ھانی بن عروہ چونکہ کوفہ کے رئیس تھے اس لیے ان کے قبیلے کے ہزاروں افراد
ننگی تلواریں لے کر نکل آئے ،اس خیال سے کہ ھانی قتل کر دئیے گئے
ہیں،یکایک کوفہ کی گلیوں میں ایک معرکہ بپا ہو گیا۔امام حسین علیہ اسلام
کے نمائندے مسلم بن عقیل بھی تلوار لے کر میدانِ کارزار میں آ گئے ۔بعض
روایات میں چار ہزار تعداد آئی ہے لیکن بعض نے چودہ ہزار کی تعداد بیان کی
ہے ۔یہ سب حضرت مسلم کی قیادت میں ابنِ زیاد کے قلعے پر حملہ آور ہو
گئے۔شام تک ابنِ زیاد نے تیروں کی بارش کی اتنا پتھراؤ اور ظلم و ستم کیا
کہ چودہ ہزار افراد میں سے مغرب کے وقت تک کم و بیش پانچ سو کوفی حضرت
مسلم بن عقیل کے ساتھ رہ گئے۔اور باقی سب لوگ بزدلی کے سبب ان کا ساتھ
چھوڑ گئے ۔ آپ نے مغرب کی نیت باندھی پانچ سو کوفی آپ کے مقتدی تھے جب آپ
نے سلام پھیرا اور پلٹ کر دیکھا تو ان پانچ سو کوفیوں میں سے ایک شخص بھی
نہ تھا اندھیری رات میں ظالم و بے وفا لوگ حضرت مسلم کو تنہا چھوڑ کر اپنے
گھروں کو واپس چلے گئے تھے۔اب کوفے کی ہولناک گلیوں میں ،رات کا ہیبت ناک
ماحول ہے یزید اور ابنِ زیاد کے ظالمانہ اور بیہمانہ منصوبے ہیں اور وہ جو
ہزاروں کی تعداد میں آ کے دستِ اقدس پر بیعت کر کے آپ سے غیر مشروط وفا
داری کا وعدہ کر چکے تھے ان میں سے ایک شخص بھی حضرت مسلم کا سہارا بننے
کے لیے تیار نہیں آپ ان بے حیاؤں کی بے غیرتی پر تعجب کرتے رہے۔آخر تھک
ہار کر ایک دروازے پر چپکے سے بیٹھ گئے کہ چلو دیوار سے ٹیک لگا کر رات کی
کچھ گھڑیاں بسر کرتے ہیں ۔اچانک دروازہ کھلا اور گھر کی مالکہ نے جھانک
اور کہا اے بھائی تو کون ہے؟اور اس وقت میرے دروازے پر کیوں بیٹھا ہے؟فتنے
کا زمانہ ہے سرکاری پہرے دار پھر رہے ہیں کوئی سپاہی تمہیں گرفتار کر کے
لے جائے گا۔فرمانے لگے میں مسلم بن عقیل ہوں سارا دن صبح سے شام تک جہاد
کرتا رہا ہوں اور بھوکا پیاسا ہوں اور جسم تھک کر چور چور ہو چکا ہے ۔مجھے
رات کی چند گھڑیاں آرام کر لینے دے۔ وہ نیک بخت خاتون بھی اہلیبیت سے محبت
کرنے والی تھی اور دل میں محبت چھپائے ہوئے تھی۔اس نے مسلم بن عقیل کو
اپنے گھر میں جگہ دے دی ۔لیکن اسے کیا خبر تھی اس کا بیٹا مسلم بن عقیل کی
تلاش میں سرگرداں ہے ،وہ جب رات کو پہنچا اس ماں نے اپنے کام کو کارِ خیر
سمجھتے ہوئے اپنے بیٹے سے کہا آج ہمارے گھر میں گلستانِ محمدی صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کا مہکتا ہوا پھول آیا ہے اس کے بیٹے نے خونخوار آنکھوں سے
دیکھا اور ابنِ زیاد کو خبر کر دی۔اس کے سپاہی آئے اور مسلم بن عقیل پر
حملہ آور ہو گئے ،دیر تک آپ نے دفاعی جنگ لڑی لیکن تنہا تھے گرفتار کر کے
ابنِ زیاد کے پاس پہنچا دئیے گئے ابنِ زیاد نے آپ کو ھانی بن عروہ کے ساتھ
قید میں رکھا۔ یہ خبر پھر کوفہ میں آگ کی طرح پھیل گئی اور کم و بیش
اٹھارہ ہزار افراد پھرحضرت مسلم کی رہائی کے لئے آ گئے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
0 comments:
Post a Comment