کربلا کے جلتے صحرا میں
یہ کون آیا ہے کیمیاءگر
دینِ حق کا علاج کرنے
ہیں جس کےپاس ایسے نایاب نسخے
کوئی ثمر ہے اٹھارہ سالوں کی کاوشوں کا
کسی پہ کی تیرہ سال محنت
ہے اِک بتیس سالہ آزمودہ نُسخہ
یہ نُسخے سب آزما چُکا ہے
بیمار اسلام کو ہوش آ چُکا پے
مگر انوکھا وہ کیمیاء گر
حُسین(علیہ سلام) صابر
اک انمول ششما ہے نُسخے کو لا رہا ہے
اَزل کے وعدے نِبھا رہا ہے
نحیف و لاچار دینِ حق کو حیاتِ ابدی دلا رہا ہے
اُس آخری معصوم نُسخے سے
پاک جوہر کے چند قطرے چھلک پڑے ہیں
اُن چند قطروں کو کیمیاءگر
کیوں ریشِ اقدس پہ مَل رہا ہے
دِلِ دوعالم دہل رہا ہے
اَب جو اُس کیمیاءگر نے
دِیں کی نبضوں پہ ہاتھ رکھا
تو دیں شفایاب ہو چُکا تھا
دِین نے جب سَر اُٹھا کے دیکھا
تو کیمیاء گر بھی کھو چُکا تھا
قاسم علی کوثر
یہ کون آیا ہے کیمیاءگر
دینِ حق کا علاج کرنے
ہیں جس کےپاس ایسے نایاب نسخے
کوئی ثمر ہے اٹھارہ سالوں کی کاوشوں کا
کسی پہ کی تیرہ سال محنت
ہے اِک بتیس سالہ آزمودہ نُسخہ
یہ نُسخے سب آزما چُکا ہے
بیمار اسلام کو ہوش آ چُکا پے
مگر انوکھا وہ کیمیاء گر
حُسین(علیہ سلام) صابر
اک انمول ششما ہے نُسخے کو لا رہا ہے
اَزل کے وعدے نِبھا رہا ہے
نحیف و لاچار دینِ حق کو حیاتِ ابدی دلا رہا ہے
اُس آخری معصوم نُسخے سے
پاک جوہر کے چند قطرے چھلک پڑے ہیں
اُن چند قطروں کو کیمیاءگر
کیوں ریشِ اقدس پہ مَل رہا ہے
دِلِ دوعالم دہل رہا ہے
اَب جو اُس کیمیاءگر نے
دِیں کی نبضوں پہ ہاتھ رکھا
تو دیں شفایاب ہو چُکا تھا
دِین نے جب سَر اُٹھا کے دیکھا
تو کیمیاء گر بھی کھو چُکا تھا
قاسم علی کوثر
0 comments:
Post a Comment