اسی طرح وہ شہر بہ شہر داخل ہو کر جنگ کرتا رہے گا تو پہلی جنگ حمص میں ہو
گی دوسری رقہ میں پھر قریہ سبا میں اور یہ حمص میں ہونے والی سب سے بڑی
جنگ ہو گی پھر وہ دمشق واپس آ جائے گا اور لوگ اس سے قریب ہو جائیں گے۔
پھر ایک لشکر مدینہ بھیجے گا اور ایک لشکر مشرق(عراق)کی طرف بھیجے گا تو
بغداد میں ستر ہزار افراد مارے جائیں گے اور وہ تین سو حاملہ عورتوں کے
پیٹ چاک کرے گا۔ پھر اس کا لشکر کوفہ کی طرف روانہ ہوگا۔ تو کتنے مرد و زن
گریہ کناں ہوں گے اور وہاں بڑی خلقت قتل ہو گی اور مدینہ جانے والا لشکر
جب سرزمینِ بیداء پر پہنچے گا تو جبریل ان پر عظیم صیحہ کریں گے تو پورے
لشکر کو اللہ زمین میں دھنسا دے گا اور لشکر کے عقب میں دو شخص ہوں گے ایک
خوشخبری دینے والا اور ایک ڈرانے والا۔ تو یہ دونوں لشکر پر وارد ہونے
والی صورتِ حول کو دیکھیں گے کہ اہلِ لشکر کے سر زمین سے باہر ہیں اور دھڑ
دھنسے ہوئے ہیں تو اپنا مشاہدہ بیان کریں گے۔ پھر جبریل ان دونوں پر صیحہ
کریں گے تو ان کے چہرے کو اللہ پشتہ کی طرف کر دے گا ان میں کا خوشخبری
دینے والا مدینہ آئے گا اور مدینہ والوں کو خوشخبری دے گا کہ اللہ نے
انہیں بچا لیا اور دوسرا ڈرانے والا سفیانی کے پاس پلٹ کر جائے گا اور اسے
فوج کی حالت کی خبر دے گا۔ آپ نے فرمایا کہ صحیح خبر جہنیہ(جہنیہ بنی
قضاعہ کے ایک قبیلے کا نام ہے)کے پاس ہے۔ کیونکہ یہ بشیر و نذیر جہنیہ سے
ہیں۔پھر اولادِ رسول میں سے ایک گروہ جو اشراف ہوں گے شہر روم کی طرف فرار
کریں گے تو سفیانی روم کے حکمران سے کہے گا کہ ہمارے غلاموں کو ہمیں واپس
دے دو تو وہ انہیں واپس بھیج دے گا، سفیانی مسجد دمشق کے مشرقی حصہ میں ان
کی گردنیں کاٹ دے گا اور کوئی اس عمل پر ٹوکنے والا نہ ہو گا اور اس کی
نشانی یہ ہو گی کہ شہروں میں شہر پناہیں بنائی جائیں گی۔ آپ سے کہا گیا یا
امیرالمومنین! وہ شہر پناہیں بھی ہم سے بیان کر دیں آپ نے فرمایا ایک شہر
پناہ(شہر پناہ یا فصیل سے مراد غالبا راڈر کا نظام ہے)کی شام میں تجدید کی
جائے گی اور دو عجوز میں اور حران میں اور ایک واسط میں اور ایک بیضاء میں
اور دو کوفہ میں اور ایک شوستر میں اور ایک آرمینہ میں اور ایک موصل میں
اور ایک ہمدان میں اور ایک ورقہ میں اور ایک دیارِ یونس میں اور ایک حمص
میں اور ایک مطر دین میں اور ایک رقطاء میں اور ایک رہبہ میں اور ایک ویر
ہند میں اور ایک قلعہ میں بنائی جائے گی۔ لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ جب سفیانی
ظاہر ہو گا تو بڑی بڑی جنگیں ہوں گی۔ اس کی پہلی جنگ حمص میں ہو گی پھر
حلب میں پھر رقہ میں اور پھر قریہ سبا میں پھر راس العین میں پھر نصیبین
میں اور پھر موصل میں اور یہ بڑی بھیانک جنگ ہو گی۔ پھر موصل میں بغداد کے
مرد جمع ہو جائیں گے اور دیارِ یونس سے لخمہ تک بڑی ہولناک جنگ ہو گی، جس
میں ستر ہزار مارے جائیں گے اور موصل میں شدید ترین قتال ہو گا تو سفیانی
وہاں پہنچے گا اور ساٹھ ہزار افراد کو قتل کرے گا اور وہاں قارون کے خزانے
ہیں اور وہاں عظیم حالات رونما ہوں گے جبکہ زمین دھنس چکی ہو گی سنگباری
اور مسخ رونما ہو چکے گا اور دوسری زمینوں کی نسبت جلد دھنسے گی اس لوہے
کی سیخ سے جو لرزنے والی زمین میں ہے اور سفیانی مسلسل ان لوگوں کو قتل
کرے گا، جن کے نام محمد، علی، حسن، حسین، فاطمہ، جعفر، موسٰی، زینب،
خدیجہ، اور رقیہ ہوں گے۔ یہ اس بغض و کینہ کے سبب ہو گا جو اسے آلِ محمد
سے ہو گا۔ پھر سارے شہروں میں لوگ بھیجے گا اور بچوں کو جمع کروائے گا تو
بچے اس سے کہیں گے کہ اگر ہمارے باپوں نے تیری نافرمانی کی ہے تو ہم نے
کیا کیا ہے؟ تو ان بچوں میں سے جس کا نام مذکورہ ناموں میں سے ہو گا اسے
تیل میں ڈلوا دے گا۔ پھر وہ تمہارے اس شہر کوفہ کی طرف آئے گا اور اس کی
گلیوں میں حجام کی طرح چکر لگائے گا اور مردوں کے ساتھ وہی کرے گا جو بچوں
کے ساتھ کیا تھا اور کوفہ کے دروازہ پر ان لوگوں کو پھانسی دے دیگا جن کے
نام حسن و حسین ہوں گے۔ پھر وہ مدینہ جائے گا اور وہاں تین دن تک لوٹ مار
کرے گا اور خلقِ کثیر کو قتل کر دے گا اور مدینہ کی مسجد پر حسن و حسین
نامی لوگوں کو پھانسی دے گا۔ اس وقت اس کا خون جوش مارے گا۔ جیسا کہ یحیٰی
بن ذکریا کے خون نے جوش مارا تھا۔ جب وہ دیکھے گا تو اسے اپنی ہلاکت کا
یقین ہو جائے گا اور وہ واپس شام کی طرف فرار اختیار کرے گا۔ تو وہ پورے
راستے اپنا کوئی مخالفت کرنے والا نہیں دیکھے گا۔ جب وہ شہر میں داخل ہو
جائے گا تو وہ شراب نوشی اور دیگر گناہوں میں اپنے آپ کو معتکف کر لے گا
اور اپنے ساتھیوں کو انہی کاموں کا حکم دے گا۔ پھر سفیانی اس حالت میں
باہر آئے گا کہ اس کے ہاتھ میں ایک حربہ ہو گا اور ایک عورت کو لانے کا
حکم دے گا کہ راستے کے بیچ وہ اس عورت سے بدکاری کرے وہ بدکاری کرے گا۔
پھر اس کے بعد اس عورت کا شکم چاک کر دے گا اور اس کے پیٹ سے بچہ نکل کر
زمین پر گر جائے گا اس وقت کوئی یہ جرات نہ رکھتا ہو گا کہ اس عمل سے
اظہارِ نفرت کرے۔ اس وقت آسمانوں میں فرشتے مضطرب ہو جائیں گے اور اللہ
قائم کو جو میری ذریت سے ہے خروج کا اذن دے گا اور وہی صاحب الزمان ہے۔
پھر اس کی خبر ہر جگہ مشہور ہو جائے گی اس وقت جبریل صخرہ بیت المقدس پر
اتریں گے اور اہلِ دنیا کے لیے آواز بلند کریں گے کہ حق آ گیا اور باطل
بھاگ گیا یقینا باطل بھاگنے والا ہے۔ پھر امیر المومنین علیہ اسلام نے
ٹھنڈی سانس بھری اور نالہ و زاری کی اور فرمانے لگے:
اشعار کا ترجمہ:۔
میرے بیٹے جب ترک ہیجان میں آ جائیں اور صف آرائی کریں تو مہدی کی ولایت کا انتظار کرو جو عدل کے ساتھ قیام کرے گا۔
اور آلِ ہاشم کے بادشاہ جو روئے زمین پر ہوں گے وہ ذلیل ہو جائیں گے اور ان کی بیعت ان میں سے کی جائے گی جو لذت کے خواہاں اور بے ہودہ بات کرنے والے ہوں گے۔
اور وہ بچوں میں سے ایک بچہ ہے جس کی اپنی کوئی رائے نہ ہو گی نہ ذمہ دار ہو گا نہ عقلمند۔
پھر تم میں سے قائم حق قیام کرے گا حق کے ساتھ آئے گا اور حق پر عمل کرے گا۔
وہ رسول اللہ کا ہم نام ہے۔ میری جان اس پر فدا ہے تو اے میرے بیٹو! اسے رسوا نہ کرنا اور اس کی طرف عجلت کے ساتھ جانا۔(ختم شد)
اس کے بعد ظہور مہدی کا بیان ہے۔ آپ کی جنگوں اور فتوحات کا تذکرہ ہے آپ کے تین سو تیرہ اصحاب کا بہ قیدِ نام و مقام ذکر ہے۔ آپ کی حکومت کے استحکام کا بیان ہے اور آخر میں قیامت کے قائم ہونے کا بیان ہے۔ ہم نے اس پورے خطبہ سے فقط وہ حصہ نقل کیا ہے جو ہمارے موضوع یعنی واقعات و حوادثِ قبلِ ظہور سے متعلق ہے۔ اگر اس مختصر رسالہ میں گنجائس ہوتی تو از دیارِ بصیرت کے لئے پورا خطبہ بمعہ ترجمہ نقل کیا جاتا۔
خطبہ کے بارے میں:
میرے سامنے اس خطبہ کے مندرجہ ذیل نسخے ہیں
(1) الزام الناصب شیخ علی یزدی حائری جُز دوم تین خطبے۔
(2) الشیعہ والرجعۃ جز اول محمد رضا طبلسی
(3) نوائب الدہور حسن میر جہانی جز دوم
(4) نیابیع المودۃ شیخ سلیمان قندوزی
(5) خطبۃ البیان طبع بحرین
الزام الناصب اور الشیعۃ والرجعۃ میں خطبہ کی سند یہ ہے۔ محمد ابن احمد انباری۔ محمد ابن احمد جرجانی قاضی رے۔ طوق ابن مالک۔ عن ابیہ۔ عبداللہ بن مسعود۔ رفعہ الی علی ابن ابی طالب۔ محمد رضا طلبی نے اس خطبہ کو دوحۃ الانوار، شیخ محمد یزدی نے نقل کیا ہے اور نوائب الدہور میں یہ خطبہ عجائب الاخبار سید حسین توبلی سے نقل کیا گیا ہے۔ اس میں بھی یہی سلسلہ سند ہے۔ طلبی اور میر جہانی دونوں بزرگوں نے الذریعہ جلد ہفتم صفحہ 200 سے اس خطبہ کے متعلق معلومات اخذ کی ہیں۔ الذریعہ(طبع دوم صفحہ 200۔201 ) کے مطابق اس خطبہ کے نسخوں میں بہت اختلاف ہے۔ شیخ علی یزدی نے الزام الناصب میں اس کے تین نسخے نقل کئے ہیں۔ ایک میں اصحابِ قائم کا تذکرہ ہے دوسرے میں ان والیوں کا تذکرہ ہے، جنہیں آپ اپنی طرف سے معین فرمائیں گے اور تیسرا نسخہ الدرالمنظم فی اسرالاعظم تالیف محمد بن طلح شافعی متوفی 652 سے نقل کیا ہے۔ شیخ سراجدین حسن نے اس کے بعض اجزا الدرالمنظم سے اپنی کتاب میں نقل کیے ہیں۔ اس کا ایک نسخہ خطبہ اقالیم کے ساتھ مکتبہ آستانِ قدس میں موجود ہے، جس کا سن کتابت 923 ہے۔ سید شبر نے اس پورے خطبہ کو اپنی کتاب علامات الظہور میں نقل کیا ہے۔ حافظ رجب برسی کی مشارق الانوار میں بھی اس کے کچھ جملے ملتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اسے خطبۃ البیان کے نام سے نقل کیا ہے۔ قاضی سعید متوفی 1103 نے شرحِ حدیثِ غمامہ میں اسے مختصرا نقل کیا ہے۔ محقق قمی متوفی 1231 نے جامع الشتات( جلد 5صفحہ 95) میں قاضی سعید کے نسخے کے کچھ فقروں کی شرح لکھی ہے۔ اس خطبہ کی اور بھی شرحیں ہیں، جن کا تذکرہ الذریعہ جلد 13 صفحہ 210،211 پر موجود ہے۔ اس کی ایک شرح خلاصہ الترجمان کے نام سے اور دوسری معالم التنزیل کے نام سے بھی ہے۔ نور علی ساہ متوفی 212 نے اس خطبہ کا فارسی ترجمہ کیا ہے، جس کا ایک جز ان کے دیوان کے ساتھ مکتبہ سپہ سالار تہران میں موجود ہے۔ کاشان کے حاکم شمس شمس الدین محمد کے حکم سے سن 846 میں اس کا منظوم ترجمہ کیا گیا۔ البتہ یہ خطبہ نہ نہج البلاغہ میں ہے نہ مناقب ابنِ شہر آشوب میں نہ بحارالانوار میں۔ اس خطبہ کے سلسلہ میں دو قول ہیں بعض کے خیال میں یہ کوفہ کا خطبہ ہے اور بعض کی رائے کے مطابق یہ بصرہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ دو ہوں۔
اس خطبہ کے سلسلہ میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ اس کے نسخوں میں شدید اختلاف ہے۔ کسی نسخہ میں کچھ کم ہے کسی میں کچھ زیادہ ہے اور کسی نسخہ میں ایک فقرہ کی جگہ دوسرا ہے۔ اس کے علاوہ استناخ کے مسائل کی وجہ سے بھی لفظوں اور جملوں میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ محمد رضا اور میر جہانی کی رائے اس خطبہ کے سلسلے میں معتدل ترین رائے ہے۔ بعض نسخوں میں بعض فقرے قرآن مجید کی آیات و نصوص کے خلاف ہیں، لہذا یہ باور کیا جاتا ہے کہ مختلف ادوار میں صاحبانِ غرض نے اس میں کچھ ایسے اضافے کر دئیے ہیں جو ان کے مفیدِ مطلب تھے۔ لہذا اس خطبہ کے سلسلے میں محتاط رائے یہ ہے جو جملے بلکل ہی کتاب و سنت سے متصادم ہیں وہ الحاقی ہیں اور کلامِ امام نہیں ہیں۔ البتہ جن فقروں کی تاویل ممکن ہے ان کی تاویل کی جانی چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چند فقروں کے سبب پورا خطبہ مشکوک قرار دے دیا جائے، محقق قمی نے تحریر کیا ہے کہ اگر خطبۃ البیان جیسی باتیں ان کی طرف منسوب کی جائیں تو ان کے ظاہر پر حکم نہیں لگانا چاہیے اور نہ سرے سے ان کو باطل قرار دینا چاہیے۔
اس خطبہ کو پڑھنے والا میری اس بات کی تائید کرے گا کہ اس خطبہ میں بہت مقامات پر خطیب منبر سلونی کا اسلوب بھی ہے، لب و لہجہ بھی ہے اور تیور بھی ہے یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ اختلافِ رائے بھی فقط ان جملوں میں ہے جن میں امیرالمومنین نے اپنی ذات پر افتخار کیا ہے۔ وہ جملے اَناَ(میں) سے شروع ہوتے ہیں۔ اس اختلاف کا پیشگوئیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا میں نے وہ اختلافی حصہ یہاں نقل نہیں کیا ہے، خطبہ میں نامانوس اور اجنبی الفاظ کی کثرت ہے اور بعض فقرے ایسے ہیں جو بہت عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم معموں جیسے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ پیش گوئیوں کے موضوع پر لب و لہجہ میں ابہام اور اجمال دونوں ضروری تھے تاکہ باتیں اپنے اپنے وقت پر کھلتی چلی جائیں۔ ایسے فقروں کو اگر متشابہات قرار دیا جائے تو مناسب ہو گا۔
اشعار کا ترجمہ:۔
میرے بیٹے جب ترک ہیجان میں آ جائیں اور صف آرائی کریں تو مہدی کی ولایت کا انتظار کرو جو عدل کے ساتھ قیام کرے گا۔
اور آلِ ہاشم کے بادشاہ جو روئے زمین پر ہوں گے وہ ذلیل ہو جائیں گے اور ان کی بیعت ان میں سے کی جائے گی جو لذت کے خواہاں اور بے ہودہ بات کرنے والے ہوں گے۔
اور وہ بچوں میں سے ایک بچہ ہے جس کی اپنی کوئی رائے نہ ہو گی نہ ذمہ دار ہو گا نہ عقلمند۔
پھر تم میں سے قائم حق قیام کرے گا حق کے ساتھ آئے گا اور حق پر عمل کرے گا۔
وہ رسول اللہ کا ہم نام ہے۔ میری جان اس پر فدا ہے تو اے میرے بیٹو! اسے رسوا نہ کرنا اور اس کی طرف عجلت کے ساتھ جانا۔(ختم شد)
اس کے بعد ظہور مہدی کا بیان ہے۔ آپ کی جنگوں اور فتوحات کا تذکرہ ہے آپ کے تین سو تیرہ اصحاب کا بہ قیدِ نام و مقام ذکر ہے۔ آپ کی حکومت کے استحکام کا بیان ہے اور آخر میں قیامت کے قائم ہونے کا بیان ہے۔ ہم نے اس پورے خطبہ سے فقط وہ حصہ نقل کیا ہے جو ہمارے موضوع یعنی واقعات و حوادثِ قبلِ ظہور سے متعلق ہے۔ اگر اس مختصر رسالہ میں گنجائس ہوتی تو از دیارِ بصیرت کے لئے پورا خطبہ بمعہ ترجمہ نقل کیا جاتا۔
خطبہ کے بارے میں:
میرے سامنے اس خطبہ کے مندرجہ ذیل نسخے ہیں
(1) الزام الناصب شیخ علی یزدی حائری جُز دوم تین خطبے۔
(2) الشیعہ والرجعۃ جز اول محمد رضا طبلسی
(3) نوائب الدہور حسن میر جہانی جز دوم
(4) نیابیع المودۃ شیخ سلیمان قندوزی
(5) خطبۃ البیان طبع بحرین
الزام الناصب اور الشیعۃ والرجعۃ میں خطبہ کی سند یہ ہے۔ محمد ابن احمد انباری۔ محمد ابن احمد جرجانی قاضی رے۔ طوق ابن مالک۔ عن ابیہ۔ عبداللہ بن مسعود۔ رفعہ الی علی ابن ابی طالب۔ محمد رضا طلبی نے اس خطبہ کو دوحۃ الانوار، شیخ محمد یزدی نے نقل کیا ہے اور نوائب الدہور میں یہ خطبہ عجائب الاخبار سید حسین توبلی سے نقل کیا گیا ہے۔ اس میں بھی یہی سلسلہ سند ہے۔ طلبی اور میر جہانی دونوں بزرگوں نے الذریعہ جلد ہفتم صفحہ 200 سے اس خطبہ کے متعلق معلومات اخذ کی ہیں۔ الذریعہ(طبع دوم صفحہ 200۔201 ) کے مطابق اس خطبہ کے نسخوں میں بہت اختلاف ہے۔ شیخ علی یزدی نے الزام الناصب میں اس کے تین نسخے نقل کئے ہیں۔ ایک میں اصحابِ قائم کا تذکرہ ہے دوسرے میں ان والیوں کا تذکرہ ہے، جنہیں آپ اپنی طرف سے معین فرمائیں گے اور تیسرا نسخہ الدرالمنظم فی اسرالاعظم تالیف محمد بن طلح شافعی متوفی 652 سے نقل کیا ہے۔ شیخ سراجدین حسن نے اس کے بعض اجزا الدرالمنظم سے اپنی کتاب میں نقل کیے ہیں۔ اس کا ایک نسخہ خطبہ اقالیم کے ساتھ مکتبہ آستانِ قدس میں موجود ہے، جس کا سن کتابت 923 ہے۔ سید شبر نے اس پورے خطبہ کو اپنی کتاب علامات الظہور میں نقل کیا ہے۔ حافظ رجب برسی کی مشارق الانوار میں بھی اس کے کچھ جملے ملتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اسے خطبۃ البیان کے نام سے نقل کیا ہے۔ قاضی سعید متوفی 1103 نے شرحِ حدیثِ غمامہ میں اسے مختصرا نقل کیا ہے۔ محقق قمی متوفی 1231 نے جامع الشتات( جلد 5صفحہ 95) میں قاضی سعید کے نسخے کے کچھ فقروں کی شرح لکھی ہے۔ اس خطبہ کی اور بھی شرحیں ہیں، جن کا تذکرہ الذریعہ جلد 13 صفحہ 210،211 پر موجود ہے۔ اس کی ایک شرح خلاصہ الترجمان کے نام سے اور دوسری معالم التنزیل کے نام سے بھی ہے۔ نور علی ساہ متوفی 212 نے اس خطبہ کا فارسی ترجمہ کیا ہے، جس کا ایک جز ان کے دیوان کے ساتھ مکتبہ سپہ سالار تہران میں موجود ہے۔ کاشان کے حاکم شمس شمس الدین محمد کے حکم سے سن 846 میں اس کا منظوم ترجمہ کیا گیا۔ البتہ یہ خطبہ نہ نہج البلاغہ میں ہے نہ مناقب ابنِ شہر آشوب میں نہ بحارالانوار میں۔ اس خطبہ کے سلسلہ میں دو قول ہیں بعض کے خیال میں یہ کوفہ کا خطبہ ہے اور بعض کی رائے کے مطابق یہ بصرہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ دو ہوں۔
اس خطبہ کے سلسلہ میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ اس کے نسخوں میں شدید اختلاف ہے۔ کسی نسخہ میں کچھ کم ہے کسی میں کچھ زیادہ ہے اور کسی نسخہ میں ایک فقرہ کی جگہ دوسرا ہے۔ اس کے علاوہ استناخ کے مسائل کی وجہ سے بھی لفظوں اور جملوں میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں۔ محمد رضا اور میر جہانی کی رائے اس خطبہ کے سلسلے میں معتدل ترین رائے ہے۔ بعض نسخوں میں بعض فقرے قرآن مجید کی آیات و نصوص کے خلاف ہیں، لہذا یہ باور کیا جاتا ہے کہ مختلف ادوار میں صاحبانِ غرض نے اس میں کچھ ایسے اضافے کر دئیے ہیں جو ان کے مفیدِ مطلب تھے۔ لہذا اس خطبہ کے سلسلے میں محتاط رائے یہ ہے جو جملے بلکل ہی کتاب و سنت سے متصادم ہیں وہ الحاقی ہیں اور کلامِ امام نہیں ہیں۔ البتہ جن فقروں کی تاویل ممکن ہے ان کی تاویل کی جانی چاہیے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ چند فقروں کے سبب پورا خطبہ مشکوک قرار دے دیا جائے، محقق قمی نے تحریر کیا ہے کہ اگر خطبۃ البیان جیسی باتیں ان کی طرف منسوب کی جائیں تو ان کے ظاہر پر حکم نہیں لگانا چاہیے اور نہ سرے سے ان کو باطل قرار دینا چاہیے۔
اس خطبہ کو پڑھنے والا میری اس بات کی تائید کرے گا کہ اس خطبہ میں بہت مقامات پر خطیب منبر سلونی کا اسلوب بھی ہے، لب و لہجہ بھی ہے اور تیور بھی ہے یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ اختلافِ رائے بھی فقط ان جملوں میں ہے جن میں امیرالمومنین نے اپنی ذات پر افتخار کیا ہے۔ وہ جملے اَناَ(میں) سے شروع ہوتے ہیں۔ اس اختلاف کا پیشگوئیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لہذا میں نے وہ اختلافی حصہ یہاں نقل نہیں کیا ہے، خطبہ میں نامانوس اور اجنبی الفاظ کی کثرت ہے اور بعض فقرے ایسے ہیں جو بہت عجیب و غریب اور ناقابلِ فہم معموں جیسے ہیں۔ ایسا شاید اس لیے ہے کہ پیش گوئیوں کے موضوع پر لب و لہجہ میں ابہام اور اجمال دونوں ضروری تھے تاکہ باتیں اپنے اپنے وقت پر کھلتی چلی جائیں۔ ایسے فقروں کو اگر متشابہات قرار دیا جائے تو مناسب ہو گا۔
0 comments:
Post a Comment