حج کے دنوں سے قبل روانگی اختیار فرمائی اس شاعر کی بات سننے کے با وجود
آگے گئے ۔راستے میں حُر بن تمیمی ملا ۔اسے ابنِ زیاد نے لشکر دے کر بھیجا
تھا تاکہ حسین علیہ اسلام تمہیں جہاں ملے اسے کوفہ میں داخل نہ ہونے دو
اور کوشش کر کے میرے پاس لے آؤ ۔حُر نے کہا حسین ابنِ علی آپ کو پتہ چل
چکا ہو گا کہ آپ کے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل شہید ہو گئے ہیں۔کوفی لوگ
حسبِ دستور بے وفا ثابت ہوئے وہ آپ کی اطاعت سے پھر چکے ہیں ،حالات سازگار
نہیں ہیں ۔بتائیے آپ کا کیا خیال ہے؟۔مجھے حکم ہے کہ میں آپ کو ابنِ زیاد
کے پاس لے چلوں۔
امام عالی مقام نے اہلِ قافلہ سے مشورہ کیا اور یہ قرار پایا کہ فلحال میدان میں پڑاؤ کیا جائے۔امام علیہ اسلام جس میدان تک پہنچے اس میدان کی خبر تک نہ تھی کہ یہ کون سا میدان ہے،دریائے فرات کا کنارہ تھا خیال کیا کہ یہاں پانی قریب ہے کچھ آسانی ہو گی ۔یکم محرم کو اور بعض روایتوں کے مطابق دو محرم کو اسی میدان میں اترے اور ساتھیوں سے پوچھا یہ کونسا میدان ہے؟اس کا نام کیا ہے؟انہوں نے بتایا کہ حضرت اس کا نام کربلا ہے ۔فرمانے لگے پس یہیں خیمے لگا دو ۔یہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے اس جگہ پہنچتے ہی آپ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فرامین یاد آگئے جو آپ نے کربلا کے متعلق فرمائے تھے ۔اور بچپن کے زمانے کی یادیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی بشارتیں سامنے آ گئیں وہ بچپن کا لمحہ یاد آ گیا کہ جب امِ سلمہ رضی اللہ عنھما کی روایت کے مطابق حضرت امِ سلمہ کی گود میں امام عالی مقام علیہ اسلام کھیل رہے تھے کہ آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مقدس پر آنسو آگئے ام المومنین نے پوچھا ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے؟آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں؟فرمایا۔(ترجمہ):۔اے امِ سلمہ!میرے پاس جبریل آیا ہے اور اس نے شہزادے کی طرف اشارہ کر کے مجھے بتایا ہے کہ آقا! آپ کے بعد امت کا ایک ظالم گروہ، آپ کے بیٹے حسین کو غریب الوطنی کے عالم میں شہید کر دے گا اور عراق کے جس میدان میں ان کی شہادت ہو گی اس کا نام کرب و بلا ہے اور یہ اس زمانہ کی سرخ مٹی ہے حضور صلی اللہ ولیہ وآلہ وسلم نے اس مٹی کو سونگھ کر فرمایا۔’’ریح کرب و بلا‘‘حقیقت یہ ہے کہ اس مٹی سے بھی رنج و الم اور دکھ اور درد کی بو آ رہی ہے۔یہی وہ میدان ہے جس کی نسبت میرے بابا علی نے خبر دی تھی کہ یہاں میرے حسین اور اس کے قافلے کے خیمے لگیں گے یہاں ان مسافروں کے کجاوے رکھے جائیں گے ۔یہاں ان کا مقدس خون بہایا جائے گا ۔اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک مبارک گروہ بے دردی کے ساتھ یہاں شہید کر دیا جائے گا ۔ایسی شہادت کہ جس پر زمین بھی روئے گی اور آسمان بھی آنسو بہائے گا ۔اسی میدان کی مٹی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہاکو عطا کی تھی اور فرمایا تھا !’’جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا میرا بیٹا شہید کر دیا گیا‘‘
اے امِ سلمہ اس مٹی کو سنبھال کر رکھنا ۔مجھے معلوم ہے کہ جب میرے بیٹے حسین کی شہادت کا وقت آئے گا ۔تو اس وقت تو زندہ ہو گی جب یہ مٹی سرخ ہو جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ ساری بشارتیں پہلے سے دی جا چکی تھیں اس لیے امام عالی مقام نے اسی میدان کو اپنے سفر کی انتہا سمجھ کر خیمے لگائے اور یہ خیال فرمایا کہ دریا قریب ہے پانی میسر آئے گا۔لیکن ان ظالموں نے آپ کو پانی سے محروم کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔آٹھ دن عمرو بن سعد اور ابنِ زیاد کے درمیان آنے جانے میں گزر گئے کچھ گفت و شنید چلتی رہی ۔ابنِ زیاد نے جب سمجھا کہ عمر و بن سعد امام حسین علیہ اسلام کے قتل سے گریز کرنا چاہتا ہے تو اس نے شمر ذی الجوشن کو لشکر دے کر روانہ کیا اور کہا کہ عمرو بن سعد اگر حسین کے ساتھ مقابلہ کرے تو ٹھیک اگر متامل ہو تو اسے معزول کر کے لشکر کی قیادت تم سنبھال لینا۔شمر ذی الجوشن پہنچا تو محرم کا آغاز ہو چکا تھا عمرو بن سعد نے یہ دیکھا کہ حکومت مجھ سے چھینی جا رہی ہے ۔امام حسین کے ساتھ مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔اور ابنِ زیاد کے کہنے پر پانچ سو لشکریوں کو بھیجا کہ وہ فرات پر قبضہ کر لیں اور حسین کو پانی کا ایک گھونٹ تک نہ لینے دیں۔
امام حسین علیہ اسلام مکہ معظمہ سے تین ذوالحجہ کو روانہ ہوئے راستے میں ایک شاعر ملا۔آپ نے پوچھا کہ کوفی کا کیا حال ہے؟اس نے جواب دیا ان کے دل آپ کے ساتھ مگر تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔آپ جب تین ذوالحجہ کو روانہ ہوئے تو آپ کی خدمت میں درخواست کی گئی کہ کچھ دن اور گزار لیں ۔لیکن امام حسین علیہ اسلام کے سامنے اپنے نانا کا یہ ارشادِ مبارک تھا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ مکہ کے حرم کا تقدس قریش کے ایک شخص کے سبب پامال ہو رہا ہے ۔یہاں ایک شخص کے سبب خون بہہ رہا ہے ۔فرمانے لگے ممکن ہے کہ مکہ میں یزیدی فوج گرفتاری کے لیے اہتمام کرے اور ہمارے حامی ہمارے دفاع میں تلواریں اٹھا لیں ۔اور میرے سبب سے حرم مکہ میں خون بہے ۔میں نہیں چاہتا کہ اپنے نانا جان کے اس ارشاد کا مصداق بنوں۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment