• Feed RSS
 امام علیہ سلام کے نوجوان صحابیوں میں سے تھے میدانِ کربلا میں جب دیکھا کہ زوال کا وقت قریب آ گیا ہے تو امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے ابا عبداللہ علیہ سلام میری جان آپ پر قربان ہومیں دیکھ رہا ہوں کہ یہ لشکر آپ سے جنگ کرنے کے لیے قریب آچکے ہیں لیکن آپ اس وقت تک شہید نہیں ہوں گے جب تک میں قتل نہ ہو جاؤں البتہ میں چاہتا ہوں کہ ظہر کی نماز آپ کی اقتدار میں پڑھ لو ں اور پھر بارگاہ خداوندی میں جاؤں۔
امام علیہ سلام نے جواب میں فرمایا۔ تم نے نماز کو یاد کیا خدا آپ کو نماز گزاروں میں کرار دے بے شک یہ نماز کا اول وقت ہے دشمن سے خواہش کرو کے وہ جنگ سے رُک جائیں تاکہ ہم نماز پڑھ لیں ۔۔۔ مگر موزی دشمن باز نہ آئے امام حُسین علیہ سلام نے اپنے اصحاب کے ساتھ تیروں کی بارش میں نماز ادا کی۔ یہاں تک کے چند اصحاب جو امام کے دفاع میں تیروں کو اپنے سینوں پر برداشت کرتے ہوئے شہید ہو گئے ۔
راہِ خدا میں برسرپیکار افراد کے لیے بے مثال درس ہے۔ یہ تھی ہمارے آئمہ کی روش کہ سحت سے سخت تر حالات میں بھی نماز کو اول وقت اور باجماعت ادا کیا ۔
امیرالمو منین علی علیہ سلام نے جنگ صفین میں جب گمسان کی جنگ تھی اول وقت میں‌ نماز ظہر پڑھی تھی۔ ابن عباس کے سوال کرنے پر فرمایا۔
           “انما قٰاتَلنٰا ھُم عَلیَ الصَّلاۃ“
            ہم نماز کے لیے ہی جنگ کررہے ہیں ۔
ہاں جنگِ صفین میں علی علیہ سلام نے نماز شب تک ترک نہ کی ہمارے تنظیمی اورانقلابی بھائیوں کو بھی اپنے آئمہ کی سُنت کا احیاء کرنا چاہیئے اور نماز کو اول وقت میں ادا کرنے سے غفلت نہیں برتنی چاہیئے۔
تحریک کربلا میں بھی نوجوان کا بہت اہم کردار ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کربلا میں نوجوانوں نے وہ کردارادا کیا کہ جو تا قیامت ہر قوم و نسل کے جوانوں بالخصوص ملتِ مسلمہ کے نوجوانوں کے لیے ایک نمونہ ہے اگر آج کا نوجوان اس کردار کو اپنائے تو وہ ظُلم و استحصال سے نجات پا کر دنیاوآخرت کی سعادت سے ہمکنار ہو سکتا ہے
تاریخِ عاشورا!
تحریک کربلا میں 72 افراد نے حصہ لیا جن میں بیشتر نوجوان تھے۔ اور انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر حق و صداقت کی تاریخ کو رقم کیا اور اسلام اور اپنے امام قائد کے لیے جانثاری اور مدد کاری کا بے مثال درس دیا۔
ہم تحریک کربلا میں شامل چند ایک نوجوانوں کا مختصر طور پر ذکر کرتے ہیں وہب بن عبداللہ بن حباب کلبی امام کے اِن نوجوانِ اصحاب میں سے آیا ہے جو اپنی نئی نویلی دلہن اور ماں کے ساتھ لشکر حسینی میں شامل ہوا تھا۔ ماں کے کہنے پر جہاد کے لیے تیار ہوئے گھوڑا میدان میں دوڑایا  اور یہ رجز پڑھا۔
“اے ماں میں تیری طرف سے ضامن ہوں کبھی تلوار چلانے کا اور کبھی نیزہ چلانے کا یہ ایے نوجوان کی ضرب ہے جو اپنے رب پر ایمان رکھتا ہے۔“
پس انیس( 19) سوار اور (12) بارہ پیادوں کو قتل کیا اور کچھ دیر تک جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ ان کے دونوں ہاتھ قلم کر دیئے گئے۔ اس وقت ان کی ماں نے چوب چمبراٹھا کر میدان کا رُخ کیا ۔
امام علیہ سلام نے وہب کی ماں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔“خدا تجھے میرے اہلبیت کی حمایت کی جزائے خیر دے۔ خدا تجھ پررحمت نازل فرمائے۔ اپنے خیمے میں لوٹ جاؤ تم پر جہاد نہیں ہے۔“
وہب کی بیوی جو بے تاب ہو کر اپنے شوہر کی طرف دوڑی۔ شمر ملعون کے حکم سے اس کے غلام نے گذر مار کر وہب کے ساتھ ہی شہید کر دیا۔ میدانِ کربلا میں یہ پہلی خاتون شہید ہیں۔
سیدالشہداء کے نوجوان اصحاب میں سے ایک اور نوجوان نافع بن ہلال تھے۔ وہ یہ رجز پڑھتے ہوئے میدان میں آئے ۔
“انانافع ہلال الجَمَلِی اناعَلی دین علی علیہ سلام“
میں ہلال کا بیٹا ہلال جملی ہوں اور دین علی علیہ سلام پر قائم ہوں۔ 
جاری ہے۔۔۔۔۔۔                                                                                     
کبھی تو کچھ کہو تم بھی
کہا ہے جو سنو تم بھی
سرِ راہ جب ملو مجھ سے
کبھی کچھ پل رکو تم بھی
گِرا ڈالو فصیلیں کچھ
مجھے اک شام ملو تم بھی
میں تنہا تھک گیا ہوں اب
میرے سنگ سنگ چلو تم بھی
میری زندگی کے کاغذ پر
نئے کچھ غم لکھو تم بھی
صدا برہم سے رہتے ہو
کبھی کچھ پل ہنسو تم بھی
ادھورا شہر ہے جیسے
یہاں پہ آ بسو تم بھی
مجھے تم سے محبت ہے
کہ لا پرواہ سے ہو تم بھی
کب ہم نے کہا تھا ہمیں دستار و قبا دو
ہم لوگ نوا گر ہیں ہمیں اِذنِ نوا دو
ہم آئینے لائے ہیں سرِ کُوئے رقیباں
اے سنگ فروشو یہی الزام لگا دو
لگا ہے کہ میلہ سا لگا ہے سرِ مقتل
اے دلِ زدگاں بازوئے قاتل کو دعا دو
ہے بادہ گساروں کو تو میخانے سے نسبت
تُم مسندِ ساقی پہ کسی کو بھی بٹھا دو
میں شب کا بھی مجرم تھا سحر کا بھی گنہگار
لوگو مجھے اس شہر کے آداب سکھا دو
(احمد فراز)
دنیا کی نظر میں وہ گنوار اور جاہل تھا اور لوگ اٰس کا مزاق اُڑاتے تھے اس کا نام رابرٹ نکسن تھا ۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ بادشاہ کو اس کی اشد ضرورت ہے ۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس کی یہ بات غلط نہ تھی ۔ تاریخ میں اس سے عجیب کہانی ملنی مشکل ہے ۔
نکسن کے والدین بہت غریب تھے وہ گذر اوقات کے لیے صبح صادق سے لے کر رات کا اندیرا چھانے تک کھیتوں  میں کام کرتے رہتے ۔ نکسن اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ وہ مضبوط جسم کا بظاہر احمق سا لڑکا تھا۔ شائر کے بُرج ہاوس فارم کے اردگرد کے علاقے میں اسے غبی کے نام سے پُکارا جاتا تھا ۔اس کے والدین نے اُسے اپنے گاؤں کے سکول میں داخل کروایا۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد انہوں نے اس کا سکول سے نام کٹوا کر کھیتوں میں ہل جوتنے پر لگا دیا۔
1445ء میں بوس ورتھ کے میدان میں برطانیہ کی قسمت کا فیصلہ ہو رہا تھا ۔ بادشاہ رچرڈ کی فوجوں اور ہنری کی فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ جاری تھی ۔ میدانِ جنگ سے کئی میل کے فاصلے پر جاہل اور نا سمجھ رابرٹ نکسن ایک پرانے ہل سے زمین کاشت کر رہا تھا ۔ اس کے گھوڑے بوڑھے ہونے کے سبب نہایت سُست روی سے چل رہے تھے۔ وہ پہاڑ کے نصف میں جا کر ٹھہر گیا ۔ پھر اس نے چند لمحوں کے لیے اپنا سر جُھکایا ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے وہ کچھ سُن رہا ہو ۔ با لآخر اس نے اپنا سر اُوپر اٹھایا اور خوشی سے رقص کرنے لگا اور ہاتھ بلند کر کے قہقہے لگانے لگا۔ اس سے کئی مرتبہ پہلے بھی ایسی حرکات سرزد ہو چُکی تھیں۔ لیکن آج اس کی حرکات کچھ زیادہ ہی عجیب تھیں ۔ اوورسیز دوڑ کر اس کے پاس آیا تاکہ اسے فضول حرکات سے روک کر کام پر لگائے ۔لیکن وہ خود رابرٹ کی حرکات دیکھ کر رُک گیا۔۔۔ رابرٹ اپنے آپ میں نہیں تھا وہ گُھور رہا تھا اور اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی اور ہ بازو ہلا ہلا کر نعرے لگا رہا تھا پھر اس نے اپنی چابک ہوا میں گُھمائی اور چِلایا ۔وہاں۔۔۔وہ رچرڈ۔۔۔ایسا۔۔۔کچھ دیر بعد وہ پھر گویا ہوا ہنری خندق کے اس پار ۔۔۔اپنی تمام طاقت کے ساتھ ۔۔۔خندق کے اوپر۔۔۔ہنری نے جنگ جیت لی ۔
اس کے بعد تھوڑی دیر تک وہ سبہوت کھڑا رہا اور پھر وہ مسکرانے لگا ۔اس نے پہلی مرتبہ اوورسیز کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔
جنگ ختم ہو گئی اور ہنری جیت گیا ۔اور پھر اس کے بعد وہ یوں ہل چلانے لگا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو اوورسیز اپنے باس لارڈ آف کول منڈی  کو اطلاع دینے چلا گیا کیونکہ یہ بات مشہور ہو چُکی تھی کہ ناقص العقل رابرٹ نکسن کو اِن چیزوں کے جاننے کا ملکہ حاصل تھا جو اس سے کافی فاصلے پر ہو رہی ہوں یا پھر ظہور پذیر ہونے والی ہوں۔اس نے قریبی گاؤں ‌میں آگ لگنے کی بھی پیشن گوئی کی تھی ، جو سو فیصد درست تھی اس کے علاوہ اس نے کول منڈی کے خاندان کے ایک فرد کے مرنے کی بھی پیشن گوئی کی تھی۔ مزید برآں اس نے دو ہفتوں بعد آنے والے طوفان کے بارے میں بھی بتا دیا تھا ۔اس نے یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ ہنری اور رچرڈ کے درمیان بوتھ ورس کے میدان میں لڑائی ہو گی ۔ اور اس نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس معرکہ میں رچرڈ کو شکست فاش ہو گی ۔ ہنری کی فتح کے دو دن بعد بادشاہ کی طرف سے ایک خاص ایلچی آیا جس نے بتایا کہ بادشاہ ہنری ہفتم نے جنگ جیت کر اپنا تحت سنبھال لیا ہے ۔جب یہ ایلچی اس گاؤں میں پہنچا جہاں نکسن رہتا تھا تو وہ یہ دیکھ کو حیران رہ گیا کہ لوگوں کو بادشاہ کی کامیابی کی بہت پہلے اطلاع ہو چکی ہے ۔ اور یہ سب نکسن کی بدولت ہوا تھا ۔ پھر جلد ہی نکسن کی شہرت بادشاہ کے ایوان میں گونجنے لگی ۔ جب بادشاہ کے آدمی اسے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے تو وہ چیخنے چلانے لگانے لگا کہ وہ بادشاہ کے محل میں نہیں جائے گا کیونکہ وہ وہاں فاقوں کی بدولت مر جائے گا۔لوگ اس کی یہ بات سن کر اس کا مذاق اُڑانے لگے اور وہ کہنے لگے ۔
بادشاہ بذاتِ خود ایک آدمی کو محل میں آنے کی دعوت دے رہا ہے اور تم کہہ رہے ہو کہ میں وہاں بھوک سے مر جاؤں گا ۔ چنانچہ بادشاہ کے آدمی مایوس ہو کر چلے گئے ۔ ایک مرتبہ پھر اسے بادشاہ کی طرف سے بلاوا آیا اس مرتبہ اس کا ارادہ تھا کہ نکسن کے والدین کو معقول رقم دیکر رضا مند کیا جائے ۔
بادشاہ کے آدمیوں کے آنے سے پہلے وہ سو کر اُٹھا تھا ۔ اس نے کہا کہ بادشاہ کے آدمی بہت جلد یہاں پہنچنے والے ہیں میں ان کے ساتھ ضرور جاؤں گا لیکن پھر کبھی واپس پلٹ کر نہیں آؤں گا ۔ رابرٹ ہنری کے پاس پہنچا تو اس نے نکسن کے آنے سے پہلے اپنی انگوٹھیاں چُھپا دیں اور نکسن سے کہا کہ بتائے  کہ اس کی انگوٹھیاں کہاں گُم ہو گئی ہیں ۔ نکسن نے بادشاہ کی طرف ٹکٹکی لگا کر دیکھا اور کہا ۔ بادشاہ سلامت انگوٹھیاں گُم نہیں ہوئیں‌ ۔ جس نے انگوٹھیاں چُھپا رکھی ہیں وہ انہیں برآمد بھی کر سکتا ہے ۔ بادشاہ اس بات سے بہت خوش ہوا چنانچہ اس نے ایک مُنشی کو اس کام پر مامور کیا کہ وہ دن رات نکسن کی تمام پیشن گوئیاں قلمبند کرے ۔ پیشن گوئیوں کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ بیشتر پیشن گوئیاں ہنری ہفتم کے بعد کے زمانے کی تھیں جن میں لندن کی 1616 کی آگ اور فور جارجز کی تحت نشینی بھی شامل ہے ۔ اس نے ایسی پیشن گوئیاں بھی کی جو حال ہی میں پوری ہوئیں مثلًا یہ پیشن گوئی کہ بیرونی حملہ آور جن کے پٹیوں پر برف جمی ہو گی لندن پر حملہ کریں گے۔
ہنری نے نکسن کی یہ درخواست ٹھکرا دی کہ اسے محل میں‌ اکیلا نہ چھوڑا جائے ۔ ایک دفعہ بادشاہ ایک طویل شکاری سفر پر روانہ ہوا ۔ بادشاہ نے چند درباریوں کو اپنی عدم موجودگی میں نکسن کی حفاظت پر مامور کیا لیکن اس کے بجائے وہ نکسن کو ایک کمرے میں‌ بند کر کے خود بادشاہ کے ساتھ شکار پر چلے گئے ۔ بدقسمتی سے وہ درباریوں کو یہ بتانا بھول گئے کہ نکسن کس کمرے میں ہے ۔ جب بادشاہ شکار سے واپس آیا تو نکسن کی تلا ش شروع ہوئی ۔ لیکن وہ بند کمرے میں فاقوں کی وجہ سے مر چُکا تھا ۔ اپنے متعلق بھی اس کی پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی ۔
61
سوال: قرآن مجید کِس پر نازل ہوا؟
جواب:قرآن مجید حضوراکرمٌ پر نازل ہوا۔
سوال: لفظ قرآن کے کیا معنیٰ ہیں؟
جواب: جو تلاوت کیا جائے۔
سوال: قرآن مجید میں کُل کتنی سورتیں ہیں؟
جواب: 114 سورتیں۔
سوال: قرآن مجید میں کُل کتنے زبر، زیر، مد، پیش، تشدید، نقاط، اور کلمات استعمال ہوئے ہیں؟
جواب: قرآن مجید میں تقریبا 53223 زبر،تقریبا 39582 زیر، تقریبا 1771 مد، تقریبا 8804 پیش، تقریبا 1274 تشدید، تقریبا 105684 نقاط اور تقریبا 86430 کلمات استعمال ہوئے ہیں۔
سوال: قرآن مجید کس حرف سے شروع ہوتا ہےاور کس حرف پر ختم ہوتا ہے؟
جواب: قرآن مجید “الف“ سے شروع ہوتا ہے اور “س“ پر ختم ہوتا ہے۔
سوال:قرآن مجید میں کُل کتنے رکوع ہیں؟
جواب: قرآن مجید میں کُل 540 رکوع ہیں۔
سوال:عروسِ قرآن کس سورۃ کو کہا جاتا ہے؟
جواب: سورۃ رحمٰن کو۔
سوال:قرآن مجید میں لفظ “اللہ“ کتنی بار استعمال ہوا ہے؟
جواب: 2697 بار ۔
سوال: قرآن مجید کا اردو میں سب سے پہلے ترجمہ کب اور کس نے کیا؟
جواب: قرآن مجید کا اردو  ترجمہ سب سے پہلے حضرت شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ نے 1605 میں کیا۔
 سوال: انگریزی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ سب سے پہلے کس نے اور کب کیا؟
جواب: انگریزی زبان مں قرآب مجید کا ترجمہ  سب سے پہلے “الیگزینڈر روس “ نے 1649ء میں کیا اور یہ 1669ء میں لندن سے شائع ہوا۔
سوال: قرآن مجید میں سب سے بڑی سورۃ کون سی ہے؟
جواب: سورۃ بقرہ۔
سوال: قرآن مجید میں سب سے چھوٹی سورۃ کون سی ہے؟
جواب: سورۃ الکوثر۔
سوال: قرآن مجید میں حرف کی تعداد کتنی ہے؟
جواب: 323760 ۔
سوال: قرآن مجید میں مکی سورتوں کی تعداد کتنی ہے؟
جواب: مکی سورتوں کی تعداد 86 ہے۔
سوال: قرآن مجید میں مدنی سورتوں کی تعداد کتنی ہے؟
جواب: مدنی سورتوں کی تعداد 28 ہے۔
سوال: قرآن مجید میں کون سا حرف سب سے زیادہ بار استعمال ہوا ہے؟
جواب: سب سے زیادہ بار حرف “الف“ 48872 بار استعمال ہوا۔
سوال:
قرآن مجید میں سب سے کم مرتبہ کون سا حرف استعمال ہوا؟
جواب: سب سے کم حرف “ظ“ 842 بار استعمال ہوا۔
حارث ہمدانی کے نام
قرآن کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اس سے پند و نصیحت حاصل کرو، اس کے حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھو اور گزشتہ حق کی باتوں کی تصدیق کرو اور گذری ہوئی دنیا سے باقی دنیا کے بارے میں عبرت حاصل کرو کیونکہ ہر دور دوسرے سے ملتا جلتا ہے اور اس کا آخر بھی اپنے اول سے جا ملنے والا ہے ، اور یہ دنیا سب کی سب فنا ہونے والی اور بچھڑ جانے والی ہے ، دیکھو! اللہ کی عظمت کے پیشِ نظر حق بات کے علاوہ اس کے نام کی قسم نہ کھاؤ،موت اور موت کے بعد کی منزل کو بہت زیادہ یاد کرو،موت کے طلب گار نہ بنو ،مگر قابلِ اطمینان شرائط کے ساتھ اور ہر اس کام سے بچو جو آدمی اپنے لئے پسند کرتا ہو اور عام مسلمانوں کے لئے اسے نا پسند کرتا ہو، ہر اس کام سے دور رہو جو چوری چھپے کیا جا سکتا ہو، مگر اعلانیہ کرنے میںشرم دامن گیر ہوتی ہو اور ہر اس فعل سے کنارہ کش رہو کہ جب اس کے مرتکب ہونے والے سے جواب طلب کیا جائے تو وہ خود بھی اسے برا قرار دے یا معذرت کرنے کی ضرورت پڑے اپنی عزت و آبرو کو چہ میگوئیوں کے تیرو ں کا نشانہ نہ بناؤ،جو سنو اسے لوگوں سے واقعہ کی حیثیت سے بیان نہ کرتے پھرو کہ جھوٹا قرار پانے کے لیے اتنا ہی کافی ہو گا اور لوگوں کو ان کی ہر بات میں جھٹلانے بھی نہ لگو کہ یہ پوری پوری جہالت ہے، غصہ کو ضبط کرو اور اختیار و اقتدار ہوتے ہوئے عفودرگزر سے کام لو،اور غصہ کے وقت بردباری اختیار کرو، اور دولت و اقتدار کے ہوتے ہوئے معاف کر و تو انجام کی کامیابی تمہارے ہاتھ رہے گی اور اللہ نے جو نعمتیں تمہیں بخشی ہیں ان پر شکر بجا لاتے ہوئے ان کی بہبود ی چاہو،اور اس کی دی ہوئی نعمتوں میں سے کسی نعمت کو ضائع نہ کرو، اور اس نے جو انعامات تمہیں بخشے ہیں ان کا اثر تم پر ظاہر ہونا چاہیے۔اور یاد رکھو کہ ایمان والوں میں سب سے افضل وہ ہے جو اپنی طرف سے اور اپنے اہل و عیال اور مال کی طرف سے خیرات کرے، کیونکہ تم آخرت کے لیے جو کچھ بھی بھیج دو گے، وہ ذخیرہ بن کر تمہارے لیے محفوظ رہے گا اور جو پیچھے چھوڑ جاؤ گے اس سے دوسرے فائدہ اٹھائیں گے،اور اس آدمی کی صحبت سے بچو جس کی رائے کمزور اور افعال برے ہوں کیونکہ آدمی کا اس کے ساتھی پر قیاس کیا جاتا ہے،بڑے شہروں میں رہائش رکھو کیونکہ وہ مسلمانوں کے اجتماعی مرکز ہوتے ہیں،غفلت اور بے حیائی کی جگہوں اور ان مقامات سے کہ جہاں اللہ کی اطاعت میں مدد گاروں کی کمی ہو پرہیز کرو اور صرف مطلب کی باتوں میں اپنی فکر پیمائی کو محدود رکھو،اور بازاری اڈوں میں اٹھنے بیٹھنے سے الگ رہو،کیونکہ یہ شیطان کی بیٹھکیں اور فتنوں کی آماجگاہ ہوتی ہیں،اور جو لوگ تم سے پست حیثیت کے ہیں انہی کو زیادہ دیکھا کرو کیونکہ یہ تمہارے لئے شکر کا ایک راستہ ہے ۔جمعہ کے دن نماز میں حاضر ہوئے بغیر سفر نہ کرنا مگر یہ کہ خدا کی راہ میں جہاد کے لئے جانا ہو یا کوئی معذوری درپیش ہو،اور اپنے تمام کاموں میں اللہ کی اطاعت کرو،کیونکہ اللہ کی اطاعت دوسری چیزوں پر مقدم ہے،اپنے نفس کو بہانے کر کر کے عبادت کی راہ پر لاؤاور اس کے ساتھ نرم رویہ رکھو،دباؤ سے کام نہ لو ، جب وہ دوسری فکروں سے فارغ البال اور چونچال ہو اس وقت اس سے عبادت کا کام لو، مگر جو واجب عبادتیں ہیںان کی بات دوسری ہے،انہیں تو بہر حال ادا کرنا ہے اور وقت پر بجا لانا ہے،اور دیکھو ایسا نہ ہو کہ موت تم پر آ پڑے اس حال میں کہ تم اپنے پرودگار سے بھاگے ہوئے دنیا طلبی میں لگے ہو،اور فاسقوں کی صحبت سے بچے رہناکیونکہ برائی برائی کی طرف بڑھا کرتی ہے،اور اللہ کی عظمت و توقیر کا خیال رکھواور اس کے دوستوں سے دوستی کرو اور غصہ سے ڈرو کیونکہ یہ شیطان کے لشکروں میں سے ایک بڑا لشکر ہے۔والسلام۔
دھوکے سے کربلا میں بلایا گیا مجھے

ابنِ علی کی طرح ستایا گیا مجھے

خنجر کی پیاس کیسے بجھے، اک سوال تھا

اس کا جواب دینے کو لایا گیا مجھے

جھوٹی ستائشوں سے مجھے خوش کیا گیا

نشہ پلا پلا کے گرایا گیا مجھے

آنکھوں پہ پٹی باندھ کے تلوار دی گئی

ان دیکھے دشمنوں سے لڑایا گیا مجھے

کچا ہی مجھ کو توڑا زمانے نے شاخ سے

اور پھر کسیلا کڑوا بتایا گیا مجھے

شانہ ہلا کے مجھ کو جگایا نہیں گیا

اک خوفناک خواب دکھایا گیا مجھے

سکہ بنا دیا گیا بچے کے ہاتھ کا

کھویا گیا مجھے کبھی پایا گیا مجھے

میں تو ہوں ایک درد بھرا گیت اے کمال

عیش و طرب کی بزم میں گایا گیا مجھے
اے وہ لوگو! جن کے جسم یکجا اور خواہشیں جدا جدا ہیں،تمہاری باتیں تو سخت پتھروں کو بھی نرم کر دیتی ہیں،اور تمہارا عمل ایسا ہے کہ جو دشمنوں کر تم پر دندانِ آز تیز کرنے کا موقع دیتا ہے اپنی مجلسوں میں تم کہتے پھرتے ہو کہ یہ کر دیں گے، وہ کر دیں گے ، جب جنگ چھڑ ہی جاتی ہے تو تم اس سے پناہ مانگنے لگتے ہو ، جو تم کو مدد کے لیے پکارے اس کی صدا بے وقعت ،اور جس کا تم جیسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہو،اس کا دل ہمیشہ بے چین ہے، حیلے حوالے ہیں غلط سلط ،اور مجھ سے جنگ میں تاخیر کرنے کی خواہشیں ہیں،جیسے نادہندہ مقروض اپنے قرض خواہ کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے۔ذلیل آدمی ذلت آمیز زیادتیوں کی روک تھام نہیں کر سکتااور حق تو بلا کوشش کے نہیں ملا کرتا،اس گھر کے بعد اور کون سا گھر ہے جس کی حفاظت کرو گے،اور میرے بعد اور کس امام کے ساتھ ہو کر جہاد کرو گے،خدا کی قسم جسے تم نے دھوکا دے دیا ہو،اس کے فریب خوردہ ہونے میں کوئی شک نہیں،اور جسے تم جیسے لوگ ملے ہوں اس کے حصہ میں وہ تیر آتا ہے جو خالی ہوتا ہے،اور جس نے تم کو(تیروں کی طرح ) دشمنوں پر پھینکا ہو، اس نے گویا ایسا تیر پھینکا ہے جس کا سوفار ٹوٹ چکا ہو اور پیکان بھی شکستہ ہو خدا کی قسم میری کیفیت تو اب یہ ہے کہ نہ میں تمہاری کسی بات کی تصدیق کر سکتا ہوں ، اور نہ تمہاری نصرت کی مجھے آس باقی رہی ہے،اور نہ تمہاری وجہ سے دشمن کو جنگ کی دھمکی دے سکتا ہوں،تمہیں کیا ہوگیا،تمہارا مرض کیا ہے،اور اس کا چارہ کیا ہے،اس قوم کے افراد بھی تو تمہاری ہی شکل و صورت کے مرد ہیں کیا باتیں ہی باتیں رہیں گی جانے بوجھے بغیر اور صرف غفلت و مدہوشی ہے تقویٰ و پرہیز گاری کے بغیر (بلندی کی) حرص ہی حرص ہے مگر بلکل ناحق۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ نے خوارج کا قول’’لا حکم الااللہ‘‘( حکم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے) سنا تو فرمایا:۔
یہ جملہ تو صحیح ہے ،مگر جو مطلب وہ لیتے ہیں وہ غلط ہے۔ ہاں بے شک حکم اللہ ہی کے لیے مخصوص ہے،مگر یہ لوگ تو کہنا چاہتے ہیں،کہ حکومت بھی اللہ کے سوا کسی کی نہیں ہو سکتی،حالانکہ لوگوں کے لیے ایک حاکم کا ہونا ضروری ہے،خواہ وہ اچھا ہو یا برا( اگر اچھا ہو گا) تو مومن اس کی حکومت میں اچھے عمل کر سکے گا،اور ( برا ) ہو گا تو کافر اس کے عہد میں لذائذ سے بہرہ اندوز ہو گا،اور اللہ اس نظامِ حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حد وں تک پہنچا دے گا،اسی حاکم کی وجہ سے مال( خراج و غنیمت) جمع ہوتا ہے،دشمن سے لڑا جاتا ہے، راستے پر امن رہتے ہیں،اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے،یہاں تک کہ نیک حاکم ( مر کر یا معزول ہو کر) راحت پائے ،اور برے حاکم ( کے مرنے یا معزول ہونے سے) دوسروں کو راحت پہنچے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
وفائے عہد اور سچائی دونوں کا ہمیشہ ہمیشہ کا ساتھ ہے،میرے علم میں اس سے بڑھ کر حفاظت کی اور کوئی سپر نہیں،جو شخص اپنی بازگشت کی حقیقت جان لیتا ہے،وہ کبھی غداری نہیں کرتا،مگر ہمارا زمانہ ایسا ہے جس میں اکثر لوگوں نے عذر و فریب کو عقل و فراست سمجھ لیا ہے،اور جاہلوں نے ان ( کی چالوں ) کو حسنِ تدبیر سے منسوب کر دیا ہے،اللہ انہیں غارت کرے انہیں کیا ہو گیا ہے،وہ شخص جو زمانہ کی اونچ نیچ دیکھ چکا ہے،اور اس کے ہیر پھیر سے آگاہ ہے،وہ کبھی کوئی تدبیر اپنے لیے دیکھتا ہے مگر اللہ کے اوامر و نواہی اس کا راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو وہ اس حیلہ و تدبیر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور اس پر قابو پانے کے باوجود چھوڑ دیتا ہے،اور جسے کوئی دینی احساس سدِ راہ نہیں ہے، وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا لے جاتا ہے۔
0
کیا اس حق و باطل کی جنگ میں بنی امیہ اور ان کا خونخوار اور دنیا پرست لشکر کامیاب ہوا یا امام حسین علیہ اسلام اور ان کے باوفا اصحاب کہ جنہوں نے راہِ حق اور رضائے خدا میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا؟
اگر کامیابی و ناکامی اور فتح و شکست کے صحیح معنی اور مفہوم کی طرف توجہ کی جائے تو اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے۔فتح و کامیابی یہ نہیں کہ انسان میدانِ جنگ میں اپنی جان بچا لے یا دشمن کو ہلاک کر دے۔بلکہ فتح و کامرانی یہ ہے کہ انسان اپنے ہدف و مقصد کو محفوظ کر کے آگے بڑھا سکے اور دشمن کو اس کے مقصد میں کامیاب نہ ہونے دے اگر فتح و کامرانی اور شکست و ناکامی کے یہ معنی سامنے رکھے جائیں تو معرکہ کربلا کا نتیجہ بلکل واضح ہو جاتا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ امام حسین علیہ اسلام اور ان کے اصحاب باوفا شہید ہو گئے لیکن انہوں نے اس شہادت سے اپنا مقدس ہدف و مقصد حاصل کر لیا۔ہدف یہ تھا کہ بنی امیہ کی اس مذموم اور اسلام دشمن سازش کو بے نقاب کیا جائے اور اس کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے لایا جائے مسلمانوں کی فکر بیدار ہو اور ان کو زمانہ جاہلیت ، زمانہ کفر اور بت پرستی کے مبلغین سے آگاہ کیا جائے۔یہ مقصد و ہدف بہترین طریقے سے حاصل ہوا۔
امام حسین علیہ اسلام اور ان کے اصحاب با وفا نے اپنے مقدس خون سے بنی امیہ کے ظلم کے درخت کی جڑیں ہلا کر رکھ دیں ۔ انہوں نے اپنی قربانی سے بنی امیہ کی ظالم و جابر حکومت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ۔اور ان کا شرمناک سایہ مسلمانوں کے سر سے ختم کر دیا ۔یزید نے ماما حسین علیہ اسلام جگر گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے باوفا اصحاب کو شہید کر کے اپنا اصلی چہرہ ظاہر کر دیا۔
واقعہ کربلا کے بعد جتنے انقلاب رونما ہوئے شہدائے کربلا کے انتقام کے نام سے شروع ہوئے اور تمام کا نعرہ یہ تھا کہ ہم شہدائے کربلا کا انتقام لیں گے ۔ حتیٰ کے بنی عباس کے زمانہ تک یہی ہوتا رہا۔ اور خود بنی عباس نے بھی انتقام خونِ حسین علیہ اسلام کے بہانے سے حکومت حاصل کی ۔ مگر حکومت حاصل کرنے کے بعد بنی امیہ کی طرح ظلم و ستم شروع کر دیا ۔ کیا شہدائے کربلا کے لئے اس سے بڑھ کر اور کامیابی ہو سکتی ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مقدس مقصد تک پہنچ گئے بلکہ ظلم و ستم میں جکڑے تمام انسانوں کو درسِ حریت دے گئے۔
عزادار ی کیا ہے؟

اگر امام حسین علیہ اسلام اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں تو اس خوشی میں جشن کیوں نہیں منایا جاتا اور اس کی بجائے گریہ کیوں کیا جاتا ہے ؟ کیا یہ گریہ و ماتم اس کامیابی کے مقابلے میں صحیح ہے؟جو لوگ اعتراض کرتے ہیں انہوں نے در حقیقت فلسفہ عزاداری کو سمجھا ہی نہیں بلکہ انہوں نے عزاداری کی ناتوانی اور احساس کمتری سے پیدا ہونے والے آہ و نالہ کی مانند تصور کیا ہے۔
رونے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہونے کی چار صورتیں ہیں
گریہ شوق

ایک ماں جس کا بچہ گم ہو گیا ہو اور کئی سال بعد اس کو ملے تو اس ماں کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے ہیں ۔ یہ رونا گریہ محبت اور گریہ شوق کہلاتا ہے۔کربلا کے اکثر واقعات اور ان میں رونما ہونے والی قربانیاں ایسی شوق آفریں ہیں کہ انسان جب ان قربانیوں ، ان شجاعتوں اور ان دل دہلا دینے والے بیانات کو سنتا ہے تو بے ساختہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ۔اور ان آنسوؤں کا جاری ہونا قطعاً ناکامی و شکست کی دلیل نہیں۔
گریہ عاطفی

انسان کے سینے میں دل ہے پتھر نہیں ۔ اور یہی دل ہے جو انسان کے عواطف و احساسات کی عکاسی و ترجمانی کرتا ہے ۔ جب انسان کسی پر ظلم ہوتا دیکھ یا کسی یتیم بچے کو ماں کی آغوش میں دیکھے جو باپ کی جدائی میں رو رہا ہو تو فطری طور پر دل میں کچھ عواطف و احساسات پیدا ہوتے ہیں کہ یہ بسا اوقات قطراتِ اشک کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔
در حقیت ان قطرات اشک کا آنکھوں سے جاری ہونا انسان کے صاحبِ دل ہونے کی ترجمانی کرتا ہے۔ اگر ایک چھ ماہ کے بچے کا واقعہ سن کر کہ جسے باپ کے ہاتھوں پر تیر کا نشانہ بنایا گیا ہو اور تڑپ تڑپ کر اس نے باپ کے ہاتھوں پر جان دے دی ہو ۔ دل تڑپ جائے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں تو یہ ضعف و ناتوانی کی دلیل ہے یا صاحبِ دل ہونے کی؟
گریہ مقصد

کبھی قطرات اشک ہدف و مقصد کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم مکتبِ حسین علیہ اسلام کے پیروکار ہیں اور ان کے مقصد کے تابع ہیں ممکن ہے کہ اس مطلب کا اظہار الفاظ و احساسات کے ذریعے کریں یا قطراتِ اشک کے ذریعے ،جو شخص فقط الفاظ اور دیگر ظاہری احساسات سے اس مطلب کا اظہار کرے ۔ اس میں دکھاوے اور بناوٹ کا احتمال ہو سکتا ہے ۔ لیکن جو شخص واقعاتِ کربلا سن کر قطراتِ اشک کے ذریعے اپنے مقصد اور احساسات کا اظہار کرتا ہے تو یہ اظہار حقیقت کے زیادہ قریب ہے۔
جب ہم امام حسین علیہ اسلام اور ان کے اصحاب باوفا کے مصائب پر گریہ کرتے ہیں تو یہ گریہ درحقیقت ان کے مقدس مقاصد پر دل و جان سے اعلان وفاداری اور مظلوم سے ہمدردی کی علامت ہے اور بت پرستی ، ظلم و ستم اور ظالم سے نفرت و بیزاری کا اعلان ہے لیکن کیا اس قسم کا گریہ ان کے مقدس مقصد سے آشنائی کے بغیر ممکن ہے؟ ہر گز ہرگز نہیں۔
گریہ ذلت و ناکامی

یہ ان ناتواں اور ضعیف افراد کا گریہ ہے جو اپنے مقصد تک نہیں پہنچ سکے اور ان کے اندر اپنے مقاصد حاصل کرنے کی طاقت بھی نہیں ایسے لوگ بیٹھ کر عاجزانہ گریہ کرتے ہیں ۔
امام حسین علیہ اسلام پر ایسا گریہ ہرگز نہیں کیا جاتا۔اور امام علیہ اسلام ایسے گریہ سے متنفر ہیں امام حسین علیہ اسلام پر گریہ کرنا ہے تو گریہ شوق،عاطفہ اور گریہ مقصد ہونا چاہیے۔
آخر میں اس نقطہ کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری ہے کہ امام حسین علیہ اسلام پر گریہ و سوگواری کرنے کے ساتھ ساتھ مکتب امام حسین علیہ اسلام سے آشنائی بھی لازم و ضروری ہے۔جب امام حسین علیہ اسلام اور ان کے اصحابِ باوفا پر گریہ کرتے ہیں تو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ امام حسین علیہ اسلام کیوں شہید ہوئے اور ان کا مقصد کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟اور کیا ہم ان کے مقصد پر عمل کر رہے ہیں۔۔؟اگر مام حسین علیہ اسلام پر گریہ کریں لیکن نعوذ باللہ ان کے ہدف و مقصد کو نہ سمجھیں اور اس پر عمل نہ کریں تو امام حسین علیہ اسلام اس گریہ سے راضی نہیں۔
امام حسین علیہ اسلام کیوں فراموش نہیں ہوتے
البتہ جو سوال ابھی تک کافی لوگوں کے لیے واضح نہیں ہوا۔اور ان کے نزدیک ایک معمہ کی صورت میں باقی ہے وہ یہ ہے کہ اس تاریخی واقعہ کو کیوں اس قدر اہمیت دی جاتی ہے جبکہ کمیت و کیفیت کے اعتبار سے اس کے مشابہ اور واقعات بھی موجود ہیں؟کیا وجہ ہے کہ ہر سال اس واقعہ کے اجتماعات گزشتہ سال سے بھی زیادہ پر شکوہ اور باعزت منائے جاتے ہیں ؟کیا وجہ ہے کہ بنی امیہ جن کو ظاہری فتح ہوئی ان کا نام و نشان تک باقی نہیں لیکن واقعہ کربلا نے ایسا ابدی رنگ اختیار کر لیا ہے کہ لوگوں سے فراموش نہیں ہوتا ؟یہ سوالا ت اور ان سے ملتے جلتے جوابات واقعہ کربلا اور اس کے اہداف و مقاصد میں غور و فکر کرنے سے بخوبی واضح ہو جاتے ہیں اور میرے خیال میں اس مسئلہ کا تجزیہ و تحلیل ان لوگوں کے لیے جو تاریخِ اسلام سے واقف ہیں اتنا زیادہ پیچیدہ اور مشکل نہیں۔
واقعہ کربلا دو سیاسی پارٹیوں کی کرسی یا مال و دولت اور زمین وغیرہ حاصل کرنے پر جنگ نہ تھی۔یہ واقعہ دو گروہوں اور دو قبیلوں کی ذاتی دشمنی پر رونما نہیں ہوا۔یہ واقعہ دو فکری و عقیدتی مکاتب کا مبارزہ تھا یا درحقیقت حق و باطل کی جنگ تھی جو ابتدائے تاریخ بشریت سے جاری تھی اور ابھی تک ختم نہیں ہوئی ۔یہ مبارزہ اور جنگ تمام پیغمبروں اور تمام اصلاح طلب افراد کے مبارزہ کہ ایک کڑی تھی۔
بالفاظِ دیگر یہ واقعہ جنگِ بدر و احزاب ہی کے مقاصد کی تکمیل کا ایک حصہ تھا۔ یہ بات واضح و روشن ہے کہ جب پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بشریت کو بت پرستی یا خرافات اور جہالت و گمراہی سے نجات دینے کے واسطے فکری و اجتماعی انقلاب کی رہبری کے لئے قدم اٹھایا اور ضلالت و گمراہی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے حق طلب افراد کو اپنے ارد گرد جمع کیا تو اس وقت اس اصلاحی قیام کے مخالفین نے متحد و منظم ہو کر اس آواز کو خاموش کرنے کی خاطر اپنی تما م تر کوششیں شروع کر دیں۔ان اسلام و انقلاب دشمن عناصر کی باگ دوڑ بنی امیہ کے ہاتھ میں تھی مگر ان کی تمام تر کوششوں کے باوجود عظمتِ اسلام کے سامنے انہیں مجبوراً گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ان کی تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں ۔ ان کی ناکامی کا مطلب یہ نہ تھا کہ وہ پوری طرح ختم ہو چکے ہوں بلکہ جب انہیںیہ یقین ہو گیا کہ ظاہری طور پر اس انقلاب کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا تو انہوں نے ہر ناکام اور ضعیف دشمن کی طرح اپنی ظاہری و آشکارا کوششوں کو پسِ پردہ اور خفیہ صورت میں شروع کر دیا اور مناسب وقت و فرصت کے انتظار میں بیٹھ گئے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد بنی امیہ نے لوگوں کو زمانہ جاہلیت کی طرف لے جانے کے لیے حکومت اور حکومتی عہدوں میں نفوذ پیدا کرنے کی کوشش شروع کر دی اور مسلمان جس قدر زمانہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دور ہوتے گئے بنی امیہ کے لیے منساب موقع فراہم ہوتا گیا اور تقوی اور علمی، اخلاقی اور معنوی لیاقت کی بناء پر کسی کو کوئی عہدہ و مقام دیا جاتا تھا ۔مگر پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد رشتہ داری اور قوم و قبیلہ معیار بن گیا اور بعض خلفاء کے زمانہ میں حکومتی عہدوں کو خلفاء کے رشتہ داروں اور قوم و قبیلے میں تقسیم کیا جاتا تھا ،اسی اثناء میں بہت سے ایسے لوگ عہدوں پر فائز ہو گئے جو اپنے دل میں اسلام کے لیے بغض و عناد رکھتے تھے۔اور انہوں نے لوگوں کو زمانہ جاہلیت کی طرف واپس لے جانے کی کوششیں شروع کر دیں یہ کوشش اس قدر شدید تھی کہ حضرت علی علیہ اسلام جیسی پاک ترین شخصیت کو بھی اپنی خلافت کے دوران اسی منافقین اور اسلام دشمن عناصر کا سامنا کرنا پڑا ۔یہ اسلام دشمن سازش اس قدر آشکارا تھی کہ خود اس کے رہبر بھی اس کے غیر اسلامی اور اسلام دشمن ہونے پر پردہ نہ ڈال سکے ۔بلکہ ان کے اپنے بیانات سے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے اہداف و مقاصد کیا تھے۔اور وہ اسلام سے کس قدر محبت رکھتے تھے۔
جیسے بنی امیہ کے سب سے معتبر شخص کا بنی امیہ اور بنی مروان کے پاس خلافت منتقل ہونے کے بعد پوری بے شرمی سے یہ عجیب و غریب جملہ کہنا۔’’اے بنی امیہ، کوشش کرو کہ حکومت کو ایک ہاتھ میں لے لو ۔اور میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ بہشت و دوزخ کا وجود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قیام ایک سیاسی چال تھی۔‘‘یا شام کے گورنر کا عراق پر قبضہ کرتے وقت یوں اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کرنا’’اے لوگو!میں اس لئے نہیں آیا کہ تم لوگ نماز پڑھواور روزہ رکھو ، میں تم پر حکومت کرنے آیا ہوں جو شخص میری مخالفت کرے گا اس کو ختم کر دوں گا‘‘اور یزید لعین کا شہداء کے سروں کو دیکھ کر یہ کہنا’’ اے کاش آج میرے بزرگان زندہ ہوتے،جو جنگِ بدر میں مارے گئے اور دیکھتے کہ میں نے کس طرح بنی ہاشم سے بدلہ لیا ہے‘‘یہ بیانات ان کے غیر اسلامی اور اسلام دشمن اہداف و مقاصد پر بہترین دلیل ہیں اور ان کے ان بیانات سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ کس قدر اسلام کے دلدادہ تھے اور لوگوں کو کس طرف لے جانا چاہتے تھے۔کیا امام حسین علیہ اسلام اس خطرے کے مقابلے میں خاموش بیٹھ سکتے تھے؟جو اسلام کو لاحق تھا اور یزید کے دور میں اپنی آخری حد تک پہنچ چکا تھا۔کیا خدا، پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور وہ ہستیاں جنہوں نے اپنے پاک دامن میں انہیں تربیت دی تھی ، اس پر راضی ہوتے؟
کیا ان پر لازم نہیں تھا کہ گزشت و فداکاری کے ذریعے اس حکومت کو توڑ دیں جو معاشرہ پر سایہ فگن تھی ۔ بنی امیہ کے مذموم اور اسلام دشمن مقاصد کو آشکارا کریں اور اپنے پاک خون سے تاریخِ اسلام کے لئے درسِ عبرت اور مسلمانوں کے لیے نمونہ عمل کے طور پر باقی رہیں۔
امام حسین علیہ اسلام نے یہ کام اور اسلام کے مقابلہ میں اپنا فریضہ انجام دیا۔تاریخ کا رخ موڑ دیا اور بنی امیہ اور ان کے پیروکاروں کی ظالمانہ کوششوں کو ہمیشہ کے لیے ناکام بنا دیا۔
یہ ہے قیامِ حسین علیہ اسلام کی حقیقی صورتِ حال اور یہیں سے اس سوال کا جواب واضح ہو جاتا ہے کہ نام و تاریخِ حسین علیہ اسلام کیوں فراموش نہیں ہوتی؟کیونکہ امام حسین علیہ اسلام اور ان کا مقصد ایک خاص زمانہ اور ایک خاص عصر سے مختص نہ تھے۔امام حسین علیہ اسلام اور ان کا ہدف و مقصد جاودانی اور ہمیشگی تھا۔
امام حسین علیہ اسلام نے راہِ خدا و اسلام، راہِ حق و عدالت، اور جہالت و گمراہی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے انسانوں کو آزاد کرنے کے لئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔کیا یہ چیزیں کبھی پرانی اور فراموش ہونے والی ہیں؟ ہر گز نہیں!
تو جب تک حضرت امام حسین علیہ اسلام کا ہدف و مقصد یعنی خدا ، اسلام اور حق طلب انسان باقی ہیں تو اس وقت تک امام حسین علیہ اسلام فراموش نہیں ہو سکتے۔ زندگانی امام حسین علیہ اسلام کی اہمیت کہ جو تاریخِ بشریت کا ایک زریں ورق اور ہیجان انگیز ترین واقعہ سمجھا جاتا ہے۔فقط ا س وجہ سے نہیں کہ ہر سال لاکھوں کروڑوں انسانوں کے احساسات کو ابھارتا ہے اور دیگر تمام مراسم سے زیادہ ہیجان انگیز مراسم بپا ہوتے ہیں۔بلکہ اس کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ اس میں دینی اور انسانی عواطف و احساسات کے علاوہ اور کوئی چیز محرک نہیں اور یہ حقیقت بھی کسی پر مخفی نہیں کہ اس واقعہ کے لیے جو پر شکوہ اور باعظمت اجتماعات بپا ہوتے ہیں اس اعتبار سے بھی بے نظیر ہیں کہ وہ کسی قسم کے پروپیگنڈے کے محتاج نہیں۔
عزم و ہمت اور صبر و استقلال کے اس پیکر نے جواں بیٹے کی لاش خیمے میں رکھی ہوئی شہیدوں کی لاشوں کے ساتھ لا کر رکھ دی اور اس دفعہ خود میدان میں جانے کی تیاری شروع کر دی ۔ایک چھوٹا سا بچہ تلوار اٹھا کر سامنے آیا ۔یہ کون ہے۔یہ قاسم بن حسن بن علی ؑ ہے حضرت قاسم سے فرمایا بیٹے تو میرے بھائی حسن ؑ کی نشانی ہے تو آرام کر ! جواب دیا چچا جان ! میں قیامت کے دن اپنے باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟وہ کہیں کہ تیرے چچا شہید ہو گئے اور تو دیکھتا رہا۔نہیں میرے ننھے گلے پر پہلے تلوار چل لے پھر آپ کی باری آئے گی ۔آخر قاسم بن حسن ؑ بھی شہید ہو گئے ۔

لیکن یہ میدان امتحان و آزمائش تھا حسین ؑ تو ان مصائب و آلام میں صبر کر کے اپنے مولا کو راضی کر رہے تھے ان کے نانا ان کو تک رہے تھے کہ میرا حسین ؑ جسے میں نے اپنے کندھوں پر سوار کیا ہے،حضرت فاطمہ زہرا ؑدیکھ رہی تھیں ، کہ جس حسین ؑ کو میں نے دودھ پلایا ۔علی شیر خدا ملاحظہ فرما رہے تھے کہ جس کے رگ و ریشے میں میرا خون گردش کر رہا ہے آج اس مقام صبر اور مقام استقامت پر اس کے قدم کہیں لڑکھڑائے تو نہیں ہیں ؟حسین ؑ ابنِ علی ؑ اس حال میں صبر و رضا کا پیکر کل بن کر عزم وکے ساتھ مسکراتے رہے ۔

آخر جب امام حسین علیہ اسلام نے میدان میں آنے کا ارادہ کیا تو عابدؑ بیمار نکل آئے اور عرض کی اباجان !میرے ہوتے ہوئے آپ میدان میں جا رہے ہیں ۔میں بھی اپنے باقی بھائیوں کی طرح اپنے نانا جان کا دیدار کرنا چاہتا ہوں ،میں بھی اپنی دادی جان کی بارگاہ میں جا کر سرخ رو ہونا چاہتا ہوں ،اب شہادت کا جام پینے کی میری باری ہے ۔امام حسین ؑ نے فرمایا! تو رہ جا کہ خانوادہ رسول ؐ کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے ،ہر پھول مرجھا چکا ہے ۔اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا ہے مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تو بھی شہید ہو گیا تو تیرے نانا کی نسل کہاں سے چلے گی تو اپنے نانا کی نسل کی بقاء کے لیے زندہ رہ۔

حضرت امام حسین ؑ امام زین العابدین ؑ کو چھوڑ کر خود میدان کربلا میں اترے ۔آپ بھی دیر تک ہزاروں یزیدیوں کو واصلِ جہنم کرتے رہے ،پورے لشکر میں کہرام مچ گیا ۔علی شیر خدا کا یہ جواں بیٹا ،یہ اللہ کا شیر جس طرف تلوار لے کر نکل جاتا ہزاروں افراد بھیڑوں کی طرح آگے آگے بھاگنے لگتے۔آپ انہیں واصل جہنم کرتے رہے تلواروں اور نیزوں کے وار کھاتے رہے،سارا دن اسی طرح گزر گیا خیال آیا کہ وضو تازہ کر لوں ۔ دریائے فرات پر گئے پانچ سو کا لشکر دریا چھوڑ کر بھاگ گیا۔آپ نے وضو کرنے کے لیے فرات سے چلو میں پانی لیا تو خون آلودہ ہو گیا ۔آپ نے اس کو اچھالا اور واپس لوٹ آئے مسکرا کر آسمان کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا۔جمعہ کا دن تھا اب وہاں جمعہ کہاں نمازِ ظہر کا وقت آیا۔ فرمانے لگے یزیدیو! کچھ دیر رک جاؤ تاکہ اللہ کی بارگاہ میں دو سجدے ادا کر لوں ،لیکن وہ ظالم یہ مہلت دینے پر بھی تیار نہ تھے۔امام عالی مقام نے ان کے یہ عزائم دیکھ کر تلوار رکھ دی اور ظہر کی نماز کے لئے نیت باندھ لی۔ظالموں نے یہ نہ دیکھا کہ نماز ادا کر رہے ہیں کچھ دیر توقف کر لیں۔بلکہ انہوں نے موقع غنیمت جانا ،کہ خدا کا شیر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہے اور یہی موقع ہے کہ اس پر قابو پایا جا سکتا ہے،چاروں طرف سے چڑھائی کر دی ۔تیروں کی بوچھاڑ اور پے در پے حملوں نے نواسہ رسول ؐ کے جسم کو نڈھال کر دیا ۔چنانچہ گھوڑے سے گر گئے یہاں تک کہ جسم اطہر میں اٹھنے کی سکت باقی نہ رہی ،گرے ہوئے شیر کے سامنے آ کر بھی کوئی وار نہ کرتا تھا ،پیچھے سے وار کرتے۔نیزوں سے وار ہوتے ،امام حسین ؑ صبر و رضا اور توکل کے ساتھ سارے مرحلے کامیابی سے طے کر کے شہادت کے اس مقام پر پہنچ گئے جس کی عظمت و رفعت کو کوئی نہیں پا سکتا ان کی روح کو قدسیانِ فلک نے ایک جلوس کی صورت میں حضور ایزدی پہنچانے کے لیے تمام انتظا مات مکمل کر لیے تھے۔ادھر روح قفس عنصری سے پرواز کرنے لگی ۔ادھر ہاتف غیبی سے ندا آئی حسین ؑ اب آ جا تو نے صبر کو کمال عطا کر دیا استقامت کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔امت مصطفےٰ ؐ کا سر اونچا کر دیا ہے، اے حسین ؑ آج سے تیرے اقدام کو بنائے لا الہ قرار دیا جائے گا ۔ حسین ؑ اب آ جا ،اے روح طاہر ! ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیہ،جنت کے دروازے کھول دئیے گئے نانا جان استقبال کے لیے کھڑے ہیں اے حسین تو نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا ؑ بیٹے کو شاباش دیتی ہیں۔علی شیر خدا بیٹے کو آفرین کہتے ہیں ۔امام عالی مقام کی روح اس طرح ہجوم ملائکہ میں اللہ کی بارگاہ میں باریاب ہوتی ہے اور عزت پاتی ہے آپ کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا ہے ظالموں کے جذبہ انتقام کی پھر بھی تسکین نہیں ہوتی وہ جسم اطہر پر گھوڑے دوڑاتے ہیں ٹاپوں سے روندتے ہیں ۔انہیں خیال تک نہیں آتا کہ یہ وہ سر ہے جسے سرکار دو عالم ؐ چوما کرتے تھے ۔یہ وہ جسم ہے جسے اپنے کاندھے پر سوار کرتے تھے ۔اور اپنی پیٹھ پر سوار کر کے گھٹنوں کے بل چلتے تھے۔ عمرو بن سعد اور شمر ذی الجوشن نے مطالبہ کیا کہ ابھی رات کو جنگ شروع کی جائے۔امام حسین علیہ اسلام نے فرمایا کہ جب جنگ کا فیصلہ ہو ہی چکا ہے تو یہ ایک رات اللہ سے مناجات اور علیحدگی میں اس سے ملاقات کے لیے دے دو۔فیصلہ ہو گیا کہ کل دس محرم کو جنگ شروع ہو گی۔رات کو آپ اپنے خیمے میں گئے عزت مآب خواتین کو جمع کیا ۔اپنی بہن حضرت زینب ؑ کو زوجہ مطہرہ حضرت شہر بانو،چھوٹی شہزادیوں اور شہزادوں کو، خانوادہ رسول ؐ کے جوانوں کو ارشاد فرمایا!میں تم سے بے حد راضی ہوں اور خوش ہوں۔تم نے حق و صداقت ، وفا شعاری ادا کر دیا۔قیامت کے دن تمہارے حق میں گواہی دوں گا ۔تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ رات کے اندھیرے میں جہاں چاہو چلے جاؤ۔مجھے جام شہادت اسی میدان میں نوش کرنا ہے۔لیکن تمہیں اپنی خاطر جنگ میں جھونکنا اور مروانا نہیں چاہتا ۔عزیزوں کی آنکھیں پر نم ہو گئیں سب نے تھر تھراتے ہوئے لبوں سے جواب دیا کہ امام عالی مقام ہم اپنے خون کا آخری قطرہ بھی آپ کے قدموں میں گرا دیں گے۔اگر آج آپ کو تنہا چھوڑ دیا تو کل اپنے خدا اور نبی اکرم ؐ کو کیا منہ دکھائیں گے ۔ہم آپ کی خاطر کٹ مریں گے۔جانیں قربان کر دیں گے اور یزیدی لشکر کو بتا دیں گے کہ اہلِ بیت ؑ ایسے ہوتے ہیں ۔امام عالی مقام نے رات بھر صبر کی تلقین کی اہلِ بیت ؑ کے مقدس خیموں میں رات بھر تلاوت ہوتی رہی ،سجدے ہوتے رہے استغفار ہوتا رہا اور ذکر ہوتا رہا اور اللہ کی بارگاہ میں مناجات کرتے رہے ۔علی الصبح معرکہ کربلا بپا ہوا ۔سب سے پہلے یکے بعد دیگرے ایک ایک شخص آتا رہا اور قافلہ حسینی کے جوان یزیدی لشکر کے لوگوں کو واصل جہنم کرتے رہے ۔انہوں نے اجتماعی حملے کا فیصلہ کر لیا ۔لیکن ادھر سے ایک ایک جوا ن پورے قافلے کا مقابلہ کرتا رہا ۔سارے ساتھی جانثار شہید ہو گئے اب صرف اہلِ بیت نبوت ؐ کے افراد رہ گئے ۔امام حسین ؑ نے چاہا کہ اس خاندان سے میں آغاز کروں ،تلوار اٹھائی ،لیکن حضرت علی اکبر میدان میں آ گئے عرض کرنے لگے ابا جان ! بیٹا آپ کا جوان ہے اور جوان بیٹوں کے ہوتے ہوئے باپ کو ایسی تکلیف کی ضرورت نہیں ۔میدان میں پہنچے، جہاد شروع کیا ۔آپ کی تلوار جس سمت اٹھتی یزیدی فوج کے ٹکڑے اڑا دیتی۔آپ نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا،پھر آپ کا گھوڑا زخمی ہو گیا ۔حیدری خون اور حسینی شجاعت نے یزیدی لشکر کو مصیبت اور مشقت میں ڈال دیا۔اور ان کے پر خچے اڑا دئیے ، امام حسین ؑ چاہتے تھے کہ اپنے جوان بیٹے کو، شباب کے ماہ کامل کو، حسن کے ماہ تمام کو،اپنی آنکھوں سے لڑتا ہوا دیکھیں ۔لیکن میدان کرب و بلا کی گرد نے ان کو چھپا لیا تھا کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہیں اور ان پر کیا بیت رہی ہے بس اتنا اندازہ ہوتا تھا کہ جس سمت یزیدی لشکر کی بھیڑیں بھاگتیں، امام حسین ؑ اور اہلِ بیت ؑ کے لوگ سمجھ لیتے کہ حسین ؑ کا لاڈلہ بیٹا اس سمت جا رہا ہے۔یہ علی حیدر کرار کا پوتا اور حضرت محمد ؐ کا نواسہ دیر تک یزیدیوں کو واصل جہنم کرتا رہا۔پیاس کی شد ت نے آ گھیرا،جسم پر بیسیوں زخم لگ گئے پانی کا ایک گھونٹ بھر کر دوبارہ تازہ دم ہو نے کے لیے آئے تو عرض کیا ابا جان !اگر پانی کا ایک گھونٹ مل جائے تو پھر تازہ دم ہو کر حملہ کروں ۔فرمایا ! علی اکبر ! پانی تو میسر نہیں ۔لیکن اپنی سوکھی ہوئی زبان تیرے منہ میں ڈال سکتا ہوں ،حضرت علی اکبر نے امام عالی مقام کی سوکھی ہوئی زبان چکھی اور اس سے پھر تازہ دم ہو کر میدان میں پہنچے ،دیر تک لڑنے کے بعد بے اندازہ زخم کھا کر زمین پر گر پڑے ایک نیزہ آپ کے سینہ اقدس میں پیوست ہو گیا ۔اچانک زبان سے آواز آئی یا ابتاہ!اے ابا جان ،امام حسین ؑ بے ساختہ دوڑ پڑے جا کر اپنے بیٹے کو گود میں لے کر اٹھا لیا ۔بیٹا ایک عجیب انداز سے اپنے باپ کو تک رہا ہے عر ض کی ۔ابا جان اگر آپ نیزے کا یہ پھل جسم سے نکال دیں تو میں ایک بار پھر میدان میں جانے کے لیے تیار ہوں ۔آپ کا بیٹا دشمن کی کثرت کے باوجود ہمت ہارنے والا نہیں ۔امام حسین ؑ نے گود میں جوان بیٹے کو، اس ماہ تمام کو، اس حسن کے پیکر کو لیا ۔سر سے پاؤں تک جسم زخموں سے چور تھا آپ نے نیزے کا پھل نکالا۔خون کا فوارہ ابل پڑا ۔امام حسین ؑ جب علی اکبر کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے اس وقت آپ کی عمر 56سال پانچ مہینے اور پانچ دن تھی ۔ابنِ عساکر لکھتے ہیں کہ داڑھی اور سر کا ایک بال بھی سفید نہ تھا لیکن خون کے فوارے کو دیکھ کر اور جوان بیٹے کی روح قفس عنصری سے پرواز کرتی دیکھ کر ،اتنا صدمہ پہنچا ، اور اس قدر غم لاحق ہوا کہ جب جوان بیٹے کی لاش اٹھا کر واپس آئے تو سر اور داڑھی کے بال سفید ہو چکے تھے۔
عزم و ہمت اور صبر و استقلال کے اس پیکر نے جواں بیٹے کی لاش خیمے میں رکھی ہوئی شہیدوں کی لاشوں کے ساتھ لا کر رکھ دی اور اس دفعہ خود میدان میں جانے کی تیاری شروع کر دی ۔ایک چھوٹا سا بچہ تلوار اٹھا کر سامنے آیا ۔یہ کون ہے۔یہ قاسم بن حسن بن علی ؑ ہے حضرت قاسم سے فرمایا بیٹے تو میرے بھائی حسن ؑ کی نشانی ہے تو آرام کر ! جواب دیا چچا جان ! میں قیامت کے دن اپنے باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟وہ کہیں کہ تیرے چچا شہید ہو گئے اور تو دیکھتا رہا۔نہیں میرے ننھے گلے پر پہلے تلوار چل لے پھر آپ کی باری آئے گی ۔آخر قاسم بن حسن ؑ بھی شہید ہو گئے ۔

لیکن یہ میدان امتحان و آزمائش تھا حسین ؑ تو ان مصائب و آلام میں صبر کر کے اپنے مولا کو راضی کر رہے تھے ان کے نانا ان کو تک رہے تھے کہ میرا حسین ؑ جسے میں نے اپنے کندھوں پر سوار کیا ہے،حضرت فاطمہ زہرا ؑدیکھ رہی تھیں ، کہ جس حسین ؑ کو میں نے دودھ پلایا ۔علی شیر خدا ملاحظہ فرما رہے تھے کہ جس کے رگ و ریشے میں میرا خون گردش کر رہا ہے آج اس مقام صبر اور مقام استقامت پر اس کے قدم کہیں لڑکھڑائے تو نہیں ہیں ؟حسین ؑ ابنِ علی ؑ اس حال میں صبر و رضا کا پیکر کل بن کر عزم وکے ساتھ مسکراتے رہے ۔

آخر جب امام حسین علیہ اسلام نے میدان میں آنے کا ارادہ کیا تو عابدؑ بیمار نکل آئے اور عرض کی اباجان !میرے ہوتے ہوئے آپ میدان میں جا رہے ہیں ۔میں بھی اپنے باقی بھائیوں کی طرح اپنے نانا جان کا دیدار کرنا چاہتا ہوں ،میں بھی اپنی دادی جان کی بارگاہ میں جا کر سرخ رو ہونا چاہتا ہوں ،اب شہادت کا جام پینے کی میری باری ہے ۔امام حسین ؑ نے فرمایا! تو رہ جا کہ خانوادہ رسول ؐ کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے ،ہر پھول مرجھا چکا ہے ۔اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا ہے مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تو بھی شہید ہو گیا تو تیرے نانا کی نسل کہاں سے چلے گی تو اپنے نانا کی نسل کی بقاء کے لیے زندہ رہ۔

حضرت امام حسین ؑ امام زین العابدین ؑ کو چھوڑ کر خود میدان کربلا میں اترے ۔آپ بھی دیر تک ہزاروں یزیدیوں کو واصلِ جہنم کرتے رہے ،پورے لشکر میں کہرام مچ گیا ۔علی شیر خدا کا یہ جواں بیٹا ،یہ اللہ کا شیر جس طرف تلوار لے کر نکل جاتا ہزاروں افراد بھیڑوں کی طرح آگے آگے بھاگنے لگتے۔آپ انہیں واصل جہنم کرتے رہے تلواروں اور نیزوں کے وار کھاتے رہے،سارا دن اسی طرح گزر گیا خیال آیا کہ وضو تازہ کر لوں ۔دریائے فرات پر گئے پانچ سو کا لشکر دریا چھوڑ کر بھاگ گیا۔آپ نے وضو کرنے کے لیے فرات سے چلو میں پانی لیا تو خون آلودہ ہو گیا ۔آپ نے اس کو اچھالا اور واپس لوٹ آئے مسکرا کر آسمان کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا۔جمعہ کا دن تھا اب وہاں جمعہ کہاں نمازِ ظہر کا وقت آیا۔فرمانے لگے یزیدیو! کچھ دیر رک جاؤ تاکہ اللہ کی بارگاہ میں دو سجدے ادا کر لوں ،لیکن وہ ظالم یہ مہلت دینے پر بھی تیار نہ تھے۔امام عالی مقام نے ان کے یہ عزائم دیکھ کر تلوار رکھ دی اور ظہر کی نماز کے لئے نیت باندھ لی۔ظالموں نے یہ نہ دیکھا کہ نماز ادا کر رہے ہیں کچھ دیر توقف کر لیں۔بلکہ انہوں نے موقع غنیمت جانا ،کہ خدا کا شیر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہے اور یہی موقع ہے کہ اس پر قابو پایا جا سکتا ہے،چاروں طرف سے چڑھائی کر دی ۔تیروں کی بوچھاڑ اور پے در پے حملوں نے نواسہ رسول ؐ کے جسم کو نڈھال کر دیا ۔چنانچہ گھوڑے سے گر گئے یہاں تک کہ جسم اطہر میں اٹھنے کی سکت باقی نہ رہی ،گرے ہوئے شیر کے سامنے آ کر بھی کوئی وار نہ کرتا تھا ،پیچھے سے وار کرتے۔نیزوں سے وار ہوتے ،امام حسین ؑ صبر و رضا اور توکل کے ساتھ سارے مرحلے کامیابی سے طے کر کے شہادت کے اس مقام پر پہنچ گئے جس کی عظمت و رفعت کو کوئی نہیں پا سکتا ان کی روح کو قدسیانِ فلک نے ایک جلوس کی صورت میں حضور ایزدی پہنچانے کے لیے تمام انتظا مات مکمل کر لیے تھے۔ادھر روح قفس عنصری سے پرواز کرنے لگی ۔ادھر ہاتف غیبی سے ندا آئی حسین ؑ اب آ جا تو نے صبر کو کمال عطا کر دیا استقامت کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔امت مصطفےٰ ؐ کا سر اونچا کر دیا ہے، اے ھسین ؑ آج سے تیرے اقدام کو بنائے لا الہ قرار دیا جائے گا ۔حسین ؑ اب آ جا ،اے روح طاہر ! ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیہ،جنت کے دروازے کھول دئیے گئے نانا جان استقبال کے لیے کھڑے ہیں اے حسین تو نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔حضرت فاطمہ زہرا ؑ بیٹے کو شاباش دیتی ہیں۔علی شیر خدا بیٹے کو آفرین کہتے ہیں ۔امام عالی مقام کی روح اس طرح ہجوم ملائکہ میں اللہ کی بارگاہ میں باریاب ہوتی ہے اور عزت پاتی ہے آپ کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا ہے ظالموں کے جذبہ انتقام کی پھر بھی تسکین نہیں ہوتی وہ جسم اطہر پر گھوڑے دوڑاتے ہیں ٹاپوں سے روندتے ہیں ۔انہیں خیال تک نہیں آتا کہ یہ وہ سر ہے جسے سرکار دو عالم ؐ چوما کرتے تھے ۔یہ وہ جسم ہے جسے اپنے کاندھے پر سوار کرتے تھے ۔اور اپنی پیٹھ پر سوار کر کے گھٹنوں کے بل چلتے تھے۔
0
حج کے دنوں سے قبل روانگی اختیار فرمائی اس شاعر کی بات سننے کے با وجود آگے گئے ۔راستے میں حُر بن تمیمی ملا ۔اسے ابنِ زیاد نے لشکر دے کر بھیجا تھا تاکہ حسین علیہ اسلام تمہیں جہاں ملے اسے کوفہ میں داخل نہ ہونے دو اور کوشش کر کے میرے پاس لے آؤ ۔حُر نے کہا حسین ابنِ علی آپ کو پتہ چل چکا ہو گا کہ آپ کے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل شہید ہو گئے ہیں۔کوفی لوگ حسبِ دستور بے وفا ثابت ہوئے وہ آپ کی اطاعت سے پھر چکے ہیں ،حالات سازگار نہیں ہیں ۔بتائیے آپ کا کیا خیال ہے؟۔مجھے حکم ہے کہ میں آپ کو ابنِ زیاد کے پاس لے چلوں۔

امام عالی مقام نے اہلِ قافلہ سے مشورہ کیا اور یہ قرار پایا کہ فلحال میدان میں پڑاؤ کیا جائے۔امام علیہ اسلام جس میدان تک پہنچے اس میدان کی خبر تک نہ تھی کہ یہ کون سا میدان ہے،دریائے فرات کا کنارہ تھا خیال کیا کہ یہاں پانی قریب ہے کچھ آسانی ہو گی ۔یکم محرم کو اور بعض روایتوں کے مطابق دو محرم کو اسی میدان میں اترے اور ساتھیوں سے پوچھا یہ کونسا میدان ہے؟اس کا نام کیا ہے؟انہوں نے بتایا کہ حضرت اس کا نام کربلا ہے ۔فرمانے لگے پس یہیں خیمے لگا دو ۔یہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے اس جگہ پہنچتے ہی آپ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فرامین یاد آگئے جو آپ نے کربلا کے متعلق فرمائے تھے ۔اور بچپن کے زمانے کی یادیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی بشارتیں سامنے آ گئیں وہ بچپن کا لمحہ یاد آ گیا کہ جب امِ سلمہ رضی اللہ عنھما کی روایت کے مطابق حضرت امِ سلمہ کی گود میں امام عالی مقام علیہ اسلام کھیل رہے تھے کہ آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مقدس پر آنسو آگئے ام المومنین نے پوچھا ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے؟آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں؟فرمایا۔(ترجمہ):۔اے امِ سلمہ!میرے پاس جبریل آیا ہے اور اس نے شہزادے کی طرف اشارہ کر کے مجھے بتایا ہے کہ آقا! آپ کے بعد امت کا ایک ظالم گروہ، آپ کے بیٹے حسین کو غریب الوطنی کے عالم میں شہید کر دے گا اور عراق کے جس میدان میں ان کی شہادت ہو گی اس کا نام کرب و بلا ہے اور یہ اس زمانہ کی سرخ مٹی ہے حضور صلی اللہ ولیہ وآلہ وسلم نے اس مٹی کو سونگھ کر فرمایا۔’’ریح کرب و بلا‘‘حقیقت یہ ہے کہ اس مٹی سے بھی رنج و الم اور دکھ اور درد کی بو آ رہی ہے۔یہی وہ میدان ہے جس کی نسبت میرے بابا علی نے خبر دی تھی کہ یہاں میرے حسین اور اس کے قافلے کے خیمے لگیں گے یہاں ان مسافروں کے کجاوے رکھے جائیں گے ۔یہاں ان کا مقدس خون بہایا جائے گا ۔اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک مبارک گروہ بے دردی کے ساتھ یہاں شہید کر دیا جائے گا ۔ایسی شہادت کہ جس پر زمین بھی روئے گی اور آسمان بھی آنسو بہائے گا ۔اسی میدان کی مٹی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہاکو عطا کی تھی اور فرمایا تھا !’’جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا میرا بیٹا شہید کر دیا گیا‘‘

اے امِ سلمہ اس مٹی کو سنبھال کر رکھنا ۔مجھے معلوم ہے کہ جب میرے بیٹے حسین کی شہادت کا وقت آئے گا ۔تو اس وقت تو زندہ ہو گی جب یہ مٹی سرخ ہو جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ ساری بشارتیں پہلے سے دی جا چکی تھیں اس لیے امام عالی مقام نے اسی میدان کو اپنے سفر کی انتہا سمجھ کر خیمے لگائے اور یہ خیال فرمایا کہ دریا قریب ہے پانی میسر آئے گا۔لیکن ان ظالموں نے آپ کو پانی سے محروم کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔آٹھ دن عمرو بن سعد اور ابنِ زیاد کے درمیان آنے جانے میں گزر گئے کچھ گفت و شنید چلتی رہی ۔ابنِ زیاد نے جب سمجھا کہ عمر و بن سعد امام حسین علیہ اسلام کے قتل سے گریز کرنا چاہتا ہے تو اس نے شمر ذی الجوشن کو لشکر دے کر روانہ کیا اور کہا کہ عمرو بن سعد اگر حسین کے ساتھ مقابلہ کرے تو ٹھیک اگر متامل ہو تو اسے معزول کر کے لشکر کی قیادت تم سنبھال لینا۔شمر ذی الجوشن پہنچا تو محرم کا آغاز ہو چکا تھا عمرو بن سعد نے یہ دیکھا کہ حکومت مجھ سے چھینی جا رہی ہے ۔امام حسین کے ساتھ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔اور ابنِ زیاد کے کہنے پر پانچ سو لشکریوں کو بھیجا کہ وہ فرات پر قبضہ کر لیں اور حسین کو پانی کا ایک گھونٹ تک نہ لینے دیں۔

امام حسین علیہ اسلام مکہ معظمہ سے تین ذوالحجہ کو روانہ ہوئے راستے میں ایک شاعر ملا۔آپ نے پوچھا کہ کوفی کا کیا حال ہے؟اس نے جواب دیا ان کے دل آپ کے ساتھ مگر تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔آپ جب تین ذوالحجہ کو روانہ ہوئے تو آپ کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ کچھ دن اور گزار لیں ۔لیکن امام حسین علیہ اسلام کے سامنے اپنے نانا کا یہ ارشادِ مبارک تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ مکہ کے حرم کا تقدس قریش کے ایک شخص کے سبب پامال ہو رہا ہے ۔یہاں ایک شخص کے سبب خون بہہ رہا ہے ۔فرمانے لگے ممکن ہے کہ مکہ میں یزیدی فوج گرفتاری کے لیے اہتمام کرے اور ہمارے حامی ہمارے دفاع میں تلواریں اٹھا لیں ۔اور میرے سبب سے حرم مکہ میں خون بہے ۔میں نہیں چاہتا کہ اپنے نانا جان کے اس ارشاد کا مصداق بنوں۔ 
              جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
0
ابنِ زیاد اہلِ کوفہ کی نفسیات اور کمینہ فطرت سے بخوبی آگاہ تھا۔اسے علم تھا کہ یہ لوگ انتہائی بزدل ،ڈرپوک اور کم ہمت ہیں۔شیر کی طرح آگے آتے ہیں مگر مدِ مقابل کے تیور دیکھ کر فوراً ہی سہم جاتے ہیں اس نے ان کی اس بزدلی ،کم ہمتی اور بے غیرتی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔اور حضرت مسلم بن عقیل اور حضرت ھانی بن عروہ کو شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کہ ان حضرات کے سر کوفیوں کی بھیڑ میں پھینک دئیے جائیں ۔ان کے کٹے ہوئے سر دیکھتے ہی ان کی یہ سب نعرہ بازی ختم ہو جائے گی ۔ اور یہ جوش و خروش بھول کر دم دبا کر بھاگ جائیں گے۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ان دونوں کو شہید کر کے جب ان کے سر کوفیوں میں پھینکے تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔خوف سے کانپ اٹھے اور کھسکنا شروع ہو گئے ،آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اٹھارہ ہزار افراد میں سے ایک بھی نہ بچا اور سب دم دبا کر اور جان بچا کر بھاگ گئے۔

سوئے کوفہ روانگی

ادھر امام عالی مقام ، خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس اور عزت مآب خواتین اپنے بچوں ، دوستوں اور بہی خواہوں کو ساتھ لے کر عازمِ کوفہ ہو گئے حضرت عبداللہ بن عباس نے منع کیا ۔کہ بھائی جان کوفی بڑے بے وفا ہیں ،وہ ناقابلِ اعتماد ہیں ،آپ کوفہ نہ جائیے۔اسی طرح حضرت جعفر منع کرتے رہے ۔عبداللہ بن زبیر منع کرتے رہے لیکن امام عالی مقام علیہ اسلام سب کویہ جواب دیتے رہے کہ اب مسئلہ وفا اور بے وفائی کا نہیں مسئلہ اس دعوت کا ہے جس کا مجھ سے مطالبہ کیا گیا ۔کہ میں کلمہ حق بلند کرنے کے لیے جبر و بربریت کے خلاف، ظلم و ستم کے خلاف، کفر و طاغوت کے خلاف ،شریعت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احیاء کے لیے اور دینِ اسلام کی قدروں کو پامال ہونے سے بچانے کے لئے میدان میں آ جاؤں اور علم جہاد بلند کروں تاکہ میرے نانا جان کا دین پھر سے زندہ ہو سکے۔مسئلہ دین کو زندہ کرنے کا ہے،مسئلہ حق کی شمع روشن کرنے کا ہے ۔(یہاں بعض احباب نادانی یا بغضِ اہلیبیت علیہ اسلام میں کہ دیتے ہیں اور لکھ دیتے ہیں ۔کہ ایسے حالات میں جبکہ امام حسین علیہ اسلام کے پاس مسلح لشکر نہ تھا، فوج نہ تھی،سیاسی قوت نہ تھی ،حالات سازگار نہ تھے ۔ابنِ زیاد اور یزید کے پاس سب کچھ تھا ایسے حالات میں امام حسین علیہ اسلام کا ایسے مقام پر جانا(معاذ اللہ) خروج تھا۔یہ تصور سوائے اس کے کہ اہلِ بیت علیہ اسلام کا بغض اور آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دل میں عناد ہو اس کے سوا اور کوئی سبب نہیں۔

راہِ رخصت اور راہِ عزیمت

آپ کے ذہن صاف کرنے کے لیے میں ایک ضابطہ آپکے سامنے پیش کرتا ہوں : سنئیے ! شریعت مطہرہ میں ایسے مشکل وقت پر دو راستے بتائے جاتے ہیں اور دونوں راستے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے تجویز کردہ ہیں ۔ایک راستے کو راہِ رخصت کہا جاتا ہے اور ایک راستے کو راہِ عزیمت کہا جاتا ہے ۔اگر تو حالات سازگار ہوں ،جبر و بربریت ،کفر و ظلم اور باطل و طاغوت کا صفایہ آسانی سے کیا جا سکتا ہو ان حالات میں ہر چھوٹے بڑے پر،ہر کلمہ گو پر اس ظلم کے خلاف میدانِ کارزار میں نکل آنا فرض اور واجب ہو جاتا ہے۔پھر کسی شخص کے لیے سوائے کسی شرعی مجبوری کے کوئی عذر قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ لیکن حالات جب نا ساز گار ہوں ،جمیعت ،قوت اسلحہ اور بھاری فوج ساتھ نہ ہو اور باطل زیادہ مضبوط ہو ،طاقتور ہو ، قوی تر ہو ایسے حالات میں باطل کو ختم کرنے یا مٹا دینے کی صورت نظر نہ آتی ہوتو ان نا ساز گار حالات میں دو راستے شریعت نے امت کو عطا کیے ہیں ۔وہ لوگ جو حالات کی ناسازگاری کو دیکھیں انہیں اجازت ہے کہ وہ رخصت پر عمل کریں،گوشہ نشین ہو جائیں، چپکے سے لعنت ملامت کرتے رہیں،دل سے برا جانیں ۔لیکن مسلح کشمکش کے لیے میدان میں نہ آئیں ۔بے شک الگ تھلگ ایک جگہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کریں یہ راہِ رخصت ہے اور ہر دور میں اکثریت رخصت پر عمل کرتی رہی ہے اور راہِ رخصت پر عمل کرنا اسلام میں نا جائز ہے نہ حرام ہے اور نہ ہی اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے۔اسی لئے اللہ تعالی نے ہر اضطراری حالت میں رخصت کی اجازت دے رکھی ہے ۔لیکن اگر سبھی لوگ ایسے حالات میں رخصت پر ہی عمل شروع کر دیں تو ظلم و کفر اور طاغوت کو ختم کرنے کے لئے حالات کبھی ساز گار نہیں ہو سکتے۔اس لیے باوجود رخصت کے کچھ لوگ راہِ عزیمت پر بھی چلنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔وہ حالات کی سازگاری یا ناسازگاری کو نہیں دیکھتے وہ فوج اور لشکر کی بھاری اکثریت پر نظر نہیں ڈالتے ،وہ مسلح کشمکش میں ناکامی اور کامیابی کے انجام پر توجہ نہیں دیتے ۔بلکہ ان کی توجہ صرف اور صرف اس امر پر مرکوز ہوتی ہے کہ ہم اپنے تن کو ،اپنے من کو اللہ کے دین کے بچانے کے لیے کیسے قربان کریں ۔شاید تن میں لگی ہوئی یہ آگ ہی آئندہ نسلوں کے اندھیرے دور کر دے وہ اپنے خون سے پورے دین کی آبیاری کرنے کو ہی دین کے احیاء اور تحفظ کا باعث سمجھتے ہیں وہ حالات کی ناسازگاری سے بے خبر اور لا تعلق رہتے ہوئے اضطراری حالت میں بھی اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں اور سر بکف ہو کر میدانِ کارزار میں آجاتے ہیں وہ اپنی شان کے لائق اور اپنے مقام کی مناسبت سے اس اقدام کو فرض سمجھتے ہیں جس طرح ہر شخص راہِ رخصت پر عمل نہیں کر سکتا اسی طرح راہِ عزیمت پر چلنا بھی کسی کے بس کی بات نہیں۔

امام حسین علیہ اسلام نے یہ اقدام اس لیے کیا کہ ان کی رگ و پے میں علی ابنِ ابی طالب علیہ اسلام کا خون گردش کر رہا تھا حضرت سیدہ زہرا علیہ اسلام کی گود میں پرورش پائی تھی محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھوں پر سواری کی تھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان کو چوسا تھا ۔وہ علی کے فرزند اور کانوادہ نبوت کے چشم و چراغ تھے اس لیے جو احساس زیاں انہیں تھا وہ کسی کو نہیں ہو سکتا تھا وہ بنائے لا الہ تھے۔

اس لیے ظاہر ہے کہ راہِ عزیمت پر عمل کی عزت اس دور میں آپ کے سوا اور کسے نصیب ہو سکتی تھی؟اور پھر یہ بات بھی ذہن نشین فرما لیں کہ جو لوگ راہِ عزیمت پر چلتے ہیں وہ بھی حق بجانب ہوتے ہیں کسی شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ انہیں مطعون کرے اور برا بھلا کہے ۔اس لیے کہ انہیں حق دیا گیا ہے کہ راہِ رخصت اختیار کریں البتہ ایسے لوگوں کی راہ کو کوئی شخص اپنا اسوہ اور اپنا راہنما نہیں بناتا ،اہلِ عزیمت اور عشاق ان کی راہ پر چلتے ہیں جو لوگ اپنے گلے کٹواتے ہیں ۔اوراپنا خون دیتے ہیں اور قربانیاں دیتے ہیں وہ راہِ عزیمت پر چل کر قیامت تک ایک اسوہ حیات دے جاتے ہیں دین کو زندہ کرنے کے لیے ایک شاہراہ قائم کر دیتے ہیں ۔دینی اقدار کو مٹنے سے بچانے کے لیے اور پھر سے بحال کرنے کے لیے ایک ضابطہ حیات دے جاتے ہیں ۔اس لیے جن لوگوں نے امام حسین علیہ اسلام کے اقدام کو ان ظاہری حالات کی ناسازگاری کی بناء پر معاذ اللہ خروج اور بغاوت کا الزام دیا ہے وہ نہ تو دین کی روح اور تعلیم سے واقف ہیں اور نہ ہی شریعت اسلامیہ کے احیاء کے تقاضوں سے واقف ہیں ۔اور نہ ہی اس امر کی خبر رکھتے ہیں کہ اسلام کی قدریں مٹ رہی ہوں تو انہیں زندہ رکھنے کے لیے جان کی بازی کس طرح لگائی جاتی ہے۔اور شاید وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس وقت یزید کا تخت پر بیٹھنا اسلام کی تاریخ کو کس رخ پر ڈال رہا تھا۔اور اگر ایک حسین علیہ اسلام بھی میدانِ کارزار میں علمِ حق بلند کرنے کے لیے نہ نکلتا اور یہ بہتر تن بھی اپنے خون کا نذرانہ دینے کے لیے نہ نکلتے تو آج اسلام کی جو متاع ،،اسلام کی شریعت کے نفاذ کی صورت میں ،جمہوری قدروں کی صورت میں، آزادی کی صورت میں، عزت اور جاہ و شوکت کی صورت میں ،جس حال میں بھی نظر آ رہی ہے شاید اس کا نظارہ کہیں دکھائی نہ دیتا ۔اسلام کی پوری تاریخ اور امتِ مصطفوی مرہونِ منت ہے حسین ابن علی علیہ اسلام کے خون کے قطرات کی ،اور خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عظیم قربانی کی جس نے رخصت کو چھوڑ کر اپنے تن کو تو ماچس کی طرح جلا لیا اور عمر بھر کے لئے زمانے کی تاریکیوں اور اندھیروں کو اجالے میں بدل ڈالا ،یہی وجہ ہے کہ آج چودہ سو برس بیت گئے رخصت کی راہ پر چلنے والے ہزاروں تھے لیکن عزیمت کی راہ پر چلنے والے بہتر تھے جن کے قائد حسین ابنِ علی علیہ اسلام تھے چودہ صدیاں بیت گئیں دنیا جب بھی نام لیتی ہے بطورِ نمونہ کے، حسین ابنِ علی علیہ اسلام کا ہی نام لیتی ہے۔جبکہ یزید اور ابنِ زیادہ اور اس کا ہزاروں کا لشکر سوائے ایک گالی کے اور کسی مثال میں نہیں آتا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
ھانی بن عروہ چونکہ کوفہ کے رئیس تھے اس لیے ان کے قبیلے کے ہزاروں افراد ننگی تلواریں لے کر نکل آئے ،اس خیال سے کہ ھانی قتل کر دئیے گئے ہیں،یکایک کوفہ کی گلیوں میں ایک معرکہ بپا ہو گیا۔امام حسین علیہ اسلام کے نمائندے مسلم بن عقیل بھی تلوار لے کر میدانِ کارزار میں آ گئے ۔بعض روایات میں چار ہزار تعداد آئی ہے لیکن بعض نے چودہ ہزار کی تعداد بیان کی ہے ۔یہ سب حضرت مسلم کی قیادت میں ابنِ زیاد کے قلعے پر حملہ آور ہو گئے۔شام تک ابنِ زیاد نے تیروں کی بارش کی اتنا پتھراؤ اور ظلم و ستم کیا کہ چودہ ہزار افراد میں سے مغرب کے وقت تک کم و بیش پانچ سو کوفی حضرت مسلم بن عقیل کے ساتھ رہ گئے۔اور باقی سب لوگ بزدلی کے سبب ان کا ساتھ چھوڑ گئے ۔ آپ نے مغرب کی نیت باندھی پانچ سو کوفی آپ کے مقتدی تھے جب آپ نے سلام پھیرا اور پلٹ کر دیکھا تو ان پانچ سو کوفیوں میں سے ایک شخص بھی نہ تھا اندھیری رات میں ظالم و بے وفا لوگ حضرت مسلم کو تنہا چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس چلے گئے تھے۔اب کوفے کی ہولناک گلیوں میں ،رات کا ہیبت ناک ماحول ہے یزید اور ابنِ زیاد کے ظالمانہ اور بیہمانہ منصوبے ہیں اور وہ جو ہزاروں کی تعداد میں آ کے دستِ اقدس پر بیعت کر کے آپ سے غیر مشروط وفا داری کا وعدہ کر چکے تھے ان میں سے ایک شخص بھی حضرت مسلم کا سہارا بننے کے لیے تیار نہیں آپ ان بے حیاؤں کی بے غیرتی پر تعجب کرتے رہے۔آخر تھک ہار کر ایک دروازے پر چپکے سے بیٹھ گئے کہ چلو دیوار سے ٹیک لگا کر رات کی کچھ گھڑیاں بسر کرتے ہیں ۔اچانک دروازہ کھلا اور گھر کی مالکہ نے جھانک اور کہا اے بھائی تو کون ہے؟اور اس وقت میرے دروازے پر کیوں بیٹھا ہے؟فتنے کا زمانہ ہے سرکاری پہرے دار پھر رہے ہیں کوئی سپاہی تمہیں گرفتار کر کے لے جائے گا۔فرمانے لگے میں مسلم بن عقیل ہوں سارا دن صبح سے شام تک جہاد کرتا رہا ہوں اور بھوکا پیاسا ہوں اور جسم تھک کر چور چور ہو چکا ہے ۔مجھے رات کی چند گھڑیاں آرام کر لینے دے۔ وہ نیک بخت خاتون بھی اہلیبیت سے محبت کرنے والی تھی اور دل میں محبت چھپائے ہوئے تھی۔اس نے مسلم بن عقیل کو اپنے گھر میں جگہ دے دی ۔لیکن اسے کیا خبر تھی اس کا بیٹا مسلم بن عقیل کی تلاش میں سرگرداں ہے ،وہ جب رات کو پہنچا اس ماں نے اپنے کام کو کارِ خیر سمجھتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہا آج ہمارے گھر میں گلستانِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مہکتا ہوا پھول آیا ہے اس کے بیٹے نے خونخوار آنکھوں سے دیکھا اور ابنِ زیاد کو خبر کر دی۔اس کے سپاہی آئے اور مسلم بن عقیل پر حملہ آور ہو گئے ،دیر تک آپ نے دفاعی جنگ لڑی لیکن تنہا تھے گرفتار کر کے ابنِ زیاد کے پاس پہنچا دئیے گئے ابنِ زیاد نے آپ کو ھانی بن عروہ کے ساتھ قید میں رکھا۔ یہ خبر پھر کوفہ میں آگ کی طرح پھیل گئی اور کم و بیش اٹھارہ ہزار افراد پھرحضرت مسلم کی رہائی کے لئے آ گئے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
ابنِ زیاد کی مکروہ سازش

ابنِ زیاد نے کوفہ میں ایک جلسہ عام کا انتظام کیا اس میں ہزاروں افراد جمع کر کے اس نے برملا اعلان کر دیاکہ تم لوگ جانتے ہو کہ میرا باپ زیاد بن ابو سفیان جلاد تھااور میں بھی خون ریز اور سفاک ہوں۔مجھے معلوم ہو ا ہے کہ تم یزید کی بیعت اور اس کی حکومت سے انکاری ہوپس میں تمہیں سختی کے ساتھ اس بات سے منع کرتا ہوں اور یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو شخص حسین کے لیے مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کریگا میں اس کا نام صفحہ ہستی سے مٹا دوں گا۔میں تم سب لوگوں کے نام بھی جانتا ہوں اور تمہاری شکلیں بھی پہچانتا ہوں اور تمہارے خاندانوں سے بھی واقف ہوں۔اس کی اس ہیبت ناک گفتگو کے نتیجے میں وہ ہزاروں کوفی جو حضرت علی علیہ اسلام اور امام حسین علیہ اسلام کی حمایت اور غیر مشروط وفاداری کے علمبردار تھے وہ اپنی بزدلی کے باعث انہی قدموں پر پیچھے ہٹ گئے اور بہت سے لوگ خوف کے مارے چھپ گئے۔

بعد ازاں حضرت مسلم بن عقیل کی رہائش کی صحیح خبر معلوم کرنے کے لئے ایک غلام کو تین ہزار درہم دے کر بھیجااس کو اطلاع ہو گئی تھی کہ حضرت مسلم بن عقیل اس وقت کوفہ کے ایک رئیس اور امیر کبیر شخص کے گھر میں موجود ہیں۔جس کا نام ھانی بن عروہ ہے اور اہلیبیت علیہ اسلام کے ساتھ محبت کرنے والا ہے۔اس غلام سے کہا کہ تم ھانی کے گھر جاؤ اور یہ ظاہر کرو کہ تمہیں بصرہ والوں نے امام حسین علیہ اسلام کے حق میں ،حضرت مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے بطور نمائندہ بھیجا ہے اور یہ تین ہزار درہم انہوں نے بطور ہدیہ بھیجے ہیں۔اس بہانے صحیح صورتِ حال سے آگاہ ہو کر مجھے خبر دو۔ چنانچہ وہ غلام ھانی بن عروہ کے گھر پہنچا،دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا مجھے بصرہ والوں نے حضرت مسلم بن عقیل کے ہاتھ پر بیعت کرنے بطور نمائندہ بھیجا ہے تو وہ اس کی چکنی چپڑی باتوں میں آ گئیاور اندر حضرت مسلم بن عقیل کے پاس لے گئے،اس نے ان کے سامنے بھی وہ بات حلفاً کہی اور ان کے دستِ اقدس پر بیعت کرتے ہوئے تین ہزار درہم ہدیہ کے طور پر پیش کئے۔واپس آکر اس نے ابن زیاد کو خبر کی ابنِ زیاد نے اگلے روز ھانی بن عروہ کو بلایا اور کہا کہ ھانی!تم جانتے ہو کہ میرے باپ زیاد بن سفیان نے کوفہ میں ایک شخص بھی خاندانِ نبوت سے محبت کرنے والا نہیں چھوڑا تھاتیرے سوا سب کوختم کر دیا تھا ۔اور تجھ پر احسان کرتے ہوئے میرے والد نے تجھے معاف کر دیا تھا لیکن آج اسی اہلِ بیت کی محبت میں بنو امیہ کی دشمنی کما رہے ہو اور بنو امیہ اور یزید کے دشمن کو اپنے گھر پناہ دے رہے ہو ،حضرت ھانی نے انکار کر دیا لیکن جب اس نے غدار غلام کو پیش کیا تو آپ سمجھ گئے کہ سازش کا شکار ہو گئے ہیں اور ابنِ زیاد کو علم ہو گیا ہے۔

ابنِ زیاد بولا ! اب مسلم بن عقیل کو میرے سپرد کر دو !ھانی کہنے لگے میں یہ ظلم نہیں کر سکتا کہ خانوادہ رسول کے چشم و چراغ کو میں اپنے ہاتھوں سے گل ہوتا ہوا دیکھوں ۔اس نے ایک گرز ھانی بن عروہ کی پیشانی پر مارا جس سے ان کا سر پھٹ گیا۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا ایک انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ جذباتی وابستگی کے باعث کسی دوسرے کے حالات سے با خبر رہے؟ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ دلچسپ اور نمایاں واقعہ ایک نوجوان لڑکی کا ہے جس نے حکامِ اعلٰی کو اپنے خواب اور اس کے حیرت انگیز نتائج پر یقین کرنے کے لئے دعوتِ مبارزت دی تھی۔
مسز رینک(پولینڈ) کے اعلٰی حکام اس لڑکی کو اپنے لئے بلائے جان سمجھتے تھے جو وقتا فوقتا ان کے پاس آتی رہتی تھی اور درخواست کرتی کہ وہ اس کے بوائے فرینڈ کی تلاش میں اس کی مدد کریں جو جنگِ عظیم اول میں ایک سپاہی کی حیثیت سے شامل ہوا تھا اور ان لاکھوں افراد کی طرح لاپتہ ہو گیا تھا جو جنگ کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے تھے۔
1918 کے اکتوبر میں مرنا کو اپنے گمشدہ ساتھی کے متعلق ایک خوفناک خواب دکھائی دیا کہ وہ ایک اندھیری سرنگ میں راستہ تلاش کر رہا ہے۔ موم بتی روشن کرنے کے بعد وہ چٹانوں اور لکڑی کے مشترکہ ملبے کو ہٹانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے اور پھر اپنا سر گھٹنوں پر جھکا کر سسکیاں لے رہا ہے۔
اسے یہی خواب کئی مرتبہ دکھائی دیا لیکن 1919 کے موسم سرما کے وسط میں اس کے اس خواب میں قدرے تبدیلی رونما ہوئی۔ اس نے خواب میں پہاڑی کی چوٹی کے قریب ایک قلعہ دیکھا جس کا برج ٹوٹا ہوا تھا۔ جب وہ پتھروں کے انبار تک پہنچی تو اسے اپنے گمشدہ دوست سٹانی سلونس کی جانی پہچانی آواز سنائی دی جو مدد کے لئے پکار رہا تھا۔ یہ آواز ان پتھروں کے نیچے سے آ رہی تھی چنانچہ اس نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے چنانچہ وہ واپس مڑی اور اسی اثنا میں اس کی آنکھ کھل گئی۔ جب یہی خواب اسے بار بار دکھائی دیا تو اس نے اپنے خواب سے اپنی ماں کو آگاہ کیا۔ اس کی ماں نے یہ خواب شہر کے ایک بزرگ آدمی کو سنایا۔ بزرگ نے لڑکی کے خواب میں شک و شبے کا اظہار کیا اور ذہنی پراگندگی کو اس کا موجب قرار دیا۔ لیکن مرنا اتنی آسانی سے اس معاملے کو نظر انداز کرنے والی لڑکی نہیں تھی۔ شکستہ برج والا قلعہ کہاں ہے اسے اس بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ اس قلعہ کو ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ کیونکہ عہدِ ماضی کی یادگار کے طور پر بے شمار قلعے موجود تھے۔
وہ کئی دن تک یہ ڈراؤنا خواب دیکھتی رہی اور خواب میں اپنے بوائے فرینڈ کو اسی سرنگ میں راستہ تلاش کرتے دیکھتی۔ اسے وہ بوسیدہ قلعہ بھی دکھائی دیتا اور دور سے اپنے دوست کی آوازیں بھی سنائی دیتیں جو مدد کے لئے چلا رہا ہوتا تھا۔ بلآخر مرنا گرتے پڑتے بے سرو سامانی کی حالت میں اس طرف کو نکل گئی جہاں اس نے اپنے دوست کو آخری مرتبہ دیکھا تھا۔ اگرچہ اس قلعے تک پہنچنے کے امکانات بہت کم تھے۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری وہ سارا سارا دن چلتی اور رات کو سڑک کے کنارے ہی سو جاتی۔ راہ چلتے کچھ مہربان کسان اس کے لئے کھانا بھی لے آتے۔ انہوں نے مرنا کی کہانی بھی سن لی لیکن وہ اس کی کوئی مدد نہ کر سکے۔ جنگ کے متعلق تو انہوں نے کئی افسوسناک کہانیاں سنی تھیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے کئی پرانے اور شکستہ قلعوں کے متعلق بھی سن رکھا تھا اور چند ایک تو دیکھے بھی تھے لیکن ان میں سے یہ کون سا قلعہ تھا یہ کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔
15 اپریل 1920 کو وہ جنوب مشرقی پولینڈ کے ایک چھوٹے سے شہر زبوٹا کی ایک پہاڑی کے قریب پہنچی جس پر ایک شکستہ قلعہ بنا ہوا تھا۔ یہ قلعہ دیکھ کر خوشی سے اس کی چیخ نکل گئی یہ وہی جگہ تھی جسے اس نے خواب میں دیکھا تھا۔ وہ خوشی سے اس گرد آلود سڑک پر ناچنے لگی۔ وہ بے حد تھکی ہوئی تھی اور اس کے رخساروں پر آنسو رواں تھے وہ قصبے کے فوارہ چوک کے قریب ہی گر پڑی۔ ایک مجمع جلد ہی اس کے گرد جمع ہو گیا۔مقامی پولیس کا ایک افسر اس حادثے کی تحقیق کرنے آیا۔
مرنا ہوش میں آتے ہی قلعے کی طرف دیکھ کر بڑبڑائی۔“وہ وہاں ہے۔ وہ وہاں ہے“ پولیس کا مسلح آفیسر اس بات سے متاثر نہ ہوا۔ بے شک قلعہ وہاں پر موجود تھا اور کئی ہزار سالوں سے وہیں تھا اس کے متعلق اتنے تردد کی کیا ضرورت تھی۔جب مرنا نے اپنی پوری کہانی سنائی تو کسی نے بھی اس پر یقین نہ کیا۔ اسے محبت کی مریضہ کہا گیا۔ اس نے قلعے کی روڑی کو کھودنے اتنا اصرار کیا کہ ایک مشتاق ہجوم اس کے ساتھ ہو لیا اور پھر کئی لوگ خاموشی سے ان وزنی پتھروں کو ہٹانے لگے۔ انہوں نے متواتر دو دن یہ کام کیا۔ آخر کار انہوں نے زمین کے اندر داخل ہونے کا ایک راستہ دریافت کر لیا۔ ان کی حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے ایک انسانی آواز سنی جو گھپ اندھیرے سے آ رہی تھی۔
مرنا نے اسے سنا تو چیخ اٹھی۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے چٹان توڑی۔ پھر کارکنوں نے اس سوراخ کو اتنا بڑا کیا کہ اس میں سے ایک آدمی بخوبی اندر داخل ہو سکتا تھا۔ انہوں نے سٹانی سلونس کو اس سرنگ سے باہر نکالا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ وہ دو ماہ تک اس گھپ اندھیرے میں رہا تھا جس کی وجہ سے اب اسے روشنی تکلیف دینے لگی۔اس نے اتنا عرصہ پنیر اور شراب کے سہارے گزارا۔ روشنی کے لئے اس کے پاس موم بتیاں تھیں اور اس کے ساتھی صرف چوہے تھے۔
مرنا کا خواب حیرت انگیز حد تک درست ثابت ہوا تھا۔ یہ تمام واقعہ پولینڈ پولیس کا باقاعدہ تصدیق شدہ ہے۔ آخر کار سٹانی سلونس کو بڑی عزت کے ساتھ فوج سے ریٹائر کر دیا گیا اور اس نے مرنا کے ساتھ شادی کر لی جس نے اس کی جان بچائی تھی۔
بے تار برقی کے ذریعے پیغامات کی وصولی اور ترسیل کے کام میں مارکونی کی شہرت سے کئی سال پہلے کنٹوکی کا ایک کسان آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے کا طریقہ جانتا تھا اس کی اس حیرت انگیز کامیابی سے بھی زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ دنیا نے بے تار برقی کے موجد کی حیثیت سے اس کا نام فراموش کر دیا۔
1892 کے اس تاریخی دن کو ایک بہت بڑا ہجوم قصرِ شاہی کے صحن میں کھڑا تھا۔ لوگ وائرلیس کے موجد ناتھان سٹیبل فیلڈ کی کوششوں کا مذاق اڑانے کے لئے دور دور سے آئے تھے، ناتھان کا دعوی تھا کہ وہ ہوا میں وائرلیس کے ذریعے آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر سکتا ہے۔
جب سٹیبل فیلڈ نے بےتار برقی کے ذریعے پیغام بھیجنے کے فن کا مظاہرہ کیا تو کسی نے اسے چنداں اہمیت نہ دی۔ یہ تجربہ قصرِ شاہی کے صحن میں کیا گیا تھا۔
دو صندوق نما آلات ایک دوسرے سے دو سو فٹ کے فاصلے پر رکھے گئے تھے یہ آلات دو مربع فٹ کے تھے۔ اور کسی ذریعے سے بھی آپس میں ملے ہوئے نہیں تھے ان میں ٹیلی فون نما آلات نصب تھے۔ سٹیبل فیلڈ اور اس کا بیٹا قصرِ شاہی کی مخالف سمت سے ایک دوسرے سے گفتگو کر سکتے تھے۔ ریسیور میں ان کی آواز اتنی صاف اور نمایاں سنائی دیتی تھی کہ مشتاق افراد جنہوں نے ان آلات کے گرد ہالہ بنا رکھا تھا، ان کی گفتگو با آسانی سن سکتے تھے۔
جب یہ تاریخی تجربہ اختتام پذیر ہوا تو لوگوں نے سٹیبل کو مبارکباد دینے کی بجائے حقارت آمیز نعروں اور گالیوں سے نوازا۔ اس نے انا سارا سامان سمیٹا اور اپنی ویگن میں پھینک دیا یہ واقعہ 1892 کا ہے۔ مارکونی جو بعد میں وائرلیس کے موجد کی حیثیت سے مشہور ہوا اس وقت اس کی عمر صرف 18 سال تھی۔ ناتھان سٹیبل فیلڈ جس نے تاریخ میں سب سے پہلے عوام کے سامنے انسانی*آواز کو بلاواسطہ دوسری جگہ پہنچانے کا کارنامہ سر انجام دیا اور لوگوں کے مذاق کا نشانہ بنا ، کلوے کونئی(کنٹوکی) کے فارم میں بڑی مشکل سے بسر اوقات کرتا تھا۔ اس کی ایجاد کی خبر اخبار پوسٹ ڈسپیج کو پہنچی تو اس نے اس سے درخواست کی کہ وہ ان کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کرے۔ ایک ہفتہ بعد سٹیبل فیلڈ نے اس دعوت کا جواب دیتے ہوئے لکھا:
میں آپ کی دعوت قبول کرتا ہوں۔ آپ جس وقت چاہیں میرے غریب خانے پر حاضر ہو سکتے ہیں۔
فقط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناتھان سٹیبل فیلڈ
موجد بے تار برقی
اخبار پوسٹ ڈسپیج کا نمائندہ 10 جنوری 1902 کو اس کے چھوٹے سے فارم میں پہنچا۔ سٹیبل فیلڈ نے بے تار برقی کا ٹیلی فون نما آلہ اخباری نمائندے کے حوالے کیا۔ اس آلے کی ساخت ایسی تھی کہ اس میں فولاد کی چار فٹ لمبی دو سلاخیں لگی ہوئیں تھیں جنہیں زمین میں گاڑنے کے بعد پیغام سنا اور بھیجا جا سکتا تھا۔ اخباری نمائندے کو ہدایت کی گئی کہ وہ قرب و جوار میں جہاں بھی چاہے کھڑا ہو جائے اور سلاخوں کو زمین میں گاڑ کر کانوں سے لگا لے۔ اخباری نمائندے نے ایسا ہی کیا۔ اس نے اخبار میں تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا:
میں سٹیبل فیلڈ کے مکان سے ایک میل کے فاصلے پر چلا گیا جب میں نے رسیور کو کانوں سے لگایا تو مجھے ٹرانسمیٹر پر سٹیبل فیلڈ کے بیٹے کی آواز اس قدر صاف سنائی دی کہ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ میں کمرے کی دوسری طرف سے اس سے باتیں کر رہا ہوں۔
سٹیبل فیلڈ نے یہ آلہ کس طرح ایجاد کر لیا؟
اس نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ وہ اس برقی مقناطیسی میدان س کام لے رہا ہے جو زمین، پانی اور ہوا میں سرایت کر چکا ہے۔ اس نے پیشنگوئی کی کہ ایک نہ ایک دن وائرلیس کے ذریعے کنٹوکی کے کسان دارلحکومت سے نشر ہونے والی موسمی رپورٹ کو بخوبی سن سکیں گے۔
اس اخبار میں سٹیبل فیلڈ کے متعلق مضمون کی اشاعت کے بعد اسے فلاڈلفیا سے دعوتیں موصول ہونے لگیں تاکہ وہ دلچسپی رکھنے والے بڑے بڑے سرمایہ داروں کے سامنے اپنے فن کا مظاہرہ کر سکے۔
سٹیبل فیلڈ نے فلاڈلفیا آ کر بھی نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اس کے بعد وہ واشنگٹن چلا گیا جہاں اس نے اپنی ایجاد کی بدولت وقت کے سائنسدانوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ شکی مزاج لوگوں کا خیال تھا کہ اس کا تجربہ ناکام رہے گا کیونکہ یہ بات بعید از قیاس نظر آتی تھی کہ ایک ان پڑھ آدمی اور جُز وقتی کسان کنٹوکی کی پہاڑیوں سے آواز کی ترسیل او وصولی کا کارنامہ سر انجام دے سکے۔
اس دفعہ وائرلیس کے آلات ایک چھوٹی سی کشتی میں نصب کیے گئے تھے، بیسیوں نامی گرامی افراد ورجینا کے ساحل پر اپنی اپنی منتخب جگہ پر کھڑے تھے۔ جونہی کشتی نے پانی کو دھکیلنا شروع کیا حیرت انگیز امر کا رابطہ ساحل پر موجود افراد سے قائم ہو گیا۔ آواز صاف اور نمایاں سنائی دیتی تھی۔ واشنگٹن ایوننگ سٹار نے 20 مئی 1902 کی اشاعت میں جلی سرخیوں سے اس ایجاد کی خبر شائع کرتے ہوئے لکھا:
تاریخ میں سب سے پہلے کنٹوکی کے کسان سٹیبل فیلڈ کی ایجاد کی دولت وائرلیس کا پیغام ایک میل کے فاصلے سے سنا گیا۔
ساری دنیا اس کی تعریف میں رطب اللسان تھی۔ سرمایہ داروں نے سٹیبل فیلڈ کو اس ایجاد کی اصلاح میں سرمایہ لگانے کی پیشکش کی، لیکن اس نے اسے ٹھکرا دیا۔ وہ اپنے تمام آلات صندوق میں بند کر کے گھر روانہ ہو گیا اسے خدشہ تھا کہ کوئی اس کی ایجاد کا راز معلوم کر لے گا۔ اس نے اپنی ایجاد کو رجسٹر بھی کروایا لیکن بہت کم لوگوں کو اس رجسٹریشن کے بارے میں علم ہو سکا۔اور آخر کار وہی ہوا جس کا اسے*ڈر تھا۔
1929 کی ایک بہار میں ایک روز وہ اپنی معمولی جھونپڑی میں مردہ پایا گیا۔ اس کے تمام آلات غائب تھے اور اس کا سارا ریکارڈ بکھرا ہوا تھا۔ سٹیبل فیلڈ کی موت کے بعد قصرِشاہی کے صحن میں اس جگہ ایک مجسمہ نصب کیا گیا ہے جہاں سٹیبل فیلڈ نے تاریخ ساز تجربہ کیا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نے بہت پہلے بے تار برقی کے ذریعے پیغام رسانی کے متعلق پیشن گوئی کر دی تھی۔ اس نے ایک مرتبہ اپنے آپ سے کہا تھا۔“میں اپنے وقت سے پچاس سال پہلے پیدا ہو گیا ہوں“۔
ریڈیو کی ایجاد کا سہرا سٹیبل فیلڈ کے سر ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ یہ کارنامہ دنیا کے دلوں سے محو ہو گیا اور یہ اعزاز بعد میں مارکونی کے حصے میں آیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا مارکونی چور تھا؟
کیا یہ ایک شخص کے لئے ممکن ہے کہ اسے وہیل مچھلی نگل لے اور اور وہ اپنی آپ بیتی سنانے کے لئے زندہ رہے؟ سائنس کا جواب نفی میں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ برطانوی ملاح جیمز بارٹلی کو وہیل مچھلی نے نگل لیا مگر وہ زندہ رہا۔ اس حیرت انگیز واقعہ کا یہ پہلا دستاویزی ثبوت برطانوی بحرہ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔ ملاح کی حیثیت سے جیمز کا وہ پہلا سفر تھا۔ اس کا مچھلیاں پکڑنے والا جہاز ستارہ مشروق موافق ہواؤں کی وجہ سے تیز رفتاری سے چل رہا تھا۔ وہ جنوبی اوقیانوس میں فاک لینڈ کے جزیروں سے 100 میل مشرق کی طرف تھا۔
فروری 1891 کی کوئی تاریخ تھی۔ اچانک جیمز نے چلانا شروع کر دیا۔ وہیل مچھلی وہاں پھنکار رہی ہے۔ یہ مچھلی ان سے نصف میل کے فاصلے پر سطح آب پر ابھری تھی۔ جہاز نے بادبان ڈھیلے کر دئیے۔ مچھلیاں پکڑنے والے مچھیرے 3 کشتیوں میں سوار ہو گئے تاکہ وہیل مچھلی کا شکار کر سکیں۔
جیمز بارٹلی کی لمبی کشتی سب سے پہلے وہیل مچھلی کے قریب پہنچی۔ مچھریے آہستہ آہستہ چپو چلا کر اپنی کشتیاں وہیل مچھلی کے قریب لے گئے پھر انہوں نے برچھیوں سے وہیل پر کاری ضرب لگائی۔ بارٹلی اور اس کے ملاح ساتھی غیض و غضب سے بھری وہیل مچھلی سے پیچھے ہٹے تاکہ وہ اس کی دم سے بچ سکیں وہیل مچھلی کی دم پانی پر لگتی تو جھاگ کے چھینٹے اڑنے لگتے۔ وہ تیر اور بھالوں سے زخمی ہو کر تڑپ رہی تھی۔ ایک لمحہ کے لئے تو ایسا دکھائی دیتا تھا کہ قسمت ملاحوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ وہیل نے سمندر میں غوطہ لگایا اور پیچھے اس کی دُم سے 500 فٹ لمبی لہر پیدا ہوئی اور پھر خلافِ توقع یہ لہر ختم ہو گئی یہ اچھا شگون نہیں تھا۔ مچھلی اوپر آ*رہی تھی اب زندگی اور موت کا سوال تھا۔ ملاح اپنی اپنی کشتیوں پر مستعد ہو گئے تاکہ بوقتِ ضرورت خود کو کسی متوقع حملے سے دور لے جا سکیں۔
پھر اچانک سمندر پھٹ پڑا وہیل کے دوبارہ نمودار ہونے پر زبردست لہر پیدا ہوئی اور وہ جسمانی کرب سے بے چین ہو کر اچھلی خون کی وجہ سے سمندر کا پانی بھی سرخ ہو گیا۔ جہاز نے کشتیوں کے ملاحوں کو اوپر کھینچ لیا لیکن دو ملاح غائب تھے جن میں سے ایک جیمز بارٹلی تھا۔
ہوائیں جو ستارہ مشرق کو جائے حادثہ کی طرف لے گئی تھیں اب اس کا ساتھ چھوڑ رہی تھیں۔ جہاز پانی کے اتار چڑھاؤ میں ڈوب رہا تھا۔ اس منحوس دن سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے مردہ مچھلی جہاز سے 400 گز کے فاصلے پر سطح سمندر پر ابھری ملاحوں نے جلدی سے ایک رسے کا بندوبست کیا پھر وہ اسے رسے سے باندھ کر آہستہ آہستہ کھینچ کر جہاز کے قریب لے آئے۔ گرم موسم کے پیشِ نظر مچھلی کو چیرنا پھاڑنا ناگزیر تھا۔ لیکن ان کے پاس ایسے ذرائع نہیں تھے جس سے ہزاروں ٹن وزنی وہیل کو جہاز پر لادا جا سکتا اس لئے انہوں نے سمندر ہی میں اس کی کھال اتارنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ چربی حاصل کر سکیں۔ یہ خطرناک کام تھا کیونکہ سمندر میں خون پھیلنے سے کئی شارک مچھلیاں موقع پر پہنچ کر ان کے لئے خطرے کا باعث بن سکتی تھیں۔
رات کے 11 بجے سے پہلے جب جہاز کے تھکے ماندے ملازم لالٹینوں کی روشنی میں وہیل کا معدہ اور جگر نکال کر جہاز کے عرشے پر رکھ رہے تھے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ معدے میں کوئی چیز حرکت کر رہی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی ذی روح سانس لے رہی ہو۔ چنانچہ جہاز کا کپتان جلدی سے*ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے معدے میں سوراخ کیا اس سوراخ سے بوٹ پہنے ہوئے انسانی پاؤں نظر آئے۔ اور پھر جلد ہی انہوں نے گمشدہ ملاح جیمز بارٹلی کو وہیل کے پیٹ سے نکال لیا۔ وہ بے ہوش اور بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا لیکن ابھی زندہ تھا۔
ڈکاٹر نے حکم دیا کہ بارٹلی کے جسم پر سمندر کے پانی کی ایک بالٹی ڈالی جائے۔ بارٹلی ہوش میں آنے کے بعد ہذیان میں اول فول بکنے لگا۔ وہ تقریبا 2 ہفتے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا( جیسا کہ* ڈاکٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا اور تمام ملاحوں کے اس پر دستخط موجود تھے)۔
بارٹلی کے ہوش و حواس درست ہونے لگے، پھر کہیں ایک ماہ بعد وہ اپنی آپ بیتی سنانے کے قابل ہو سکا۔ اس نے بتایا کہ جب اس کی کشتی غرق ہونے لگی تو وہ ہوا میں اچھلا اور پھر سمندر میں گر گیا۔ سمندر کے پانی میں وہیل نے اپنا مہیب منہ کھولا ہوا تھا اور وہ آہستہ آہستہ اس کے حلق میں اتر گیا۔
جب وہیل اسے نگل رہی تھی تو وہ خوب چلایا۔ وہیل کے جبڑوں سے گزرتے ہوئے اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اسے چاقو چبھوئے جا رہے ہوں۔ اس کے بعد اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ کسی پھسلن سے نیچے لڑھک رہا ہے اور پھر وہ بے ہوش ہو گیا اور اسے کچھ بھی یاد نہ رہا۔
کپتان کے کیبن میں وہ تقریبا ایک گھنٹے بعد ہوش میں آیا۔وہ مچھلی کے پیٹ میں 15 گھنٹے رہا تھا۔ اس عرصہ میں اس کے جسم کے تمام بال گر گئے اور اس کی جلد غیر معمولی طور پر سفید ہو گئی اور وہ ہمیشہ کے لئے تقریبا اندھا ہو گیا۔ اس نے بقیہ زندگی اپنے وطن میں جوتے گانٹھنے میں گزار دی۔ دنیا کے اکثر حصوں سے ڈاکٹرز اسے دیکھنے کے لئے اور اس کی محیر العقول آپ بیتی سننے کے لئے آتے رہے۔ وہ اس حادثے کے بعد 18 سال تک زندہ رہا اس کے مقبرے پر اس کی آپ بیتی درج ہے اور آخر میں لکھا ہے۔
جیمز بارٹلی(1909۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔� �۔۔۔۔۔۔۔1870)
(یونس ثانی)
0


اس پر علماء فریقین کا اتفاق ہے کہ آپ کی کنیت“ ابوالقاسم“ اور “ابو عبداللہ“ تھی اور اس پر بھی علماء متفق ہیں کہ “ابوالقاسم“ کنیت خود سرور کائنات کی تجویز کردہ ہے۔ مندرجہ ذیل کتب ملاحظہ ہوں
جامع صغیر صفحہ 104۔
ابنِ جوزی کی کتاب تذکرہ خواص الامت مطبوعہ مصرصفحہ 204۔
روضۃ الشہداء صفحہ 439۔
علامہ ابن حجر مکی کی کتاب صواعق محرقہ مطبوعہ مصر صفحہ 134۔
علامہ عبدالرحمن جامی حنفی کی کتاب شواہد النبوت مطبوعہ نولکشور صفحہ 312 اور مطبوعہ مکتبہ نبویہ گنج بخش روڈ لاہور تاریخ اشاعت فروری 1995 کے صفحہ 366 سے صفحہ 374 تک۔
کشف الغمہ صفحہ 130۔
جلاء العیون صفحہ 298۔
درج ذیل تمام کتب اہلِ سنت والجماعت کے جید علماء کرام کی کتب ہیں۔
یہ مسلمات سے ہے کہ آنحضرت نے ارشاد فرمایا ہے کہ مہدی کا نام میرا نام اور ان کی کنیت میری کنیت ہو گی۔ لیکن اس روایت میں بعض اہلِ اسلام نے یہ اضافہ کیا ہے کہ آنحضرت نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مہدی کے باپ کا نام میرے والد محترم کا نام ہو گا۔ لیکن ترمذی شریف میں “اسم ابیہ اسم ابی“ نہیں ہے ۔ تاہم بقول صاحب المناقب علامہ کنجی شافعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ لفظ“ابیہ“ سے مراد ابوعبدالحسین ہیں۔یعنی اس سے اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ امام مہدی حضرت امام حسین کی اولاد سے ہیں۔ بعض علماء اس بات پر زور دیتے ہیں کہ جس مہدی کا ذکر احادیث میں آیا ہے اس کا نام “محمد“ اور والد کا نام “عبداللہ“ ہے۔ جبکہ شیعہ حضرات جس مہدی کا ذکر کرتے ہیں اس کا نام تو “محمد“ لیکن والد کا نام “حسن عسکری“ ہے لہذا شیعوں والا امام مہدی اصلی نہیں ہے۔ جبکہ ترمذی شریف کی حدیث میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ“اسم ابیہ اسم ابی“ یعنی اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام پر ہو گا۔
جمہور علماء اسلام امام مہدی کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اس میں شیعہ اور سنی کا سوال نہیں ہر فرقہ کے علماء یہ مانتے ہیں کہ آپ پیدا ہو چکے ہیں۔ ہم علماء اہلِ سنت کے اسماء مع ان کی کتابوں اور مختصر اقوال کے درج کرتے ہیں۔
(1) علامہ محمد بن طلحہ شافعی کتاب مطالب السئول فی مناقبِ آلِ رسول میں یہ فرماتے ہیں کہ“امام مہدی سامرہ میں پیدا ہوئے ہیں جو بغداد سے 20 فرسخ کے فاصلہ پر ہے“۔
(2) علامہ علی بن محمد بن صباغ مالکی کی کتاب فصول المہمہ میں ہے کہ“امام حسن عسکری گیارہویں امام نے اپنے بیٹے امام مہدی کی ولادت بادشاہ وقت کے خوف سے پوشیدہ رکھی“۔
(3) علامہ شیخ عبداللہ ابن احمد خشاب کی کتاب تاریخ موالید میں ہے کہ “ امام مہدی کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم ہے آپ آخری زمانہ میں ظہور و خروج کریں گے“۔
(4) علامہ محی الدین ابن عربی حنبلی کی کتاب فتوحات میں ہے کہ “ جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی تو امام مہدی ظہور کریں گے“۔
(5) علامہ شیخ عبدالوہاب شعرانی کی کتاب الیواقیت والجواہر میں ہے کہ “ امام مہدی 15 شعبان سنہ 255 ھجری میں پیدا ہوئے ہیں آپ اس وقت یعنی 958 ہجری میں ان کی عمر703 سال ہے“۔یہی مضمون علامہ بدخشانی کی کتاب مفتاح الجنات میں بھی ہے۔
(6) علامہ عبدالرحمن جامی حنفی کی کتاب شواہد النبوت مطبوعہ مطبع حیدری بمبئی میں ہے کہ “ امام مہدی سامرہ میں پیدا ہوئے ہیں اور ان کی ولادت پوشیدہ رکھی گئی ہے وہ امام حسن عسکری کی موجودگی میں غائب ہو گئے ہیں“۔اسی کتاب میں ولادت کا پورا واقعہ حکیمہ خاتون کی زبانی درج ہے۔
(7) علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی کتاب مناقب الآئمہ میں ہے کہ “ امام مہدی 15 شعبان سنہ 255 ھجری میں پیدا ہوئے ہیں۔امام حسن عسکری نے ان کے کان میں اذان و اقامت کہی ہے اور تھوڑا عرصہ کے بعد آپ نے فرمایا کہ وہ اس مالک کے سپرد ہو گئے جن کے پاس حضرت موسٰی بچپنے میں تھے“۔
( علامہ جمال الدین محدث کی کتاب روضۃ الاحباب میں ہے کہ “ امام مہدی 15 شعبان سنہ 255 ھجری میں پیدا ہوئے اور زمانہ معتمد عباسی میں بمقام“سرمن رائے“ “از نظر برایا غائب شد“ لوگوں کی نظروں سے سرداب میں غائب ہو گئے“۔
(9) علامہ عبدالرحمن صوفی کی کتاب مراۃ الاسرار میں ہے کہ “ آپ بطن نرجس سے 15 شعبان سنہ 255 ھجری میں پیدا ہوئے ہیں“۔
(10) علامہ شہاب الدین دولت آبادی صاحب تفسیر بحر مواج کی کتاب ہدایتہ السعدا میں ہے کہ“ خلافت رسول حضرت علی کے واسطے سے امام مہدی تک پہنچی۔ آپ ہی آخری امام ہیں“۔
(11) علامہ نصر بن علی جھمنی کی کتاب موالید آئمہ میں ہے کہ“ امام مہدی نرجس خاتون کے بطن سے پیدا ہوئے ہیں“۔
(12) علامہ ملا علی قاری کی کتاب مرقات شرح مشکٰوۃ میں ہے کہ“ امام مہدی بارہویں امام ہیں۔ شیعوں کا یہ کہنا غلط ہے کہ اہلِ سنت اہل بیت کے دشمن ہیں“۔
(13) علامہ جواد ساباطی کی کتاب براہین ساباطیہ میں ہے کہ“ امام مہدی اولاد فاطمہ سے ہیں۔ وہ بقولے سنہ 255 ھجری میں پیدا ہو کر ایک عرصہ کے بعد غائب ہو گئے ہیں“۔
(14) علامہ شیخ حسن عراقی جن کی تعریف کتاب الواقع میں ہے کہ انہوں نے امام مہدی سے ملاقات کی ہے“۔
(15) علامہ علی خواص جن کے متعلق شعرانی نے یوامح اور الیواقیت میں لکھا ہے کہ انہوں نے امام مہدی سے ملاقات کی ہے“۔
(16) علامہ شیخ سعدالدین کا کہنا ہے کہ“ امام مہدی پیدا ہو کر غائب ہو گئے ہیں۔“دور آخر زمانہ آشکار گردد“ اور وہ آخر زمانہ میں ظاہر ہوں گے جیسا کہ کتاب مقصد اقصی میں ہے“۔
(17) علامہ علی اکبر ابن اسداللہ کی کتاب مکاشفات میں ہے کہ آپ پیدا ہو کر قطب ہو گئے ہیں“۔
(1 علامہ احمد بلاذری بحوالہ احادیث لکھتے ہیں کہ آپ پیدا ہو کر محجوب ہو گئے ہیں“۔
(19) علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے رسالہ نوادر میں ہے کہ “محمد بن حسن (المہدی) کے بارے میں شیعوں کا کہنا درست ہے“۔
(20) علامہ شمس ابن حزری نے بحوالہ مسلسلات بلاوزی اعتراف کیا ہے۔
(21) علامہ علاؤالدولہ احمد سمنانی صاحب تاریخ خمیس در احوالی النفس نفیس اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ “امام مہدی غیبت کے بعد ابدال پھر قطب بن گئے“۔
(22) علامہ ملا حسین مینبدی کی شرح دیوان میں ہے کہ“ امام مہدی تکمیل صفات کے لئے غائب ہوئے ہیں“۔
(23) علامہ ذہبی اپنی تاریخ اسلام میں لکھتے ہیں کہ“ امام مہدی سنہ 256 میں پیدا ہو کر معدوم ہو گئے ہیں“۔
(24) علامہ ابن حجر مکی کی کتاب صواعق محرقہ مطبوعہ مصر میں ہے کہ“ امام مہدی المنتظر پیدا ہو کر سرداب میں غائب ہو گئے ہیں“۔
(25) علامہ عصر کی کتاب دفیات الاعیان کی جلد 2 صفحہ 451 میں ہے کہ“ امام مہدی کی عمر امام حسن عسکری کی وفات کے وقت 5 سال کی تھی وہ سرداب میں غائب ہو کر پھر واپس نہیں ہوئے“۔
(26) علامہ سبط ابن جوزی کی کتاب تذکرہ خواص الآمہ مطبوعہ مصر کے صفحہ 204 میں ہے کہ“ آپ کا لقب القائم، المنتظر، الباقی ہے“۔
(27) علامہ عبیداللہ امرتسری کی کتاب ارحج المطالب کے صفحہ 377 میں بحوالہ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان میں ہے کہ“ آپ اسی طرح زندہ اور باقی ہیں جس طرح عیسٰی (علیہ اسلام)، خضر (علیہ اسلام)، الیاس (علیہ اسلام) وغیرہم زندہ اور باقی ہیں“۔
(2 علامہ محمد سلیمان حنفی نقشبندی قندوزی بلخی کی کتاب ینابیع المودۃ مطبوعہ اسلامبول صفحہ 393 میں اور ینابیع المودۃ مطبوعہ انصاف پریس ریلوے روڈ لاہور تاریخ اشاعت 1974 ترجمہ و حواشی از جناب مولانا ملک محمد شریف صاحب قبلہ ملتان کے صفحہ 659 باب 71 سے لے کر صفحہ 763 باب 96 تک امام مہدی کے منتظر و باقی ہونے اور مختلف واقعات پیش آنے پر بے شمار روایات معتبر کتب اہلِ سنت کے حوالہ جات سے پیش کی گئی ہیں۔
(29) علامہ ابن خشاب نے کتاب موالید اہل بیت میں۔
(30) علامہ شبلنجی نے نور الابصار کے صفحہ 152 طبع مصر 1322 میں بحوالہ کتاب البیان لکھا ہے کہ “ امام مہدی غائب ہونے کے بعد اب تک زندہ اور باقی ہیں اور ان کا وجود باقی اور زندہ ہونے میں کوئی شبہ نہیں وہ اسی طرح زندہ اور باقی ہیں جس طرح حضرت عیسٰی علیہ اسلام، حضرت خضر علیہ اسلام اور حضرت الیاس علیہ اسلام وغیرہم زندہ اور باقی ہیں۔ ان اللہ والوں کے علاوہ دجال اور ابلیس بھی زندہ ہیں جیسا کہ قرآن مجید ، صحیح مسلم، تاریخ طبری وغیرہ سے ثابت ہے لہذا“لاامتناع فی بقائہ“ ان کے باقی اور زندہ ہونے میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ علامہ چلمی کتاب کشف الطنون کے صفحہ 208 میں لکھتے ہیں کہ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان ابو عبداللہ محمد بن یوسف کنجی شافعی کی تصنیف ہے“۔
(31) علامہ فاضل روزبہان کی ابطال الباطل میں ہے کہ“ امام مہدی قائم و منتظر ہیں۔ وہ آفتاب کی مانند ظاہر ہو کر دنیا کی تاریکی، کفر زائل کر دیں گے“۔
(32) علامہ علی متقی کی کتاب کنزالعمال مطبوعہ حیدر آباد دکن کی جلد 7 کے صفحہ 114 میں ہے کہ“ آپ غائب ہیں ظہور کر کے 9 سال حکومت کریں گے“۔
(33) علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب دُرمنثور مطبوعہ مصر جلد3 صفحہ 23 میں ہے کہ“ امام مہدی کے ظہور کے بعد عیسٰی علیہ اسلام نازل ہوں گے“۔وغیرہ وغیرہ۔
اسی طرح وہ شہر بہ شہر داخل ہو کر جنگ کرتا رہے گا تو پہلی جنگ حمص میں ہو گی دوسری رقہ میں پھر قریہ سبا میں اور یہ حمص میں ہونے والی سب سے بڑی جنگ ہو گی پھر وہ دمشق واپس آ جائے گا اور لوگ اس سے قریب ہو جائیں گے۔ پھر ایک لشکر مدینہ بھیجے گا اور ایک لشکر مشرق(عراق)کی طرف بھیجے گا تو بغداد میں ستر ہزار افراد مارے جائیں گے اور وہ تین سو حاملہ عورتوں کے پیٹ چاک کرے گا۔ پھر اس کا لشکر کوفہ کی طرف روانہ ہوگا۔ تو کتنے مرد و زن گریہ کناں ہوں گے اور وہاں بڑی خلقت قتل ہو گی اور مدینہ جانے والا لشکر جب سرزمینِ بیداء پر پہنچے گا تو جبریل ان پر عظیم صیحہ کریں گے تو پورے لشکر کو اللہ زمین میں دھنسا دے گا اور لشکر کے عقب میں دو شخص ہوں گے ایک خوشخبری دینے والا اور ایک ڈرانے والا۔ تو یہ دونوں لشکر پر وارد ہونے والی صورتِ حول کو دیکھیں گے کہ اہلِ لشکر کے سر زمین سے باہر ہیں اور دھڑ دھنسے ہوئے ہیں تو اپنا مشاہدہ بیان کریں گے۔ پھر جبریل ان دونوں پر صیحہ کریں گے تو ان کے چہرے کو اللہ پشتہ کی طرف کر دے گا ان میں کا خوشخبری دینے والا مدینہ آئے گا اور مدینہ والوں کو خوشخبری دے گا کہ اللہ نے انہیں بچا لیا اور دوسرا ڈرانے والا سفیانی کے پاس پلٹ کر جائے گا اور اسے فوج کی حالت کی خبر دے گا۔ آپ نے فرمایا کہ صحیح خبر جہنیہ(جہنیہ بنی قضاعہ کے ایک قبیلے کا نام ہے)کے پاس ہے۔ کیونکہ یہ بشیر و نذیر جہنیہ سے ہیں۔پھر اولادِ رسول میں سے ایک گروہ جو اشراف ہوں گے شہر روم کی طرف فرار کریں گے تو سفیانی روم کے حکمران سے کہے گا کہ ہمارے غلاموں کو ہمیں واپس دے دو تو وہ انہیں واپس بھیج دے گا، سفیانی مسجد دمشق کے مشرقی حصہ میں ان کی گردنیں کاٹ دے گا اور کوئی اس عمل پر ٹوکنے والا نہ ہو گا اور اس کی نشانی یہ ہو گی کہ شہروں میں شہر پناہیں بنائی جائیں گی۔ آپ سے کہا گیا یا امیرالمومنین! وہ شہر پناہیں بھی ہم سے بیان کر دیں آپ نے فرمایا ایک شہر پناہ(شہر پناہ یا فصیل سے مراد غالبا راڈر کا نظام ہے)کی شام میں تجدید کی جائے گی اور دو عجوز میں اور حران میں اور ایک واسط میں اور ایک بیضاء میں اور دو کوفہ میں اور ایک شوستر میں اور ایک آرمینہ میں اور ایک موصل میں اور ایک ہمدان میں اور ایک ورقہ میں اور ایک دیارِ یونس میں اور ایک حمص میں اور ایک مطر دین میں اور ایک رقطاء میں اور ایک رہبہ میں اور ایک ویر ہند میں اور ایک قلعہ میں بنائی جائے گی۔ لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ جب سفیانی ظاہر ہو گا تو بڑی بڑی جنگیں ہوں گی۔ اس کی پہلی جنگ حمص میں ہو گی پھر حلب میں پھر رقہ میں اور پھر قریہ سبا میں پھر راس العین میں پھر نصیبین میں اور پھر موصل میں اور یہ بڑی بھیانک جنگ ہو گی۔ پھر موصل میں بغداد کے مرد جمع ہو جائیں گے اور دیارِ یونس سے لخمہ تک بڑی ہولناک جنگ ہو گی، جس میں ستر ہزار مارے جائیں گے اور موصل میں شدید ترین قتال ہو گا تو سفیانی وہاں پہنچے گا اور ساٹھ ہزار افراد کو قتل کرے گا اور وہاں قارون کے خزانے ہیں اور وہاں عظیم حالات رونما ہوں گے جبکہ زمین دھنس چکی ہو گی سنگباری اور مسخ رونما ہو چکے گا اور دوسری زمینوں کی نسبت جلد دھنسے گی اس لوہے کی سیخ سے جو لرزنے والی زمین میں ہے اور سفیانی مسلسل ان لوگوں کو قتل کرے گا، جن کے نام محمد، علی، حسن، حسین، فاطمہ، جعفر، موسٰی، زینب، خدیجہ، اور رقیہ ہوں گے۔ یہ اس بغض و کینہ کے سبب ہو گا جو اسے آلِ محمد سے ہو گا۔ پھر سارے شہروں میں لوگ بھیجے گا اور بچوں کو جمع کروائے گا تو بچے اس سے کہیں گے کہ اگر ہمارے باپوں نے تیری نافرمانی کی ہے تو ہم نے کیا کیا ہے؟ تو ان بچوں میں سے جس کا نام مذکورہ ناموں میں سے ہو گا اسے تیل میں ڈلوا دے گا۔ پھر وہ تمہارے اس شہر کوفہ کی طرف آئے گا اور اس کی گلیوں میں حجام کی طرح چکر لگائے گا اور مردوں کے ساتھ وہی کرے گا جو بچوں کے ساتھ کیا تھا اور کوفہ کے دروازہ پر ان لوگوں کو پھانسی دے دیگا جن کے نام حسن و حسین ہوں گے۔ پھر وہ مدینہ جائے گا اور وہاں تین دن تک لوٹ مار کرے گا اور خلقِ کثیر کو قتل کر دے گا اور مدینہ کی مسجد پر حسن و حسین نامی لوگوں کو پھانسی دے گا۔ اس وقت اس کا خون جوش مارے گا۔ جیسا کہ یحیٰی بن ذکریا کے خون نے جوش مارا تھا۔ جب وہ دیکھے گا تو اسے اپنی ہلاکت کا یقین ہو جائے گا اور وہ واپس شام کی طرف فرار اختیار کرے گا۔ تو وہ پورے راستے اپنا کوئی مخالفت کرنے والا نہیں دیکھے گا۔ جب وہ شہر میں داخل ہو جائے گا تو وہ شراب نوشی اور دیگر گناہوں میں اپنے آپ کو معتکف کر لے گا اور اپنے ساتھیوں کو انہی کاموں کا حکم دے گا۔ پھر سفیانی اس حالت میں باہر آئے گا کہ اس کے ہاتھ میں ایک حربہ ہو گا اور ایک عورت کو لانے کا حکم دے گا کہ راستے کے بیچ وہ اس عورت سے بدکاری کرے وہ بدکاری کرے گا۔ پھر اس کے بعد اس عورت کا شکم چاک کر دے گا اور اس کے پیٹ سے بچہ نکل کر زمین پر گر جائے گا اس وقت کوئی یہ جرات نہ رکھتا ہو گا کہ اس عمل سے اظہارِ نفرت کرے۔ اس وقت آسمانوں میں فرشتے مضطرب ہو جائیں گے اور اللہ قائم کو جو میری ذریت سے ہے خروج کا اذن دے گا اور وہی صاحب الزمان ہے۔ پھر اس کی خبر ہر جگہ مشہور ہو جائے گی اس وقت جبریل صخرہ بیت المقدس پر اتریں گے اور اہلِ دنیا کے لیے آواز بلند کریں گے کہ حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا یقینا باطل بھاگنے والا ہے۔ پھر امیر المومنین علیہ اسلام نے ٹھنڈی سانس بھری اور نالہ و زاری کی اور فرمانے لگے:
اشعار کا ترجمہ:۔
میرے بیٹے جب ترک ہیجان میں آ جائیں اور صف آرائی کریں تو مہدی کی ولایت کا انتظار کرو جو عدل کے ساتھ قیام کرے گا۔
اور آلِ ہاشم کے بادشاہ جو روئے زمین پر ہوں گے وہ ذلیل ہو جائیں گے اور ان کی بیعت ان میں سے کی جائے گی جو لذت کے خواہاں اور بے ہودہ بات کرنے والے ہوں گے۔
اور وہ بچوں میں سے ایک بچہ ہے جس کی اپنی کوئی رائے نہ ہو گی نہ ذمہ دار ہو گا نہ عقلمند۔
پھر تم میں سے قائم حق قیام کرے گا حق کے ساتھ آئے گا اور حق پر عمل کرے گا۔
وہ رسول اللہ کا ہم نام ہے۔ میری جان اس پر فدا ہے تو اے میرے بیٹو! اسے رسوا نہ کرنا اور اس کی طرف عجلت کے ساتھ جانا۔(ختم شد)
اس کے بعد ظہور مہدی کا بیان ہے۔ آپ کی جنگوں اور فتوحات کا تذکرہ ہے آپ کے تین سو تیرہ اصحاب کا بہ قیدِ نام و مقام ذکر ہے۔ آپ کی حکومت کے استحکام کا بیان ہے اور آخر میں قیامت کے قائم ہونے کا بیان ہے۔ ہم نے اس پورے خطبہ سے فقط وہ حصہ نقل کیا ہے جو ہمارے موضوع یعنی واقعات و حوادثِ قبلِ ظہور سے متعلق ہے۔ اگر اس مختصر رسالہ میں گنجائس ہوتی تو از دیارِ بصیرت کے لئے پورا خطبہ بمعہ ترجمہ نقل کیا جاتا۔
خطبہ کے بارے میں:
میرے سامنے اس خطبہ کے مندرجہ ذیل نسخے ہیں
(1) الزام الناصب شیخ علی یزدی حائری جُز دوم تین خطبے۔
(2) الشیعہ والرجعۃ جز اول محمد رضا طبلسی
(3) نوائب الدہور حسن میر جہانی جز دوم
(4) نیابیع المودۃ شیخ سلیمان قندوزی
(5) خطبۃ البیان طبع بحرین

الزام الناصب اور الشیعۃ والرجعۃ میں خطبہ کی سند یہ ہے۔ محمد ابن احمد انباری۔ محمد ابن احمد جرجانی قاضی رے۔ طوق ابن مالک۔ عن ابیہ۔ عبداللہ بن مسعود۔ رفعہ الی علی ابن ابی طالب۔ محمد رضا طلبی نے اس خطبہ کو دوحۃ الانوار، شیخ محمد یزدی نے نقل کیا ہے اور نوائب الدہور میں یہ خطبہ عجائب الاخبار سید حسین توبلی سے نقل کیا گیا ہے۔ اس میں بھی یہی سلسلہ سند ہے۔ طلبی اور میر جہانی دونوں بزرگوں نے الذریعہ جلد ہفتم صفحہ 200 سے اس خطبہ کے متعلق معلومات اخذ کی ہیں۔ الذریعہ(طبع دوم صفحہ 200۔201 ) کے مطابق اس خطبہ کے نسخوں میں بہت اختلاف ہے۔ شیخ علی یزدی نے الزام الناصب میں اس کے تین نسخے نقل کئے ہیں۔ ایک میں اصحابِ قائم کا تذکرہ ہے دوسرے میں ان والیوں کا تذکرہ ہے، جنہیں آپ اپنی طرف سے معین فرمائیں گے اور تیسرا نسخہ الدرالمنظم فی اسرالاعظم تالیف محمد بن طلح شافعی متوفی 652 سے نقل کیا ہے۔ شیخ سراجدین حسن نے اس کے بعض اجزا الدرالمنظم سے اپنی کتاب میں نقل کیے ہیں۔ اس کا ایک نسخہ خطبہ اقالیم کے ساتھ مکتبہ آستانِ قدس میں موجود ہے، جس کا سن کتابت 923 ہے۔ سید شبر نے اس پورے خطبہ کو اپنی کتاب علامات الظہور میں نقل کیا ہے۔ حافظ رجب برسی کی مشارق الانوار میں بھی اس کے کچھ جملے ملتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اسے خطبۃ البیان کے نام سے نقل کیا ہے۔ قاضی سعید متوفی 1103 نے شرحِ حدیثِ غمامہ میں اسے مختصرا نقل کیا ہے۔ محقق قمی متوفی 1231 نے جامع الشتات( جلد 5صفحہ 95) میں قاضی سعید کے نسخے کے کچھ فقروں کی شرح لکھی ہے۔ اس خطبہ کی اور بھی شرحیں ہیں، جن کا تذکرہ الذریعہ جلد 13 صفحہ 210،211 پر موجود ہے۔ اس کی ایک شرح خلاصہ الترجمان کے نام سے اور دوسری معالم التنزیل کے نام سے بھی ہے۔ نور علی ساہ متوفی 212 نے اس خطبہ کا فارسی ترجمہ کیا ہے، جس کا ایک جز ان کے دیوان کے ساتھ مکتبہ سپہ سالار تہران میں موجود ہے۔ کاشان کے حاکم شمس شمس الدین محمد کے حکم سے سن 846 میں اس کا منظوم ترجمہ کیا گیا۔ البتہ یہ خطبہ نہ نہج البلاغہ میں ہے نہ مناقب ابنِ شہر آشوب میں نہ بحارالانوار میں۔ اس خطبہ کے سلسلہ میں دو قول ہیں بعض کے خیال میں یہ کوفہ کا خطبہ ہے اور بعض کی رائے کے مطابق یہ بصرہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ دو ہوں۔
اس خطبہ کے سلسلہ میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ اس کے نسخوں میں شدید اختلاف ہے۔ کسی نسخہ میں کچھ کم ہے کسی میں کچھ زیادہ ہے اور کسی نسخہ میں ایک فقرہ کی جگہ دوسرا ہے۔ اس کے علاوہ استناخ کے مسائل کی وجہ سے بھی لفظوں اور جملوں میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ محمد رضا اور میر جہانی کی رائے اس خطبہ کے سلسلے میں معتدل ترین رائے ہے۔ بعض نسخوں میں بعض فقرے قرآن مجید کی آیات و نصوص کے خلاف ہیں، لہذا یہ باور کیا جاتا ہے کہ مختلف ادوار میں صاحبانِ غرض نے اس میں کچھ ایسے اضافے کر دئیے ہیں جو ان کے مفیدِ مطلب تھے۔ لہذا اس خطبہ کے سلسلے میں محتاط رائے یہ ہے جو جملے بلکل ہی کتاب و سنت سے متصادم ہیں وہ الحاقی ہیں اور کلامِ امام نہیں ہیں۔ البتہ جن فقروں کی تاویل ممکن ہے ان کی تاویل کی جانی چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چند فقروں کے سبب پورا خطبہ مشکوک قرار دے دیا جائے، محقق قمی نے تحریر کیا ہے کہ اگر خطبۃ البیان جیسی باتیں ان کی طرف منسوب کی جائیں تو ان کے ظاہر پر حکم نہیں لگانا چاہیے اور نہ سرے سے ان کو باطل قرار دینا چاہیے۔
اس خطبہ کو پڑھنے والا میری اس بات کی تائید کرے گا کہ اس خطبہ میں بہت مقامات پر خطیب منبر سلونی کا اسلوب بھی ہے، لب و لہجہ بھی ہے اور تیور بھی ہے یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ اختلافِ رائے بھی فقط ان جملوں میں ہے جن میں امیرالمومنین نے اپنی ذات پر افتخار کیا ہے۔ وہ جملے اَناَ(میں) سے شروع ہوتے ہیں۔ اس اختلاف کا پیشگوئیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا میں نے وہ اختلافی حصہ یہاں نقل نہیں کیا ہے، خطبہ میں نامانوس اور اجنبی الفاظ کی کثرت ہے اور بعض فقرے ایسے ہیں جو بہت عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم معموں جیسے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ پیش گوئیوں کے موضوع پر لب و لہجہ میں ابہام اور اجمال دونوں ضروری تھے تاکہ باتیں اپنے اپنے وقت پر کھلتی چلی جائیں۔ ایسے فقروں کو اگر متشابہات قرار دیا جائے تو مناسب ہو گا۔
04/09/2010. Powered by Blogger.