عزم و ہمت اور صبر و استقلال کے اس پیکر نے جواں بیٹے کی لاش خیمے میں
رکھی ہوئی شہیدوں کی لاشوں کے ساتھ لا کر رکھ دی اور اس دفعہ خود میدان
میں جانے کی تیاری شروع کر دی ۔ایک چھوٹا سا بچہ تلوار اٹھا کر سامنے آیا
۔یہ کون ہے۔یہ قاسم بن حسن بن علی ؑ ہے حضرت قاسم سے فرمایا بیٹے تو میرے
بھائی حسن ؑ کی نشانی ہے تو آرام کر ! جواب دیا چچا جان ! میں قیامت کے دن
اپنے باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟وہ کہیں کہ تیرے چچا شہید ہو گئے اور تو
دیکھتا رہا۔نہیں میرے ننھے گلے پر پہلے تلوار چل لے پھر آپ کی باری آئے گی
۔آخر قاسم بن حسن ؑ بھی شہید ہو گئے ۔
لیکن یہ میدان امتحان و آزمائش تھا حسین ؑ تو ان مصائب و آلام میں صبر کر کے اپنے مولا کو راضی کر رہے تھے ان کے نانا ان کو تک رہے تھے کہ میرا حسین ؑ جسے میں نے اپنے کندھوں پر سوار کیا ہے،حضرت فاطمہ زہرا ؑدیکھ رہی تھیں ، کہ جس حسین ؑ کو میں نے دودھ پلایا ۔علی شیر خدا ملاحظہ فرما رہے تھے کہ جس کے رگ و ریشے میں میرا خون گردش کر رہا ہے آج اس مقام صبر اور مقام استقامت پر اس کے قدم کہیں لڑکھڑائے تو نہیں ہیں ؟حسین ؑ ابنِ علی ؑ اس حال میں صبر و رضا کا پیکر کل بن کر عزم وکے ساتھ مسکراتے رہے ۔
آخر جب امام حسین علیہ اسلام نے میدان میں آنے کا ارادہ کیا تو عابدؑ بیمار نکل آئے اور عرض کی اباجان !میرے ہوتے ہوئے آپ میدان میں جا رہے ہیں ۔میں بھی اپنے باقی بھائیوں کی طرح اپنے نانا جان کا دیدار کرنا چاہتا ہوں ،میں بھی اپنی دادی جان کی بارگاہ میں جا کر سرخ رو ہونا چاہتا ہوں ،اب شہادت کا جام پینے کی میری باری ہے ۔امام حسین ؑ نے فرمایا! تو رہ جا کہ خانوادہ رسول ؐ کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے ،ہر پھول مرجھا چکا ہے ۔اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا ہے مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تو بھی شہید ہو گیا تو تیرے نانا کی نسل کہاں سے چلے گی تو اپنے نانا کی نسل کی بقاء کے لیے زندہ رہ۔
حضرت امام حسین ؑ امام زین العابدین ؑ کو چھوڑ کر خود میدان کربلا میں اترے ۔آپ بھی دیر تک ہزاروں یزیدیوں کو واصلِ جہنم کرتے رہے ،پورے لشکر میں کہرام مچ گیا ۔علی شیر خدا کا یہ جواں بیٹا ،یہ اللہ کا شیر جس طرف تلوار لے کر نکل جاتا ہزاروں افراد بھیڑوں کی طرح آگے آگے بھاگنے لگتے۔آپ انہیں واصل جہنم کرتے رہے تلواروں اور نیزوں کے وار کھاتے رہے،سارا دن اسی طرح گزر گیا خیال آیا کہ وضو تازہ کر لوں ۔ دریائے فرات پر گئے پانچ سو کا لشکر دریا چھوڑ کر بھاگ گیا۔آپ نے وضو کرنے کے لیے فرات سے چلو میں پانی لیا تو خون آلودہ ہو گیا ۔آپ نے اس کو اچھالا اور واپس لوٹ آئے مسکرا کر آسمان کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا۔جمعہ کا دن تھا اب وہاں جمعہ کہاں نمازِ ظہر کا وقت آیا۔ فرمانے لگے یزیدیو! کچھ دیر رک جاؤ تاکہ اللہ کی بارگاہ میں دو سجدے ادا کر لوں ،لیکن وہ ظالم یہ مہلت دینے پر بھی تیار نہ تھے۔امام عالی مقام نے ان کے یہ عزائم دیکھ کر تلوار رکھ دی اور ظہر کی نماز کے لئے نیت باندھ لی۔ظالموں نے یہ نہ دیکھا کہ نماز ادا کر رہے ہیں کچھ دیر توقف کر لیں۔بلکہ انہوں نے موقع غنیمت جانا ،کہ خدا کا شیر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہے اور یہی موقع ہے کہ اس پر قابو پایا جا سکتا ہے،چاروں طرف سے چڑھائی کر دی ۔تیروں کی بوچھاڑ اور پے در پے حملوں نے نواسہ رسول ؐ کے جسم کو نڈھال کر دیا ۔چنانچہ گھوڑے سے گر گئے یہاں تک کہ جسم اطہر میں اٹھنے کی سکت باقی نہ رہی ،گرے ہوئے شیر کے سامنے آ کر بھی کوئی وار نہ کرتا تھا ،پیچھے سے وار کرتے۔نیزوں سے وار ہوتے ،امام حسین ؑ صبر و رضا اور توکل کے ساتھ سارے مرحلے کامیابی سے طے کر کے شہادت کے اس مقام پر پہنچ گئے جس کی عظمت و رفعت کو کوئی نہیں پا سکتا ان کی روح کو قدسیانِ فلک نے ایک جلوس کی صورت میں حضور ایزدی پہنچانے کے لیے تمام انتظا مات مکمل کر لیے تھے۔ادھر روح قفس عنصری سے پرواز کرنے لگی ۔ادھر ہاتف غیبی سے ندا آئی حسین ؑ اب آ جا تو نے صبر کو کمال عطا کر دیا استقامت کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔امت مصطفےٰ ؐ کا سر اونچا کر دیا ہے، اے حسین ؑ آج سے تیرے اقدام کو بنائے لا الہ قرار دیا جائے گا ۔ حسین ؑ اب آ جا ،اے روح طاہر ! ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیہ،جنت کے دروازے کھول دئیے گئے نانا جان استقبال کے لیے کھڑے ہیں اے حسین تو نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ حضرت فاطمہ زہرا ؑ بیٹے کو شاباش دیتی ہیں۔علی شیر خدا بیٹے کو آفرین کہتے ہیں ۔امام عالی مقام کی روح اس طرح ہجوم ملائکہ میں اللہ کی بارگاہ میں باریاب ہوتی ہے اور عزت پاتی ہے آپ کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا ہے ظالموں کے جذبہ انتقام کی پھر بھی تسکین نہیں ہوتی وہ جسم اطہر پر گھوڑے دوڑاتے ہیں ٹاپوں سے روندتے ہیں ۔انہیں خیال تک نہیں آتا کہ یہ وہ سر ہے جسے سرکار دو عالم ؐ چوما کرتے تھے ۔یہ وہ جسم ہے جسے اپنے کاندھے پر سوار کرتے تھے ۔اور اپنی پیٹھ پر سوار کر کے گھٹنوں کے بل چلتے تھے۔ عمرو بن سعد اور شمر ذی الجوشن نے مطالبہ کیا کہ ابھی رات کو جنگ شروع کی جائے۔امام حسین علیہ اسلام نے فرمایا کہ جب جنگ کا فیصلہ ہو ہی چکا ہے تو یہ ایک رات اللہ سے مناجات اور علیحدگی میں اس سے ملاقات کے لیے دے دو۔فیصلہ ہو گیا کہ کل دس محرم کو جنگ شروع ہو گی۔رات کو آپ اپنے خیمے میں گئے عزت مآب خواتین کو جمع کیا ۔اپنی بہن حضرت زینب ؑ کو زوجہ مطہرہ حضرت شہر بانو،چھوٹی شہزادیوں اور شہزادوں کو، خانوادہ رسول ؐ کے جوانوں کو ارشاد فرمایا!میں تم سے بے حد راضی ہوں اور خوش ہوں۔تم نے حق و صداقت ، وفا شعاری ادا کر دیا۔قیامت کے دن تمہارے حق میں گواہی دوں گا ۔تمہیں اجازت دیتا ہوں کہ رات کے اندھیرے میں جہاں چاہو چلے جاؤ۔مجھے جام شہادت اسی میدان میں نوش کرنا ہے۔لیکن تمہیں اپنی خاطر جنگ میں جھونکنا اور مروانا نہیں چاہتا ۔عزیزوں کی آنکھیں پر نم ہو گئیں سب نے تھر تھراتے ہوئے لبوں سے جواب دیا کہ امام عالی مقام ہم اپنے خون کا آخری قطرہ بھی آپ کے قدموں میں گرا دیں گے۔اگر آج آپ کو تنہا چھوڑ دیا تو کل اپنے خدا اور نبی اکرم ؐ کو کیا منہ دکھائیں گے ۔ہم آپ کی خاطر کٹ مریں گے۔جانیں قربان کر دیں گے اور یزیدی لشکر کو بتا دیں گے کہ اہلِ بیت ؑ ایسے ہوتے ہیں ۔امام عالی مقام نے رات بھر صبر کی تلقین کی اہلِ بیت ؑ کے مقدس خیموں میں رات بھر تلاوت ہوتی رہی ،سجدے ہوتے رہے استغفار ہوتا رہا اور ذکر ہوتا رہا اور اللہ کی بارگاہ میں مناجات کرتے رہے ۔علی الصبح معرکہ کربلا بپا ہوا ۔سب سے پہلے یکے بعد دیگرے ایک ایک شخص آتا رہا اور قافلہ حسینی کے جوان یزیدی لشکر کے لوگوں کو واصل جہنم کرتے رہے ۔انہوں نے اجتماعی حملے کا فیصلہ کر لیا ۔لیکن ادھر سے ایک ایک جوا ن پورے قافلے کا مقابلہ کرتا رہا ۔سارے ساتھی جانثار شہید ہو گئے اب صرف اہلِ بیت نبوت ؐ کے افراد رہ گئے ۔امام حسین ؑ نے چاہا کہ اس خاندان سے میں آغاز کروں ،تلوار اٹھائی ،لیکن حضرت علی اکبر میدان میں آ گئے عرض کرنے لگے ابا جان ! بیٹا آپ کا جوان ہے اور جوان بیٹوں کے ہوتے ہوئے باپ کو ایسی تکلیف کی ضرورت نہیں ۔میدان میں پہنچے، جہاد شروع کیا ۔آپ کی تلوار جس سمت اٹھتی یزیدی فوج کے ٹکڑے اڑا دیتی۔آپ نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا،پھر آپ کا گھوڑا زخمی ہو گیا ۔حیدری خون اور حسینی شجاعت نے یزیدی لشکر کو مصیبت اور مشقت میں ڈال دیا۔اور ان کے پر خچے اڑا دئیے ، امام حسین ؑ چاہتے تھے کہ اپنے جوان بیٹے کو، شباب کے ماہ کامل کو، حسن کے ماہ تمام کو،اپنی آنکھوں سے لڑتا ہوا دیکھیں ۔لیکن میدان کرب و بلا کی گرد نے ان کو چھپا لیا تھا کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہیں اور ان پر کیا بیت رہی ہے بس اتنا اندازہ ہوتا تھا کہ جس سمت یزیدی لشکر کی بھیڑیں بھاگتیں، امام حسین ؑ اور اہلِ بیت ؑ کے لوگ سمجھ لیتے کہ حسین ؑ کا لاڈلہ بیٹا اس سمت جا رہا ہے۔یہ علی حیدر کرار کا پوتا اور حضرت محمد ؐ کا نواسہ دیر تک یزیدیوں کو واصل جہنم کرتا رہا۔پیاس کی شد ت نے آ گھیرا،جسم پر بیسیوں زخم لگ گئے پانی کا ایک گھونٹ بھر کر دوبارہ تازہ دم ہو نے کے لیے آئے تو عرض کیا ابا جان !اگر پانی کا ایک گھونٹ مل جائے تو پھر تازہ دم ہو کر حملہ کروں ۔فرمایا ! علی اکبر ! پانی تو میسر نہیں ۔لیکن اپنی سوکھی ہوئی زبان تیرے منہ میں ڈال سکتا ہوں ،حضرت علی اکبر نے امام عالی مقام کی سوکھی ہوئی زبان چکھی اور اس سے پھر تازہ دم ہو کر میدان میں پہنچے ،دیر تک لڑنے کے بعد بے اندازہ زخم کھا کر زمین پر گر پڑے ایک نیزہ آپ کے سینہ اقدس میں پیوست ہو گیا ۔اچانک زبان سے آواز آئی یا ابتاہ!اے ابا جان ،امام حسین ؑ بے ساختہ دوڑ پڑے جا کر اپنے بیٹے کو گود میں لے کر اٹھا لیا ۔بیٹا ایک عجیب انداز سے اپنے باپ کو تک رہا ہے عر ض کی ۔ابا جان اگر آپ نیزے کا یہ پھل جسم سے نکال دیں تو میں ایک بار پھر میدان میں جانے کے لیے تیار ہوں ۔آپ کا بیٹا دشمن کی کثرت کے باوجود ہمت ہارنے والا نہیں ۔امام حسین ؑ نے گود میں جوان بیٹے کو، اس ماہ تمام کو، اس حسن کے پیکر کو لیا ۔سر سے پاؤں تک جسم زخموں سے چور تھا آپ نے نیزے کا پھل نکالا۔خون کا فوارہ ابل پڑا ۔امام حسین ؑ جب علی اکبر کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے اس وقت آپ کی عمر 56سال پانچ مہینے اور پانچ دن تھی ۔ابنِ عساکر لکھتے ہیں کہ داڑھی اور سر کا ایک بال بھی سفید نہ تھا لیکن خون کے فوارے کو دیکھ کر اور جوان بیٹے کی روح قفس عنصری سے پرواز کرتی دیکھ کر ،اتنا صدمہ پہنچا ، اور اس قدر غم لاحق ہوا کہ جب جوان بیٹے کی لاش اٹھا کر واپس آئے تو سر اور داڑھی کے بال سفید ہو چکے تھے۔
عزم و ہمت اور صبر و استقلال کے اس پیکر نے جواں بیٹے کی لاش خیمے میں
رکھی ہوئی شہیدوں کی لاشوں کے ساتھ لا کر رکھ دی اور اس دفعہ خود میدان
میں جانے کی تیاری شروع کر دی ۔ایک چھوٹا سا بچہ تلوار اٹھا کر سامنے آیا
۔یہ کون ہے۔یہ قاسم بن حسن بن علی ؑ ہے حضرت قاسم سے فرمایا بیٹے تو میرے
بھائی حسن ؑ کی نشانی ہے تو آرام کر ! جواب دیا چچا جان ! میں قیامت کے دن
اپنے باپ کو کیا منہ دکھاؤں گا ؟وہ کہیں کہ تیرے چچا شہید ہو گئے اور تو
دیکھتا رہا۔نہیں میرے ننھے گلے پر پہلے تلوار چل لے پھر آپ کی باری آئے گی
۔آخر قاسم بن حسن ؑ بھی شہید ہو گئے ۔
لیکن یہ میدان امتحان و آزمائش تھا حسین ؑ تو ان مصائب و آلام میں صبر کر کے اپنے مولا کو راضی کر رہے تھے ان کے نانا ان کو تک رہے تھے کہ میرا حسین ؑ جسے میں نے اپنے کندھوں پر سوار کیا ہے،حضرت فاطمہ زہرا ؑدیکھ رہی تھیں ، کہ جس حسین ؑ کو میں نے دودھ پلایا ۔علی شیر خدا ملاحظہ فرما رہے تھے کہ جس کے رگ و ریشے میں میرا خون گردش کر رہا ہے آج اس مقام صبر اور مقام استقامت پر اس کے قدم کہیں لڑکھڑائے تو نہیں ہیں ؟حسین ؑ ابنِ علی ؑ اس حال میں صبر و رضا کا پیکر کل بن کر عزم وکے ساتھ مسکراتے رہے ۔
آخر جب امام حسین علیہ اسلام نے میدان میں آنے کا ارادہ کیا تو عابدؑ بیمار نکل آئے اور عرض کی اباجان !میرے ہوتے ہوئے آپ میدان میں جا رہے ہیں ۔میں بھی اپنے باقی بھائیوں کی طرح اپنے نانا جان کا دیدار کرنا چاہتا ہوں ،میں بھی اپنی دادی جان کی بارگاہ میں جا کر سرخ رو ہونا چاہتا ہوں ،اب شہادت کا جام پینے کی میری باری ہے ۔امام حسین ؑ نے فرمایا! تو رہ جا کہ خانوادہ رسول ؐ کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے ،ہر پھول مرجھا چکا ہے ۔اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا ہے مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تو بھی شہید ہو گیا تو تیرے نانا کی نسل کہاں سے چلے گی تو اپنے نانا کی نسل کی بقاء کے لیے زندہ رہ۔
حضرت امام حسین ؑ امام زین العابدین ؑ کو چھوڑ کر خود میدان کربلا میں اترے ۔آپ بھی دیر تک ہزاروں یزیدیوں کو واصلِ جہنم کرتے رہے ،پورے لشکر میں کہرام مچ گیا ۔علی شیر خدا کا یہ جواں بیٹا ،یہ اللہ کا شیر جس طرف تلوار لے کر نکل جاتا ہزاروں افراد بھیڑوں کی طرح آگے آگے بھاگنے لگتے۔آپ انہیں واصل جہنم کرتے رہے تلواروں اور نیزوں کے وار کھاتے رہے،سارا دن اسی طرح گزر گیا خیال آیا کہ وضو تازہ کر لوں ۔دریائے فرات پر گئے پانچ سو کا لشکر دریا چھوڑ کر بھاگ گیا۔آپ نے وضو کرنے کے لیے فرات سے چلو میں پانی لیا تو خون آلودہ ہو گیا ۔آپ نے اس کو اچھالا اور واپس لوٹ آئے مسکرا کر آسمان کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا۔جمعہ کا دن تھا اب وہاں جمعہ کہاں نمازِ ظہر کا وقت آیا۔فرمانے لگے یزیدیو! کچھ دیر رک جاؤ تاکہ اللہ کی بارگاہ میں دو سجدے ادا کر لوں ،لیکن وہ ظالم یہ مہلت دینے پر بھی تیار نہ تھے۔امام عالی مقام نے ان کے یہ عزائم دیکھ کر تلوار رکھ دی اور ظہر کی نماز کے لئے نیت باندھ لی۔ظالموں نے یہ نہ دیکھا کہ نماز ادا کر رہے ہیں کچھ دیر توقف کر لیں۔بلکہ انہوں نے موقع غنیمت جانا ،کہ خدا کا شیر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہے اور یہی موقع ہے کہ اس پر قابو پایا جا سکتا ہے،چاروں طرف سے چڑھائی کر دی ۔تیروں کی بوچھاڑ اور پے در پے حملوں نے نواسہ رسول ؐ کے جسم کو نڈھال کر دیا ۔چنانچہ گھوڑے سے گر گئے یہاں تک کہ جسم اطہر میں اٹھنے کی سکت باقی نہ رہی ،گرے ہوئے شیر کے سامنے آ کر بھی کوئی وار نہ کرتا تھا ،پیچھے سے وار کرتے۔نیزوں سے وار ہوتے ،امام حسین ؑ صبر و رضا اور توکل کے ساتھ سارے مرحلے کامیابی سے طے کر کے شہادت کے اس مقام پر پہنچ گئے جس کی عظمت و رفعت کو کوئی نہیں پا سکتا ان کی روح کو قدسیانِ فلک نے ایک جلوس کی صورت میں حضور ایزدی پہنچانے کے لیے تمام انتظا مات مکمل کر لیے تھے۔ادھر روح قفس عنصری سے پرواز کرنے لگی ۔ادھر ہاتف غیبی سے ندا آئی حسین ؑ اب آ جا تو نے صبر کو کمال عطا کر دیا استقامت کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔امت مصطفےٰ ؐ کا سر اونچا کر دیا ہے، اے ھسین ؑ آج سے تیرے اقدام کو بنائے لا الہ قرار دیا جائے گا ۔حسین ؑ اب آ جا ،اے روح طاہر ! ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیہ،جنت کے دروازے کھول دئیے گئے نانا جان استقبال کے لیے کھڑے ہیں اے حسین تو نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔حضرت فاطمہ زہرا ؑ بیٹے کو شاباش دیتی ہیں۔علی شیر خدا بیٹے کو آفرین کہتے ہیں ۔امام عالی مقام کی روح اس طرح ہجوم ملائکہ میں اللہ کی بارگاہ میں باریاب ہوتی ہے اور عزت پاتی ہے آپ کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا ہے ظالموں کے جذبہ انتقام کی پھر بھی تسکین نہیں ہوتی وہ جسم اطہر پر گھوڑے دوڑاتے ہیں ٹاپوں سے روندتے ہیں ۔انہیں خیال تک نہیں آتا کہ یہ وہ سر ہے جسے سرکار دو عالم ؐ چوما کرتے تھے ۔یہ وہ جسم ہے جسے اپنے کاندھے پر سوار کرتے تھے ۔اور اپنی پیٹھ پر سوار کر کے گھٹنوں کے بل چلتے تھے۔
لیکن یہ میدان امتحان و آزمائش تھا حسین ؑ تو ان مصائب و آلام میں صبر کر کے اپنے مولا کو راضی کر رہے تھے ان کے نانا ان کو تک رہے تھے کہ میرا حسین ؑ جسے میں نے اپنے کندھوں پر سوار کیا ہے،حضرت فاطمہ زہرا ؑدیکھ رہی تھیں ، کہ جس حسین ؑ کو میں نے دودھ پلایا ۔علی شیر خدا ملاحظہ فرما رہے تھے کہ جس کے رگ و ریشے میں میرا خون گردش کر رہا ہے آج اس مقام صبر اور مقام استقامت پر اس کے قدم کہیں لڑکھڑائے تو نہیں ہیں ؟حسین ؑ ابنِ علی ؑ اس حال میں صبر و رضا کا پیکر کل بن کر عزم وکے ساتھ مسکراتے رہے ۔
آخر جب امام حسین علیہ اسلام نے میدان میں آنے کا ارادہ کیا تو عابدؑ بیمار نکل آئے اور عرض کی اباجان !میرے ہوتے ہوئے آپ میدان میں جا رہے ہیں ۔میں بھی اپنے باقی بھائیوں کی طرح اپنے نانا جان کا دیدار کرنا چاہتا ہوں ،میں بھی اپنی دادی جان کی بارگاہ میں جا کر سرخ رو ہونا چاہتا ہوں ،اب شہادت کا جام پینے کی میری باری ہے ۔امام حسین ؑ نے فرمایا! تو رہ جا کہ خانوادہ رسول ؐ کا ہر چراغ گل ہو چکا ہے ،ہر پھول مرجھا چکا ہے ۔اب میری نسل میں فقط تو ہی باقی رہ گیا ہے مجھے تو شہید ہونا ہی ہے اگر تو بھی شہید ہو گیا تو تیرے نانا کی نسل کہاں سے چلے گی تو اپنے نانا کی نسل کی بقاء کے لیے زندہ رہ۔
حضرت امام حسین ؑ امام زین العابدین ؑ کو چھوڑ کر خود میدان کربلا میں اترے ۔آپ بھی دیر تک ہزاروں یزیدیوں کو واصلِ جہنم کرتے رہے ،پورے لشکر میں کہرام مچ گیا ۔علی شیر خدا کا یہ جواں بیٹا ،یہ اللہ کا شیر جس طرف تلوار لے کر نکل جاتا ہزاروں افراد بھیڑوں کی طرح آگے آگے بھاگنے لگتے۔آپ انہیں واصل جہنم کرتے رہے تلواروں اور نیزوں کے وار کھاتے رہے،سارا دن اسی طرح گزر گیا خیال آیا کہ وضو تازہ کر لوں ۔دریائے فرات پر گئے پانچ سو کا لشکر دریا چھوڑ کر بھاگ گیا۔آپ نے وضو کرنے کے لیے فرات سے چلو میں پانی لیا تو خون آلودہ ہو گیا ۔آپ نے اس کو اچھالا اور واپس لوٹ آئے مسکرا کر آسمان کی طرف دیکھا اور سر جھکا لیا۔جمعہ کا دن تھا اب وہاں جمعہ کہاں نمازِ ظہر کا وقت آیا۔فرمانے لگے یزیدیو! کچھ دیر رک جاؤ تاکہ اللہ کی بارگاہ میں دو سجدے ادا کر لوں ،لیکن وہ ظالم یہ مہلت دینے پر بھی تیار نہ تھے۔امام عالی مقام نے ان کے یہ عزائم دیکھ کر تلوار رکھ دی اور ظہر کی نماز کے لئے نیت باندھ لی۔ظالموں نے یہ نہ دیکھا کہ نماز ادا کر رہے ہیں کچھ دیر توقف کر لیں۔بلکہ انہوں نے موقع غنیمت جانا ،کہ خدا کا شیر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہے اور یہی موقع ہے کہ اس پر قابو پایا جا سکتا ہے،چاروں طرف سے چڑھائی کر دی ۔تیروں کی بوچھاڑ اور پے در پے حملوں نے نواسہ رسول ؐ کے جسم کو نڈھال کر دیا ۔چنانچہ گھوڑے سے گر گئے یہاں تک کہ جسم اطہر میں اٹھنے کی سکت باقی نہ رہی ،گرے ہوئے شیر کے سامنے آ کر بھی کوئی وار نہ کرتا تھا ،پیچھے سے وار کرتے۔نیزوں سے وار ہوتے ،امام حسین ؑ صبر و رضا اور توکل کے ساتھ سارے مرحلے کامیابی سے طے کر کے شہادت کے اس مقام پر پہنچ گئے جس کی عظمت و رفعت کو کوئی نہیں پا سکتا ان کی روح کو قدسیانِ فلک نے ایک جلوس کی صورت میں حضور ایزدی پہنچانے کے لیے تمام انتظا مات مکمل کر لیے تھے۔ادھر روح قفس عنصری سے پرواز کرنے لگی ۔ادھر ہاتف غیبی سے ندا آئی حسین ؑ اب آ جا تو نے صبر کو کمال عطا کر دیا استقامت کو انتہا تک پہنچا دیا ہے۔امت مصطفےٰ ؐ کا سر اونچا کر دیا ہے، اے ھسین ؑ آج سے تیرے اقدام کو بنائے لا الہ قرار دیا جائے گا ۔حسین ؑ اب آ جا ،اے روح طاہر ! ارجعی الیٰ ربک راضیۃ مرضیہ،جنت کے دروازے کھول دئیے گئے نانا جان استقبال کے لیے کھڑے ہیں اے حسین تو نے میرا سر فخر سے بلند کر دیا ہے۔حضرت فاطمہ زہرا ؑ بیٹے کو شاباش دیتی ہیں۔علی شیر خدا بیٹے کو آفرین کہتے ہیں ۔امام عالی مقام کی روح اس طرح ہجوم ملائکہ میں اللہ کی بارگاہ میں باریاب ہوتی ہے اور عزت پاتی ہے آپ کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا ہے ظالموں کے جذبہ انتقام کی پھر بھی تسکین نہیں ہوتی وہ جسم اطہر پر گھوڑے دوڑاتے ہیں ٹاپوں سے روندتے ہیں ۔انہیں خیال تک نہیں آتا کہ یہ وہ سر ہے جسے سرکار دو عالم ؐ چوما کرتے تھے ۔یہ وہ جسم ہے جسے اپنے کاندھے پر سوار کرتے تھے ۔اور اپنی پیٹھ پر سوار کر کے گھٹنوں کے بل چلتے تھے۔
0 comments:
Post a Comment