کیا یہ ایک شخص کے لئے ممکن ہے کہ اسے وہیل مچھلی نگل لے اور اور وہ اپنی آپ بیتی سنانے کے لئے زندہ رہے؟ سائنس کا جواب نفی میں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ برطانوی ملاح جیمز بارٹلی کو وہیل مچھلی نے نگل لیا مگر وہ زندہ رہا۔ اس حیرت انگیز واقعہ کا یہ پہلا دستاویزی ثبوت برطانوی بحرہ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔ ملاح کی حیثیت سے جیمز کا وہ پہلا سفر تھا۔ اس کا مچھلیاں پکڑنے والا جہاز ستارہ مشروق موافق ہواؤں کی وجہ سے تیز رفتاری سے چل رہا تھا۔ وہ جنوبی اوقیانوس میں فاک لینڈ کے جزیروں سے 100 میل مشرق کی طرف تھا۔
فروری 1891 کی کوئی تاریخ تھی۔ اچانک جیمز نے چلانا شروع کر دیا۔ وہیل مچھلی وہاں پھنکار رہی ہے۔ یہ مچھلی ان سے نصف میل کے فاصلے پر سطح آب پر ابھری تھی۔ جہاز نے بادبان ڈھیلے کر دئیے۔ مچھلیاں پکڑنے والے مچھیرے 3 کشتیوں میں سوار ہو گئے تاکہ وہیل مچھلی کا شکار کر سکیں۔
جیمز بارٹلی کی لمبی کشتی سب سے پہلے وہیل مچھلی کے قریب پہنچی۔ مچھریے آہستہ آہستہ چپو چلا کر اپنی کشتیاں وہیل مچھلی کے قریب لے گئے پھر انہوں نے برچھیوں سے وہیل پر کاری ضرب لگائی۔ بارٹلی اور اس کے ملاح ساتھی غیض و غضب سے بھری وہیل مچھلی سے پیچھے ہٹے تاکہ وہ اس کی دم سے بچ سکیں وہیل مچھلی کی دم پانی پر لگتی تو جھاگ کے چھینٹے اڑنے لگتے۔ وہ تیر اور بھالوں سے زخمی ہو کر تڑپ رہی تھی۔ ایک لمحہ کے لئے تو ایسا دکھائی دیتا تھا کہ قسمت ملاحوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ وہیل نے سمندر میں غوطہ لگایا اور پیچھے اس کی دُم سے 500 فٹ لمبی لہر پیدا ہوئی اور پھر خلافِ توقع یہ لہر ختم ہو گئی یہ اچھا شگون نہیں تھا۔ مچھلی اوپر آ*رہی تھی اب زندگی اور موت کا سوال تھا۔ ملاح اپنی اپنی کشتیوں پر مستعد ہو گئے تاکہ بوقتِ ضرورت خود کو کسی متوقع حملے سے دور لے جا سکیں۔
پھر اچانک سمندر پھٹ پڑا وہیل کے دوبارہ نمودار ہونے پر زبردست لہر پیدا ہوئی اور وہ جسمانی کرب سے بے چین ہو کر اچھلی خون کی وجہ سے سمندر کا پانی بھی سرخ ہو گیا۔ جہاز نے کشتیوں کے ملاحوں کو اوپر کھینچ لیا لیکن دو ملاح غائب تھے جن میں سے ایک جیمز بارٹلی تھا۔
ہوائیں جو ستارہ مشرق کو جائے حادثہ کی طرف لے گئی تھیں اب اس کا ساتھ چھوڑ رہی تھیں۔ جہاز پانی کے اتار چڑھاؤ میں ڈوب رہا تھا۔ اس منحوس دن سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے مردہ مچھلی جہاز سے 400 گز کے فاصلے پر سطح سمندر پر ابھری ملاحوں نے جلدی سے ایک رسے کا بندوبست کیا پھر وہ اسے رسے سے باندھ کر آہستہ آہستہ کھینچ کر جہاز کے قریب لے آئے۔ گرم موسم کے پیشِ نظر مچھلی کو چیرنا پھاڑنا ناگزیر تھا۔ لیکن ان کے پاس ایسے ذرائع نہیں تھے جس سے ہزاروں ٹن وزنی وہیل کو جہاز پر لادا جا سکتا اس لئے انہوں نے سمندر ہی میں اس کی کھال اتارنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ چربی حاصل کر سکیں۔ یہ خطرناک کام تھا کیونکہ سمندر میں خون پھیلنے سے کئی شارک مچھلیاں موقع پر پہنچ کر ان کے لئے خطرے کا باعث بن سکتی تھیں۔
رات کے 11 بجے سے پہلے جب جہاز کے تھکے ماندے ملازم لالٹینوں کی روشنی میں وہیل کا معدہ اور جگر نکال کر جہاز کے عرشے پر رکھ رہے تھے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ معدے میں کوئی چیز حرکت کر رہی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی ذی روح سانس لے رہی ہو۔ چنانچہ جہاز کا کپتان جلدی سے*ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے معدے میں سوراخ کیا اس سوراخ سے بوٹ پہنے ہوئے انسانی پاؤں نظر آئے۔ اور پھر جلد ہی انہوں نے گمشدہ ملاح جیمز بارٹلی کو وہیل کے پیٹ سے نکال لیا۔ وہ بے ہوش اور بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا لیکن ابھی زندہ تھا۔
ڈکاٹر نے حکم دیا کہ بارٹلی کے جسم پر سمندر کے پانی کی ایک بالٹی ڈالی جائے۔ بارٹلی ہوش میں آنے کے بعد ہذیان میں اول فول بکنے لگا۔ وہ تقریبا 2 ہفتے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا( جیسا کہ* ڈاکٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا اور تمام ملاحوں کے اس پر دستخط موجود تھے)۔
بارٹلی کے ہوش و حواس درست ہونے لگے، پھر کہیں ایک ماہ بعد وہ اپنی آپ بیتی سنانے کے قابل ہو سکا۔ اس نے بتایا کہ جب اس کی کشتی غرق ہونے لگی تو وہ ہوا میں اچھلا اور پھر سمندر میں گر گیا۔ سمندر کے پانی میں وہیل نے اپنا مہیب منہ کھولا ہوا تھا اور وہ آہستہ آہستہ اس کے حلق میں اتر گیا۔
جب وہیل اسے نگل رہی تھی تو وہ خوب چلایا۔ وہیل کے جبڑوں سے گزرتے ہوئے اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اسے چاقو چبھوئے جا رہے ہوں۔ اس کے بعد اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ کسی پھسلن سے نیچے لڑھک رہا ہے اور پھر وہ بے ہوش ہو گیا اور اسے کچھ بھی یاد نہ رہا۔
کپتان کے کیبن میں وہ تقریبا ایک گھنٹے بعد ہوش میں آیا۔وہ مچھلی کے پیٹ میں 15 گھنٹے رہا تھا۔ اس عرصہ میں اس کے جسم کے تمام بال گر گئے اور اس کی جلد غیر معمولی طور پر سفید ہو گئی اور وہ ہمیشہ کے لئے تقریبا اندھا ہو گیا۔ اس نے بقیہ زندگی اپنے وطن میں جوتے گانٹھنے میں گزار دی۔ دنیا کے اکثر حصوں سے ڈاکٹرز اسے دیکھنے کے لئے اور اس کی محیر العقول آپ بیتی سننے کے لئے آتے رہے۔ وہ اس حادثے کے بعد 18 سال تک زندہ رہا اس کے مقبرے پر اس کی آپ بیتی درج ہے اور آخر میں لکھا ہے۔
جیمز بارٹلی(1909۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔� �۔۔۔۔۔۔۔1870)
(یونس ثانی)
فروری 1891 کی کوئی تاریخ تھی۔ اچانک جیمز نے چلانا شروع کر دیا۔ وہیل مچھلی وہاں پھنکار رہی ہے۔ یہ مچھلی ان سے نصف میل کے فاصلے پر سطح آب پر ابھری تھی۔ جہاز نے بادبان ڈھیلے کر دئیے۔ مچھلیاں پکڑنے والے مچھیرے 3 کشتیوں میں سوار ہو گئے تاکہ وہیل مچھلی کا شکار کر سکیں۔
جیمز بارٹلی کی لمبی کشتی سب سے پہلے وہیل مچھلی کے قریب پہنچی۔ مچھریے آہستہ آہستہ چپو چلا کر اپنی کشتیاں وہیل مچھلی کے قریب لے گئے پھر انہوں نے برچھیوں سے وہیل پر کاری ضرب لگائی۔ بارٹلی اور اس کے ملاح ساتھی غیض و غضب سے بھری وہیل مچھلی سے پیچھے ہٹے تاکہ وہ اس کی دم سے بچ سکیں وہیل مچھلی کی دم پانی پر لگتی تو جھاگ کے چھینٹے اڑنے لگتے۔ وہ تیر اور بھالوں سے زخمی ہو کر تڑپ رہی تھی۔ ایک لمحہ کے لئے تو ایسا دکھائی دیتا تھا کہ قسمت ملاحوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ وہیل نے سمندر میں غوطہ لگایا اور پیچھے اس کی دُم سے 500 فٹ لمبی لہر پیدا ہوئی اور پھر خلافِ توقع یہ لہر ختم ہو گئی یہ اچھا شگون نہیں تھا۔ مچھلی اوپر آ*رہی تھی اب زندگی اور موت کا سوال تھا۔ ملاح اپنی اپنی کشتیوں پر مستعد ہو گئے تاکہ بوقتِ ضرورت خود کو کسی متوقع حملے سے دور لے جا سکیں۔
پھر اچانک سمندر پھٹ پڑا وہیل کے دوبارہ نمودار ہونے پر زبردست لہر پیدا ہوئی اور وہ جسمانی کرب سے بے چین ہو کر اچھلی خون کی وجہ سے سمندر کا پانی بھی سرخ ہو گیا۔ جہاز نے کشتیوں کے ملاحوں کو اوپر کھینچ لیا لیکن دو ملاح غائب تھے جن میں سے ایک جیمز بارٹلی تھا۔
ہوائیں جو ستارہ مشرق کو جائے حادثہ کی طرف لے گئی تھیں اب اس کا ساتھ چھوڑ رہی تھیں۔ جہاز پانی کے اتار چڑھاؤ میں ڈوب رہا تھا۔ اس منحوس دن سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے مردہ مچھلی جہاز سے 400 گز کے فاصلے پر سطح سمندر پر ابھری ملاحوں نے جلدی سے ایک رسے کا بندوبست کیا پھر وہ اسے رسے سے باندھ کر آہستہ آہستہ کھینچ کر جہاز کے قریب لے آئے۔ گرم موسم کے پیشِ نظر مچھلی کو چیرنا پھاڑنا ناگزیر تھا۔ لیکن ان کے پاس ایسے ذرائع نہیں تھے جس سے ہزاروں ٹن وزنی وہیل کو جہاز پر لادا جا سکتا اس لئے انہوں نے سمندر ہی میں اس کی کھال اتارنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ چربی حاصل کر سکیں۔ یہ خطرناک کام تھا کیونکہ سمندر میں خون پھیلنے سے کئی شارک مچھلیاں موقع پر پہنچ کر ان کے لئے خطرے کا باعث بن سکتی تھیں۔
رات کے 11 بجے سے پہلے جب جہاز کے تھکے ماندے ملازم لالٹینوں کی روشنی میں وہیل کا معدہ اور جگر نکال کر جہاز کے عرشے پر رکھ رہے تھے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ معدے میں کوئی چیز حرکت کر رہی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوئی ذی روح سانس لے رہی ہو۔ چنانچہ جہاز کا کپتان جلدی سے*ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ڈاکٹر نے معدے میں سوراخ کیا اس سوراخ سے بوٹ پہنے ہوئے انسانی پاؤں نظر آئے۔ اور پھر جلد ہی انہوں نے گمشدہ ملاح جیمز بارٹلی کو وہیل کے پیٹ سے نکال لیا۔ وہ بے ہوش اور بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا لیکن ابھی زندہ تھا۔
ڈکاٹر نے حکم دیا کہ بارٹلی کے جسم پر سمندر کے پانی کی ایک بالٹی ڈالی جائے۔ بارٹلی ہوش میں آنے کے بعد ہذیان میں اول فول بکنے لگا۔ وہ تقریبا 2 ہفتے تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا( جیسا کہ* ڈاکٹر نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا اور تمام ملاحوں کے اس پر دستخط موجود تھے)۔
بارٹلی کے ہوش و حواس درست ہونے لگے، پھر کہیں ایک ماہ بعد وہ اپنی آپ بیتی سنانے کے قابل ہو سکا۔ اس نے بتایا کہ جب اس کی کشتی غرق ہونے لگی تو وہ ہوا میں اچھلا اور پھر سمندر میں گر گیا۔ سمندر کے پانی میں وہیل نے اپنا مہیب منہ کھولا ہوا تھا اور وہ آہستہ آہستہ اس کے حلق میں اتر گیا۔
جب وہیل اسے نگل رہی تھی تو وہ خوب چلایا۔ وہیل کے جبڑوں سے گزرتے ہوئے اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اسے چاقو چبھوئے جا رہے ہوں۔ اس کے بعد اسے یوں محسوس ہوا جیسے وہ کسی پھسلن سے نیچے لڑھک رہا ہے اور پھر وہ بے ہوش ہو گیا اور اسے کچھ بھی یاد نہ رہا۔
کپتان کے کیبن میں وہ تقریبا ایک گھنٹے بعد ہوش میں آیا۔وہ مچھلی کے پیٹ میں 15 گھنٹے رہا تھا۔ اس عرصہ میں اس کے جسم کے تمام بال گر گئے اور اس کی جلد غیر معمولی طور پر سفید ہو گئی اور وہ ہمیشہ کے لئے تقریبا اندھا ہو گیا۔ اس نے بقیہ زندگی اپنے وطن میں جوتے گانٹھنے میں گزار دی۔ دنیا کے اکثر حصوں سے ڈاکٹرز اسے دیکھنے کے لئے اور اس کی محیر العقول آپ بیتی سننے کے لئے آتے رہے۔ وہ اس حادثے کے بعد 18 سال تک زندہ رہا اس کے مقبرے پر اس کی آپ بیتی درج ہے اور آخر میں لکھا ہے۔
جیمز بارٹلی(1909۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔� �۔۔۔۔۔۔۔1870)
(یونس ثانی)
2 comments:
Thanks.............
شکریہ پسند کرنے کے لیے
Post a Comment