ابنِ زیاد اہلِ کوفہ کی نفسیات اور کمینہ فطرت سے بخوبی آگاہ تھا۔اسے علم
تھا کہ یہ لوگ انتہائی بزدل ،ڈرپوک اور کم ہمت ہیں۔شیر کی طرح آگے آتے ہیں
مگر مدِ مقابل کے تیور دیکھ کر فوراً ہی سہم جاتے ہیں اس نے ان کی اس
بزدلی ،کم ہمتی اور بے غیرتی سے پورا پورا فائدہ اٹھایا۔اور حضرت مسلم بن
عقیل اور حضرت ھانی بن عروہ کو شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ کہ ان حضرات کے
سر کوفیوں کی بھیڑ میں پھینک دئیے جائیں ۔ان کے کٹے ہوئے سر دیکھتے ہی ان
کی یہ سب نعرہ بازی ختم ہو جائے گی ۔ اور یہ جوش و خروش بھول کر دم دبا کر
بھاگ جائیں گے۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ان دونوں کو شہید کر کے جب ان کے سر کوفیوں میں پھینکے تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔خوف سے کانپ اٹھے اور کھسکنا شروع ہو گئے ،آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اٹھارہ ہزار افراد میں سے ایک بھی نہ بچا اور سب دم دبا کر اور جان بچا کر بھاگ گئے۔
سوئے کوفہ روانگی
ادھر امام عالی مقام ، خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس اور عزت مآب خواتین اپنے بچوں ، دوستوں اور بہی خواہوں کو ساتھ لے کر عازمِ کوفہ ہو گئے حضرت عبداللہ بن عباس نے منع کیا ۔کہ بھائی جان کوفی بڑے بے وفا ہیں ،وہ ناقابلِ اعتماد ہیں ،آپ کوفہ نہ جائیے۔اسی طرح حضرت جعفر منع کرتے رہے ۔عبداللہ بن زبیر منع کرتے رہے لیکن امام عالی مقام علیہ اسلام سب کویہ جواب دیتے رہے کہ اب مسئلہ وفا اور بے وفائی کا نہیں مسئلہ اس دعوت کا ہے جس کا مجھ سے مطالبہ کیا گیا ۔کہ میں کلمہ حق بلند کرنے کے لیے جبر و بربریت کے خلاف، ظلم و ستم کے خلاف، کفر و طاغوت کے خلاف ،شریعت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احیاء کے لیے اور دینِ اسلام کی قدروں کو پامال ہونے سے بچانے کے لئے میدان میں آ جاؤں اور علم جہاد بلند کروں تاکہ میرے نانا جان کا دین پھر سے زندہ ہو سکے۔مسئلہ دین کو زندہ کرنے کا ہے،مسئلہ حق کی شمع روشن کرنے کا ہے ۔(یہاں بعض احباب نادانی یا بغضِ اہلیبیت علیہ اسلام میں کہ دیتے ہیں اور لکھ دیتے ہیں ۔کہ ایسے حالات میں جبکہ امام حسین علیہ اسلام کے پاس مسلح لشکر نہ تھا، فوج نہ تھی،سیاسی قوت نہ تھی ،حالات سازگار نہ تھے ۔ابنِ زیاد اور یزید کے پاس سب کچھ تھا ایسے حالات میں امام حسین علیہ اسلام کا ایسے مقام پر جانا(معاذ اللہ) خروج تھا۔یہ تصور سوائے اس کے کہ اہلِ بیت علیہ اسلام کا بغض اور آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دل میں عناد ہو اس کے سوا اور کوئی سبب نہیں۔
راہِ رخصت اور راہِ عزیمت
آپ کے ذہن صاف کرنے کے لیے میں ایک ضابطہ آپکے سامنے پیش کرتا ہوں : سنئیے ! شریعت مطہرہ میں ایسے مشکل وقت پر دو راستے بتائے جاتے ہیں اور دونوں راستے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے تجویز کردہ ہیں ۔ایک راستے کو راہِ رخصت کہا جاتا ہے اور ایک راستے کو راہِ عزیمت کہا جاتا ہے ۔اگر تو حالات سازگار ہوں ،جبر و بربریت ،کفر و ظلم اور باطل و طاغوت کا صفایہ آسانی سے کیا جا سکتا ہو ان حالات میں ہر چھوٹے بڑے پر،ہر کلمہ گو پر اس ظلم کے خلاف میدانِ کارزار میں نکل آنا فرض اور واجب ہو جاتا ہے۔پھر کسی شخص کے لیے سوائے کسی شرعی مجبوری کے کوئی عذر قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ لیکن حالات جب نا ساز گار ہوں ،جمیعت ،قوت اسلحہ اور بھاری فوج ساتھ نہ ہو اور باطل زیادہ مضبوط ہو ،طاقتور ہو ، قوی تر ہو ایسے حالات میں باطل کو ختم کرنے یا مٹا دینے کی صورت نظر نہ آتی ہوتو ان نا ساز گار حالات میں دو راستے شریعت نے امت کو عطا کیے ہیں ۔وہ لوگ جو حالات کی ناسازگاری کو دیکھیں انہیں اجازت ہے کہ وہ رخصت پر عمل کریں،گوشہ نشین ہو جائیں، چپکے سے لعنت ملامت کرتے رہیں،دل سے برا جانیں ۔لیکن مسلح کشمکش کے لیے میدان میں نہ آئیں ۔بے شک الگ تھلگ ایک جگہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کریں یہ راہِ رخصت ہے اور ہر دور میں اکثریت رخصت پر عمل کرتی رہی ہے اور راہِ رخصت پر عمل کرنا اسلام میں نا جائز ہے نہ حرام ہے اور نہ ہی اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے۔اسی لئے اللہ تعالی نے ہر اضطراری حالت میں رخصت کی اجازت دے رکھی ہے ۔لیکن اگر سبھی لوگ ایسے حالات میں رخصت پر ہی عمل شروع کر دیں تو ظلم و کفر اور طاغوت کو ختم کرنے کے لئے حالات کبھی ساز گار نہیں ہو سکتے۔اس لیے باوجود رخصت کے کچھ لوگ راہِ عزیمت پر بھی چلنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔وہ حالات کی سازگاری یا ناسازگاری کو نہیں دیکھتے وہ فوج اور لشکر کی بھاری اکثریت پر نظر نہیں ڈالتے ،وہ مسلح کشمکش میں ناکامی اور کامیابی کے انجام پر توجہ نہیں دیتے ۔بلکہ ان کی توجہ صرف اور صرف اس امر پر مرکوز ہوتی ہے کہ ہم اپنے تن کو ،اپنے من کو اللہ کے دین کے بچانے کے لیے کیسے قربان کریں ۔شاید تن میں لگی ہوئی یہ آگ ہی آئندہ نسلوں کے اندھیرے دور کر دے وہ اپنے خون سے پورے دین کی آبیاری کرنے کو ہی دین کے احیاء اور تحفظ کا باعث سمجھتے ہیں وہ حالات کی ناسازگاری سے بے خبر اور لا تعلق رہتے ہوئے اضطراری حالت میں بھی اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں اور سر بکف ہو کر میدانِ کارزار میں آجاتے ہیں وہ اپنی شان کے لائق اور اپنے مقام کی مناسبت سے اس اقدام کو فرض سمجھتے ہیں جس طرح ہر شخص راہِ رخصت پر عمل نہیں کر سکتا اسی طرح راہِ عزیمت پر چلنا بھی کسی کے بس کی بات نہیں۔
امام حسین علیہ اسلام نے یہ اقدام اس لیے کیا کہ ان کی رگ و پے میں علی ابنِ ابی طالب علیہ اسلام کا خون گردش کر رہا تھا حضرت سیدہ زہرا علیہ اسلام کی گود میں پرورش پائی تھی محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھوں پر سواری کی تھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان کو چوسا تھا ۔وہ علی کے فرزند اور کانوادہ نبوت کے چشم و چراغ تھے اس لیے جو احساس زیاں انہیں تھا وہ کسی کو نہیں ہو سکتا تھا وہ بنائے لا الہ تھے۔
اس لیے ظاہر ہے کہ راہِ عزیمت پر عمل کی عزت اس دور میں آپ کے سوا اور کسے نصیب ہو سکتی تھی؟اور پھر یہ بات بھی ذہن نشین فرما لیں کہ جو لوگ راہِ عزیمت پر چلتے ہیں وہ بھی حق بجانب ہوتے ہیں کسی شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ انہیں مطعون کرے اور برا بھلا کہے ۔اس لیے کہ انہیں حق دیا گیا ہے کہ راہِ رخصت اختیار کریں البتہ ایسے لوگوں کی راہ کو کوئی شخص اپنا اسوہ اور اپنا راہنما نہیں بناتا ،اہلِ عزیمت اور عشاق ان کی راہ پر چلتے ہیں جو لوگ اپنے گلے کٹواتے ہیں ۔اوراپنا خون دیتے ہیں اور قربانیاں دیتے ہیں وہ راہِ عزیمت پر چل کر قیامت تک ایک اسوہ حیات دے جاتے ہیں دین کو زندہ کرنے کے لیے ایک شاہراہ قائم کر دیتے ہیں ۔دینی اقدار کو مٹنے سے بچانے کے لیے اور پھر سے بحال کرنے کے لیے ایک ضابطہ حیات دے جاتے ہیں ۔اس لیے جن لوگوں نے امام حسین علیہ اسلام کے اقدام کو ان ظاہری حالات کی ناسازگاری کی بناء پر معاذ اللہ خروج اور بغاوت کا الزام دیا ہے وہ نہ تو دین کی روح اور تعلیم سے واقف ہیں اور نہ ہی شریعت اسلامیہ کے احیاء کے تقاضوں سے واقف ہیں ۔اور نہ ہی اس امر کی خبر رکھتے ہیں کہ اسلام کی قدریں مٹ رہی ہوں تو انہیں زندہ رکھنے کے لیے جان کی بازی کس طرح لگائی جاتی ہے۔اور شاید وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس وقت یزید کا تخت پر بیٹھنا اسلام کی تاریخ کو کس رخ پر ڈال رہا تھا۔اور اگر ایک حسین علیہ اسلام بھی میدانِ کارزار میں علمِ حق بلند کرنے کے لیے نہ نکلتا اور یہ بہتر تن بھی اپنے خون کا نذرانہ دینے کے لیے نہ نکلتے تو آج اسلام کی جو متاع ،،اسلام کی شریعت کے نفاذ کی صورت میں ،جمہوری قدروں کی صورت میں، آزادی کی صورت میں، عزت اور جاہ و شوکت کی صورت میں ،جس حال میں بھی نظر آ رہی ہے شاید اس کا نظارہ کہیں دکھائی نہ دیتا ۔اسلام کی پوری تاریخ اور امتِ مصطفوی مرہونِ منت ہے حسین ابن علی علیہ اسلام کے خون کے قطرات کی ،اور خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عظیم قربانی کی جس نے رخصت کو چھوڑ کر اپنے تن کو تو ماچس کی طرح جلا لیا اور عمر بھر کے لئے زمانے کی تاریکیوں اور اندھیروں کو اجالے میں بدل ڈالا ،یہی وجہ ہے کہ آج چودہ سو برس بیت گئے رخصت کی راہ پر چلنے والے ہزاروں تھے لیکن عزیمت کی راہ پر چلنے والے بہتر تھے جن کے قائد حسین ابنِ علی علیہ اسلام تھے چودہ صدیاں بیت گئیں دنیا جب بھی نام لیتی ہے بطورِ نمونہ کے، حسین ابنِ علی علیہ اسلام کا ہی نام لیتی ہے۔جبکہ یزید اور ابنِ زیادہ اور اس کا ہزاروں کا لشکر سوائے ایک گالی کے اور کسی مثال میں نہیں آتا۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا ۔ان دونوں کو شہید کر کے جب ان کے سر کوفیوں میں پھینکے تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ۔خوف سے کانپ اٹھے اور کھسکنا شروع ہو گئے ،آہستہ آہستہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اٹھارہ ہزار افراد میں سے ایک بھی نہ بچا اور سب دم دبا کر اور جان بچا کر بھاگ گئے۔
سوئے کوفہ روانگی
ادھر امام عالی مقام ، خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مقدس اور عزت مآب خواتین اپنے بچوں ، دوستوں اور بہی خواہوں کو ساتھ لے کر عازمِ کوفہ ہو گئے حضرت عبداللہ بن عباس نے منع کیا ۔کہ بھائی جان کوفی بڑے بے وفا ہیں ،وہ ناقابلِ اعتماد ہیں ،آپ کوفہ نہ جائیے۔اسی طرح حضرت جعفر منع کرتے رہے ۔عبداللہ بن زبیر منع کرتے رہے لیکن امام عالی مقام علیہ اسلام سب کویہ جواب دیتے رہے کہ اب مسئلہ وفا اور بے وفائی کا نہیں مسئلہ اس دعوت کا ہے جس کا مجھ سے مطالبہ کیا گیا ۔کہ میں کلمہ حق بلند کرنے کے لیے جبر و بربریت کے خلاف، ظلم و ستم کے خلاف، کفر و طاغوت کے خلاف ،شریعت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احیاء کے لیے اور دینِ اسلام کی قدروں کو پامال ہونے سے بچانے کے لئے میدان میں آ جاؤں اور علم جہاد بلند کروں تاکہ میرے نانا جان کا دین پھر سے زندہ ہو سکے۔مسئلہ دین کو زندہ کرنے کا ہے،مسئلہ حق کی شمع روشن کرنے کا ہے ۔(یہاں بعض احباب نادانی یا بغضِ اہلیبیت علیہ اسلام میں کہ دیتے ہیں اور لکھ دیتے ہیں ۔کہ ایسے حالات میں جبکہ امام حسین علیہ اسلام کے پاس مسلح لشکر نہ تھا، فوج نہ تھی،سیاسی قوت نہ تھی ،حالات سازگار نہ تھے ۔ابنِ زیاد اور یزید کے پاس سب کچھ تھا ایسے حالات میں امام حسین علیہ اسلام کا ایسے مقام پر جانا(معاذ اللہ) خروج تھا۔یہ تصور سوائے اس کے کہ اہلِ بیت علیہ اسلام کا بغض اور آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دل میں عناد ہو اس کے سوا اور کوئی سبب نہیں۔
راہِ رخصت اور راہِ عزیمت
آپ کے ذہن صاف کرنے کے لیے میں ایک ضابطہ آپکے سامنے پیش کرتا ہوں : سنئیے ! شریعت مطہرہ میں ایسے مشکل وقت پر دو راستے بتائے جاتے ہیں اور دونوں راستے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے تجویز کردہ ہیں ۔ایک راستے کو راہِ رخصت کہا جاتا ہے اور ایک راستے کو راہِ عزیمت کہا جاتا ہے ۔اگر تو حالات سازگار ہوں ،جبر و بربریت ،کفر و ظلم اور باطل و طاغوت کا صفایہ آسانی سے کیا جا سکتا ہو ان حالات میں ہر چھوٹے بڑے پر،ہر کلمہ گو پر اس ظلم کے خلاف میدانِ کارزار میں نکل آنا فرض اور واجب ہو جاتا ہے۔پھر کسی شخص کے لیے سوائے کسی شرعی مجبوری کے کوئی عذر قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ لیکن حالات جب نا ساز گار ہوں ،جمیعت ،قوت اسلحہ اور بھاری فوج ساتھ نہ ہو اور باطل زیادہ مضبوط ہو ،طاقتور ہو ، قوی تر ہو ایسے حالات میں باطل کو ختم کرنے یا مٹا دینے کی صورت نظر نہ آتی ہوتو ان نا ساز گار حالات میں دو راستے شریعت نے امت کو عطا کیے ہیں ۔وہ لوگ جو حالات کی ناسازگاری کو دیکھیں انہیں اجازت ہے کہ وہ رخصت پر عمل کریں،گوشہ نشین ہو جائیں، چپکے سے لعنت ملامت کرتے رہیں،دل سے برا جانیں ۔لیکن مسلح کشمکش کے لیے میدان میں نہ آئیں ۔بے شک الگ تھلگ ایک جگہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کریں یہ راہِ رخصت ہے اور ہر دور میں اکثریت رخصت پر عمل کرتی رہی ہے اور راہِ رخصت پر عمل کرنا اسلام میں نا جائز ہے نہ حرام ہے اور نہ ہی اللہ کی ناراضگی کا سبب ہے۔اسی لئے اللہ تعالی نے ہر اضطراری حالت میں رخصت کی اجازت دے رکھی ہے ۔لیکن اگر سبھی لوگ ایسے حالات میں رخصت پر ہی عمل شروع کر دیں تو ظلم و کفر اور طاغوت کو ختم کرنے کے لئے حالات کبھی ساز گار نہیں ہو سکتے۔اس لیے باوجود رخصت کے کچھ لوگ راہِ عزیمت پر بھی چلنے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔وہ حالات کی سازگاری یا ناسازگاری کو نہیں دیکھتے وہ فوج اور لشکر کی بھاری اکثریت پر نظر نہیں ڈالتے ،وہ مسلح کشمکش میں ناکامی اور کامیابی کے انجام پر توجہ نہیں دیتے ۔بلکہ ان کی توجہ صرف اور صرف اس امر پر مرکوز ہوتی ہے کہ ہم اپنے تن کو ،اپنے من کو اللہ کے دین کے بچانے کے لیے کیسے قربان کریں ۔شاید تن میں لگی ہوئی یہ آگ ہی آئندہ نسلوں کے اندھیرے دور کر دے وہ اپنے خون سے پورے دین کی آبیاری کرنے کو ہی دین کے احیاء اور تحفظ کا باعث سمجھتے ہیں وہ حالات کی ناسازگاری سے بے خبر اور لا تعلق رہتے ہوئے اضطراری حالت میں بھی اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں اور سر بکف ہو کر میدانِ کارزار میں آجاتے ہیں وہ اپنی شان کے لائق اور اپنے مقام کی مناسبت سے اس اقدام کو فرض سمجھتے ہیں جس طرح ہر شخص راہِ رخصت پر عمل نہیں کر سکتا اسی طرح راہِ عزیمت پر چلنا بھی کسی کے بس کی بات نہیں۔
امام حسین علیہ اسلام نے یہ اقدام اس لیے کیا کہ ان کی رگ و پے میں علی ابنِ ابی طالب علیہ اسلام کا خون گردش کر رہا تھا حضرت سیدہ زہرا علیہ اسلام کی گود میں پرورش پائی تھی محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھوں پر سواری کی تھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان کو چوسا تھا ۔وہ علی کے فرزند اور کانوادہ نبوت کے چشم و چراغ تھے اس لیے جو احساس زیاں انہیں تھا وہ کسی کو نہیں ہو سکتا تھا وہ بنائے لا الہ تھے۔
اس لیے ظاہر ہے کہ راہِ عزیمت پر عمل کی عزت اس دور میں آپ کے سوا اور کسے نصیب ہو سکتی تھی؟اور پھر یہ بات بھی ذہن نشین فرما لیں کہ جو لوگ راہِ عزیمت پر چلتے ہیں وہ بھی حق بجانب ہوتے ہیں کسی شخص کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ انہیں مطعون کرے اور برا بھلا کہے ۔اس لیے کہ انہیں حق دیا گیا ہے کہ راہِ رخصت اختیار کریں البتہ ایسے لوگوں کی راہ کو کوئی شخص اپنا اسوہ اور اپنا راہنما نہیں بناتا ،اہلِ عزیمت اور عشاق ان کی راہ پر چلتے ہیں جو لوگ اپنے گلے کٹواتے ہیں ۔اوراپنا خون دیتے ہیں اور قربانیاں دیتے ہیں وہ راہِ عزیمت پر چل کر قیامت تک ایک اسوہ حیات دے جاتے ہیں دین کو زندہ کرنے کے لیے ایک شاہراہ قائم کر دیتے ہیں ۔دینی اقدار کو مٹنے سے بچانے کے لیے اور پھر سے بحال کرنے کے لیے ایک ضابطہ حیات دے جاتے ہیں ۔اس لیے جن لوگوں نے امام حسین علیہ اسلام کے اقدام کو ان ظاہری حالات کی ناسازگاری کی بناء پر معاذ اللہ خروج اور بغاوت کا الزام دیا ہے وہ نہ تو دین کی روح اور تعلیم سے واقف ہیں اور نہ ہی شریعت اسلامیہ کے احیاء کے تقاضوں سے واقف ہیں ۔اور نہ ہی اس امر کی خبر رکھتے ہیں کہ اسلام کی قدریں مٹ رہی ہوں تو انہیں زندہ رکھنے کے لیے جان کی بازی کس طرح لگائی جاتی ہے۔اور شاید وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ اس وقت یزید کا تخت پر بیٹھنا اسلام کی تاریخ کو کس رخ پر ڈال رہا تھا۔اور اگر ایک حسین علیہ اسلام بھی میدانِ کارزار میں علمِ حق بلند کرنے کے لیے نہ نکلتا اور یہ بہتر تن بھی اپنے خون کا نذرانہ دینے کے لیے نہ نکلتے تو آج اسلام کی جو متاع ،،اسلام کی شریعت کے نفاذ کی صورت میں ،جمہوری قدروں کی صورت میں، آزادی کی صورت میں، عزت اور جاہ و شوکت کی صورت میں ،جس حال میں بھی نظر آ رہی ہے شاید اس کا نظارہ کہیں دکھائی نہ دیتا ۔اسلام کی پوری تاریخ اور امتِ مصطفوی مرہونِ منت ہے حسین ابن علی علیہ اسلام کے خون کے قطرات کی ،اور خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس عظیم قربانی کی جس نے رخصت کو چھوڑ کر اپنے تن کو تو ماچس کی طرح جلا لیا اور عمر بھر کے لئے زمانے کی تاریکیوں اور اندھیروں کو اجالے میں بدل ڈالا ،یہی وجہ ہے کہ آج چودہ سو برس بیت گئے رخصت کی راہ پر چلنے والے ہزاروں تھے لیکن عزیمت کی راہ پر چلنے والے بہتر تھے جن کے قائد حسین ابنِ علی علیہ اسلام تھے چودہ صدیاں بیت گئیں دنیا جب بھی نام لیتی ہے بطورِ نمونہ کے، حسین ابنِ علی علیہ اسلام کا ہی نام لیتی ہے۔جبکہ یزید اور ابنِ زیادہ اور اس کا ہزاروں کا لشکر سوائے ایک گالی کے اور کسی مثال میں نہیں آتا۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment