کیا ایک انسان کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ جذباتی وابستگی کے باعث کسی دوسرے کے حالات سے با خبر رہے؟ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ دلچسپ اور نمایاں واقعہ ایک نوجوان لڑکی کا ہے جس نے حکامِ اعلٰی کو اپنے خواب اور اس کے حیرت انگیز نتائج پر یقین کرنے کے لئے دعوتِ مبارزت دی تھی۔
مسز رینک(پولینڈ) کے اعلٰی حکام اس لڑکی کو اپنے لئے بلائے جان سمجھتے تھے جو وقتا فوقتا ان کے پاس آتی رہتی تھی اور درخواست کرتی کہ وہ اس کے بوائے فرینڈ کی تلاش میں اس کی مدد کریں جو جنگِ عظیم اول میں ایک سپاہی کی حیثیت سے شامل ہوا تھا اور ان لاکھوں افراد کی طرح لاپتہ ہو گیا تھا جو جنگ کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے تھے۔
1918 کے اکتوبر میں مرنا کو اپنے گمشدہ ساتھی کے متعلق ایک خوفناک خواب دکھائی دیا کہ وہ ایک اندھیری سرنگ میں راستہ تلاش کر رہا ہے۔ موم بتی روشن کرنے کے بعد وہ چٹانوں اور لکڑی کے مشترکہ ملبے کو ہٹانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے اور پھر اپنا سر گھٹنوں پر جھکا کر سسکیاں لے رہا ہے۔
اسے یہی خواب کئی مرتبہ دکھائی دیا لیکن 1919 کے موسم سرما کے وسط میں اس کے اس خواب میں قدرے تبدیلی رونما ہوئی۔ اس نے خواب میں پہاڑی کی چوٹی کے قریب ایک قلعہ دیکھا جس کا برج ٹوٹا ہوا تھا۔ جب وہ پتھروں کے انبار تک پہنچی تو اسے اپنے گمشدہ دوست سٹانی سلونس کی جانی پہچانی آواز سنائی دی جو مدد کے لئے پکار رہا تھا۔ یہ آواز ان پتھروں کے نیچے سے آ رہی تھی چنانچہ اس نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے چنانچہ وہ واپس مڑی اور اسی اثنا میں اس کی آنکھ کھل گئی۔ جب یہی خواب اسے بار بار دکھائی دیا تو اس نے اپنے خواب سے اپنی ماں کو آگاہ کیا۔ اس کی ماں نے یہ خواب شہر کے ایک بزرگ آدمی کو سنایا۔ بزرگ نے لڑکی کے خواب میں شک و شبے کا اظہار کیا اور ذہنی پراگندگی کو اس کا موجب قرار دیا۔ لیکن مرنا اتنی آسانی سے اس معاملے کو نظر انداز کرنے والی لڑکی نہیں تھی۔ شکستہ برج والا قلعہ کہاں ہے اسے اس بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ اس قلعہ کو ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ کیونکہ عہدِ ماضی کی یادگار کے طور پر بے شمار قلعے موجود تھے۔
وہ کئی دن تک یہ ڈراؤنا خواب دیکھتی رہی اور خواب میں اپنے بوائے فرینڈ کو اسی سرنگ میں راستہ تلاش کرتے دیکھتی۔ اسے وہ بوسیدہ قلعہ بھی دکھائی دیتا اور دور سے اپنے دوست کی آوازیں بھی سنائی دیتیں جو مدد کے لئے چلا رہا ہوتا تھا۔ بلآخر مرنا گرتے پڑتے بے سرو سامانی کی حالت میں اس طرف کو نکل گئی جہاں اس نے اپنے دوست کو آخری مرتبہ دیکھا تھا۔ اگرچہ اس قلعے تک پہنچنے کے امکانات بہت کم تھے۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری وہ سارا سارا دن چلتی اور رات کو سڑک کے کنارے ہی سو جاتی۔ راہ چلتے کچھ مہربان کسان اس کے لئے کھانا بھی لے آتے۔ انہوں نے مرنا کی کہانی بھی سن لی لیکن وہ اس کی کوئی مدد نہ کر سکے۔ جنگ کے متعلق تو انہوں نے کئی افسوسناک کہانیاں سنی تھیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے کئی پرانے اور شکستہ قلعوں کے متعلق بھی سن رکھا تھا اور چند ایک تو دیکھے بھی تھے لیکن ان میں سے یہ کون سا قلعہ تھا یہ کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔
15 اپریل 1920 کو وہ جنوب مشرقی پولینڈ کے ایک چھوٹے سے شہر زبوٹا کی ایک پہاڑی کے قریب پہنچی جس پر ایک شکستہ قلعہ بنا ہوا تھا۔ یہ قلعہ دیکھ کر خوشی سے اس کی چیخ نکل گئی یہ وہی جگہ تھی جسے اس نے خواب میں دیکھا تھا۔ وہ خوشی سے اس گرد آلود سڑک پر ناچنے لگی۔ وہ بے حد تھکی ہوئی تھی اور اس کے رخساروں پر آنسو رواں تھے وہ قصبے کے فوارہ چوک کے قریب ہی گر پڑی۔ ایک مجمع جلد ہی اس کے گرد جمع ہو گیا۔مقامی پولیس کا ایک افسر اس حادثے کی تحقیق کرنے آیا۔
مرنا ہوش میں آتے ہی قلعے کی طرف دیکھ کر بڑبڑائی۔“وہ وہاں ہے۔ وہ وہاں ہے“ پولیس کا مسلح آفیسر اس بات سے متاثر نہ ہوا۔ بے شک قلعہ وہاں پر موجود تھا اور کئی ہزار سالوں سے وہیں تھا اس کے متعلق اتنے تردد کی کیا ضرورت تھی۔جب مرنا نے اپنی پوری کہانی سنائی تو کسی نے بھی اس پر یقین نہ کیا۔ اسے محبت کی مریضہ کہا گیا۔ اس نے قلعے کی روڑی کو کھودنے اتنا اصرار کیا کہ ایک مشتاق ہجوم اس کے ساتھ ہو لیا اور پھر کئی لوگ خاموشی سے ان وزنی پتھروں کو ہٹانے لگے۔ انہوں نے متواتر دو دن یہ کام کیا۔ آخر کار انہوں نے زمین کے اندر داخل ہونے کا ایک راستہ دریافت کر لیا۔ ان کی حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے ایک انسانی آواز سنی جو گھپ اندھیرے سے آ رہی تھی۔
مرنا نے اسے سنا تو چیخ اٹھی۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے چٹان توڑی۔ پھر کارکنوں نے اس سوراخ کو اتنا بڑا کیا کہ اس میں سے ایک آدمی بخوبی اندر داخل ہو سکتا تھا۔ انہوں نے سٹانی سلونس کو اس سرنگ سے باہر نکالا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ وہ دو ماہ تک اس گھپ اندھیرے میں رہا تھا جس کی وجہ سے اب اسے روشنی تکلیف دینے لگی۔اس نے اتنا عرصہ پنیر اور شراب کے سہارے گزارا۔ روشنی کے لئے اس کے پاس موم بتیاں تھیں اور اس کے ساتھی صرف چوہے تھے۔
مرنا کا خواب حیرت انگیز حد تک درست ثابت ہوا تھا۔ یہ تمام واقعہ پولینڈ پولیس کا باقاعدہ تصدیق شدہ ہے۔ آخر کار سٹانی سلونس کو بڑی عزت کے ساتھ فوج سے ریٹائر کر دیا گیا اور اس نے مرنا کے ساتھ شادی کر لی جس نے اس کی جان بچائی تھی۔
مسز رینک(پولینڈ) کے اعلٰی حکام اس لڑکی کو اپنے لئے بلائے جان سمجھتے تھے جو وقتا فوقتا ان کے پاس آتی رہتی تھی اور درخواست کرتی کہ وہ اس کے بوائے فرینڈ کی تلاش میں اس کی مدد کریں جو جنگِ عظیم اول میں ایک سپاہی کی حیثیت سے شامل ہوا تھا اور ان لاکھوں افراد کی طرح لاپتہ ہو گیا تھا جو جنگ کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے تھے۔
1918 کے اکتوبر میں مرنا کو اپنے گمشدہ ساتھی کے متعلق ایک خوفناک خواب دکھائی دیا کہ وہ ایک اندھیری سرنگ میں راستہ تلاش کر رہا ہے۔ موم بتی روشن کرنے کے بعد وہ چٹانوں اور لکڑی کے مشترکہ ملبے کو ہٹانے کی سر توڑ کوشش کر رہا ہے اور پھر اپنا سر گھٹنوں پر جھکا کر سسکیاں لے رہا ہے۔
اسے یہی خواب کئی مرتبہ دکھائی دیا لیکن 1919 کے موسم سرما کے وسط میں اس کے اس خواب میں قدرے تبدیلی رونما ہوئی۔ اس نے خواب میں پہاڑی کی چوٹی کے قریب ایک قلعہ دیکھا جس کا برج ٹوٹا ہوا تھا۔ جب وہ پتھروں کے انبار تک پہنچی تو اسے اپنے گمشدہ دوست سٹانی سلونس کی جانی پہچانی آواز سنائی دی جو مدد کے لئے پکار رہا تھا۔ یہ آواز ان پتھروں کے نیچے سے آ رہی تھی چنانچہ اس نے اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ تعداد میں بہت زیادہ تھے چنانچہ وہ واپس مڑی اور اسی اثنا میں اس کی آنکھ کھل گئی۔ جب یہی خواب اسے بار بار دکھائی دیا تو اس نے اپنے خواب سے اپنی ماں کو آگاہ کیا۔ اس کی ماں نے یہ خواب شہر کے ایک بزرگ آدمی کو سنایا۔ بزرگ نے لڑکی کے خواب میں شک و شبے کا اظہار کیا اور ذہنی پراگندگی کو اس کا موجب قرار دیا۔ لیکن مرنا اتنی آسانی سے اس معاملے کو نظر انداز کرنے والی لڑکی نہیں تھی۔ شکستہ برج والا قلعہ کہاں ہے اسے اس بارے میں کچھ علم نہ تھا۔ اس قلعہ کو ڈھونڈنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ کیونکہ عہدِ ماضی کی یادگار کے طور پر بے شمار قلعے موجود تھے۔
وہ کئی دن تک یہ ڈراؤنا خواب دیکھتی رہی اور خواب میں اپنے بوائے فرینڈ کو اسی سرنگ میں راستہ تلاش کرتے دیکھتی۔ اسے وہ بوسیدہ قلعہ بھی دکھائی دیتا اور دور سے اپنے دوست کی آوازیں بھی سنائی دیتیں جو مدد کے لئے چلا رہا ہوتا تھا۔ بلآخر مرنا گرتے پڑتے بے سرو سامانی کی حالت میں اس طرف کو نکل گئی جہاں اس نے اپنے دوست کو آخری مرتبہ دیکھا تھا۔ اگرچہ اس قلعے تک پہنچنے کے امکانات بہت کم تھے۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری وہ سارا سارا دن چلتی اور رات کو سڑک کے کنارے ہی سو جاتی۔ راہ چلتے کچھ مہربان کسان اس کے لئے کھانا بھی لے آتے۔ انہوں نے مرنا کی کہانی بھی سن لی لیکن وہ اس کی کوئی مدد نہ کر سکے۔ جنگ کے متعلق تو انہوں نے کئی افسوسناک کہانیاں سنی تھیں۔
علاوہ ازیں انہوں نے کئی پرانے اور شکستہ قلعوں کے متعلق بھی سن رکھا تھا اور چند ایک تو دیکھے بھی تھے لیکن ان میں سے یہ کون سا قلعہ تھا یہ کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔
15 اپریل 1920 کو وہ جنوب مشرقی پولینڈ کے ایک چھوٹے سے شہر زبوٹا کی ایک پہاڑی کے قریب پہنچی جس پر ایک شکستہ قلعہ بنا ہوا تھا۔ یہ قلعہ دیکھ کر خوشی سے اس کی چیخ نکل گئی یہ وہی جگہ تھی جسے اس نے خواب میں دیکھا تھا۔ وہ خوشی سے اس گرد آلود سڑک پر ناچنے لگی۔ وہ بے حد تھکی ہوئی تھی اور اس کے رخساروں پر آنسو رواں تھے وہ قصبے کے فوارہ چوک کے قریب ہی گر پڑی۔ ایک مجمع جلد ہی اس کے گرد جمع ہو گیا۔مقامی پولیس کا ایک افسر اس حادثے کی تحقیق کرنے آیا۔
مرنا ہوش میں آتے ہی قلعے کی طرف دیکھ کر بڑبڑائی۔“وہ وہاں ہے۔ وہ وہاں ہے“ پولیس کا مسلح آفیسر اس بات سے متاثر نہ ہوا۔ بے شک قلعہ وہاں پر موجود تھا اور کئی ہزار سالوں سے وہیں تھا اس کے متعلق اتنے تردد کی کیا ضرورت تھی۔جب مرنا نے اپنی پوری کہانی سنائی تو کسی نے بھی اس پر یقین نہ کیا۔ اسے محبت کی مریضہ کہا گیا۔ اس نے قلعے کی روڑی کو کھودنے اتنا اصرار کیا کہ ایک مشتاق ہجوم اس کے ساتھ ہو لیا اور پھر کئی لوگ خاموشی سے ان وزنی پتھروں کو ہٹانے لگے۔ انہوں نے متواتر دو دن یہ کام کیا۔ آخر کار انہوں نے زمین کے اندر داخل ہونے کا ایک راستہ دریافت کر لیا۔ ان کی حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے ایک انسانی آواز سنی جو گھپ اندھیرے سے آ رہی تھی۔
مرنا نے اسے سنا تو چیخ اٹھی۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے چٹان توڑی۔ پھر کارکنوں نے اس سوراخ کو اتنا بڑا کیا کہ اس میں سے ایک آدمی بخوبی اندر داخل ہو سکتا تھا۔ انہوں نے سٹانی سلونس کو اس سرنگ سے باہر نکالا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ وہ دو ماہ تک اس گھپ اندھیرے میں رہا تھا جس کی وجہ سے اب اسے روشنی تکلیف دینے لگی۔اس نے اتنا عرصہ پنیر اور شراب کے سہارے گزارا۔ روشنی کے لئے اس کے پاس موم بتیاں تھیں اور اس کے ساتھی صرف چوہے تھے۔
مرنا کا خواب حیرت انگیز حد تک درست ثابت ہوا تھا۔ یہ تمام واقعہ پولینڈ پولیس کا باقاعدہ تصدیق شدہ ہے۔ آخر کار سٹانی سلونس کو بڑی عزت کے ساتھ فوج سے ریٹائر کر دیا گیا اور اس نے مرنا کے ساتھ شادی کر لی جس نے اس کی جان بچائی تھی۔
0 comments:
Post a Comment