگے بڑھے۔ہر دستے کے جوانوں کے پاس رک کر وہ ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے چند فقرے ضرور کہتے رہے۔ یہ محاذ میجر عزیز بھٹی کی کمان میں دے دیا گیا تھا۔ ان کا اپنا دستہ عقب میں تھا مگر ان کا اپنا ارادہ یہی تھا کہ وہ فرنٹ پر رہ کر جنگ لڑیں گے۔
اپنی اس اولوالعزمی کے تحت میجر عزیز بھٹی اس چوبارے پر پہنچے جہاں او پی حضرات اپنے توپ خانے کی راہنمائی کے لئے موجود تھے۔
میجر صاحب نے چوبارے پر پہنچ کر دیکھا کہ کیپٹن انور اور نائیک الیاس دوربین سے آنکھیں لگائے دشمن کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔انہوں نے اپنے جوانوں کو شباش دی اور ان سے دور بین لے کر خود دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے لگے۔
ان کی تیز نگاہوں نے دیکھا کہ ہڈیارہ کے بائیں جانب سے بھارتی فوج کا ایک دستہ محاذ کی طرف بڑھ رہا ہے۔
“نقشہ کدھر ہے؟“
دوربین ہٹا کر انہوں نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔
فوراََ محاذ جنگ کا نقشہ ان کے سامنے پھیلا دیا گیا۔ انہوں نے اس مقام کی نشاندہی کی جہاں سے دشمن فوج کا دستہ ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے او پی حضرات کو گولہ باری کا اینگل سمجھاتے ہوئے صورتحال سے آگاہ کیا۔چھ ہزار گز کے فاصلے سے پاکستان کی طرف بڑھتے ہوئے بھارتی فوجی دستے پر یک بعد دیگرے توپوں نے چند منٹ تک گولہ باری کی اور بھارتی دستے کے پرخچے اڑا کر رکھ دئیے۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں سے بار بار دشمن نے محاذ پر پہنچنے کی کوشش کی مگر پاکستانی گولہ باری نے ہر بار ان کو جہنم کا راستہ دکھایا۔ تنگ آ کر بھارتی فوج نے فضائیہ کی مدد طلب کر لی تاکہ پریشانی سے نجات پا سکیں۔
بھارتی جہاز آیا۔ اس نے چوبارے پر بم پھینکا جہاں پر موجود میجر عزیز بھٹی اور ان کے او پی اپنے توپ خانے کو ہدایات دے رہے تھے۔کتنے ہی بموں میں ایک بم بلآخر چوبارے کے ایک حصے پر گرا جس سے دوسری منزل کا خاصا حصہ اڑ گیا۔ اس حملے کے دوران میجر صاحب اور ان کے ساتھی زخمی ہونے سے بال بال بچے۔ اسی وقت پاک فضائیہ کے شاہین فضا میں نمودار ہوئے جن کے آتے ہی بھارتی جہاز نے دم دبا کر بھاگنے ہی میں عافیت جانی۔
میجر صاحب اس بات سے فکر مند ہو گئے کہ دشمن کو ان کے ٹھکانے کا علم ہو گیا ہے مگر اس کے باوجود انہوں نے وہ جگہ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ اس کی فوی نقطہ نظر سے سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ مقام خاصا اونچا تھا جہاں سے ہڈیارہ تک دشمن اور اس کی فوج اور ایمونیشن سپلائی کے بارے میں ہر نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکتی تھی۔
دن کے بارہ بجے کا وقت تھا جب میجر صاحب نے چوبارے سے قدم نیچے رکھا۔ان کا ارادہ تھا کہ اگلے مورچوں کا جائزہ لیا جائے۔دوپہر کا کھانا بھی انہوں نے اگلے مورچوں میں دوسرے فوجیوں کے ساتھ کھایا مگر خود کھانے سے پہلے عام فوجی سپاہیوں میں کھانا تقسیم کرایا بعد میں خود کھایا۔
کھانے کے دوران اور بعد میں میجر صاحب نے دشمن کی گولہ باری سے پہنچنے والے نقصان کا باریک بینی سے جائزہ لیا پھر دشمن کی گولہ باری کے دوران ہی میجر صاحب واپس چوبارے پر چلے آئے اور اس بار انہوں نے نیچے رکنے کی بجائے اوپر والی چھت کو اپنا ٹھکانہ بنایا اور وہاں رہ کر اپنے توپ خانے کو صحیح مقامات پر گولہ باری کرنے کے لئے راہنمائی فراہم کی۔ اس وقت میجر شفقت بلوچ کا دستہ اگلے مورچوں کو چھوڑ کر جنگی حکمت عملی کے تحت پیچھے ہٹ رہا تھا۔دشمن یہ سمجھا کہ پاک فوج پسپا ہو رہی ہے وہ جوش میں آگے بڑھا اور اسی وقت میجر صاحب کی پلاننگ پر عمل شروع کر دیا گیا۔ پاک توپ خانے نے دشمن کو نشانے پر رکھ لیا اور غلط فہمی کا شکار بھارتی فوج بھاری نقصان اٹھا کر پیچھے ہٹ گئی۔ اس کے ساتھ ہی ان کی طرف سے جوابی گولہ باری بند کر دی گئی۔ شاید پاک فوج نے ان کو ہاتھ روک کر کسی نے اقدام کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
میجر صاحب نے چھت پر سے دشمن کا بغور جائزہ لیا۔ دوربین سے انہوں نے دیکھا کہ مکار دشمن نے اپنی جگہ چھوڑ دی ہے اور ہڈیارہ بارڈر کے دائیں جانب سے درختوں کے ذخیرے کی اوٹ لے کر پیش قدمی کر رہا ہے۔ میجر صاحب جونہی دشمن کی اس چال سے آگاہ ہوئے انہوں نے اپنے توپچیوں کو توپوں کا رُخ بدلنے کا حکم دیا۔چند ہی منٹ بعد پاک توپ خانے کا رُخ دشمن کے نئے مستقر کی طرف ہو گیا۔ گولہ باری نے ایک بار پھر دشمن کے لئے موت کا پیغام نشر کرنا شروع کر دیا۔لمحوں میں بھارتی فوجیوں کے کشتوں کے پشتے لگ گئے اور محض چند سپاہی جان بچا کر پیچھے ہٹ سکے۔باقی سب جہنم واصل ہو گئے۔
یہ مہم سر کرنے کے بعد میجر صاحب چوبارے کی چھت سے اترے اور ایک بار پھر اگلے مورچوں میں گئے تاکہ جوانوں کا حوصلہ بڑھا سکیں۔فوجیوں نے اپنے کمانڈر کو دیکھ کر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے اور فضاء ان کے جوش بھرے نعروں سے چمک اٹھی۔
شام تک دونوں طرف سے ہلکی پھلکی فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ دن ختم ہو رہا تھا جب میجر صاحب کی دوربین سے لگی آنکھوں نے دیکھا کہ ہڈیارہ کے قریب درختوں کے ذخیرے کے قریب دشمن کو پہنچنے والی تازہ کمک نے قدم جما لئے ہیں۔ گاڑیوں کے ساتھ اور ان کے پیچھے اب وہاں ٹینک بھی کھڑے دکھائی دے رہے تھے۔انہوں نے سمجھ لیا کہ دشمن اپنی تازہ کمک کے بل بوتے پر ایک اور بھرپور حملے کے لئے پر تول رہا ہے۔ ایک پل کی دیر کئے بغیر انہوں ن اپنے توپ خانے کو حکم دیا اور گولہ باری نے ایک بار پھر دشمن پر دھماکوں کا منہ کھول دیا۔نشانے ٹھیک ٹھیک لگ رہے تھے۔گولے اپنے ہدف پر گر رہے تھے۔ پھٹ رہے تھے۔ دشمن کی گاڑیوں اور ٹینکوں کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دھوئیں کے بادل آسمان سے باتیں کرنے لگے۔مزید نقصان سے بچنے کے لئے بھارتیوں نے اپنی گاڑیاں اور ٹینک اس مقام سے ہٹالئے اور پیچھے ہٹ گئے۔
شام رات میں ڈھل چکی تھی۔ چاندنی ہر طرف پھیلی تو دن کی روشنی کی کمی کسی حد تک پوری ہو گئی۔ اب دشمن نے بھی حوصلہ دکھایا اور اس کے توپ خانے نے چوبارے کو نشانے پر رکھ لیا۔ دشمن کی گولہ باری سے بچنے کے لئے میجر صاحب نے اپنے تمام ساتھیوں کو نیچے بھیج دیا اور خود چھت پر ایک ایسے ستون کی آڑ میں کھڑے ہو گئے جہاں سے وہ دشمن پر نظر رکھ سکتے تھے۔
تھوڑی دیر کے بعد گولہ باری رک گئی۔ میجر صاحب نے اطمینان کا سانس لیا اور چھت سے نیچے چوبارے میں موجود اپنے ساتھیوں کو پکارا۔
“کیپٹن انور۔ کیپٹن اکرم۔“
“یس سر“ جانثار ساتھی لپک کر اوپر چلے آئے۔
“تم دونوں کچھ دیر آرام کر لو بھئی۔ صبح سے ایک پل چین کا نہیں گزرا۔“
میجر صاحب نے ان کو حکم دیا۔
“اور سر آپ؟“ وہ ان کی طرف دیکھ کر بولے۔“آپ بھی تو ہمارے ساتھ مسلسل جتے ہوئے ہیں۔“
“مجھے صرف ایک گھنٹے بعد چائے بھجواتے رہو۔ میرے لئے اتنا ہی افی ہے۔“ میجر صاحب نے مسکرا کر کہا۔
“ مگر سر“ کیپٹن انور نے کہنا چاہا۔
“دیکھو اگر میں آرام کرنے لگا تو میرے عملے یا میرے جوانوں کا کیا ہو گا۔ میرے جاگنے اور ان کے ساتھ شانہ بشانہ جنگ کرنے ہی سے ان کا حوصلہ بلند رہے گا۔تم میری فکر مت کرو۔ آرام کرو اور بس مجھے چائے کا کپ بھجوا دو۔“
رات ایک بجے تک میجر صاحب صرف چائے پی کر گزارہ کرتے رہے اس کے بعد باقی ساتھیوں کو بھی آرام کرنے کا حکم دیا اور خود اکیلے چھت پر کھڑے رہ کر اپنا فرض سر انجام دیتے رہے۔یہ فرض تھا مسلسل دشمن پر نگاہ رکھنے کا۔
رات تقریباََ 3 بجے کا وقت تھا جب میجر صاحب نے کیپٹن انور اور کیپٹن انور کو جگایا۔ ان کو دشمن پر نگاہ رکھنے کو کہا اور خود ذرا دیر سستانے کے لئے کھلی چھت کے سنگی فرش پر لیٹ گئے۔
“سر“ خادم نے سلیوٹ مارتے ہوئے کہا۔ “نیچے کمروں میں بستر موجود ہیں۔ اگر آپ حکم دیں تو لا کر بچھا دوں۔ سخت فرش پر آپ کو آرام نہیں ملے گا۔“
“نہیں بھئی۔“ میجر صاحب نے صاف انکار کر دیا۔“ وہ شہریوں کی امانت سے۔ اس کا بغیر پوچھے استعمال مناسب نہیں۔ ویسے بھی میں سونے کے لئے نہیں محض تھوڑی دیر کمر سیدھی کرنے کے خیال سے لیٹا ہوں۔“
تقریباََ آدھے گھنٹے بعد میجر صاحب اٹھ گئے۔ ایک بار اور چائے منگوا کر پی پھر دوربین لے کر دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے لگے۔ ان کو شبہ ہوا کہ دشمن کے کیمپ میں کچھ ہل چل ہو رہی ہے۔ انہوں نے فوراََ دو تین گولے فائر کرا دئیے۔ نقل و حرکت تھم گئی۔ اس کے بعد وقفے وقفے سے جب بھی ان کو شبہ ہوتا وہ دشمن پر چند گولے پھنکوا دیتے اور دشمن دم سادھ لیتا۔
صبح کاذب نے دم توڑا۔ آذان کی دور سے آواز ابھری۔ میجر صاحب نے وضو کیا اور اپنے اللہ کے حضور نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔صبح ہوئی تو یہ دیکھ کر ان کے چہرے پر بشاشت پھیل گئی کہ دشمن اپنی جگہ سے ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ پایا تھا۔گذشتہ شام کو وہ جہاں تھا اب بھی وہیں رکا کھڑا تھا۔مگر ایک بات فکر مند کر دینے والی تھی۔ دشمن کے مستقر پر گولہ بارود کا ایک وسیع ذخیرہ دوربین سے دکھائی دے رہا تھا۔ میجر صاحب نے دیکھا اور کچھ سوچ کر مسکرا دئیے۔
انہوں نے اپنے مقام سے ہٹ کر ایک دوسری جگہ کا انتخاب کیا۔ دوربین کو آنکھوں سے لگایا اور توپ خانے کو توپوں کا رُخ بدلنے کا حکم دیا۔ پھر نئے زاویے سے گولہ باری شروع کرائی تو دشمن کے گولہ بارود نے اپنے ہی فوجیوں کو دھماکوں پر رکھ لیا۔منٹوں میں بھارتی فوجی چیتھڑے بن کر فضا میں بکھر گئے۔ بارود کو آگ لگ گئی۔ دشمن کا ذخیرہ گھنٹوں تک آگ اور دھماکے اگلتا رہا۔اس گھر کو اپنے ہی چراغ سے آگ لگ گئی تھی۔میجر صاحب نے تو چند گولوں کی ماچس دکھائی تھی۔
ڈویژنل ہیڈکوارٹر کو اس بے مثال اور ناقابلِ یقین کامیابی کی اطلاع ملی تو ایک فوجی مشاہداتی طیارے کو پرواز پر بھیجا گیا تاکہ اس خبر کی تصدیق کر کے آئے۔دشمن نے پاک فضائیہ کے طیارے کو دیکھا تو فضائی مدد طلب کر لی مگر فوراََ ہی پاک فضائیہ کے شاہین ان کی پذیرائی کو آ موجود ہوئے اور بھارتی طیاروں نے دم دبا کر بھاگنے کی راہ لی۔
دوپہر کا کھانا تمام فوجیوں نے کھایا مگر میجر صاحب نے ایک لقمہ نہ لیا۔ وہ وقفے وقفے سے دشمن پر گولہ باری کرواتے رہے۔اگلے مورچوں میں جا کر جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔شام کے بعد رات ہوئی۔ رات کو کھانا بھی فوجیوں نے کھایا۔ میجر صاحب نے خادم کو ہدایت کی کہ میرا کھانا تھیے میں رکھ دو۔ اس نے باسی کھانا نکال کر تازہ کھانا تھیلے میں رکھا اور لوٹ گیا۔یہ 7 ستمبر کی رات تھی جو تیزی سے گزر رہی تھی۔
رات کے نو بجے دشمن کی گولہ باری میں تیزی آ گئی۔ میجر صاحب نے جوابی گولہ باری کے لئے مناسب وقفہ رکھا اور ایمونیشن کا محتاط استعمال ٹھیک ٹھیک نشانے لگوا کر جاری رکھا۔
رات گیارہ بجے کے قریب جب انہوں نے ساتھیوں کو آرام کرنے کا حکم دیا تو انہوںنے ایک بار پھر میجر صاحب کو آرام کرنے کی صلاح دی مگر میجر صاحب نے مسکرا کر اس بار بھی انکار کر دیا۔رات 12 بجے کے قریب خادم چائے لے کر آیا تو میجر صاحب نے تھیلے سے سادہ روٹی نکال کر اس کے چند لقمے چائے کے ساتھ حلق سے اتارے۔6 ستمبر کی دوپہر اپنے جوانوں کے ساتھ کھانے کے بعد یہ پہلا کھانا تھا جو چند لقموں پر مشتمل تھا۔30 سے زائد گھنٹوں پر مشتمل یہ وقفہ انہوں نے صرف چائے پی پی کر گزارا تھا۔ رات بھر وہ دشمن پر گولہ باری کرواتے رہے۔ چوبارے کی چھت اب ان کا مستقل ٹھکانہ تھی۔
8 ستمبر 1965 کی صبح ہوئی تو بھارتیوں نے نیا محاذ کھول دیا۔ انہوں نے چھینک ونڈی کی طرف سے بھرپور حملہ کیا۔میجر صاحب نے دوربین کو آنکھوں سے ایک پل کے لئے جدا نہ ہونے دیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک سکھ فوجی دستہ برکی کلاں کی طرف سے آگے بڑھ رہا ہے۔میجر صاحب نے اس کو اپنی تیز نگاہوں میں رکھ لیا اور توپ خانے کو نئے زاویوں سے گالہ باری کا حکم دیا۔دس منٹ بعد سکھ دستہ پورے کا پورا جہنم واصل ہو چکا تھا۔دشمن اپنی اس چال میں بھی ناکام ہوا اور اپنی بے پناہ طاقت اور اسلحے کے باوجود ابھی تک سترہویں میل سے ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکا تھا۔ بار بار وہ کوشش کرتا مگر ناکام ہو کر اپنے فوجیوں اور گولہ بارود کا نقصان کرا کے پیچھے ہٹ جانے پر مجبور ہو جاتا۔میجر صاحب کی مستعدی اور پاک توپ خانے کی درست نشانے بازی نے اس کے ہر منصوبے کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔دن کے بارہ بجے تھے جب بھارتی فوجی دستوں نے شاید ناکامیوں سے تنگ آ کر گولہ باری کا سلسلہ روک دیا۔
اس وقفے میں میجر صاحب نے اپنے تمام مورچوں کا جائزہ لیا۔ ہر ایک فوجی جوان سے فرداََ فرداََ ملے اور واپس اپنے چوبارے پر لوٹ آئے۔ اسی وقت وائرلیس پر ان کے ایک آفیسر کرنل قریشی نے ان سے رابطہ کیا۔
“میجر صاحب آپ تین دن سے اس محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔مجھے پتہ چلا ہے کہ آپ نے اس دوران ایک لمحے کے لئے آرام نہیں کیا۔یہ نامناسب ہے۔آپ فوراََ واپس آ جائیں۔ میں آپ کی جگہ دوسرے آفیسر کو بھیج رہا ہوں۔“
“سر“ میجر صاحب نے ادب سے کہا۔“آپ کا حکم درست مگر یہ بے حد نازک وقت ہے۔ میں اب تک اپنے محاذ پر دشمن کی چالوں، اس کے ٹھکانے اور نقل و حرکت سے مکمل واقف ہو چکا ہوں۔ وہ کب کیا اقدام کرے گا یہ اب میرے لئے جان لینا معمول کی بات ہو چکی ہے۔نئے آنے والے آفیسر کے لئے یہ سب ایک نیا کام ہو گا جو ہمارے اب تک کئے کرائے کو ضائع بھی کر سکتا ہے۔اس لئے میری درخواست ہے کہ مجھے واپس نہ بلایا جائے۔ میں آرام کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اس لئے واپس آ کر بھی اپنا وقت ہی برباد کروں گا۔“
“پھر بھی میجر صاحب۔“ کرنل قریشی نے کہنا چاہا۔
“سر“ میجر نے مستعدی سے کہا۔“ہمارا ایک ایک منٹ قیمتی ہے۔باہ کرم مجھے اپنی ڈیوٹی جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔“
“اوکے“ کرنل قریشی کے لئے میجر صاحب کی بات مان لینے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔“ایز یو لائیک مائی بوائے۔“
“تھینک یو سر۔“ میجر صاحب کے چہرے پر خوشی چھلک اٹھی۔
دوپہر کا کھانا لانے والے سے میجر صاحب نے کہا۔
“ہو سکے تو سالن اور روٹی کی بجائے میٹھی پوریوں کا بندوبست کیا جائے۔ بعض اوقات پڑے پڑے سالن خراب ہو جاتا ہے۔“
رات بھر دونوں جانب سے گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا۔وہ رات بھی میجر صاحب نے جاگ کر گزاری۔ ایک پل کے لئے آنکھ نہ جھپکی۔صبح ناشتے میں جب خادم نے ان کے سامنے پوریاں رکھیں تو بے حد خوش ہوئے۔
“کیا سب کے لئے پوریاں ہی لائے ہو؟“ میجر صاحب نے لقمہ توڑا۔
“نو سر“ خادم نے تاسف سے جواب دیا۔“ دوپہر کے کھانے پر سب کے لئے لا سکوں گا۔ فلحال صرف آپ کے لئے بن سکی تھیں۔“
“واپس لے جاؤ۔“ میجر صاحب نے لقمہ واپس رکھ دیا۔“جب سب کے لئے لاؤ گے تب میں بھی کھا لوں گا۔“
9 ستمبر کی صبح دس بجے کے قریب بھارتی فضائیہ کا ایک بمبار طیارہ فضا میں نمودار ہوا۔چند لمحوں بعد دوسرا طیارہ بھی اس کے ساتھ آ ملا۔ ان کا نشانہ وہ چوبارہ تھا جہاں میجر صاحب نے ڈیرا لگا رکھا تھا۔ان کا ایک بھی فائر نشانے پر نہ بیٹھا اور وہ اپنا بارود ضائع کر کے لوٹ گئے۔
میجر صاحب نے طیاروں کے لوٹنے پر دوربین سے دوبارہ دشمن کے ٹھکانے پر نگاہ ڈالی اور چونک پڑے۔ سترہ اٹھارہ میل دور ٹرکوں کا ایک قافلہ رینگ رہا تھا۔پھر یہ قافلہ رکا اور واپس لوٹ گیا۔کچھ ہی دیر بعد کچھ فوجی گاڑیاں دکھائی دیں جو تعداد میں 13 نکلیں۔ان کا رُخ میجر صاحب کے محاذ کی طرف ہوتے ہی میجر صاحب نے اپنے توپ خانے کو آگ اگلنے کا حکم دے دیا۔چند منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ 13 گاڑیاں آگ کا الاؤ بن گئیں۔بارود نے دھماکوں کا لبادہ پہن لیا۔دھوئیں اور شعلوں کے بادل فضا میں بند ہونے لگے۔دشمن اپنی ہی آگ میں جل کر بھسم ہو گیا۔
دوپہر کا وقت ذرا سکون کا پیغام لے کر آیا میجر صاحب نے اس عرصہ میں تین کام کئے۔سب سے پہلے اپنے والد کو خیریت کا خط لکھا۔اس ک بعد شیو بنائی پھر اپنے مورچوں میں جوانوں سے ملنے کے لئے چلے گئے۔
ہر جوان خوش دکھائی دیا کہ آج صبح ہی صبح دشمن کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا۔
اسی دن دوپہر سے کچھ دیر پہلے بھارتی فضائیہ کے دو طیارے آئے اور نیچی پرواز کر کے پاکستانی مورچوں کا جائزہ لیتے ہوئے نکل گئے۔ان کے جانے کے کچھ ہی دیر بعد بھارتی گولہ باری نے پھر ادھم مچا دیا۔چوبارے کا ایک اور حصہ اڑ گیا۔تاہم میجر صاحب اور ان کے ساتھی محفوظ رہے۔گالہ باری میں ذرا کمی آئی تو میجر صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ چوبارے کے تباہ شدہ حصے کا جائزہ لیا۔کھنڈر ہوتا ہوا چوبارہ اب بلکل مخدوش حالت میں تھا مگر میجر صاحب نے اپنا ٹھکانہ بدلنے پر ایک پل کے لئے بھی نہ سوچا کیونکہ جنگی حکمتِ عمل کے حوالے سے یہ چوبارہ ان کو بہت سوٹ کرتا تھا۔یہاں سے وہ دشمن کو مکمل طور پر نگاہ میں رکھے ہوئے تھے۔بے شک یہاں ان کی جان کو خطرہ تھا مگر انہیں جان کی نہیں اپنے فرض اور وطن کی حفاظت کی فکر تھی۔
گولہ باری بڑے پُراسرار انداز میں رک چکی تھی۔بھارتی کیمپ میں مکمل خاموشی تھی۔میجر صاحب کو یہ سناٹا بڑا خطرناک لگ رہا تھا۔شام کے بعد رات آئی۔رات سے صبح تک کبھی کبھی ٹینکوں کے آنے جانے کے سوا کوئی آواز نہ ابھری۔جب بھی ایسی کوئی حرکت محسوس ہوتی میجر صاحب توپ خانے اور فائرنگ کا منہ کھلوا دیتے۔تاہم اگلی صبح تک کوئی قابلِ ذکر واقعہ پیش نہ آیا۔ یہ بات میجر صاحب کو بے حد مضطرب کر رہی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ دشمن طاقت ور ہی نہیں مکار بھی ہے۔ نجانے اس چُپ کی آڑ میں وہ کیا گُل کھلانے جا رہا تھا۔
سحر کے بعد ناشتے میں سب جوانوں کے لئے میٹھی پوریاں آئیں تب میجر صاحب نے بھی دو میٹھی پوریاں کھائیں۔
10 ستمبر کا سورج طلوع ہوا۔
میجر صاحب نے پوری رات اضطراب میں کاٹی تھی۔اجالا ہوتے ہی انہوں نے دوربین آنکھوں سے لگا لی۔ دور جھاڑیوں میں دشمن کی گاڑیاں متحرک تھیں۔ میجر صاحب کو یہ حرکت خاصی خطرناک لگی۔انہوں نے مقام کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا اور فائرنگ کا حکم دیا۔
گولے ٹھیک نشانے پر گرے۔ آگ اور دھماکے بیک وقت ظہور میں آئے۔دشمن کی گاڑیاں فضا میں کھلونوں کی طرح جلتی ہوئی اچھلیں اور تنکوں کی طرح بکھر گئیں۔
اس تازہ کامیابی کے بعد بری فوج کے کئی اعلٰی افسران دوپہر کے قریب میجر عزیز بھٹی کے مورچوں پر آئے۔وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ گنتی کے جوانوں نے دشمن کے اب تک ایک بار نہیں کئی بار چھکے چھڑائے تھے۔ میجر عزیز بھٹی کو آرام کے نام پر محض چائے کا کپ پیتے دیکھ کر ان کے سینے مزید فخر سے پھول گئے۔ ان افسران کی وجودگی میں بھی شب و روز بیدار رہنے کے باعث اپنی مدھ بھری اور متورم آنکھوں سے میجر صاحب مسلسل دشمن کے ٹھکانے پر دور بین سے نگاہ رکھے ہوئے تھے۔
افسران اپنے ناقابلِ تسخیر میجر راجہ عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں کے حوصلے بڑھا کر یہ اطمینان لے کر لوٹ گئے کہ ان جوانوں کی موجودگی میں دشمن کبھی اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
دن کے تین بجے تھے جب میجر صاحب نے برکی خورد کی طرف سے کچھ بھارتی ٹینکوں کو اپنی جانب بڑھتے دیکھا۔انہوں نے اپنی دوربین سے دشمن کی نقل و حرکت کو جانچا اور اپنے توپ خانے کو فائرنگ کا حکم دے دیا۔ اگلے ایک منٹ بعد 6 میں سے 5 بھارتی ٹینک پاکستانی گولہ باری کے نتیجے میں فنا کے گھاٹ اتر گئے۔آخری ٹینک نے بھارتی بھگوڑوں کی تقلید کی اور اپنے ساتھیوں کی عبرت ناک تباہی کی داستان سنانے کے لئے بھاگ نکلا۔
اسی وقت میجر صاحب نے گاؤں کے ٹیوب ویل کے قریب بھارتی فوجیوں کو تیزی سے ادھر اُدھر بھاگتے دیکھا۔یہ کوئی ایسی بات نہ تھی جسے نظر انداز کیا جاتا۔صورتحال واضح نہ ہونے پر انہوں نے اللہ کے بھروسے پر توپچیوں کو اس طرف گولہ باری کا حکم دے دیا۔چند لمحوں بعد پاکستانی گولہ باری کے نتیجے میں ٹیوب ویل کے ارد گرد کا علاقہ زور دار دھماکوں کی زد میں آ گیا۔ پتہ چلا وہاں بھارتی فوج نے اسلحہ اور بارود کا ذخیرہ کر رکھا تھا جو اس گولہ باری سے تباہ ہو گیا۔ میجر صاحب نے اللہ کا شکر ادا کیا جس نے ان کو اندازے سے کرائی گئی گولہ باری کے نتیجے میں ایسی کامیابی سے نوازا تھا۔
10 ستمبر کی شام کے قریب میجر صاحب نے غسل کیا۔ جوانوں سے جا کر ملے۔ ہر فوجی جوان کا حوصلہ ان کو دیکھ کر دو چند ہو جاتا تھا۔رات ہوتے ہی بھارتی توپ خانے نے شدید گولہ باری کا آغاز کر دیا۔ کانوں کے پردے پھٹنے لگے۔ ساتھ ہی دشمن کے ٹینک، توپوں اور مشین گنوں نے بھی حرکت شروع کردی۔میجر صاحب نے اس بات کا ادراک ہوتے ہی تمام ساتھیوں کو چوبارے سے نیچے مورچوں میں بھیج دیا تاہم خود وہیں چھت پر رکے رہے اور صورتِ حال کا جائزہ لیتے رہے۔
رات چاندنی ضرور تھی مگر دشمن کی اندھا دھند گولہ باری کے نتیجے میں پیدا شدہ دھماکوں اور دھوئیں نے ہر طرف اندھیر مچا رکھا تھا۔ ذرا دور کی چیز بھی صاف دکھائی نہ دیتی تھی۔
اسی وقت کسی نے نیچے سے چیخ کر کہا۔
“سر دشمن نے حملہ کر دیا ہے۔آپ نیچے آ جائیں۔“
“فکر مت کرو۔ میں تھوڑی دیر میں نیچے آ رہا ہوں۔“ میجر صاحب نے جواب دیا۔ پھر چند لمحوں بعد وہ نیچے اترے تو ایک فیصلہ کر چکے تھے۔
انہوں نے اپنے جوانوں کو فائرنگ کرتے ہوئے واپس بی آ بی نہر کے شکستہ پُل کی طرف جانے کا حکم دیا تاکہ سب لوگ بحفاظت نہر کے کنارے پہنچ جائیں۔
حالات بڑی تیزی سے بے قابو ہو رہے تھے۔ بھارتی فوج پنجاب رجمٹ اور سکھ رجمنٹ پر مشتمل تھی۔ اس وقت ان رجمنٹوں کے ساتھ ٹینک اور بھارتی توپ خانہ بھی تھا۔ان کے کمانڈر کرنل جوشی کی قیادت میں آگے بڑھ رہی تھی جسے اس سے پہلے پاکستان کے خلاف رن کچھ کی جنگ میں بھارت کا اعلٰی فوجی اعزاز مل چکا تھا۔
رات کے 10 بجے تھے جب دشمن نے اچانک پیش قدمی روک دی۔ساتھ ہی گولہ باری اور فائرنگ بھی رک گئی۔ لیکن اس سے پہلے بھارتی فوج پورے گاؤں کو اپنے گھیرے میں لے چکی تھی۔
میجر صاحب نے اپنے تمام ساتھیوں کو چوبارے میں بلایا اور حکم دیا کہ وہ دستی ہتھیار سنبھال لیں اور دشمن کے فوجیوں سے بچ کر اپنی کمپنی تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ میجر صاحب نے اپنے نائب صوبیدار شیر دل کے ساتھ اسی جگہ رُکنے کا فیصلہ کیا۔
بھارتی فوج اب برکی تھانہ اور سکول کے ساتھ ساتھ شمالی ایریا میں بھی پھیل چکی تھی۔ یہ ایسی صورت حال تھی کہ پاکستانی اور بھارتی فوجیں براہ راست ایک دوسرے کے سامنے آ گئیں۔میجر صاحب نے نہایت اطمینان کے ساتھ صوبیدار شیر دل کو گائیڈ کیا اور اس نے بھارتی فوج پر ایسی شاندار گولہ باری کرائی کہ دشمن کی صفیں الٹ گئیں۔
بے شمار جانی نقصان اور ٹینکوں کی تباہی کے ساتھ جو سب سے بڑا سانحہ بھارتی فوج کو پیش آیا وہ یہ تھا کہ کرنل جوشی اسی گولہ باری میں جہنم رسید ہو گیا۔ یہ ایک ناقابلِ تلافی نقصان تھا جو میجر صاحب نے ہاتھوں بھارتی حملہ آوروں کو پہنچا۔
فائرنگ میں ذرا وقفہ آیا تو شیر دل نے میجر صاحب سے کہا۔
“سر ہم مکمل طور پر دشمن کے گھیرے میں آ چکے ہیں۔ فوری طور پر نکل کر ہمیں نہر کے کنارے پہنچ کر پوزیشن لینی چاہیے۔“
نائب صوبیدار شیر دل کی بات درست تھی۔ بی آر ب کا پل ان کے لئے بے حد اہمیت کا حامل تھا اور میجر صاحب کو کمان کے لئے وہاں موجود ہونا بے حد ضروری تھا۔ انہوں نے شیر دل کی بات مان لی اور چوبارے سے اتر آئے۔
مکان کے صدر دروازے سے باہر قدم رکھتے ہی ان کے کانوں میں ایک آواز پڑی۔“ہاتھ اوپر اٹھا لو۔“
یہ دیکھ کر میجر صاحب ٹھٹھکے کہ ایک سکھ کمانڈر اپنے دس بارہ سپاہیوں کے ساتھ مکان کو گھیرے کھڑا ہے اور اس کے ریوالور کا نشانہ وہ خود ہیں۔
میجر صاحب نے ایک نظر شیر دل کی طرف دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے میجر صاحب کے ریوالور اور شیر دل کی گن نے موت کا راگ الاپ دیا۔ سکھ کمانڈر اور اس کے چار فوجی سپاہی تو فوراََ ہی ملک عدم کو روانہ ہو گئے اور باقی فوجیوں نے فرار کی راہ پر پاؤں رکھ دیا۔
جنگ بندی کے بعد اس واقعے کی جزئیات کا علم ہوا تو پتہ چلا کہ کرنل جوشی نے سکھ کمانڈر اور اس کے ساتھیوں کو سختی سے یہ حکم دے رکھا تھا کہ چوبارے کے او پی پوسٹ کے انچارج کو زندہ گرفتار کرنا ہے۔مگر وہ میجر صاحب کو گرفتار کرتے ہوئے خود ان کے ہاتھوں مارے گئے۔
میجر صاحب اور شیر دل کے لئے نہر تک پہنچنا بہت مشکل تھا۔ جگہ جگہ دشمن کے سپاہی ناکے لگائے پہرہ دے رہے تھے۔
بہت سی جگہیں ایسی تھیں جہاں خود پاک فوج نے بارودی سرنگیں بچھا رکھی تھیں جن کے باعث جان کا خطرہ اور بھی بڑھ گیا تھا۔
اس کے ساتھ ہی راستے میں جابجا دلدل اور کیچڑ تھا تاہم ان تمام مشکلات کو اپنے عزم کے پاؤں تلے روندتے ہوئے میجر صاحب اور شیر دل بلآخر اپنی منزل یعنی بی آر بی نہر تک پہنچ گئے۔
یہاں پہنچ کر میجر صاحب پر ایک خوفناک انکشاف ہوا کہ بھارتی فوج بی آر بی پُل سے صرف سو گز کے فاصلے پر رہ گئی تھی۔میجر صاحب نے فوراََ اپنے دستے کو پوزیشن سنبھالنے کا حکم دیا۔ خود بھی ایک گن اٹھائی اور دشمن پر فائرنگ شروع کر دی۔اسی وقت انہوں نے ضرورت محسوس کی تو گن کندھے پر لٹکائی اور حوالدار نذیر سے وائرلیس سیٹ لے کر اپنے ساتھیوں کو ہدایات دینی شروع کیں۔تھوڑی دیر گزری کہ بھارتی دستوں کے ایک ایک سپاہی کا صفایا ہو گیا۔صبح کی روشنی میں میجر صاحب نے جب اپنے سامنے ہر طرف بھارتی فوجیوں کی لاشیں بکھری دیکھیں تو اطمینان ان کے چہرے پر نور کی طرح پھیلتا چلا گیا۔
اس مختصر سے وقفے میں انہوں نے اپنے فوجی ساتھیوں کو چند فقروں پر مشتمل ایک خطاب کیا جس کے الفاظ یہ تھے۔
“اللہ کے شیرو!
اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔ آج ہم کفر سے اسلام کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جو ہم میں سے شہید ہوا وہ کامیاب ہو گا کیونکہ مسلمان کی سب سے بڑی خواہش شہادت ہے۔ جو زندہ رہا وہ غازی ہو گا اس لئے آخری گولی تک، آخری فرد تک لڑو۔ نتیجہ اللہ پر چھوڑ دو۔ ان شا اللہ فتح ہماری ہو گی!“
اس کے تھوڑی ہی دیر بعد بھارتی فوج کو پیچھے سے کمک مل گئی اور دونوں طرف سے گولہ باری پھر شروع ہو گئی۔
بے پناہ اسلحے کے حامل دشمن کے مقابلے میں میجر صاحب کے دستے میں ایمونیشن کی مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی۔
اسے دوران “اے“ کمپنی کو بی آر بی کے دوسرے کنارے پر پہنچنے کا حکم دیا گیا مگر اسلحے اور گولہ بارود کی خطرناک حد تک کمی کے عالم میں بی آر بی کو پار کر کے دوسری جانب جانا اپنے فوجیوں کو موت کے منہ میں زندہ دھکیل دینے والی بات تھی اس لئے میجر صاحب نے عارضی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ پہلے دشمن کا سر کچلا جائے اس کے بعد نہر پار کی جائے مگر وہ تھوڑی ہی دیر بعد اپنا فیصلہ بدلنے پر مجبور ہو گئے کیونکہ دشمن کا دباؤ مسلسل بڑھتا جا رہا تھا اور خدشہ تھا کہ وہ پُل تک نہ آ پہنچے۔
یہ محسوس کرتے ہی میجر صاحب نے اپنے ڈرائیور کو حکم دیا کہ جیپ میں جتنے آدمی آ سکتے ہیں ان کو لے کر پدھری پُل کے راستے نہر کے دائیں کنارے پر جا اترو۔
اس موقع پر ایک ولولہ انگیز منظر سامنے آیا۔ میجر صاحب کے دستے نے ان کے بغیر جانے سے انکار کر دیا۔ ان کا اصرار تھا کہ پہلے میجر صاحب جیپ پر سوار ہوں تب وہ جیپ پر سوار ہوں گے۔
اسی وقت بھارتی فوج نے ایک اور زوردار حملہ کیا۔ میجر صاحب نے اپنے دستے کے ساتھ دشمن کے حملے کا جواب دیا اور اس وقت تک جوابی فائرنگ کرتے رہے جب تک بھارتی فوجیوں کا زور ٹوٹ نہ گیا۔
“جوانو ضد نہ کرو۔ تم لوگ جاؤ۔ تمہارے بعد میں بھی آ جاؤں گا۔ کسی کو تو دشمن کا راستہ روکنے کے لئے یہاں رہنا ہو گا اور میں تمہیں موت کےمنہ میں چھوڑ کر ہرگز خود نہیں جاؤں گا یہ تم جانتے ہو اس لئے پلیز۔ جیپ میں سوار ہو کر ن جانا چاہو تو کشتی میں چلے جاؤ مگر اب مزید دیر نہ کرو۔“
جوانوں نے مجبوراََ میجر صاحب کا حکم مانا اور کشتی میں سوار ہو کر چل دئیے۔اس وقفے میں میجر صاحب نے خود مشین گن سنبھالی اور دشمن پر فائرنگ شروع کر دی۔ اس وقت ان کی نظر دشمن کے ان ٹینکوں پر پڑی جو تیزی سے آگے بڑھتے چلے آ رہے تھے۔ان کی تعداد دس تھی۔ میجر صاحب نے حوالدار بر خان کو ان پر گولہ باری کا حکم دیا تاکہ ان ٹینکوں کا راستہ روکا جا سکے وہ جانتے تھے کہ گولہ باری کے سوا دوسرا کوئی ہتھیار نہیں جو ان ٹینکوں کو آگے بڑھنے سے روک سکے۔
اسی دوران کشتی دوسری کھیپ لے جانے کے لئے لوٹ آئی۔ باقی کے تمام جوان بھیکشتی میں سوار ہو گئی تو سب سے آخر میں میجر صاحب نے کشتی میں قدم رکھا۔دوسرے کنارے پر پہنچ کر میجر صاحب نے اپنے ساتھیوں کو نہر کے کنارے کنارے پوزیشن سنبھالنے کی ہدایت کی اور خود نہر کے کنارے سڑک پر کھڑے ہو کر دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے لگے۔میجر صاحب اسی جگہ کھڑے تھے کہ ان کے ایک دوست انور منیر الدین ان کی تلاش میں وہاں پہنچے۔ دونوں دوست بڑی گرمجوشی سے ملے۔
“انور۔ ایک کام کرو گے میرا؟“ میجر صاحب نے اس سے گلے ملنے کے بعد پوچھا۔
“ضرور کہو کیا کام ہے؟“ انور منیر الدین نے جلدی سے کہا۔
میجر صاحب نے اپنی انگلی سے انگوٹھی اتاری اور انور کے حوالے کرتے ہوئے کہا!
“میری شہادت کی صورت میں یہ انگوٹھی میرے گھر پہنچا دینا۔“
اور نے عجیب سی نظروں سے میجر صاحب کو دیکھا اور دوبارہ ان سے لپٹ گیا۔ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ یہ میجر صاحب سے اس کی آخری ملاقات ہے۔
جنگ کو پانچ دن گزر چکے تھے۔
ہر طرف گولہ بارود کی بُو، گولیوں کی آوازیں، حد نگاہ تک فضا میں تیرتے شعلے تھے اور بس! اور اس سب کے ساتھ زخمیوں کی چیخ و پُکار، مرنے والوں کی ہچکیاں، کسی بھی آدمی کو پاگل کر دیتی ہیں مگر شہادت کی آرزو میں کٹ مرنے والوں کے لئے یہ معمولی باتیں ہوتی ہیں۔
11 ستمبر 1965 کی صبح بھی ان سب چیزوں سے رنگین تھی۔ نہر کے کنارے دشمن کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ میجر صاحب اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر کھُلی سڑک پر کھڑے ہو کر دشمن کی فوجوں کی پوزیشن دیکھ کر گولہ باری کرا رہے تھے کیونکہ وہاں ایسی کوئی جگہ نہ تھی جہاں محفوظ یا روپوش ہو کر وہ او پی کے فرائض سر انجام دے سکتے۔ ایسی خطرناک صورت حال میں صوبیدار غلام محمد میجر صاحب کےپاس پہنچا۔
“میجر صاحب کھلی گہ پر آپ پوری طرح دشمن کی زد میں ہیں۔ سڑک سے نیچے آ جائیں ورنہ کوئی بھی گولی۔“
“تم ٹھیک کہتے ہو صوبیدار“ میجر صاحب نے دوربین آنکھوں سے ہٹائے بغیر جواب دیا۔“ میں یہاں دشمن کی گولی کے نشانے پر ہوں۔ میری زندگی شدید خطرے میں ہے مگر میں اپنے فرض سے مجبور ہوں۔ یہاں ایسی کوئی بلند جگہ نہیں جہاں سے میں دشمن پر نظر رکھ سکوں اور اس وقت میرے لئے سب سے زیادہ اہم اپنے وطن کا تحفظ ہے، اپنی جان نہیں۔ اگر اس کوشش میں میری جان بھی چلی جائے تو پرواہ نہیں تم جاؤ ایسا نہ ہو دشمن کی گولی کا شکار ہو جاؤ۔“
صوبیدار کو رخصت کر کے میجر صاحب نے پھر اپنے توپ خانے کو ہدایات جاری کرنا شروع کر دیں۔ چند لمحوں کے بعد صوبیدار غلام محمد ان کے لئے چائے لے آیا۔ چائے کا ایک کپ بھی میجر صاحب نے توپ خانے کو ہدایات دیتے ہوئے ساتھ ساتھ ختم کیا۔
چائے کا کپ صوبیدار کو تھمایا ہی تھا کہ کمانڈنگ آفیسر کرنل قریشی کا پیغام آ گیا۔
: میجر صاحب ایک ایمرجنسی میٹنگ میں شرکت کے لئے فوراََ ہیڈکورٹر پہنچ جائیں۔“
میجر صاحب نے نائب صوبیدار شیر دل کو اپنی جگہ سونپی اور ہیڈکوارٹر روانہ ہو گئے۔کچھ دیر بعد برکی کے محاذ پر معمولی نفری کے ساتھ مسلسل 140 گھنٹوں سے اپنے سے 10 گنا طاقتور اور 10 گنا زیادہ سامان جنگ سے لیس دشمن کے مقابلے پر ڈٹے رہنے والے میجر عزیز بھٹی نے ہیڈکوارٹر کے باہر اپنی جیپ روکی اور مستعدی سے اتر کر اندر داخل ہوئے۔میٹنگ روم تک جاتے جاتے ان سے جو بھی دوست ملا، جو بھی آفیسر ملا، اس نے میجر صاحب کو گلے لگا کر ان کی ہمت اور پامردی پر مبارکباد دی۔
اندر پہنچ کر جب میجر صاحب نے میٹنگ کے بارے میں دریافت کیا تو پتہ چلا وہاں ایسی کوئی میٹنگ نہیں ہو رہی جس میں ان کو شرکت کرنا تھی۔کرنل قریشی نے مسلسل چھ دن اور چھ رات جاگتے ہوئے مصروف جنگ راجی عزیز بھٹی کو تھوڑی دیر آرام کرانے کی خاطر محاذ سے ہٹانے کا بہانہ سوچا تھا۔ میجر صاحب نے اس احساس محبت پر اپنے دوستوں اور آفیسرز کا شکریہ ادا کیا اور کہا۔
“ میں آپ کی محبت کا ممنون ہوں مگر اس صورتِ حال میں اگر مجھے محاذ سے واپس بلایا گیا تو میری روح اور جسم ایک ناقابلِ برداشت احساسِ زیاں کا شکار ہو جائیں گے اس لئے براہ کرم مجھے واپس جانےدیں۔“
ایک دوست آفیسر کے ایک سوال کے جواب میں میجر صاحب نے کہا۔
“گذشتہ سارا وقت جو میں نے محاذ پر جاگتے ہوئے گزارا ہے وہ میری زندگی کا خوشگوار ترین وقت تھا۔ ویسے بھی ہمارے پاس اتنی فوج نہیں کہ ہم محاذ سے کچھ لوگوں کو آرام کی خاطر واپس بلا لیں اور دوسروں کو ان کی جگہ بھیج دیں اور یہ بھی کیسے ممکن ہے کہ میں یہاں آرام کروں اور میرے ساتھی وہاں موت کے ساتھ جنگ لڑتے رہیں۔“
کرنل قریشی اور دوسرے افسران میجر صاحب کے جذباتی مگر ٹھوس اور مبنی بر حقیقت دلائل سے بے حد متاثر ہوئے تاہم انہوں نے اصرار کر کے ان کو تھوڑی دیر کے لئےروک لیا۔بمشکل ایک گھنٹے بعد میجر صاحب وہاں سے روانہ ہو گئے۔روانگی سے قبل انہوں نے اپنے دونوں بھائیوں اور بڑے بیٹے کے نام مختصر خط لکھے۔کراچی میں رہنے والے اپنے بہنوئی کا فون نمبر لکھوایا کہ کسی بھی ایمرجنسی کی حالت میں ان کو اطلاع دی جائے اور ایمرجنسی سے مراد ان کی شہادت تھی۔
باہر آنے سے پلے انہوں نے کوارٹر ماسٹر دلشاد کو چھ سو روپے دئیے کہ ان کے گھر کے پتے پر منی آرڈر کر دیے جائیں۔اسی وقت ان کے دوست انور منیر الدین نے ان کی انگوٹھی واپس کرتے ہوئے کہا۔
“میجر اپنی انگوٹھی پہن لو۔ ہم ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔“
میجر صاحب انور کی بات سمجھ گئے اور خاموشی سے انگوٹھی اپنی انگلی میں پہن لی۔
محاذ پر واپس آتے ہی میجر صاحب نے نائب صوبیدار شیر دل سے دوربین لے کر آنکھوں سے لگائی اور اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے لگے۔ بمباری نے ایک بار پھر شدت پکڑ لی۔ ان کا بتایا ہوا ہر اینگل پاک فوج کے توپ خانے کو فتح کی نوید سنا رہا تھا۔
دشمن کا جو بھی دستہ سڑک پر آنے کی کوشش کرتا میجر صاحب اس کے لئے موت کا پیغام بن جاتے۔ ان کو اندیشہ تھا کہ بھارتی فوجی آج نہر پر عارضی پُل بنانے کی کوشش کریں گے اور وہ اس کوشش کو کامیاب ہونے دیتے، یہ ممکن نہیں تھا۔
اسی رات دوسرے پہر میجر صاحب سڑک نما پٹڑی سے گزر رہے تھے تو گشت کے دوران انہوں نے ایمبولینس کے انجن کی آواز سنی۔ وہ فوراََ آگے بڑھے اور سڑک کنارے کچے پر کھڑی ایمبولینس کے پاس جا پہنچے۔
“اس وقت ایمبولینس کیوں سٹارٹ کر رکھی ہے جوان؟“ انہوں نے ڈرائیور سے پوچھا۔
“جناب“ ڈرائیور نے سلیوٹ کرتے ہوئے جواب دیا۔“گاڑی کا سیلف خراب ہے جلدی سٹارٹ نہیں ہوتی۔ایمرجنسی میں تنگ کرے گی اور اسے دھکا لگانا پڑے گا اسی وجہ سے سٹارٹ کر رکھا ہے۔“
“گاڑی بند کر دو۔ فضول پٹرول ضائع مت کرو ان شاء اللہ وقت پڑنے پر یہ تنگ نہیں کرے گی۔“
ڈرائیور نے میجر صاحب کے حکم پر انجن بند کر دیا اور پوچھا:
“سر“اگر اجازت ہو تو صبح گاڑی کو ورکشاپ لے جاؤں؟“
“ضرور لے جانا البتہ صبح دس بجے کے بعد، ہو سکتا ہے دس بجے تک اس کی یہاں ضرورت پڑ جائے۔“ میجر صاحب نے جواب دیا۔ پھر نجانے کس خیال سے بولے:
“ذرا اسٹریچر تو نکالو۔“
ڈرائیور نے گاڑی کا اسٹریچر نکالا اور باہر رکھ دیا۔ میجر صاحب نے اس پر لیٹ کر دیکھا اور بولے:
“جوان ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو بہت آرام دہ ہے۔“
حوالدار اللہ دتہ نے ان کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ خاموش کھڑا رہا۔
میجر صاحب اسٹریچر سے اٹھے اور گشت پر نکل گئے۔
ساری رات دشمن اپنے بے پناہ جنگی سازو سامان کے بل پر نہر پار کرنے کی کوشش کرتا رہا مگر شب بیدار میجر صاحب اس پر اس انداز سے فائرنگ کراتے کہ وہ ایک انچ آگے نہ آ سکا۔
دشمن کی راہ میں اس محاذ پر سب سے بڑی رکاوٹ میجر راجہ عزیز بھٹی تھے۔ ان کی نشانہ لگوانے کی خدا داد صلاحیت نے اسے ناکوں چنے چبوا دئیے تھے۔ان کے ساتھی بھی ان کے ہر حکم پر جان کی پرواہ کئے بغیر ایک پل کے وقفے میں اس طرح عمل کرتے تھے کہ ان کو خود پر حیرت ہوتی تھی۔اس محاذ پر گزشتہ چھ دن اور چھ راتوں سے دشمن کا اس قدر جانی اور مالی نقصان ہو چکا تھا کہ جس کا تصور بھی محال تھا۔بار بار کی ناکامی اور مسلسل نقصان نے دشمن کو اعصابی دباؤ کا شکار کر دیا تھا اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ذۃنی طور پر بھارتی فوج اس محاذ پر ایک سو پچاس (150) مسلمان فوجیوں کی مختصر نفری سے شکست کے جان لیوا احساس کمتری میں مبتلا ہو چکی تھی۔ ان کی ہزاروں کی نفری صفر ہو کر رہ گئی تھی۔اب تک اس محاذ پر اس کے سینکڑوں فوجی جہنم رسید ہو چکے تھے جبکہ جواب میں پاکستانی فوج کے صرف گیارہ (11) جوان شہید ہوئے تھے۔
12 ستمبر 1965 کا دن طلوع ہو چکا تھا۔
میجر صاحب نے وضو کیا۔ فجر کی نماز ادا کی۔ شیو بنائی، بالوں میں کنگھی کی۔ تیار ہو گئے تو خادم چائے لے آیا۔چائے سے فارغ ہوئے تو وردی لانے کا حکم دیا۔ پتہ چلا کہ ان کی وردی تیار نہیں ہے۔ خادم کسی اور کی تیار وردی لے آیا تو میجر صاحب نے انکار کر دیا اور ایک تاریخی فقرہ کہا:
“جوان وردی اور کفن اپنا ہی اچھا لگتا ہے۔“
یہ کہہ کر میجر صاحب نے قدم پٹڑی کی جانب بڑھا دئیے جہاں کھڑے رہ کر انہیں آج بھی اپنے دستے کے لئے او پی کے فرائض سر انجام دینا تھے۔
بھارتی فوج کی فائرنگ صبح کاذب سے شدت کے ساتھ جاری تھی۔ یوں لگتا تھا کہ اس کے پاس اتنا وافر اسلحہ ہے کہ وہ بے دریغ چلائے جا رہی ہے۔ گولے میجر صاحب کے دائیں بائیں گر رہے تھے۔ دو تین گولے ان سے آگے چند گز کے فاصلے پر بھی گر کر پھٹے۔
“سر۔۔۔۔ فائر آ رہا ہے۔ نیچے آ جائیں۔“حوالدار میجر فیض علی نے پکار کر کہا
“حوالدار۔“ میجر صاحب نے ہنس کر کا۔“ کتنی بار کہہ چکا ہوں کہ پٹڑی سے نیچے دشمن پر نگاہ رکھنا ممکن نہیں اور ویسے بھی جو مزہ اس گولہ باری کی بارش میں کھڑے رہ کر فرض ادا کرنے میں ہے وہ محفوظ مقام پر کہا!“
اسی وقت میجر صاحب نے دیکھا کہ برکی کی طرف سے چند بھارتی ٹینک تیزی سے نہر کی جانب بڑھے چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے فوراََ توپ خانے کو اس طرف گولہ باری کا حکم دیا۔ فائر ٹھیک نشانے پر لگا۔ بھارتی ٹینک بچوں کے کھلونوں کی طرح فضا میں اچھلے اور آگ کے شعلوں میں گھرے زمین پر گر پڑے۔
“شاباش“ خوش ہو کر میجر صاحب نے توپچی کو داد دی۔ اسی وقت ایک گولہ ان کے سامنے موجود درختوں پر آ کر گرا۔ آگ، گردوغبار اور دھماکوں کا ایک طوفان اٹھا مگر میجر صاحب کو خراش تک نہ آئی۔
ساڑھے نو صبح کا وقت تھا جب دشمن کے ایک توپچی نے گولہ فائر کیا۔
گولہ فضا میں بلند ہوا۔
آگ کا دہکتا ہوا وہ گولہ سیدھا میجر راجہ عزیز بھٹی کے سینے سے آ ٹکرایا اور پھیپھڑے پھاڑتا ہوا نکل گیا۔
میجر صاحب اچھلے اور لڑکھڑا کر گر پڑے۔
اللہ کا سپاہی اپنے فرض کی ادائیگی میں جام شہادت نوش کر چکا تھا۔
چند لمحوں تک جب میجر صاحب کی آواز نہ ابھری تو ان کے ساتھی گھبرا گئے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ مسلسل ہدایات دینے والے میجر صاحب دشمن کی گولہ باری کے جواب میں خاموش ہو جائیں۔
وہ لوگ تیزی س پٹڑی پر پہنچے اور یہ دیکھ کر ان کے سانس رک گئے کہ میجر صاحب اپنے فرض پر قربان ہو چکے تھے۔
وہ زمین پر گرے ہوئے تھے مگر حیرت کی بات تھی کہ میجر صاحب کا چہرہ گرد و غبار سے بلکل مبرا تھا۔ بال بدستور کنگھی شدہ تھے۔ مانگ اسی طرح قائم تھی جیسے صبح انہوں نے نکالی تھی۔
پہلی نظر میں یوں لگتا تھا جیسے مسلسل ایک ہفتے سے جاگنے والے میجر صاحب نے تھک کر آنکھیں موند لی ہیں۔
ہر آنکھ اشکبار ہو گئی، حوالدار اللہ دتہ نے بے ساختہ گھڑی پر وقت دیکھا۔ دس بجنے کو تھے۔ اسے میجر صاحب کے الفاظ یاد آ گئے جو گذشتہ رات ایمبولینس کو ورکشاپ لیجانے کے ذکر پر انہوں نے کہے تھے:
“دس بجے کے بعد ایمولینس ورکشاپ لے جانا۔شاید دس بجے تک اس کی یہاں ضرورت پڑ جائے۔“
وہ بچوں کی رح بلک کر رو پڑا۔ اس کے صاحب کو اپنی شہادت کے وقت کا بھی علم تھا۔
ان کی شہادت کی خبر سن کر پاک فوج کے جوانوں نے بپھرے ہوئے شیر کی طرح دشمن پر آگ کی بارش کر دی اور دشمن جو 6 ستمبر کی دوپہر جم خانہ کلب میں کھانہ کھانے کا خواب دیکھ رہا تھا دم دبا کر ایسا بھاگا کہ دوبارہ اس محاذ کی طرف مڑ کر دیکھنا نصیب نہ ہوا۔
23 مارچ 1966 یوم جمہوریہ پاکستان کا دن تھا جب صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان نے“ قومی ہیروز“ کو اعزازات دینے کی اس تقریب میں شرکت کی۔جلسہ گاہ کے ساتھ ہی اسلحہ کی باقاعدہ نمائش کا اہتمام کیا گیا جہاں، ٹینک، توپیں، لڑاکا بمبار، بکتر بند گاڑیاں رکھی گئی تھیں۔ اس نمائش میں عوامی جمہوریہ چین کا اسلحہ بھی موجود تھا۔
تقریب شروع ہوئی۔ دیگر اعزاز یافتگان کے ساتھ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کی شاندار شہادت کے اعتراف میں حکومت پاکستان کی طرف سے نشانِ حیدر دینے کا اعلان کیا گیا۔ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید کی بیوہ زرینہ اختر بھٹی کا نام پکارا گیا تو سفید ساڑھی میں ملبوس یہ عظیم خاتون اپنے شہید شوہر کا نشانِ حیدر وصول کرنے کے لئے سٹیج پر تشریف لائیں۔ ان کی آمد پر کوئی آنکھ اسی نہ تھی جو نم نہ ہو۔ پنڈال تالیوں سے گونج رہا تھا۔ زندہ قومیںاسی طرح اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں۔ ان کی قربانیوں کی یادوں کو تازہ کرتی ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتی ہیں۔
04/09/2010. Powered by Blogger.