• Feed RSS
0
سخی کے بھی تین حرف ہیں۔س سے سمائی اور خ سے خوف الٰہی اور ی سے یاد رکھنا اپنی پیدائش اور مرنے کوپہلے ان پر عمل کرو۔ تب سخی کہلاﺅ۔“
ایک روز کا ذکر ہے کہ ایک فقیر سامنے کے دروازے سے آیا اور سوال کیا۔ میںنے اسے ایک اشرفی دی۔ پھر وہی دوسرے دروازے سے ہو کر آیا۔ دو اشرفیاں مانگیں۔ میں نے پہچان کر درگزر کیا اور دو اشرفیاں دیدیں اسی طرح اس نے ہر دروازے سے آنا اور ایک ایک اشرفی بڑھانا شروع کردی اور میں بھی جان بوجھ کر انجان ہوا اور اس کے سوال کے موافق دیتا گیا۔ آخر چالیسویں دروازے کی راہ سے آکر چالیس اشرفیاں مانگیں۔ وہ بھی میں نے دلوا دیں۔ اتنا کچھ لے کر، وہ درویش پھر پہلے دروازے سے گھس آیا اور سوال کیا۔ مجھے بہت برا معلوم ہوا ،میں نے کہا ”سن اے لالچی! تو کیسا فقیر ہے کہ ہرگز فقر کے تین حرفوں سے بھی واقف نہیں؟ فقیر کا عمل ان پر چاہیے۔ فقیر بولا ”بھلا داتا تمہی بتاﺅ۔“ میں نے کہا ”ف سے فاقہ، ق سے قناعت، ر سے ریاضت نکلتی ہے۔ جس میں یہ باتیں نہ ہوں وہ فقیر نہیں۔ اتنا تجھے جو ملا ہے، اس کو کھا پی کر پھر آئیو خیرات، احتیاج رفع کرنے کے واسطے ہے، نہ جمع کرنے کے لیے۔ اس حریص چالیس دروازو ں سے تو نے ایک، اشرفی سے چالیس اشرفیوں تک لیں، اتنا مال جمع کرکے، کیا کرے گا؟ فقیر کو چاہیے کہ ایک روز کی فکر کرے۔ دوسرے دن پھر نئی روزی، رزاق دینے والا موجود ہے۔ اب حیا و شرم پکڑ اور صبروقناعت کا کام فرما یہ کیسی فقیری ہے جو تجھے مرشد نے بتائی ہے۔“
یہ میری بات سن کر فقیر خفا اور بد دماغ ہوا اور جتنا تجھ سے لے کر جمع کیا تھا، سب زمین پر ڈال دیا اوربولا۔ ”بس بابا! اتنے گرم مت ہو اپنی کائنات لے کر رکھ چھوڑو۔ پھر سخاوت کا نام نہ لیجو۔ سخی ہونا بہت مشکل ہے۔ تم سخاوت کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے سخی کے بھی تین حرف ہیں۔ پہلے ان پر عمل کرو۔ تب سخی کہلاﺅ۔“ تب تو میں ڈر اور کہا۔ ”بھلا داتا اس کے معنی مجھے سمجھاﺅ۔
”کہنے لگا“ س سے سمائی اور خ سے خوف الٰہی اور ی سے یاد رکھنا اپنی پیدائش اور مرنے کو۔ جب تلک اتنا نہ ہو لے تو سخاوت کا نام نہ لے اور سخی کا یہ درجہ ہے اگر بدکار ہوتو بھی اللہ کادوست ہے۔“ میں نے بہت منت کی اور کہ میری کمی معاف کرو اور جو چاہو سو لو۔ لیکن اس نے میرا دیا ہرگز نہ لیا اور یہ با ت کہتا ہوا چلا۔ ”اب اگر اپنی ساری بادشاہت مجھے دے دو اس پر نہ تھوکوں اورنہ دھر ماروں۔“ اور چلاگیا۔ (میر امن کی ”باغ و بہار“ سے اقتباس)
جب سے ٹی وی دیکھنے کا رواج بڑھا ہے ٹی وی دیکھنے والوں کے مرنے کے بعد قبر میں حساب ہونے کے بڑے ہی عبرت ناک واقعات بھی سامنے آرہے ہیں، جن سے ہمیں سبق لینا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ واقعات اسی لئے دکھاتے ہیں، تاکہ ہم لوگ عبرت حاصل کریں۔ چنانچہ ایک رسالہ ”ٹی وی کی تباہ کاریاں“ میں ایک عورت کا بڑا عبرت ناک واقعہ لکھا ہے۔ کہ رمضان شریف کے مہینے میں افطار کے وقت گھر میں ایک ماں اور ایک بیٹی تھی ماں نے بیٹی سے کہا کہ آج گھر پر مہمان آنے والے ہیں افطاری تیار کرنی ہے اس لئے تم بھی میری مدد کرو اور کام میں لگو اور افطاری تیار کراﺅ۔
بیٹی نے صاف جواب دیا کہ اماں اس وقت ٹی وی پر ایک خاص پروگرام آرہا ہے میں اس کو دیکھنا چاہتی ہوں اس سے فارغ ہوکر کچھ کروں گی، چونکہ وقت کم تھا اس لئے ماں نے کہا کہ تم اس کو چھوڑ دو‘ پہلے کام کراﺅ مگر بیٹی نے ماں کی بات سنی اَن سنی کردی، اور پھر اس خیال سے اوپر کی منزل میں ٹی وی لے کر چلی گئی کہ اگر میں یہاں نیچے بیٹھی رہی تو ماں بار بار مجھے منع کرے گی اور کام کے لئے بلائے گی۔ چنانچہ اوپر کمرے میں اندر جاکر اندر سے کنڈی لگائی اور پروگرام دیکھنے میں مشغول ہوگئی، نیچے ماں بے چاری آواز دیتی رہ گئی لیکن اس نے کچھ پرواہ نہ کی، پھر ماں نے افطاری کے لئے جو تیاری ہوسکی کرلی اتنے میں مہمان بھی آگئے اور سب لوگ افطاری کے لئے بیٹھ گئے ماں نے پھر بیٹی کو آواز دی تاکہ وہ بھی آکر روزہ افطار کرلے۔ لیکن بیٹی نے کوئی جواب نہیں دیا تو ماں کو تشویش ہوئی، چنانچہ وہ اوپر گئی اور دروازے پر جاکر دستک دی اور اس کو آواز دی لیکن اندر سے کوئی جواب نہیں آیا ہے۔ چنانچہ ماں نے اس کے بھائیوں اور اس کے باپ کو اوپر بلایا، انہوں نے آواز دی اور دستک دی مگر جب اندر سے کوئی جواب نہ آیا تو بالآخر دروازہ توڑا گیا جب دروازہ توڑ کر اندر گئے تو دیکھا کہ ٹی وی کے سامنے مری ہوئی اوندھے منہ زمین پر پڑی ہے اور انتقال ہوچکا ہے۔
اب سب گھر والے پریشان ہوگئے اس کے بعد جب اس کی لاش اٹھانے کی کوشش کی تو اس کی لاش نہ اٹھی اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ کئی ٹن وزنی ہوگئی ہے، اب سب لوگ پریشان ہوگئے کہ اس کی لاش کیوں نہیں اٹھ رہی ہے، اسی پریشانی کے عالم میں ایک صاحب نے جو ٹی وی اٹھایا تو اس کی لاش بھی اٹھ گئی، اب صورت حال یہ ہوگئی کہ اگر ٹی وی اٹھائیں تو اس کی لاش ہلکی ہوجائے اور اگر ٹی وی رکھ دیں تو اس کی لاش بھاری ہوجائے لہٰذا اس ٹی وی کو اٹھاکر اس کی لاش کونیچے لایا گیا اور اس کو غسل اورکفن دیا گیا۔
جب لوگ اس کا جنازہ اٹھانے لگے تو پھر اس کی چار پائی ایسی ہوگئی جیسے کسی نے اس کے اوپر پہاڑ رکھ دیا ہو لیکن جب ٹی وی کو اٹھایا تو آسانی سے چار پائی بھی اٹھ گئی تمام اہل خانہ شرمندگی اور مصیبت میں پڑ گئے۔ بالآخر جب ٹی وی جنازہ کے آگے آگے چلا تب اس کا جنازہ گھر سے باہر نکلا، اب اسی حالت میں ٹی وی کے ساتھ اس پر نماز جنازہ پڑھی گئی اور قبرستان لے جانے لگے، آگے ٹی وی، پیچھے جنازہ چلا، پھر قبرستان میں لے جانے کے بعد جب میت کو قبر میں اتارا اور قبر کو بند کرکے اس کو ٹھیک کرکے جب لوگ واپس جانے لگے تو اس لڑکی کی لاش قبر سے باہر آگئی، کتنی عبرت کی بات ہے! ”فَاعتَبِرُوا یَا اُولِی الاَبصَارِ“ (اے عقل مندو! عبرت حاصل کرو) لوگوں نے جلدی سے ٹی وی کو وہیں رکھا اور دوبارہ اس لاش کو قبر کے اندر دفن کرکے بند کردی اور دوبارہ ٹی وی اٹھاکر چلے تو دوبارہ اس لڑکی کی لاش قبر سے باہر آگئی، اب لوگوں نے کہا کہ یہ تو ٹی وی کے ساتھ ہی دفن ہوگی اس کے علاوہ کوئی اور صورت نظر نہیں آتی۔
آخرکار اس کی لاش قبر میں تیسری بار رکھی اور ٹی وی کو بھی اس کے سرہانے رکھ دیا اور اس کے ساتھ ہی اس کو دفن کردینا پڑا۔ العیاذ باللہ۔
اب ذرا سوچئے کہ اس لڑکی کا کیا حشرا ہوا ہوگا؟ اور کیا انجام ہوا ہوگا؟ ہماری عبرت کے لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیں دکھا دیا، اب بھی اگر ہم عبرت نہ پکڑیں تو ہماری ہی نالائقی ہے۔
0
(1)کچھ اللہ والو ں کی باتیں عرض کرتا ہوں۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس کچھ لوگ آئے کہ حضرت آپ کے بارے میں ایک صاحب کہتے پھررہے ہیں کہ میں حاجی صاحب کا داماد ہوں لو گ ان کی عزت کرتے ہیں تحائف دیتے ہیں بلکہ لوگوں سے اپنی دیگر ضروریات بھی پوری کررہے ہیں حضرت نے خاموشی سے بات سنی پھر فرمایا بھائی میری بیٹی نہیں ہے تو میراداماد کیسے ہوگیا اگر کوئی شخص میری ذات سے دنیا کا نفع لے رہا ہے تو کوئی بات نہیں کہ میری ذات سے کسی کونفع ہورہا ہے۔ لیکن کیسا عظمت اور رعایت کا مزاج تھا ان بڑوں کا کہ ایسے شخص کے ساتھ بھی درگزر کیا جو ان کے نام سے دنیا کما رہا ہے۔
(2)حضرت شاہ اسحا ق دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایک شخص گیا کہ فلا ں وزیر آپ کو خوب جانتا ہے اگر آپ رقعہ لکھ دیں گے تو میری نوکری لگ جائے گی۔ غریب آدمی ہوں تنگ دستی بہت زیادہ ہے حضرت نے فرمایا کہ وہ میرے بارے میں اچھا گمان نہیں رکھتا۔ کیونکہ اللہ والوں کے ہر دورمیں دشمن ہوتے ہیں جس طرح دوست خودبخود بن جاتے ہیںاس طرح دشمن بھی خود بخود بن جاتے ہیں لیکن اس کا اصرار تھا کہ نہیں آپ کی بات وہ مانتا ہے اور آپ کی بات اور رقعہ نہیں ٹالے گا اس کے مسلسل اصرار پر آپ نے اسے ملازمت کے لیے رقعہ لکھ دیا۔
وہ خوشی خوشی اعتماد کے ساتھ رقعہ لے کرگیا اس وزیر کو دیا تو رقعہ پڑھ کر اسے غصہ آگیا اور اس نے حضرت شاہ صاحب کو گالیاں دیں یہ مایوس ہو کر واپس آگیا۔ حضرت سے معذرت کی کہ میری وجہ سے آپ کو گالیاں دیں گئیں۔ حضرت نے صبر اور تحمل کا مظاہرہ کیا۔ فرمایا پہلے آپ کے کہنے پر رقعہ لکھا تھا اب میری مرضی سے جاﺅ اور ان سے عرض کرو کہ حضرت شاہ صاحب آپ کو سلام کہتے ہیںکہ اب تو آپ کا غصہ ٹھنڈا ہوگیا ہوگا۔ مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اس کی سزا غریب کو نہ دیں اور میری وجہ سے اس غریب کو محروم نہ کریں۔ وہ ڈرتا ڈرتا پھرگیا اور یہی الفاظ بیان کیے وزیر جواب سن کر شرمندہ ہوگیا اسے ملازمت دی اور شاہ صاحب سے باقاعدہ معذرت کی۔
آواز کا بھی جسم پر اثر پڑتا ہے۔ ہر آواز کا جسم پر فوری ردِّعمل مرتب ہوتا ہے۔ آواز جس قدر تیز اور اونچی ہوتی ہے ہمارے جسم میں اتنی ہی زیادہ گرمی پیدا کرتی ہے اور اس بڑھی ہوئی گرمی سے کلاہِ گردہ کی رطوبت خون میں شامل ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر یہ رطوبت زیادہ مقدار میں خون میں شامل ہو جائے تو اس طبیعت میں بے چینی اورتشویش پیدا ہونے لگتی ہے۔
تیز آواز سے آدمی مر بھی سکتا ہے۔ ماہرین آواز نے گرمی، سردی وغیرہ کی طرح آواز کے ماپنے کے آلے بھی بنائے ہیں۔ ہم عام طور پر چالیس درجے کی آواز سے گفتگو کرتے ہیں۔ ریڈیو عام طور پر پچاس اور ساٹھ درجے کی آواز پر بجائے جاتے ہیں۔ اتنی آواز کا جسم پر چنداں مضر اثر نہیں پڑتا۔ گھر کے کام میں عام طور پر اسی درجے کی آوازیں پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ یہ البتہ مضر ہوتی ہیں۔ قلب کے مریضوں کیلئے 80 درجے کی آواز نقصان رساں ہوتی ہے۔
گھر کی بعض لڑائیاں صرف اونچی آواز کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ بعض عورتیں دن بھر چیخنے چلانے کی وجہ سے نڈھال اور بیمار رہتی ہیں۔ بعض لوگ دن بھر اونچی آواز سے ڈیک بجاتے رہتے ہیں۔ اتنی اونچی آواز دِ ل و دماغ کیلئے سخت مضر ہوتی ہے اور سکون بہم پہنچانے کے بجائے تھکے ہوئے حواس اور جسم کو اور زیادہ تھکا دیتی ہے۔
باہر کی آواز کا مسئلہ اور زیادہ دشوار ہے لیکن اس کو کم کرنا ناممکن نہیں ہے ہم عمارتوں کو ایسا بنا سکتے ہیں کہ باہر کی آوازیں زیادہ نہ ستا سکیں۔ آواز کو کم تکلیف دہ بنانے میں فاصلہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ گھر کا شوروغل کے مقامات سے دور ہونا صحت کیلئے بہتر ہے۔ اینٹوں کی دیواروں، جھاڑیوں کی باڑھ اور درختوں کی قطاروں سے آواز کو پانچ درجہ کم کیا جا سکتا ہے۔
اگر آپ کا مکان شوروغل کے مقام پر واقع ہے تو بیٹھنے اور سونے کے کمروں کو سڑک کی مخالف سمت میں ہونا چاہیے چھت اور دیواریں اگر ایسی ٹائلوں سے بنائی جائیں جو آواز کو جذب کر لیتی ہیں تو باہر کی آوازوں کی گونج بڑی حد تک کم ہو جاتی ہے۔ فرش پر اگر دری یا چٹائی بچھا دی جائے تو یہ بھی آواز کو کم کرنے کیلئے ایک اچھی تدبیر ہے۔ گھر میں لوگوں کے چلنے سے بھی خاصی پریشان کن آواز پیدا ہوتی ہے۔ اوپر کی چھت پر اگر لوگ چلتے پھرتے ہوں تو اس پر موٹی دری یا قالین بچھا دینے سے قدموں کی آواز کو قابل برداشت بنایا جا سکتا ہے۔
ہم شوروغل کو کم کرکے اپنی توانائی کو بے فائدہ ضائع ہونے سے بچا سکتے ہیں۔ تیز آوازوں سے ہمارے دِل و دماغ پر بڑا ناگوار اور مضر اثر پڑتا ہے۔ اس پُرآشوب زمانے میں لوگوں کے اعصاب ویسے ہی بہت تھکے ماندے اور ایذا رسیدہ ہوتے ہیں، اس پر شوروغل درد ناک جسم پر کوڑے کا کام کرتا ہے۔ توانائی انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ اس کی ہر قیمت پر حفاظت کی جانی چاہیے۔
آج کا دور ایسا دور ہے کہ انسان مسابقت کی جنگ میں مصروف ہے ایک انسان دوسرے انسان سے، ایک ملک دوسرے ملک سے آگے بڑھ جانے کیلئے بے چین ہے اس بے چینی نے سائنس کو غلط مفادات کیلئے استعمال کیا ہے مشینی دور نے جنم لیا ہے جس نے شوروغل کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ بڑے شہروں میں موٹروں، بسوں، موٹرسائیکلوں نے انسانی صحت و زندگی کیلئے بڑا شدید مسئلہ پیدا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب شہروں میں کئی مقامات پر موٹروں کے ہارن بجانے پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں مگر قانون کی بالادستی کو عوام نے تسلیم نہیں کیا ہے۔ آج بھی موٹروں کے ہارن بلا تامل و تکان بج رہے ہیں اور صحت کیلئے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
درحقیقت قانونِ وقت اور قانونِ فطرت دونوں کا احترام کرنا انسان کا فرض ہے۔ اگر حکومت نے بقائے صحت کیلئے ہارن بجانے کو ممنوع قرار دیا ہے تو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ قانونِ فطرت بھی یہ ہے کہ انسان اپنے افعال و اعمال میں نرمی برتے۔ آپ جو کام کرتے ہیں ان میں نرمی اختیار کرنی چاہیے۔ مثلاً اگر آپ دروازہ کھولتے یا بند کرتے ہیں تو اس میں نرمی برتیں، آواز اور شور کیے بغیر بھی دروازہ کھولا یا بند کیا جا سکتا ہے۔
اگر ہر انسان اپنی جگہ یہ فیصلہ کر لے کہ وہ شور کو کم سے کم کرے گا تو صرف اس ایک عمل سے صحت کا ایک بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
شوروغل کو کم کرنے کیلئے حکومت اور عوام دونوں پر فرائض عائد ہوتے ہیں۔ مثلاً یہ قانونِ حکومت موجود ہے کہ ریستورانوں وغیرہ پبلک مقامات پر لاﺅڈ اسپیکر وغیرہ اتنی بلند آواز سے نہیں بجایا جا سکتا کہ اپنی حد سے باہر آواز جائے۔ عوام کو اس کا احترام کرنا چاہیے اور آواز کو محدود کرنا چاہیے۔
موٹرسائیکل رکشہ کی آواز اور شور نے شہر میں صحت کا بڑا سنگین مسئلہ پیدا کیا ہوا ہے۔ ٹرانسپورٹ کے اس مسئلے کا صحیح حل تلاش کرنا چاہیے اور بے آواز ٹرانسپورٹ کے بارے میں غور کرنا چاہیے۔ بلاشبہ سواری کا انتظام ہونا چاہیے۔ اس کیلئے انتظامیہ کو صحیح فیصلے کرنے چاہئیں۔
غرض شور وغل انسانی صحت کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ اس خطرے کو ہر انسان کم اور کم تر کر سکتا ہے یہ شرط ہے کہ وہ فیصلہ کر لے کہ اس کے کام و عمل سے کم از کم آواز پیدا ہوگی۔
04/09/2010. Powered by Blogger.