اس پر علماء فریقین کا اتفاق ہے کہ آپ کی کنیت“ ابوالقاسم“ اور “ابو عبداللہ“ تھی اور اس پر بھی علماء متفق ہیں کہ “ابوالقاسم“ کنیت خود سرور کائنات کی تجویز کردہ ہے۔ مندرجہ ذیل کتب ملاحظہ ہوں
جامع صغیر صفحہ 104۔
ابنِ جوزی کی کتاب تذکرہ خواص الامت مطبوعہ مصرصفحہ 204۔
روضۃ الشہداء صفحہ 439۔
علامہ ابن حجر مکی کی کتاب صواعق محرقہ مطبوعہ مصر صفحہ 134۔
علامہ عبدالرحمن جامی حنفی کی کتاب شواہد النبوت مطبوعہ نولکشور صفحہ 312 اور مطبوعہ مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لاہور تاریخ اشاعت فروری 1995 کے صفحہ 366 سے صفحہ 374 تک۔
کشف الغمہ صفحہ 130۔
جلاء العیون صفحہ 298۔
درج ذیل تمام کتب اہلِ سنت والجماعت کے جید علماء کرام کی کتب ہیں۔
یہ مسلمات سے ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے کہ مہدی کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہو گی۔ لیکن اس روایت میں بعض اہلِ اسلام نے یہ اضافہ کیا ہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مہدی کے باپ کا نام میرے والد محترم کا نام ہو گا۔ لیکن ترمذی شریف میں “اسم ابیہ اسم ابی“ نہیں ہے ۔ تاہم بقول صاحب المناقب علامہ کنجی شافعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ لفظ“ابیہ“ سے مراد ابوعبدالحسین ہیں۔یعنی اس سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ امام مہدی حضرت امام حسین کی اولاد سے ہیں۔ بعض علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جس مہدی کا ذکر احادیث میں آیا ہے اس کا نام “محمد“ اور والد کا نام “عبداللہ“ ہے۔ جبکہ شیعہ حضرات جس مہدی کا ذکر کرتے ہیں اس کا نام تو “محمد“ لیکن والد کا نام “حسن عسکری“ ہے لہذا شیعوں والا امام مہدی اصلی نہیں ہے۔ جبکہ ترمذی شریف کی حدیث میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ“اسم ابیہ اسم ابی“ یعنی اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام پر ہو گا۔
0 comments:
Post a Comment