علامات کی جمع آوری اتنا مشکل مسئلہ نہیں، بلکہ وہ چیز جو واقعۃٓ مشکل ہے
وہ علامات کی تحقیق ہے اس لئے ایک محقق کے لئے ضروری ہے کہ وہ علامتوں کے
سلسلے میں مندرجہ ذیل باتوں کو پیشِ نظر رکھے۔
(1) خطِ کوفی اپنی مختلف شکلیں تبدیل کرتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ وہ اپنی ابتدائی صورت میں واضح اعراب اور نقطوں سے مبرا تھا اور حروف میں بھی امتیازی صفات بہت کم پائی جاتی تھیں۔ اس لئے بعض استفساخ کی دشواریوں اور فروگزاشتوں کا پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ تحریق اور تخریق میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے۔ اس لئے مصنفین نے اس لفظ کو اپنی دونوں صورتوں میں محفوظ کیا ہے۔ نتیجہ کے طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کوفہ کی گلیوں میں جھنڈے پھاڑے جائیں گے یا جلائے جائیں گے۔ عوف سلمی کے بارے میں روایت ہے۔ “ما واہ تکریت“۔ اور دوسری میں ہے۔“ماواہ بکویت“۔ تکریت اور کویت دونوں ہی عرب کے علاقوں کے مشہور شہر ہیں، جس کی بناء پر یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سا شہر مراد ہے۔ اگرچہ ایسی غلطیوں سے نفسِ مضمون پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور حقیقت بہر حال محفوظ رہتی ہے لیکن ایک محکم تر نتیجے تک پہنچنے کے لئے یہ لازمی ہے۔
(2) روایات میں اکثر مقامات پر شہروں، جگہوں اور قوموں کے وہ نام آئے ہیں جو اس زمانے میں مستعمل تھے اور آج متروک ہیں۔ اس لئ بات کو عام فہم بنانے کے لئے قدیم جغرافیہ کی رو سے جگہوں اور شہروں کا محل وقوع اور صدر اسلام کی قوموں کے ناموں کی تطبیق ضروری ہے۔
(3) روایات کا پسِ منظر معلوم کرنا ضروری ہے کہ معصوم نے روایت کہاں بیان فرمائی تاکہ جگہ سے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کا تعین کیا جا سکے۔ اور جن لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے انہیں بھی آسانی سے شناخت کیا جا سکے۔
(4) معصومین نے آخری زمانے کے سلسلے میں اس دور کی سیاست، سماج، معاشرت، اقتصاد غرضکہ سب ہی چیزوں پر تبصرہ فرمایا ہے، ان کی مختلف عنوانات کے تحت جمع آوری ذہنِ قاری کے لئے معاون ثابت ہو گی۔ اس کے علاوہ علامات کی چار بڑی قسمیں ہیں، جن کی وضاحت علامات کے ساتھ ہی کر دینا ضروری ہے۔ حتمیہ اور غیر حتمیہ، عام و خاص، حتمی علامات وہ ہیں جنہیں بہر طور پورا ہونا ہے اور غیر حتمی علامات اسباب و علل پر موقوف ہیں۔ عام وہ ہیں جو ہر جگہ پائی جائیں گی اور خاص وہ ہیں جو کسی خاص علاقے کے ساتھ مختص ہوں گی ان اقسام کو مدِ نظر رکھنے سے یہ فائدہ ہو گا کہ جن روایات میں بظاہر تعارض و تناقص نظر آتا ہے ان کا تشفی بخش حل مل جائے گا۔
(5) علامات کی اکثر و بیشتر روایات میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جن الفاظ میں وہ بیان کی گئی ہیں انہیں الفاظ میں پوری ہوں گی یا پوری ہو چکی ہیں۔ اس لئے زبردستی کسی کو مہدی ثابت کرنے کے لئے علامات میں دورازکار تاویلات کی گنجائشیں نہ پیدا کی جائیں ورنہ دوسری صورت میں یہ عظیم علمی خیانت متصور ہو گی۔
روایات کا معاشرے میں کردار
(1) خطِ کوفی اپنی مختلف شکلیں تبدیل کرتا ہوا ہم تک پہنچا ہے۔ وہ اپنی ابتدائی صورت میں واضح اعراب اور نقطوں سے مبرا تھا اور حروف میں بھی امتیازی صفات بہت کم پائی جاتی تھیں۔ اس لئے بعض استفساخ کی دشواریوں اور فروگزاشتوں کا پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ تحریق اور تخریق میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے۔ اس لئے مصنفین نے اس لفظ کو اپنی دونوں صورتوں میں محفوظ کیا ہے۔ نتیجہ کے طور پر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ کوفہ کی گلیوں میں جھنڈے پھاڑے جائیں گے یا جلائے جائیں گے۔ عوف سلمی کے بارے میں روایت ہے۔ “ما واہ تکریت“۔ اور دوسری میں ہے۔“ماواہ بکویت“۔ تکریت اور کویت دونوں ہی عرب کے علاقوں کے مشہور شہر ہیں، جس کی بناء پر یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ کون سا شہر مراد ہے۔ اگرچہ ایسی غلطیوں سے نفسِ مضمون پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور حقیقت بہر حال محفوظ رہتی ہے لیکن ایک محکم تر نتیجے تک پہنچنے کے لئے یہ لازمی ہے۔
(2) روایات میں اکثر مقامات پر شہروں، جگہوں اور قوموں کے وہ نام آئے ہیں جو اس زمانے میں مستعمل تھے اور آج متروک ہیں۔ اس لئ بات کو عام فہم بنانے کے لئے قدیم جغرافیہ کی رو سے جگہوں اور شہروں کا محل وقوع اور صدر اسلام کی قوموں کے ناموں کی تطبیق ضروری ہے۔
(3) روایات کا پسِ منظر معلوم کرنا ضروری ہے کہ معصوم نے روایت کہاں بیان فرمائی تاکہ جگہ سے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کا تعین کیا جا سکے۔ اور جن لوگوں سے خطاب کیا گیا ہے انہیں بھی آسانی سے شناخت کیا جا سکے۔
(4) معصومین نے آخری زمانے کے سلسلے میں اس دور کی سیاست، سماج، معاشرت، اقتصاد غرضکہ سب ہی چیزوں پر تبصرہ فرمایا ہے، ان کی مختلف عنوانات کے تحت جمع آوری ذہنِ قاری کے لئے معاون ثابت ہو گی۔ اس کے علاوہ علامات کی چار بڑی قسمیں ہیں، جن کی وضاحت علامات کے ساتھ ہی کر دینا ضروری ہے۔ حتمیہ اور غیر حتمیہ، عام و خاص، حتمی علامات وہ ہیں جنہیں بہر طور پورا ہونا ہے اور غیر حتمی علامات اسباب و علل پر موقوف ہیں۔ عام وہ ہیں جو ہر جگہ پائی جائیں گی اور خاص وہ ہیں جو کسی خاص علاقے کے ساتھ مختص ہوں گی ان اقسام کو مدِ نظر رکھنے سے یہ فائدہ ہو گا کہ جن روایات میں بظاہر تعارض و تناقص نظر آتا ہے ان کا تشفی بخش حل مل جائے گا۔
(5) علامات کی اکثر و بیشتر روایات میں تاویل کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ جن الفاظ میں وہ بیان کی گئی ہیں انہیں الفاظ میں پوری ہوں گی یا پوری ہو چکی ہیں۔ اس لئے زبردستی کسی کو مہدی ثابت کرنے کے لئے علامات میں دورازکار تاویلات کی گنجائشیں نہ پیدا کی جائیں ورنہ دوسری صورت میں یہ عظیم علمی خیانت متصور ہو گی۔
روایات کا معاشرے میں کردار
آخر میں اب ہم یہ بھی دیکھتے چلیں کہ ہمارے معاشرے میں ان روایات کا کردار
کیا ہے؟ اور یہ انفرادی یا اجتماعی طور پر کون سا مثبت اثر مرتب کر رہی
ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ:
(1) ان کے پڑھنے سے اعصاب کو سکون اور دل کو تقویت نصیب ہوتی ہے۔
(2) انسان اپنے آپ کو ظہور مہدی کے لئے آمادہ کر سکتا ہے اور ان عیبوں سے بچ سکتا ہے جو ان روایتوں میں گنوائے گئے ہیں۔
(3) یہ روایات ایمان میں اضافہ کا سبب ہیں اور اسلام، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلیبیت علیہ اسلام کی حقانیت کی دلیل ہیں۔
(4) یہ اخبار بالغیب کی مہتم الشان نشانی ہیں۔
(5) ان روایات کو غیر مسلموں کے سامنے بڑے فخر سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ کہ اگر ان کا سرچشمہ وحی و الہام نہیں ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان صدیوں بعد کی باتیں اتنی جامع اور مکمل تفصیل کے ساتھ بتلائے۔
(1) ان کے پڑھنے سے اعصاب کو سکون اور دل کو تقویت نصیب ہوتی ہے۔
(2) انسان اپنے آپ کو ظہور مہدی کے لئے آمادہ کر سکتا ہے اور ان عیبوں سے بچ سکتا ہے جو ان روایتوں میں گنوائے گئے ہیں۔
(3) یہ روایات ایمان میں اضافہ کا سبب ہیں اور اسلام، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلیبیت علیہ اسلام کی حقانیت کی دلیل ہیں۔
(4) یہ اخبار بالغیب کی مہتم الشان نشانی ہیں۔
(5) ان روایات کو غیر مسلموں کے سامنے بڑے فخر سے پیش کیا جا سکتا ہے۔ کہ اگر ان کا سرچشمہ وحی و الہام نہیں ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان صدیوں بعد کی باتیں اتنی جامع اور مکمل تفصیل کے ساتھ بتلائے۔
0 comments:
Post a Comment