• Feed RSS

غازیوں اور شہیدوں کو ان کے فقید المثال کارناموں پر اعزازات دئیے جاتے ہیں جو دلاوری ور شجاعت کے اعزازات ہیں جنہیں سپاہی میدانِ جنگ میں اپنی جرات و بسالت کے کارنامے دکھا کر حاصل کرتے ہیں ان کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
نشانِ حیدر
یہ اعلٰی ترین حربی اعزاز ہے جیسا کہ شروع میں بیان کیا جا چکا ہے۔اس اعزاز کا رتبہ فوجی،سول اور پولیس کے اعزازات سے بلند تر ہے۔اسے بری،بحری اور فضائی فوج کا کوئی بھی آفیسر یا جوان جنگ کے دوران نہایت نامساعد حالات میں ادائیگی فرض کا کوئی عظیم کارنامہ سر انجام دے کر،اپنی فرض شناسی کا ثبوت دے کر اور قیادت کے اعلٰی اوصاف کا مظاہرہ کر کے حاصل کر سکتا ہے۔اس کا تمغہ تانبے اور رانگ کے مرکب گن میٹل کے پانچ گوشہ ستارے کی شکل میں ہوتا ہے۔
ھلال جرات
یہ اعزاز صرف افسروں کے لئے مخصوص ہے۔بحری،بری یا فضائی جنگ میں دشمن کے مقابلہ میں جرات و جوانمردی اور احساس فرض کا اعلٰی مظاہرہ کرنے پر دیا جاتا ہے اور اسے نام کے بعد ایچ جے لکھنے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔یہ تمغہ سونے کا بنا ہوتا ہے اور اس کی پٹی پر خطِ نسخ میں ھلال جرات کندہ ہوتا ہے۔اس کا ربن سرخ،سبز اور سرخ رنگ کی یکساں چوڑی ریشمی دھاریوں پر مشتمل ہوتا ہے اور مجموعی طور پر سوا انچ چوڑا ہوتا ہے۔
ستارہ جرات
ستارہ جرات کارہائے نمایاں انجام دینے پر ملتا ہے۔اسے بحری،بری اور فضائی افواج کے آفیسر،جونئیر کمشنڈ آفیسر اور وارنٹ آفیسر ہی حاصٌ کر سکتے ہیں۔اس کا تمغہ چاندی کا بنا ہوتا ہے اور پٹی پر عربی رسم الخط میں ستارہ جرات کندہ ہوتا ہے۔اس کا ربن ایک چوڑی سبز اور سفید ریشمی پٹی کا ہوتا ہے جن کی مجموعی چوڑائی سوا انچ ہوتی ہے۔
تمغہ جرات
یہ تمغہ نان کمیشنڈ آفیسرز اور جوانوں کو زمین پر اور سمندر یا فضا میں کارہائے نمایاں انجام دینے پر ملتا ہے۔یہ تمغہ کانسی کا ہوتا ہے اس کا ربن سوا انچ چوڑا اور ایک انچ جتنی چوڑائی کی سفید سرخ اور سفید پٹیوں پر مشتمل ہوتا ہے-
متذکرہ بالا تمام اعزازات حربی انعاماتکہلاتے ہیں۔غیر حربی انعامات میانِ جنگ کے سوا اور کہیں بہادری کے کانامے دینے پر دئیے جاتے ہیں اور وہ اعزازات یہ ہیں۔
ستارہ بسالت
اس سلسلے میں یہ سب سے بڑا اعزاز ہے۔اس کا مغہ ہفت گوشہ ستارے کی صورت میں ہوتا ہے۔یہ ستارہ سینے پر ایک مرصع بکسوئے کے ساتھ آویزاں کیا جاتا ہے جس پر عربی رسم الخط میں ستارہ بسالت کندہ وتا ہے۔اس کا ربن ریشم کی گہری،نیلی،ہلکی نیلی،سرخ اور گہری نیلی یکساں چوڑی پٹیوں سے بنا ہوتا ہے جس کی چوڑائی سوا انچ ہوتی ہے۔یہ انعام افسروں سے لے کر سپاہی تک ہر کسی کو دیا جا سکتا ہے۔
تمغہ بسالت
اس سلسلے کا دوسرا بڑا اعزاز ہے۔اس کاربن ہلکے نیلے،گہرے نیلےسرخ او ہلکے نیلے رنگ کی یکساں چوڑی پٹیوں سے بنا ہوتا ہے جن کی مجموعی چوڑائی سوا انچ ہوتی ہے۔
حربی انعامات میں ایک تمغہ دفاع  بھی شامل ہے یہ تمغہ ایسے فوجیوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے کسی معینہ وقت پر مقررہ حدود میں حربی کاروائیوں میں کارہائے نمایاں انجام دئیے ہوں۔تمغہ دفاع پر اردو میں خدمت پاکستان کندہ ہوتا ہے۔
متذکرہ بالا حربی اور غیر حربی انعامات سول آرمڈ فورسز کے ایسے ارکان کو بھی عطا کئے جا سکتے ہیں جومرکزی حکومت کی خدمات انجام دے رہے ہوں۔
ہمیں ہر لمحہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارے قائد جناب محمد علی جناح نے فرمایا تھا۔
“خدائے بزرگ و برتر کی قسم جب تک ہمارے دشمن ہمیں اٹھا کر بحیرہ عرب میں نہ پھینک دیں ہم ہار نہ مانیں گے۔پاکستان کی حفاظت کے لئے میں تنہا لڑوں گا۔جب تک میرے ہاتھوں میں سکت اور میرے جسم میں خون کا ایک قطرہ موجود ہے۔مجھے آپ سے یہ کہنا ہے کہ اگر کوئی ایسا وقت آ جائے کہ پاکستان کی حفاظت کے لئے جنگ لڑنی پڑے تو کسی صورت میں ہتھیار نہ ڈالیں اور پہاڑوں،جنگلوں،میدانوں اور دریاؤں میں جنگ جاری رکھیں۔“
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ اب تک پاک بھارت جنگوں نے پاکستانی زندگی کے دو بنیادی نکات نمایاں کیے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ قوم بنیادی اقدار کی مالک ہے جو اسے ایک مخصوص قومیت بناتی ہیں اور قومی آزادی ان اقدار کی بقا کا جزو لاینفک ہے۔دوسرے یہ کہ میدانِ جنگ میں ہمارے عساکر کی فاتحانہ قوت مزاحمت نے یہ اعلٰی ترین حقیقت ثابت کر دی ہے کہ پاکستان کے وجود کے قطعی و حتمی ضامن یہی عساکر ہیں۔
جنگ 1965 اور 1971 میں نمایاں ترین پہلو ساری قوم کی وہ متحدہ کوشش تھی جو ان جنگوں میں بروئے کار آئی۔ہمارے سپاہی ہر محاذ پر،زمین پر،فضا اور سمندر میں برسرپیکار تھے اور قوم کا ہر طبقہ اور ہر گروہ ان کی امداد کے لئے تن،من،دھن کے ساتھ میدان میں نکل آیاتھا۔
ایک طرف پوری قوم اپنے سپاہیوں،بحری فوجیوں اور ہوابازوں کی جرات و شجاعت میں رطب اللسان تھی اور دوسری طرف عساکر اپنے بھائیوں کے ممنون ھے جنہوں نے جنگی مساعی کو قائم رکھنے کے لئے داخلی محاذ پر ضروری کاروائیاں جاری رکھیں۔دوسرے الفاظ میں پوری قوم جنگ میں شامل تھی۔ہ پہلو قوم کے زندہ رہنے کے عزم کا بھرپور اور انتہائی یقین آفرین ثبوت و اظہار تھا۔
دراصل اہلِ پاکستان کے لئے دوسرا کوئی چارہ کار نہ تھا۔انہیں اپنے گھر کے دفاع کے صحیح معنی و منشاء کا احساس ہوا تھا اور اس احساس سے وہ چونک اٹھے تھے۔ان پر یہ حقیقت منکشف ہو گئی تھی کہ یہ وہ خطہ زمین ہے جو ہمیں زندگی کی ہر بامعنی قدر عطا کرتا ہے۔خدا نہ کرے اگر پاکستان ہم سے چھن جاتا ہے تو ہم 10 کروڑ ایسی غلامی میں گرفتار ہو جاتے ہیں جس سے نجات کی کوئی راہ نہ ملتی اور ہم اس بے بسی میں جکڑے جاتے جس سے ہمیں پاکستان کی آزادی پوری طرح بچا لائی۔
مسلمان ہندو کے غلام بننے کو تیار نہ تھے کیونکہ محکوم قوم نہ صرف اقتصادی طور پر قلاش ہو کر رہ جاتی ہے بلکہ اس کے روحانی وجود پر بھی زوال آ جاتا ہے۔
پاکستان پر بھارت کے ہر حملے سے واضح ہو گیا کہ بھارت کی فتح سے پاکستان کے مسلمان کن محرومیوں کا شکار ہو جاتے۔یہ محرومیاں صرف پاکستان کے مسلمانوں تک محدود نہرہتیں کیونکہ پاکستان صرف اپنے باشندوں کے لئےاہمیت نہیں رکھتا بلکہ دنیائے اسلام کے لئے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اگر بر اعظم پاک و ہند متحد رہتا تو اکھنڈ بھارت کی سرحدیں مشرق وسطٰی کے مسلمان ممالک تک جا کھڑی ہوتیں اور ان ممالک کو بھارت کا طفیلی اور خیمہ بردار بنا کر رکھ دیتیں۔یہ پاکستان ہی ہے جو ان مسلمان ممالک اور بھارت کے درمیان ایک فولادی دیوار بن کر کھڑا ہو گیا ہے جس سے ان ممالک کو آزاد مملکت کی حیثیت سے پھلنے پھولنے کا موقع مہیا ہو گیا ہے۔اگر خدانخواستہ پاکستان شکست کھا جاتا تو مشرقِ وسطٰی کے مسلمانوں کا مستقبل بھی اتنا ہی تاریک ہو جاتا۔بنا بریں یہ ضروری تھا کہ پاکستانی قوم اپنے دفاع کے لئے سینہ سپر ہو جاتی۔سترہ دن کی اس جنگ میں قوم یکجہتی اور جوش و جذبہ کے جو مناظر دیکھنے میں آئے اس سے تاریخِ اسلام کے زریں ایام کی یاد تازہ ہو گئی لیکن یہ ہمارے عساکر تھے جنہوں نے پاکستان کے علاقائی سالمیت کے دفاع کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لی تھی۔دشمن کے حملے پسپا کرنے کے لئے وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ڈٹ گئے۔
ہمارا سپاہی اسلام کے لئے لڑا تھا۔پاکستان کے لئے لڑا تھا۔ہمارے سپاہی نے یہ بھانپ لیا تھا کہ اگر پاکستان شکست کھا گیا تو ہمارا نقصان ہمہ گیر ہو گا۔محاذ جنگ پر کھڑے ہوئے سپاہی نے یقیناََ یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسے اپنے وطن کی سرحدوں کا صرف تحفظ ہی نہیں کرنا بلکہ انہیں تاریخ میں غیر فانی بنانا ہے۔
پاکستان کی زندگی اور موت کا انحصا اس کے سپاہی پر تھا اور ہے۔پاکستان رہتا ہے یا فنا ہو جاتا،ہر صورت میں دنیائے اسلام کی تاریخ اور قسمت ایک اہم موڑ پر گھوم جاتی۔اس سے ظاہر ے کہ پاکستان کے سیاسی افق پر ایک مہیب و سنگین ذمہ داری آ گئی تھی اور اس نے اس ذمہ داری کو پوری قوت سے نبھانے کا عزم کر لیا تھا۔چنانچہ وہ صرف ایک سپاہی،ہوا باز یا بحری فوجی کی حیثیت سے نہیں لڑا بلکہ وہ اس ملک کے بانی کی حیثیت سے لڑا۔وہ خدا کے آخری پیغام اسلام کے مبلغ کی حیثیت سے لڑا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان الحمدللہ آج پوری قوت و توانائی کے اتھ زندہ ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو ہلا نہیں سکتی۔
نشانِ حیدر پاک فوج کا سب سے بڑا عسکری اعزاز ہے۔ جس کی اہمیت مسلم ہے۔اب تک جن پاکستانی فوجیوں نے یہ اعزاز حاصل کیا ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
1:۔ سب سے پہلا نشانِ حیدر کا اعزاز کیپٹن راجہ سرور نے حاصل کیا۔یہ 27 جولائی 1948 کو کشمیر کے محاذ پر مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔
2:۔ دوسرا نشانِ حیدر کا اعزاز میجر چودھری طفیل محمد کو ملا۔یہ 17 اگست 1958 کو لکشمی پور(مشرقی پاکستان) کے محاذ پر شہید ہوئے۔
3:۔ تیسرا نشانِ حیدر کا اعزاز میجر راجہ عزز بھٹی نے حاصل کیا۔یہ 12 ستمبر 1965 کو لاہور کے محاذ پر شہید ہوئے۔
4:۔ چوتھا نشانِ حیدر کا اعزاز پائلٹ آفیسر راشد منہاس نے حاصل کیا۔انہوں نے 20 اگست 1971 کو ٹھٹھی کے قریب تربیتی پرواز پر اڑتے ہوئے اس طیارے کو غدار انسٹرکٹر مطیع الرحمٰن سمیت گرا کر تباہ کر دیا اور خود شہادت کے مرتبے پر فائز ہوئے۔
5:۔ پانچواں نشانِ حیدر کا اعزاز میجر محمر اکرم نے اس وقت حاصل کیا جب 13 ستمبر 1971 کو انہوں نے ہلی(مشرقی پاکستان) کے محاذ پر شہادت پائی۔
6:۔ چھٹا نشانِ حیدر کا اعزاز میجر شبیر شریف کو ملا انہوں نے 6 ستمبر 1971 کو ہرڑخورد کے مقام پر بے پناہ شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان قربان کی اور دشمن کو عبرتناک شکست دے کر جامِ شہادت نوش کیا۔
7:۔ ساتواں نشانِ حیدر کا اعزاز سوار محمد حسین کے حصے میں آیا۔انہوں نے 10 دسمبر 1971 کو جامِ شہادت نوش فرمایا۔
8:۔ آٹھواں نشانِ حیدر کا اعزاز لانس نائیک محمد محفوظ کے حصےمیں آیا۔انہوں نے 1971 کی جنگ میں“پل کنجری والا“ کے معرکہ بے مثال میں شہید ہو کر اپنے آپ کو نشانِ حیدر کا اہل ثابت کیا۔
9:۔ نواں نشانِ حیدر کا اعزاز کیپٹن کرنل شیر جان کو ملا۔انہوں نے 1999 میں گلتری ،کاگل کے محاذ پر شہادت پائی۔
10:۔ دسواں نشانِ حیدر کا اعزاز حوالدار لالک جان کو دیا گیا۔انہوں نے 7جولائی 1999 کو کارگل کے محاذ پر شہادت پائی۔
آئیے اب ہم بلترتیب ارضِ پاک کے ان جانباز سپوتوں کے حالات و واقعات پر نظر ڈالتے ہیں۔
04/09/2010. Powered by Blogger.