جابر ابنِ عبداللہ انصاری بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حجۃ الوداع میں رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حج کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم حج اور اس کے فرائض سے فارغ ہو گئے تو خانہ کعبہ کو وداع کرنے
کے لئے تشریف لائے اور حلقہ در کو ہاتھ میں تھام کر باآوازِ بلند ارشاد
فرمایا۔
“اے لوگو!“ اس آواز کو سنتے ہی وہ سارے لوگ جو مسجد الحرام اور بازار میں تھے جمع ہو گئے۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا: سنو! میں بتانا چاہتا ہوں جو میرے بعد ہو گا۔ تم میں سے جو حاضر ہیں وہ غائبین تک پہنچا دیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گریہ فرمانا شروع کیا اور آپ کو گریہ کرتے ہوئے دیکھ کر سارے حاضرین بھی رونے لگے۔ جب رسول اللہ کا گریہ رکا تو فرمایا کہ خدا تم پر رحم کرے، یہ جان رکھو کہ تم آج کے دن سے ایک سو چالیس سال تک اس پتے کی مانند ہو جس میں کانٹا نہ ہو پھر اس کے بعد دو سو سال تک ایسا زمانہ ہو گا جس میں پتہ بھی ہو گا اور کانٹا بھی پھر اس کے بعد فقط کانٹا ہے پتہ نہیں ہے۔
یہاں تک کے اس زمانے میں سلطان جابر، بخیل سرمایہ دار، دنیا پرست عالم، جھوٹے فقیر، فاسق و فاجر بوڑھے، بے حیاء لڑکے، اور احمق عورتوں کے علاوہ لوگ نظر نہیں آئیں گے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گریہ فرمایا۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اٹھے اور انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ بتلائیے کہ ایسا کب ہو گا؟ ارشاد فرمایا، اے سلمان! یہ اس وقت ہو گا جب تمہارے علماء کم ہو جائیں گے اور تمہارے قاریان قرآن ختم ہو جائیں گے اور تم زکوۃ کی ادائیگی قطع کر دو گے اور اپنے اعمال کو ظاہر کرو گے۔ جب تمہاری آوازیں تمہاری مسجدوں میں بند ہوں گی اور جب تم دنیا کو سر پر اٹھاؤ گے اور علم کو زیرِ قدم رکھو گے اور جب جھوٹ تمہاری گفتگو ہو گی۔ غیبت تمہاری نقلِ محفل ہو گی اور حرام مالِ غنیمت ہو گا اور جب تمہارا بزرگ تمہارے خوردوں پر شفقت نہیں کرے گا، اور تمہارا خورد تمہارے بزرگوں کا احترام نہیں کرے گا اس وقت تم پر اللہ کی لعنت نازل ہو گی اور تمہاری امت تمہارے درمیان قرار دے گا۔ اور دین تمہاری زبانوں پر فقط ایک لفظ بن کر رہ جائے گا تو تم میں جب یہ خصلتیں پیدا ہو جائیں تو سرخ آندھی مسخ یا آسمان سے سنگ باری کی توقع رکھو اور میرے اس کلام کی تصدیق کتابِ خدا میں موجود ہے۔
اے رسول کہہ دو کہ وہی اس بات پر قادر ہے کہ تم پر عذاب تمہارے سر کے اوپر سے نازل کرے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے اٹھا دے یا ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے مقابل کر دے اور تم سے بعض کو بعض کی جنگ کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ہم کس طرح آیات کو بدل بدل کر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھ سکیں۔(سورہ انعام آیت 65)۔
اس وقت صحابہ کا ایک گروہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ہمیں بتائیے کہ ایسا کب ہو گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب نمازوں میں تاخیر کی جائے اور شہوت رانی عام ہو جائے اور قہوے کی مختلف اقسام پی جانے لگیں اور باپ اور ماں کو لوگ گالیاں دینے لگیں یہاں تک کہ حرام کو مالِ غنیمت اور زکوۃ کو جرمانہ سمجھنے لگیں، مرد اپنی بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور اپنے ہمسائے پر ظلم کرے اور قطع رحم کرنے لگے اور بزرگوں کی شفقت اور رحم ختم ہو جائے اور خوردوں کی حیاء کم ہو جائے اور لوگ عمارتوں کو مضبوط بنانے لگیں اور اپنے خادموں اور لونڈیوں پر ظلم کرنے لگیں اور ہوا و ہوس کی بنیاد پر گواہی دیں اور ظلم سے حکومت کریں اور مرد اپنے باپ کو گالی دینے لگے اور انسان اپنے بھائی سے حسد کرنے لگے اور حصہ دار خیانت سے معاملہ کرنے لگے اور وفا کم ہو جائے اور زنا عام ہو جائے اور مرد عورتوں کے کپڑوں سے اپنے آپ کو آراستہ کرے اور عورتوں سے حیاء کا پردہ اٹھ جائے اور تکبر دلوں میں اس طرح داخل ہو جائے جس طرح زہر جسموں میں داخل ہو جاتا ہے اور نیک عمل کم ہو جائے اور جرائم بے انتہا عام ہو جائیں اور فرائض الہی حقیر ہو جائیں اور سرمایہ دار مال کی بناء پر اپنی تعریف کی خواہش کریں اور لوگ موسیقی اور گانے پر مال صرف کریں اور دنیا داری میں سرگرم ہو کر آخرت ہو بھول جائیں اور تقوی کم ہو جائے اور طمع پڑھ جائے اور انتشار و غارت گری بڑھ جائے اور ان کی مسجدیں آذان سے آباد ہوں اور ان کے دل ایمان سے خالی ہوں اس لیے کہ وہ قرآن کا استخفاف (توہین) کریں اور صاحبِ ایمان کو ان سے ہر قسم کی ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑے تو اس وقت دیکھو گے کہ ان آدمیوں کے چہرے آدمیوں نے چہرے ہیں اور ان کے دل شیطانوں کے دل ہیں اور ان کی گفتگو شہد سے شیریں ہے اور ان کے دل حنظل سے زیادہ کڑوے ہیں تو وہ بھیڑئیے ہیں جو انسانی لباس میں ہیں ۔ ایسے زمانے میں کوئی دن ایسا نہ ہو گا جب خدا ان سے یہ نہ کہے گا کہ کیا تم میری رحمت سے مغرور ہو گئے ہو؟ تمہاری جراتیں بڑھ گئی ہیں۔
کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا؟ اور تمہاری بازگشت ہماری طرف نہیں ہو گی؟
میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر مجھے خلوص سے عبادت کرنے والوں کی پرواہ نہ ہوتی تو میں گنہگار کو ایک چشم زدن کی بھی مہلت نہ دیتا اور بندگان متقین کے تقوے کی پرواہ نہ ہوتی تو میں آسمان سے ایک قطرہ بھی نہ برساتا اور زمین پر ایک سبز پتہ بھی نہ اگاتا۔
اس وقت مومن کا دل اس کے پہلو میں اس طرح آب ہو گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔اس لئے کہ وہ برائیوں کو دیکھے گا لیکن اسے بدل دینے کی قدرت نہیں ہو گی۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا کہ ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت حکمران ظالم و جابر ہوں گے۔ وزراء فاسق ہوں گے۔ عرفا ظالم ہوں گے امانت دار خائن ہوں گے۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس وقت منکر معروف ہو جائے گا، اور معروف منکر ہو جائے گا، خائن کو امانت دار سمجھا جائے گا اور امین خیانت کرے گا اور جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی اور سچے کی تکذیب کی جائے گی۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس وقت عورتوں کی حکومت ہو گی اور کنیزوں سے مشورہ لیا جائے گا اور لڑکے منبروں پر بیٹھیں گے اور جھوٹ بولنا ظرافت میں شمار ہو گا اور زکوۃ کو جرمانہ سمجھا جائے گا اور مالِ خدا کو غنیمت سمجھا جائے گا اور انسان اپنے والدین پر جورو جفا کرے گا اور اپنے دوست کے ساتھ حسن سلوک کرے گا اور دم دار ستارہ ظاہر ہو گا۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس وقت عورت تجارت میں اپنے شوہر کے ساتھ شریک ہو گی اور صاحبانِ عزت ذلیل ہوں گے اور غریب و فقیر شخص کی توہین کی جائے گی تو اس وقت بازار قریب ہو جائیں گے۔ ایک کہے گا کہ میں نے کچھ نہیں بیچا اور دوسرا کہے گا کہ میں نے کچھ نفع نہیں کمایا، تم نہیں دیکھو گے مگر اللہ مذمت کرنے والے کو۔ تو سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اس وقت ایسے لوگ حکمران ہوں گے کہ عوام اگر عوام گفتگو کریں گے تو حکمران قتل کر دیں گے، اور اگر چپ رہیں گے تو حکمران ان کے مالک بن جائیں گے اور ان لوگوں کی دولت سے خود دولت مند بن جائیں گے اور ان کی حرمت کو پامال کریں گے اور ان کا خون بہائیں گے اور ان کے دلوں کو اپنے رعب و دبدبہ سے معمور کریں گے اور تم انہیں دیکھو گے مگر ہراساں اور خوف زدہ، مرعوب اور سہما ہوا۔ سلمان فارسی نے کہا، یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت کچھ مشرق سے لایا جائے گا اور کچھ مغرب سے لایا جائے گا اور میری امت کو اس رنگ میں رنگا جائے گا۔ پس وائے ہو میری امت کے ضعیفوں پر ان لوگوں سے پس وائے ہو ان پر خدا کی طرف سے، وہ تو نہ چھوٹوں پر رحم نہ بڑوں کی عزت کریں گے نہ بدی کرنے والوں سے درگزر کریں گے ان کے جسم آدمیوں کے جسم ہوں گے اور ان کے دل شیطانوں کے دل ہوں گےسلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس وقت مرد مردوں پر اکتفا کریں گے اور عورتیں عورتوں پر اکتفا کریں گی اور لڑکے لڑکوں پر اس طرح ایک دوسرے سے حسد کریں گے جس طرح لڑکی پر کیا جاتا ہے جو اپنے گھر میں ہو، اور مرد عورتوں سے مشابہ ہوں گے اور عورتیں مردوں کے مشابہ ہوں گی اور عورتیں خود سواری کریں گی۔ میری امت کی ان عورتوں پر خدا کی لعنت ہو۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اس وقت مسجدوں کو اس طرح منقش کیا جائے گا جیسے کلیسا وغیرہ منقش ہوتے ہیں۔ اور قرآنوں کی طلاکاری کی جائے گی اور منارے طویل ہوں گے اور صفیں زیادہ ہو جائیں گی لیکن دلوں میں بغض ہو گا اور زبانوں پر اختلاف۔ سلمان نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت میری امت کے مرد اپنے آپ کو سونے کی چیزوں سے آراستہ کریں گے اور حریرو دینا کے لباس پہنیں گے۔ اور درندوں کی کھال کا نرم لباس استعمال کریں گے۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔اس وقت سود ظاہر و آشکار ہو گا اور لوگ غیبت و رشوت کے ذریعے معاملہ کریں گے اور دین پست ہو جائے گا اور دنیا بلند ہو جائے گی۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان ! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت طلاق کی کثرت ہو جائے گی اور اللہ کے لئے حداد جاری نہیں کی جائیں گی۔ لیکن اللہ کو کوئی شے ضرر نہیں پہنچا سکتی۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا ، ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت مختلف آلات موسیقی اور مختلف ساز ظاہر ہوں گے انہیں میری امت کے شریر لوگ پسند کریں گے۔ سلمان نے کہا، کہ یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا، ہاں سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت میری امت کے سرمایہ دار تفریح کے لئے حج کریں گے اور متوسط طبقہ کے لوگ تجارت کے لئے اور غریب لوگ ریاکاری اور اپنا احترام کروانے کے لئے حج کریں گے تو اس وقت کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو غیر خدا کے لئے قرآن کی تعلیم حاصل کریں گے اور اسے آلاتِ موسیقی کی طرح قرار دیں گے۔ اور کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو غیر خدا کے لئے علم فقہ حاصٌ کریں گے اور زنا زادوں کی کثرت ہو جائے گی۔ اور قرآن کو گایا جائے گا اور لوگ دنیا کی طرف شدید میلان رکھتے ہوں گے۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ یہ اس وقت ہو گا جب محارم کی ہتک حرمت ہو جائے اور گناہ اکتساب کئے جائیں اور اشرار کا نیک بندوں پر تسلط ہو جائے اور جھوٹ عام ہو جائے اور ضد ظاہر ہو جائے۔ عقلمند انسان پوشیدہ اور گوشہ نشین ہو جائے اور لوگ اچھے لباس پر فخرو مباہات کریں اور بغیر موسم کے بارش ہو لگے اور طبل و ساز کو پسند کرنے لگیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے نفرت کرنے لگیں یہاں تک کہ اس زمانے میں مومن کنیز سے بھی بدتر ہو جائے اور اس زمانے کے قاریوں اور عابدوں میں ملامت بازی آشکار ہو جائے تو یہ لوگ آسمان کے فرشتوں میں نجس اور پلید کے نام سے یاد کیے جاتے ہوں گے۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت سرمایہ دار کو فقط افلاس کا خوف ہو گا۔ یہاں تک کہ سائل دو جمعوں کے درمیان سوال کرے گا لیکن کوئی اسے کچھ دینے والا نہ ہو گا۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت رومیفہ گفتگو کرے گا۔ سلمان نے پوچھا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یہ رومیفہ کیا ہے؟ فرمایا ایسا شخص انسانی مسائل پر گفتگو کرے گا جسے گفتگو نہیں کرنی چاہیے اور جو پہلے گفتگو نہیں کرتا تھا، پس یہ لوگ زمین پر باقی نہیں رہیں گے مگر بہت کم، یہاں تک کہ زمین اس طرح دھنس جائے گی کہ ہر شخص یہی خیال کرے گا کہ میرے علاقے میں دھنسی ہے۔ پھر وہ لوگ باقی رہیں گے جب تک اللہ چاہے گا، اور پھر ان کی بقا کے دوران زمین اپنے جگر کے ٹکڑے انہیں نکال کر دے گی۔ کہا سونا چاندی۔ پھر اشارہ فرمایا ستونوں کی طرح اور فرمایا کہ وہ جگر کے ٹکڑے اس کے مثل ہوں گے۔ اس دن سونا چاندی سے کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا اور یہی فقط“جاء اشراطھا“ کا مفہوم ہے۔
(یہ روایت تفسیرِ قمی سے نقل کی گئی ہے)
“اے لوگو!“ اس آواز کو سنتے ہی وہ سارے لوگ جو مسجد الحرام اور بازار میں تھے جمع ہو گئے۔ اس وقت آپ نے ارشاد فرمایا: سنو! میں بتانا چاہتا ہوں جو میرے بعد ہو گا۔ تم میں سے جو حاضر ہیں وہ غائبین تک پہنچا دیں پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گریہ فرمانا شروع کیا اور آپ کو گریہ کرتے ہوئے دیکھ کر سارے حاضرین بھی رونے لگے۔ جب رسول اللہ کا گریہ رکا تو فرمایا کہ خدا تم پر رحم کرے، یہ جان رکھو کہ تم آج کے دن سے ایک سو چالیس سال تک اس پتے کی مانند ہو جس میں کانٹا نہ ہو پھر اس کے بعد دو سو سال تک ایسا زمانہ ہو گا جس میں پتہ بھی ہو گا اور کانٹا بھی پھر اس کے بعد فقط کانٹا ہے پتہ نہیں ہے۔
یہاں تک کے اس زمانے میں سلطان جابر، بخیل سرمایہ دار، دنیا پرست عالم، جھوٹے فقیر، فاسق و فاجر بوڑھے، بے حیاء لڑکے، اور احمق عورتوں کے علاوہ لوگ نظر نہیں آئیں گے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گریہ فرمایا۔ سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اٹھے اور انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ! یہ بتلائیے کہ ایسا کب ہو گا؟ ارشاد فرمایا، اے سلمان! یہ اس وقت ہو گا جب تمہارے علماء کم ہو جائیں گے اور تمہارے قاریان قرآن ختم ہو جائیں گے اور تم زکوۃ کی ادائیگی قطع کر دو گے اور اپنے اعمال کو ظاہر کرو گے۔ جب تمہاری آوازیں تمہاری مسجدوں میں بند ہوں گی اور جب تم دنیا کو سر پر اٹھاؤ گے اور علم کو زیرِ قدم رکھو گے اور جب جھوٹ تمہاری گفتگو ہو گی۔ غیبت تمہاری نقلِ محفل ہو گی اور حرام مالِ غنیمت ہو گا اور جب تمہارا بزرگ تمہارے خوردوں پر شفقت نہیں کرے گا، اور تمہارا خورد تمہارے بزرگوں کا احترام نہیں کرے گا اس وقت تم پر اللہ کی لعنت نازل ہو گی اور تمہاری امت تمہارے درمیان قرار دے گا۔ اور دین تمہاری زبانوں پر فقط ایک لفظ بن کر رہ جائے گا تو تم میں جب یہ خصلتیں پیدا ہو جائیں تو سرخ آندھی مسخ یا آسمان سے سنگ باری کی توقع رکھو اور میرے اس کلام کی تصدیق کتابِ خدا میں موجود ہے۔
اے رسول کہہ دو کہ وہی اس بات پر قادر ہے کہ تم پر عذاب تمہارے سر کے اوپر سے نازل کرے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے اٹھا دے یا ایک گروہ کو دوسرے گروہ کے مقابل کر دے اور تم سے بعض کو بعض کی جنگ کا مزہ چکھا دے۔ دیکھو ہم کس طرح آیات کو بدل بدل کر بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ سمجھ سکیں۔(سورہ انعام آیت 65)۔
اس وقت صحابہ کا ایک گروہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ہمیں بتائیے کہ ایسا کب ہو گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب نمازوں میں تاخیر کی جائے اور شہوت رانی عام ہو جائے اور قہوے کی مختلف اقسام پی جانے لگیں اور باپ اور ماں کو لوگ گالیاں دینے لگیں یہاں تک کہ حرام کو مالِ غنیمت اور زکوۃ کو جرمانہ سمجھنے لگیں، مرد اپنی بیوی کی اطاعت کرنے لگے اور اپنے ہمسائے پر ظلم کرے اور قطع رحم کرنے لگے اور بزرگوں کی شفقت اور رحم ختم ہو جائے اور خوردوں کی حیاء کم ہو جائے اور لوگ عمارتوں کو مضبوط بنانے لگیں اور اپنے خادموں اور لونڈیوں پر ظلم کرنے لگیں اور ہوا و ہوس کی بنیاد پر گواہی دیں اور ظلم سے حکومت کریں اور مرد اپنے باپ کو گالی دینے لگے اور انسان اپنے بھائی سے حسد کرنے لگے اور حصہ دار خیانت سے معاملہ کرنے لگے اور وفا کم ہو جائے اور زنا عام ہو جائے اور مرد عورتوں کے کپڑوں سے اپنے آپ کو آراستہ کرے اور عورتوں سے حیاء کا پردہ اٹھ جائے اور تکبر دلوں میں اس طرح داخل ہو جائے جس طرح زہر جسموں میں داخل ہو جاتا ہے اور نیک عمل کم ہو جائے اور جرائم بے انتہا عام ہو جائیں اور فرائض الہی حقیر ہو جائیں اور سرمایہ دار مال کی بناء پر اپنی تعریف کی خواہش کریں اور لوگ موسیقی اور گانے پر مال صرف کریں اور دنیا داری میں سرگرم ہو کر آخرت ہو بھول جائیں اور تقوی کم ہو جائے اور طمع پڑھ جائے اور انتشار و غارت گری بڑھ جائے اور ان کی مسجدیں آذان سے آباد ہوں اور ان کے دل ایمان سے خالی ہوں اس لیے کہ وہ قرآن کا استخفاف (توہین) کریں اور صاحبِ ایمان کو ان سے ہر قسم کی ذلت و خواری کا سامنا کرنا پڑے تو اس وقت دیکھو گے کہ ان آدمیوں کے چہرے آدمیوں نے چہرے ہیں اور ان کے دل شیطانوں کے دل ہیں اور ان کی گفتگو شہد سے شیریں ہے اور ان کے دل حنظل سے زیادہ کڑوے ہیں تو وہ بھیڑئیے ہیں جو انسانی لباس میں ہیں ۔ ایسے زمانے میں کوئی دن ایسا نہ ہو گا جب خدا ان سے یہ نہ کہے گا کہ کیا تم میری رحمت سے مغرور ہو گئے ہو؟ تمہاری جراتیں بڑھ گئی ہیں۔
کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ ہم نے تمہیں عبث خلق کیا؟ اور تمہاری بازگشت ہماری طرف نہیں ہو گی؟
میں اپنی عزت و جلال کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر مجھے خلوص سے عبادت کرنے والوں کی پرواہ نہ ہوتی تو میں گنہگار کو ایک چشم زدن کی بھی مہلت نہ دیتا اور بندگان متقین کے تقوے کی پرواہ نہ ہوتی تو میں آسمان سے ایک قطرہ بھی نہ برساتا اور زمین پر ایک سبز پتہ بھی نہ اگاتا۔
اس وقت مومن کا دل اس کے پہلو میں اس طرح آب ہو گا جس طرح نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔اس لئے کہ وہ برائیوں کو دیکھے گا لیکن اسے بدل دینے کی قدرت نہیں ہو گی۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا کہ ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت حکمران ظالم و جابر ہوں گے۔ وزراء فاسق ہوں گے۔ عرفا ظالم ہوں گے امانت دار خائن ہوں گے۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس وقت منکر معروف ہو جائے گا، اور معروف منکر ہو جائے گا، خائن کو امانت دار سمجھا جائے گا اور امین خیانت کرے گا اور جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی اور سچے کی تکذیب کی جائے گی۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس وقت عورتوں کی حکومت ہو گی اور کنیزوں سے مشورہ لیا جائے گا اور لڑکے منبروں پر بیٹھیں گے اور جھوٹ بولنا ظرافت میں شمار ہو گا اور زکوۃ کو جرمانہ سمجھا جائے گا اور مالِ خدا کو غنیمت سمجھا جائے گا اور انسان اپنے والدین پر جورو جفا کرے گا اور اپنے دوست کے ساتھ حسن سلوک کرے گا اور دم دار ستارہ ظاہر ہو گا۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اس وقت عورت تجارت میں اپنے شوہر کے ساتھ شریک ہو گی اور صاحبانِ عزت ذلیل ہوں گے اور غریب و فقیر شخص کی توہین کی جائے گی تو اس وقت بازار قریب ہو جائیں گے۔ ایک کہے گا کہ میں نے کچھ نہیں بیچا اور دوسرا کہے گا کہ میں نے کچھ نفع نہیں کمایا، تم نہیں دیکھو گے مگر اللہ مذمت کرنے والے کو۔ تو سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اس وقت ایسے لوگ حکمران ہوں گے کہ عوام اگر عوام گفتگو کریں گے تو حکمران قتل کر دیں گے، اور اگر چپ رہیں گے تو حکمران ان کے مالک بن جائیں گے اور ان لوگوں کی دولت سے خود دولت مند بن جائیں گے اور ان کی حرمت کو پامال کریں گے اور ان کا خون بہائیں گے اور ان کے دلوں کو اپنے رعب و دبدبہ سے معمور کریں گے اور تم انہیں دیکھو گے مگر ہراساں اور خوف زدہ، مرعوب اور سہما ہوا۔ سلمان فارسی نے کہا، یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت کچھ مشرق سے لایا جائے گا اور کچھ مغرب سے لایا جائے گا اور میری امت کو اس رنگ میں رنگا جائے گا۔ پس وائے ہو میری امت کے ضعیفوں پر ان لوگوں سے پس وائے ہو ان پر خدا کی طرف سے، وہ تو نہ چھوٹوں پر رحم نہ بڑوں کی عزت کریں گے نہ بدی کرنے والوں سے درگزر کریں گے ان کے جسم آدمیوں کے جسم ہوں گے اور ان کے دل شیطانوں کے دل ہوں گےسلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس وقت مرد مردوں پر اکتفا کریں گے اور عورتیں عورتوں پر اکتفا کریں گی اور لڑکے لڑکوں پر اس طرح ایک دوسرے سے حسد کریں گے جس طرح لڑکی پر کیا جاتا ہے جو اپنے گھر میں ہو، اور مرد عورتوں سے مشابہ ہوں گے اور عورتیں مردوں کے مشابہ ہوں گی اور عورتیں خود سواری کریں گی۔ میری امت کی ان عورتوں پر خدا کی لعنت ہو۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ اس وقت مسجدوں کو اس طرح منقش کیا جائے گا جیسے کلیسا وغیرہ منقش ہوتے ہیں۔ اور قرآنوں کی طلاکاری کی جائے گی اور منارے طویل ہوں گے اور صفیں زیادہ ہو جائیں گی لیکن دلوں میں بغض ہو گا اور زبانوں پر اختلاف۔ سلمان نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت میری امت کے مرد اپنے آپ کو سونے کی چیزوں سے آراستہ کریں گے اور حریرو دینا کے لباس پہنیں گے۔ اور درندوں کی کھال کا نرم لباس استعمال کریں گے۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔اس وقت سود ظاہر و آشکار ہو گا اور لوگ غیبت و رشوت کے ذریعے معاملہ کریں گے اور دین پست ہو جائے گا اور دنیا بلند ہو جائے گی۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان ! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت طلاق کی کثرت ہو جائے گی اور اللہ کے لئے حداد جاری نہیں کی جائیں گی۔ لیکن اللہ کو کوئی شے ضرر نہیں پہنچا سکتی۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا ، ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت مختلف آلات موسیقی اور مختلف ساز ظاہر ہوں گے انہیں میری امت کے شریر لوگ پسند کریں گے۔ سلمان نے کہا، کہ یا رسول اللہ ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا، ہاں سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت میری امت کے سرمایہ دار تفریح کے لئے حج کریں گے اور متوسط طبقہ کے لوگ تجارت کے لئے اور غریب لوگ ریاکاری اور اپنا احترام کروانے کے لئے حج کریں گے تو اس وقت کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو غیر خدا کے لئے قرآن کی تعلیم حاصل کریں گے اور اسے آلاتِ موسیقی کی طرح قرار دیں گے۔ اور کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو غیر خدا کے لئے علم فقہ حاصٌ کریں گے اور زنا زادوں کی کثرت ہو جائے گی۔ اور قرآن کو گایا جائے گا اور لوگ دنیا کی طرف شدید میلان رکھتے ہوں گے۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ یہ اس وقت ہو گا جب محارم کی ہتک حرمت ہو جائے اور گناہ اکتساب کئے جائیں اور اشرار کا نیک بندوں پر تسلط ہو جائے اور جھوٹ عام ہو جائے اور ضد ظاہر ہو جائے۔ عقلمند انسان پوشیدہ اور گوشہ نشین ہو جائے اور لوگ اچھے لباس پر فخرو مباہات کریں اور بغیر موسم کے بارش ہو لگے اور طبل و ساز کو پسند کرنے لگیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے نفرت کرنے لگیں یہاں تک کہ اس زمانے میں مومن کنیز سے بھی بدتر ہو جائے اور اس زمانے کے قاریوں اور عابدوں میں ملامت بازی آشکار ہو جائے تو یہ لوگ آسمان کے فرشتوں میں نجس اور پلید کے نام سے یاد کیے جاتے ہوں گے۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ایسا ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت سرمایہ دار کو فقط افلاس کا خوف ہو گا۔ یہاں تک کہ سائل دو جمعوں کے درمیان سوال کرے گا لیکن کوئی اسے کچھ دینے والا نہ ہو گا۔ سلمان نے کہا یا رسول اللہ! کیا ایسا بھی ہو گا؟ فرمایا ہاں اے سلمان! اس خدا کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ اس وقت رومیفہ گفتگو کرے گا۔ سلمان نے پوچھا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یہ رومیفہ کیا ہے؟ فرمایا ایسا شخص انسانی مسائل پر گفتگو کرے گا جسے گفتگو نہیں کرنی چاہیے اور جو پہلے گفتگو نہیں کرتا تھا، پس یہ لوگ زمین پر باقی نہیں رہیں گے مگر بہت کم، یہاں تک کہ زمین اس طرح دھنس جائے گی کہ ہر شخص یہی خیال کرے گا کہ میرے علاقے میں دھنسی ہے۔ پھر وہ لوگ باقی رہیں گے جب تک اللہ چاہے گا، اور پھر ان کی بقا کے دوران زمین اپنے جگر کے ٹکڑے انہیں نکال کر دے گی۔ کہا سونا چاندی۔ پھر اشارہ فرمایا ستونوں کی طرح اور فرمایا کہ وہ جگر کے ٹکڑے اس کے مثل ہوں گے۔ اس دن سونا چاندی سے کچھ فائدہ نہیں پہنچے گا اور یہی فقط“جاء اشراطھا“ کا مفہوم ہے۔
(یہ روایت تفسیرِ قمی سے نقل کی گئی ہے)
0 comments:
Post a Comment