• Feed RSS


مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“تعجب ہے اس آدمی پر جو اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ اس کے دوست و احباب بہت سے ہوں اور پھر بھی وہ علماء و اولیاء و پرہیزگاروں کی صحبت کیوں اختیار نہیں کرتا ان کے فضائلِ غنیمت سمجھنے کے قابل ہیں اور ان کے علوم رہنمائی کرتے ہیں۔“
یہ تمام اصول و شرائط شریعت نے اس ہی وجہ سے بتائے ہیں کہ ہر انسان اس بات کی لیاقت نہیں رکھتا کہ کس کی دوستی اختیار کی جائے؟ لٰہذا اگر کبھی دوست بنانا مقصود ہو تو ان شرائط کوملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ جس کسی کو دوست بنایا جا رہا ہو تو اس میں کچھ تو ایسی صفات ہوں جس کی وجہ سے اس میں رغبت محسوس ہو۔

ایک جیسی طبیعتوں میں آپس میں کشش ہوتی ہے
ایک روایت کے مطابق
“اگر ایک مومن اس مجلس میں جائے جس میں سو منافق ہوں اور ایک ایماندار تو وہ اسی ایماندار کے پاس جا کر بیٹھے گا اور ایک منافق اسی مجلس میں جائے جس میں سو ایماندارہوں اور ایک منافق تو وہ اسی منافق کے پاس آ کر ہم نشست ہو گا۔“
اس سے معلوم ہوا کہ مثل کی طرف کشش ہوتی ہے اگرچہ اس کو علم نہ ہو جیسے پرندے، کہ اڑنے میں دو قسم کے پرندے کبھی متفق نہیں ہوتے اور بغیر کسی مناسبت کے ان کی پرواز ایک ساتھ نہیں ہوتی ہے۔

اگر تمام صفات ایک شخص میں نہ ملیں تو کیا کریں؟
کیونکہ یہ تمام صفات اک ہی شخص میں تو جمع نہیں ہو سکتیں لٰہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہمیں دوستی کی جو بھی غرض ہے، اس کی‌ صحیح پہچان ہو مثلاََ
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر دوستی کا مقصد صرف دوستی ہے
تو بہتر ہے کسی نیک اخلاق والے کی دوستی اختیار کریں رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا
“تمہارے ہمنیشن اور دوست صالح اور نیک ہونے چاہئیں اور تمہیں چاہیئے کہ زاہد اور پرہیزگار لوگوں کی جانب بھائی چارے اور رفاقت کا ہاتھ بڑھاؤ کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں فرمایا کہ قیامت کے دن سب دوست ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے بجز پرہیزگار لوگوں کے، جن کی دوستی پائیدار ہوگی۔“
2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر دوستی کا مقصد صحبتِ دینی ہو
تو پھر ایسے شخص کی تلاش کی جائے جو علم بھی رکھتا ہو اور پرہیز گار بھی ہو۔
3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر مھض دنیا ہی کے لئے دوستی اختیارکرنی ہے
تو پھر بہتر ہے کہ وہ کسی اہلِ کرم ہی کو ڈھونڈ لے جو سلیم الطبع ہو۔

دوستی میں احتیاط و ہوشیاری کی اہمیت
تجربہ کار اور عقل مند لوگ دوستوں کے انتخاب میں بڑی احتیاط برتتے ہیں اور اگر کسی سے دوستی پیدا کرنا اور اس کا سچا دوست بننا چاہیں تو عقل و ہوش سے کام لیتے ہیں اور جلد بازی اور بے جا احساسات کو اس امر پر اثر انداز نہیں ہونےدیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے پہل اس سے مانوس ہوتے ہیں تاکہ اس کے طرزِ فکر،اخلاق اور گزشتہ زندگی کے حالات و واقعات سے آگاہ ہو سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اسے مختلف طریقوں سے آزماتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ وہ دوستی کی تمام شرائط پر پورا اترتا ہے اور اس کی صلاحیتوں کا اندازہ لگا لیتے ہیں پھر اس سے دوستی قائم کرتے ہیں اور ایسی دوستی تمام خطرات سے پاک، مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“جو شخص صحیح آزمائش کے بعد دوستی اور رفاقت کی بنیاد ڈالتا ہے اس کی رفاقت پائیداراور دوستی مستحکم ہوتی ہے۔“
امام صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“ تمہارے جاننے والوں میں جس شخص کو تم پر تین بار غصہ آیا ہو لیکن اس نے تمارے بارے میں کوئی ناروا بات نہ کہی ہو تو تم اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا سکتے ہو اور اس کے ساتھ دوستی ک بنیاد رکھ سکتے ہو۔“

دوستی میں اعتدال اور میانہ روی ضروری ہے
دوستی میں اعتدال اور میانہ روی ضروری ہے یہ ایک ایسا نکتہ ہے کہ جسے ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔
کیونکہ ممکن ہے کہ بے اعتدالی کا نتیجہ ناقابلِ تلافی نقصان کی صورت میں نکلے جو انسان کو تباہی سے دوچار کر دے۔
دوستی ہو جانے کے بعد مندرجہ ذیل احتیاطوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست پر ایک حد تک اعتماد کریں
دوستی کے دوران دوست پر اسی حد تک اعتماد کرنا چاہیے کہ اگر بعد مین رنجیدگی کی بناء پر ایک دوسرے سے جدائی بھی ہو جائے تو وہ کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
امام علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“جس دوست سے تمہیں دلی تعلق ہو اس کے ساتھ دوستی کا اظہار اعتدال کی حد میں اور مصلحت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرو کیونکہ ممکن ہے کہ ایک دن وہ تمہارا دشمن بن جائے اور جس شخص سے تمہاری دوستی نہ ہو اس سے سرد مہری برتنے میں بھی اعتدال سے کام لو کیونکہ ممکن ہے کہ ایک دن وہ کدورت چھَٹ جائے اور وہ تمہارا دوست بن جائے۔“
2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب راز دوست کو مت بتاؤ
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ
“م اپنا ہر راز دوست کو نہ بتاؤ کیونکہ کیا خبر وہ کس وقت تمہارا دشمن بن جائے اور ہر وہ تکلیف جو تم اپنے دشمن کو پہنچا سکتے ہو مت پہنچاؤ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دن تمہارا دوست بن جائے۔“
یہی وجہ ہے کہ ایک بڑے سردار نے جو میدانِ جنگ کی طرف جا رہا تھا لوئی چہاردھم سے کہا تھا کہ آپ میرے دوستوں کے شر سے میری حفاظت کریں، دشمنوں کا مجھے کوئی خوف نہیں۔
امام علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“اپنے ووستوں پر ساری محبت نچھاور کر دو اس پر مکمل اعتماد مت کرو اس کے ساتھ ہر محاظ سے مساوات برتو اور اس کی مدد کرو لیکن اسے اپنے تمام رازوں سے آگاہ نہ کرو۔“
3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے دوست کو کبھی رنجیدہ مت کرو
مولا علیہ علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“جب انسان اپنے دوست کو رنجیدہ کر دے تو گویا اس نے جدائی کے لئے راستہ ہموار کر دیا۔“
کیونکہ اول تو قابلِ اعتماد دوست کا ملنا ہی مشکل ہے لیکن اس سے زیادہ مشکل چیز اس کے ساتھ دوستی کو برقرار رکھنا ہے۔
مولا علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“کمزور ترین شخص وہ ہے جو اپنے دوست نہ بنا سکے اور اس سے زیادہ کمزور وہ شخص ہے جو اپنے حاصل کردہ دوستوں کو کھو دے۔“
4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چغلخوروں کی بات پر توجہ نہ دیں
ایسے لوگ بھی ہمارے معاشرے میں ہیں جنہیں دوسروں کے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات نہیں بھاتے اور وہ ہمیشہ ان کے درمیان پُھوٹ ڈالنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ وہ سچی، جھوٹی باتیں ایک دوسرے کے پا جا کر لگاتے ہیں اور اس طرح انہیں ایک دوسرے سے بددل کر دیتے ہیں۔
مولا علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“جو شخص چغلخوروں کی باتوں کی طرف توجہ دے گا وہ اپنے عزیز دوست کو کھو بیٹھے گا۔“
5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جدائی کا باعث بننے والے افعال سے اجتناب کریں
ایک دن حارث بن اعور نے جو مولا علی علیہ اسلام کے اصحاب میں سے تھے، کہا کہ یا امیرالمومنین!میں آپ کو دوست رکھتا ہوں۔
توجب اس نے دوستی کا ذکر چھیڑا تو مولا علی علیہ اسلام نے مندرجہ ذیل جملوں مں ان کاموں کی تشریح فرمائی جو دوستوں کو ایک دوسرے کے بارے میں انجام نہیں دینے چاہیئیں۔ فرمایا، اگر تم کسی کو دوست رکھتے ہو تو
1۔۔۔۔۔۔۔ اس سے مخالفت اور دشمنی نہ کرو
2۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مذاق نہ اڑاؤ
3۔۔۔۔۔۔۔ اس سے جھگڑا نہ کرو
4۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ نا مناسب شوخی نہ کرو
5۔۔۔۔۔۔۔ اسے پست اور حقیر مت سمجھو
6۔۔۔۔۔۔۔ اس پر برتری اور فوقیت حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو
کیونکہ یہ کام دوستی کے مقام سے مناسبت نہیں رکھتے اور دوستوں کے تعلقات بگاڑ دیتے ہیں۔ ایک دانشور کا کہنا ہے کہ
“بیشتر لوگ تمسخر پر مبنی بات پر نقصان برداشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔“
اور ایک لاطینی زبان کی مشہور مثل ہے کہ
“تمسخر دوستی کا خون کر دیتا ہے۔“
6۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست کی ہر بات پر تنقید مت کریں
دوست کی ہر بات میں مِین میخ نکالنا اور اس کی معمولی غلطیوں اور لغزشوں سے درگزر نہ کرنا اتنی بڑی غلطی ہے جو بعض اوقات دوستی کے خاتمہ کا سبب بن جاتی ہے۔
امیرالمومنین علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“اپنے دوست کا عذر (اگر اس سے کوئی لغزش سر زد ہو جائے تو) قبول کر لو اور اپنی لغزش کے لئے کوئی عذر پیش نہ کرسکے تو خود اس کے لئے کوئی عذر گھڑ لو۔“



گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ "لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحرخیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگادیا کیجیئے۔"وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اٹھتے ہی انہوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکابازی شروع کردی کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر، جاگیں تو لاحول پڑھ لیں گے۔ لیکن یہ گولہ باری لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی گئی۔ اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں، صراحی پر رکھا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آبااجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اٹھی ہوگی۔ بہتر آوازیں دیتا ہوں۔۔۔ "اچھا!۔۔۔ اچھا!۔۔۔ تھینک یو!۔۔۔ جاگ گیا ہوں!۔۔۔ بہت اچھا! نوازش ہے!" آنجناب ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے؟ یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جلا رہے ہیں؟ اور حضرت عیسی بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی آواز میں "قم" کہہ دیا کرتے ہوں گے، زندہ ہوگیا تو ہوگیا، نہیں تو چھوڑ دیا۔ کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کے پڑجایا کرتے تھے؟ توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے؟ یہ تو بھلا ہم سے کیسے ہوسکتا تھا کہ اٹھ کر دروازے کی چٹخنی کھول دیتے، پیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں، دل کو جس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ آخرکار جب لیمپ جلایا اور ان کو باہر سے روشنی نظر آئی، تو طوفان تھما۔
اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں، کہ جگمگا رہے ہیں! سوچا کہ آج پتہ چلائیں گے، یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے۔ لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی، تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو پڑوسی کو آواز دی۔ "لالہ جی!۔۔۔ لالہ جی؟"
جواب آیا۔ "ہوں۔"
میں نے کہا "آج یہ کیا بات ہے۔ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟"
کہنے لگے "تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے؟"
تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے، چونک کر پوچھا۔ "کیا کہا تم نے؟ تین بجے ہیں۔"
کہنے لگے۔ "تین۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں۔۔۔ کچھ سات۔۔۔ ساڑھے سات۔۔۔ منٹ اوپر تین ہیں۔"
میں نے کہا۔ "ارے کم بخت، خدائی فوجدار، بدتمیز کہیں کے، میں نے تجھ سے یہ کہا تھا کہ صبح جگا دینا، یا یہ کہا تھا کہ سرے سے سونے ہی نہ دینا؟ تین بجے جاگنا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے؟ تین بجے ہم اٹھ سکا کرتے تو اس وقت دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے؟ ابے احمق کہیں کے تین بجے اٹھ کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ امیرزادے ہیں، کوئی مذاق ہے، لاحول ولاقو"۔
دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد وتشدد کو خیرباد کہہ دوں لیکن پھر خیال آیا کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا ٹھیکہ کوئی ہمیں نے لے رکھا ہے؟ ہمیں اپنے کام سے غرض۔ لیمپ بجھایا اور بڑبڑاتے ہوئے پھر سوگئے۔
اور پھر حسب معمول نہایت اطمینان کے ساتھ بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اٹھے، بارہ بجے تک منھ ہاتھ دھویا اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔
شام کو واپس ہاِسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی اس پر شام کا ارمان انگیز وقت۔ ہوا بھی نہایت لطیف تھی۔ طبعیت بھی ذرا مچلی ہوئی تھی۔ ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمریمیں داخل ہوئے کہ
بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے
کہ اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی۔ "مسٹر"۔
ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے تھے۔ بس انگلیاں وہیں پر رک گئیں۔ اور کان آواز کی طرف لگ گئے۔ ارشاد ہوا "یہ آپ گا رہے ہیں؟" (زور "آپ" پر)
میں نے کہا۔ "اجی میں کس لائق ہوں۔ لیکن خیر فرمائیے؟" بولے "ذرا۔۔۔ وہ میں۔۔۔ میں ڈسٹرب ہوتا ہوں ۔ بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی فورا مر گئی۔ دل نے کہا۔ "اونابکار انسان دیکھ پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں "صاحب، خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ "خدایا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے۔"آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ سبز، زرد سب ہی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کوئی سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا پھر ۔اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فورا اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اٹھنا تو لغویات ہیالبتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اٹھنا معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی، اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خرماد ہم ثواب۔
یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سویرے اٹھنا ہو تو جلدی ہی سو جانا چاہیئے۔ کھانا باہر سے ہی کھا آئے تھے۔ بستر میں داخل ہوگئے۔
چلتے چلتے خیال آیا، کہ لالہ جی سے جگانے کے لیے کہہ ہی نہ دیں؟ یوں ہماری اپنی قوت ارادی کافی زبردست ہے جب چاہیں اٹھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کیا ہرج ہے؟
ڈرتے ڈرتے آواز دی۔ "لالہ جی!"
انہوں پتھر کھینچ مارا "یس!"
ہم اور بھی سہم گئے کہ لالہ جی کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں، تتلا کے درخواست کی کہ لالہ جی، صبح آپ کو بڑی تکلیف ہوئی، میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ کل اگر ذرا مجھے چھ بجے یعنی جس وقت چھ بجیں۔۔۔"
جواب ندارد۔
میں نے پھر کہا "جب چھ بج چکیں تو۔۔۔ سنا آپ نے؟"
چپ۔
"لالہ جی!"
کڑکتی ہوئی آواز نے جواب دیا۔ "سن لیا سن لیا چھ بجے جگا دوں گا۔ تھری گاما پلس فور ایلفا پلس۔۔۔"
"ہم نے کہا ب۔۔۔ ب۔۔۔ ب۔۔۔ بہت اچھا۔ یہ بات ہے۔"
توبہ! خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔
لالہ جی آدمی بہت شریف ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح چھ بجے انہوں نے دروازو ں پر گھونسوں کی بارش شروع کردی۔ ان کا جگانا تو محض ایک سہارا تھا ہم خود ہی انتظار میں تھے کہ یہ خواب ختم ہولے تو بس جاگتے ہیں۔ وہ نہ جگاتے تو میں خود ایک دو منٹ کے بعد آنکھیں کھول دیتا۔ بہر صورت جیسا کہ میرا فرض تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس شکل میں قبول کیا کہ گولہ باری بند کردی۔اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب سے ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلافات ہے بہرحال اس بات کا تو مجھے یقین ہے۔ اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طرح کلمہ شہادت بھی پڑھا۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ اٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی۔ پھر کا نہیں پتہ۔ شاید لحاف اوپر سے اتار دیا۔ شاید سر اس میں لپیٹ دیا۔ یا شاید کھانسایا خراٹا لیا۔ خیر یہ تو یقین امر ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے۔ لیکن لالہ جی کے جگانے کے بعد اور دس بجے سے پیشتر خدا جانے ہم پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ نہیں ہمارا خیال ہے پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ بہرصورت یہ نفسیات کا مسئلہ ہے جس میں نہ آپ ماہر ہیں نہ میں۔ کیا پتہ، لالہ جی نے جگایا ہی دس بجے ہو۔ یا اس دن چھ دیر میں بجے ہوں۔ خدا کے کاموں میں ہم آپ کیا دخل دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے دل میں دن بھر یہ شبہ رہا کہ قصور کچھ اپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جناب شرافت ملاحظہ ہو، کہ محض اس شبہ کی بنا پر صبح سے شام تک ضمیر کی ملامت سنتا رہا۔ اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ مگر لالہ جی سے ہنس ہنس کر باتیں کیں ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی ہو، حد درجے کی طمانیت ظاہر کی کہ آپ کی نوازش سے میں نے صبح کا سہانا اور روح افزا وقت بہت اچھی طرح صرف کیا ورنہ اور دنوں کی طرح آج بھی دس بجے اٹھتا۔ "لالہ جی صبح کے وقت دماغ کیا صاف ہوتا ہے، جو پڑھو خدا کی قسم فورا یاد ہوجاتا ہے۔ بھئی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے یعنی اگر صبح کے بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دن کیا بری طرح کٹا کرتا۔"
لالہ جی نے ہماری اس جادوبیانی کی داد یوں دی کہ آپ پوچھنے لگے۔ "تو میں آپ کو چھ بجے جگا دیا کروں نا؟"
میں نے کہا۔ "ہاں ہاں، واہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بیشک۔"
شام کے وقت آنے والی صبح کے مطالعہ کے لیے دو کتابیں چھانٹ کر میزپر علیحدہ جوڑ دیں۔ کرسی کو چارپائی کے قریب سرکالیا۔ اوورکوٹ اور گلوبند کو کرسی کی پشت پر آویزاں کر لیا۔ کنٹوپ اور دستانے پاس ہی رکھ لیے۔ دیاسلائی کو تکیئے کے نیچے ٹٹولا۔ تین دفعہ آیت الکرسی پڑھی، اور دل میں نہایت ہی نیک منصوبے باندھ کر سوگیا۔
صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی جھٹ آنکھ کھل گئی، نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے ان کو "گڈمارننگ" کیا، اور نہیات بیدارانہ لہجے میں کھانسا، لالہ جی مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا کہ آج ہم فورا ہی جاگ اٹھے۔ دل سے کہا کہ "دل بھیا، صبح اٹھنا تو محض ذرا سی بات ہے ہم یوں ہی اس سے ڈرا کرتے تھے"۔ دل نے کہا "اور کیا؟ تمہارے تو یوں ہی اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں"۔ ہم نے کہا "سچ کہتے ہو یار، یعنی اگر ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہماری باقاعدگی میں خلل انداز ہوں۔ اس وقت لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے جو دنیا ومافیہا سے بیخبر نیند کے مزے اڑاتے ہوں گے۔ اور ایک ہم ہیں کہ ادائے فرض کی خاطر نہایت شگفتگہ طبعی اور غنچہ دہنی سے جاگ رہے ہیں۔ "بھئی کیا برخوردار سعادت آثار واقع ہوئے ہیں۔" ناک کو سردی سی محسوس ہونے لگی تو اسے ذرا یو ں ہی سا لحاف اوٹ میں کر لیا اور پھر سوچنے لگے۔۔۔ "خوب۔ تو ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں بس ذرا اس کی عاد ت ہوجائے تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز بھی شروع کردیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے ہم بھی کیا روزبروز الحاد کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں نہ خدا کا ڈر اور نہ رسول کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کرلیں گے۔ اکبر بیچارا یہی کہتا کہتا مرگیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ چلی۔۔۔ (لحاف کانوں پر سرک آیا)۔۔۔ تو گویا آج ہم اور لوگوں سے پہلے جاگے ہیں۔۔۔ بہت ہی پہلے۔۔۔ یعنی کالج شروع ہونے سے بھی چار گھنٹے پہلے۔ کیا بات ہے! خداوندان کالج بھی کس قدر سست ہیں ایک مستعد انسان کو چھ بجے تک قطعی جاگ اٹھنا چاہئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوا کرے۔۔۔ (لحاف سر پر)۔۔۔ بات یہ ہے کہ تہذیب جدید ہماری تمام اعلی قوتوں کی بیخ کنی کر رہی ہے۔ عیش پسندی روزبروز بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ (آنکھیں بند)۔۔۔ تو اب چھ بجے ہیں تو گویا تین گھنٹے تو متواتر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پہلے کون سی کتابیں پڑھیں۔ شیکسپیئر یا ورڈزورتھ؟ میں جانوں شیکسپیئر بہتر ہوگا۔ اس کی عظیم الشان تصانیف میں خدا کی عظمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اور صبح کے وقت اللہ میاں کی یاد سے بہتر چیز کیا ہوسکتی ہے؟ پھر خیال آیا کہ دن کو جذبات کے محشرستان سے شروع کرنا ٹھیک فلسفہ نہیں۔ ورڈزورتھ پڑھیں۔ اس کے اوراق میں فطرت کو سکون واطمینان میسر ہوگا اور دل اور دماغ نیچر کی خاموش دلآویزیوں سے ہلکے ہلکے لطف اندوز ہوں گے۔۔۔ لیکن ٹھیک ہی رہے گا شیکسپیئر۔۔۔ نہیں ورڈزورتھ۔۔۔ لیڈی میکبتھ۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ سبزہ زار۔۔۔ سنجر سنجر۔۔۔ بادبہاری۔۔۔ صید ہوس۔۔۔ کشمیر۔۔۔ میں آفت کا پرکالہ ہوں۔۔۔یہ معمہ اب مابعد الطبعیات ہی سے تعلق رکھتا ہے کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور ورڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے۔ اس میں نہ معلوم کیا بھید ہے!
کالج ہال میں لالہ جی ملے۔ "مسٹر! صبح میں نے آپ کو پھر آواز دی تھی، آپ نے جواب نہ دیا؟"
میں نے زور کا قہقہہ لگا کر کہا۔ "اوہو۔ لالہ جی یاد نہیں۔ میں نے آپ کو گڈمارننگ کہا تھا؟ میں تو پہلے ہی سے جاگ رہا تھا"۔
بولے "وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعد میں۔۔۔ اس کے بعد!۔۔۔ کوئی سات بجے کے قریب میں نے آپ سے تاریخ پوچھی تھی، آپ بولے ہی نہیں۔"
ہم نے نہایت تعجب کی نظروں سے ان کو دیکھا۔ گویا وہ پاگل ہوگئے ہیں۔ اور پھر ذرا متین چہرہ بنا کر ماتھے پر تیوریاں چڑھائیغوروفکر میں مصروف ہوگئے۔ ایک آدھ منٹ تک ہم اس تعمق میں رہے۔ پھر یکایک ایک محجومانہ اور معشوقانہ انداز سے مسکراکے کہا۔ "ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں اس وقت۔۔۔ اے۔۔۔ اے، نماز پڑھ رہا تھا۔"
لالہ جی مرعوب سے ہو کر چل دیئے۔ اور ہم اپنے زہد واتقا کی مسکینی میں سر نیچا کئے کمرے کی طرف چلے آئے۔ اب یہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہوگیا ہے۔ جاگنا نمبر ایک چھ بجے۔ جگانا نمبر دو دس بجے۔ اس دوران لالہ جی آواز دیں تو نماز۔
جب دل مرحوم ایک جہان آرزو تھا تو یوں جاگنے کی تمنا کیا کرتے تھے کہ "ہمارا فرق ناز محو بالش کمخواب" ہو اور سورج کی پہلی کرنیں ہمارے سیاہ پرپیچ بالوں پر پڑ رہی ہیں۔ کمرے میں پھولوں کی بوئے سحری روح افزائیاں کر رہی ہو۔ نازک اور حسین ہاتھ اپنی انگلیوں سے بربط کے تاروں کو ہلکے ہلکے چھیڑ رہے ہوں۔ اور عشق میں ڈوبی ہوئی سریلی اور نازک آواز مسکراتی ہوئی گا رہی ہو!
تم جاگو موہن پیارے
خواب کی سنہری دھند آہستہ آہستہ موسیقی کی لہروں میں تحلیل ہوجائے اور بیداری ایک خوشگوار طلسم کی طرح تاریکی کے باریک نقاب کو خاموشی سے پارہ پارہ کردے چہرے کسی کی نگاہ اشتیاق کی گرمی محسوس کر رہا ہو۔ آنکھیں مسحور ہو کر کھلیں اور چار ہوجائیں۔ دلآویز تبسم صبح کو اور بھی درخشندہ کردے۔ اور گیت "سانوری صورت توری من کو بھائی" کے ساتھ ہی شرم وحجاب میں ڈوب جائے۔نصیب یہ ہے کہ پہلے "مسٹر! مسٹر!" کی آواز اور دروازے کے دنادن سامعہ نوازی کرتی ہے، اور پھر چار گھنٹے بعد کالج کا گھڑیال دماغ کے ریشے ریشے میں دس بجانا شروع کردیتا ہے۔ اور اس چار گھنٹے کے عرصہ میں گڑویوں کے گر گرنے۔ دیگچیوں کے الٹ جانے، دروازوں کے بند ہونے، کتابوں کے جھاڑنے، کرسیوں کے گھسیٹنے، کلیاں اور غرغرے کرنے، کھنکھارنے اور کھانسنے کی آوازیں تو گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔ اندازہ کرلیجیئے کہ ان سازوں میں سرتال کی کس قدر گنجائش ہے!
موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبعیت کو دیکھتا ہوں میں
بُرے دوست آخرت کے لئے خطرہ!
یہ بات یاد رہے کہ بُرے دوستوں یا بُری سہیلیوں سے خطرہ صرف دنیاوی زندگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس قسم کی دوستی کی وجہ سے لوگوں کو قیامت کے دن بھی شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔
جو لوگ قیامت کے دن عذابِ خداوندی میں گرفتار ہوں گے اس میں سے ایک گروہ کے بارے میں قرآن یوں ارشاد فرماتا ہے کہ:
“وہ آرزو کرتے ہیں کہ اے کاش! ہم دنیا میں فلاں غیر صالح شخص سے دوستی اور رفاقت نہ کرتے۔وہی تھا جس نے ہمیں گمراہی کے راستے پر ڈالا۔“(سورہ فرقان آیت نمبر 28،29)
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“دنیا و آخرت کی بھلائی دو چیزوں میں جمع ہوتی ہے ایک رازوں کا چھپانا اور دوسری اچھے لوگوں سے دوستی  کرنا۔ اسی طرح دنیا و کی بد بختی بھی دو چیزوں میں مضمر ہے، ایک راز کا فاش کرنا اور دوسرے بُرے لوگوں کی رفاقت اختیار کرنا۔“
جو شخص بُرے لوگوں سے دوستی کرتا ہے اگرچہ ان کی فطرت اس پر اثر انداز نہ بھی ہو تب بھی اس پر ان کے طور طریقوں کا الزام آ جاتا ہے اور اگر وہ شراب خانے میں نماز بھی پڑھنے جائے تب بھی شراب خوری سے منسوب ہو جاتا ہے۔
امام صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“میرے والد بزرگوار نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹے! جو شخص بُرے لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ ان کی برائی سے محفوظ نہیں رہتا اور جو شخص بدنام جگہوں پر جاتا ہے وہ بدنام ہو جاتا ہے۔“
 دوست کن کو بنائیں؟
کیونکہ ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کی صحبت اختیار کی جائے اور اس سے دوستی کی جا سکے کیونکہ دوستی کے لائق وہی ہوتا ہے جس میں یہ صفات پائی جائیں۔
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست عاقل و باشعور ہو
کیونکہ احمق و بیوقوف شخص کی دوستی بلکل بیکار ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ س سے دوستی ہو بھی جائے تو بلآخر وحشت ہونے لگتی ہے۔احمق وہ شخص ہے جو کچھ سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اور اسے اگر کچھ بتانے کی کوشش بھی کریں تو بھی اس کے پلے کچھ نہ پڑتا ہو۔
مولا علی علیہ اسلام فرماتے ہیں:
“کسی صورت بیوقوف کو اپنا دوست مت بناؤ“
2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست جو خوش اخلاق اور نیک طبیعت ہو
کیونکہبد اخلاق سے کسی قسم کی سلامتی کی توقع نہیں کی جا سکتی اور جب اس کی بد اخلاقی حرکت میں آتی ہے تو اسے کسی کے حقوق پائمال کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ:
“نیک خو فاسق کی صحبت بد خو قاری سے بہتر ہے۔“
3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست جو نیکو کار اور صالح ہو
کیونکہ جو شخص خدا کی نافرمانی اور گناہوں میں ڈوبا رہے، اس کو خدا کا خوف نہیں ہوتا اور جس میں خدا کا خوف نہ ہو اس کی دوستی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ نیک اور صالح لوگوں سے ملنا جلنا ہماری روحانی قوتوں کو بڑھاتا ہے،ہماری قوتِ ارادی کو مضبوط کرتا ہے۔
ایسے ہی دوست کے بارے میں شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ
“ایک دن حمام میں ایک خوشبودار مٹی ایک محبوب کے ہاتھ سے میرے ہاتھ میں آئی تو میں نے اس سے کہا کہ تو مُشک ہے یا عنبر کیونکہ تیری دلآویز خوشبو سے میں مست ہو رہا ہوں تو اس نے کہا میں تو ایک ناچیز مٹی تھی لیکن ایک مدت تک گلاب کے پھولوں کے ساتھ رہی،میرے ساتھی کے جمال نے مجھ میں اثر کیا تو میں خوشبو دار ہو گئی ورنہ میں تو وہی ناچیز مٹی ہوں۔“(ترجمہ اشعار)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ
“سب سے زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہے جو کریم اور صلح لوگوں سے دوستی رکھے۔“
4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست دنیا کا حریص اور لالچی نہ ہو
کیونکہ ایک دوست کی طبیعت دوسرے دوست کی طبیعت میں سے کچھ ایسی چیزیں چُرا لیتی ہے کہ خود اس کو بھی خبر نہ ہو گی کہ مجھ میں دوست کی کون کون سی برائیاں آ گئی ہیں۔ لٰہذا اگر دنیا کے حریص سے دوستی ہو گی تو خود دوسرے دوست میں بھی دنیا کی حرص پیدا ہو جائے گی اور اگر کسی متقی و دیندار سے دوستی ہو گی تو اس سے خود زہد و تقویٰ دوسرے میں پیدا ہو گا۔اسی وجہ سے طالبینِ دنیا کی صحبت مکروہ ہے اور راغبینِ آخرت کی دوستی پسندیدہ ہے۔
مولا علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“دنیا پرست لوگوں سے دوستی نہ کرو اگر تمہارے مال و دولت میں کمی واقع ہو گی تو وہ تمہیں حقارت سے دیکھیں گے اور اگر اس میں فراوانی ہو گی تو وہ رشک اور حسد میں مبتلا ہو جائیں گے۔“
5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست احمق، کنجوس، بزدل اور جھوٹا نہ ہو
امام محمد باقر علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“چار لوگوں سے میل جول نہ رکھو اور نہ ہی ان سے رشہ داری قائم کرو۔ احمق سے، کنجوس سے،بزدل سے اور جھوٹے سے کیونکہ
احمق۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہو گا تب بھی ناسمجھی میں نقصان پہنچا دے گا۔
کنجوس۔۔۔۔۔۔ تم سے لے گا تو سہی لیکن دے گا کچھ نہیں۔
بُزدل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معمولی مشکل کے وقت نہ صرف تمہیں بکہ اپنے والدین کو بھی چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو گا۔
جھوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر سچ بھی بولے گا تب بھی اس کی بات پر اعتبار نہیں کیا جا سکے گا۔
6۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست فاسق و فاجر نہ ہو
امام جعفرِ صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“فاسق سے دوستی سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ وہ ایک لقمہ بلکہ اس سے بھی کمتر کی خاطر تجھے فوخت کرنے سے نہ چُوکے گا۔“
لوگوں نے پوچھا۔ مولا “لقمہ سے کمتر“ کا کیا مطلب ہے؟ تو فرمایا کہ محض اس کی طمع کے لئے (یعنی لقمہ حاضر نہ ہو محض امید ہو کہ شاید مل جائے)
7۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست خوشامدی اور چاپلوسی نہ ہو
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“خوشامدی اور چاپلوس کو اپنا دوست نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنے ناپسندیدہ اعمال کو اچھا بنا کر پیش کرے گا اور اس کی خواہش ہو گی کہ تمہارا کردار بھی ویسا ہی ہو جائے۔“
8۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست ایسا نہ ہو جو آپ کی لغزشوں کو یاد رکھے اور خوبیاں بھول جائے
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“ہرگز ایسے شخص کی دوستی اختیار نہ کرو جو تمہاری لغزشوں کو یاد رکھے اور تمہاری خوبیاں بھول جائے۔“
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“وہ دوست جو کسبِ حلال اور اچھے اخلاق کے حصول میں تمہارا مددگار نہ ہو۔اگر سمجھو تو اس کی دوستی تمہارے لئے وبال ہے۔“
10۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست تلون مزاج اور دھوکا باز نہ ہو
امیرالمومنین علیہ اسلام ارشاد فرماتے ہیں کہ
“تلون مزاج اور دھوکہ باز لوگوں کی دوستی میں بھلائی نہیں کیونکہ وہ جس رُخ کی ہوا چلے اسی رُخ کو ہو لیتے ہیں۔ جب تمہیں ان کی مدد کی ضرورت نہ ہو تو وہ بڑے سخی اور فیاض ہوتے ہیں لیکن اگر تم کسی دن ان کے محتاج ہو جاؤ تو وہ بخیل اور سخت گیر ہو جاتے ہیں۔“
11۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست خائن، ظالم اور چغلخور نہ ہو
امام صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“تین قسم کے لوگوں سے یعنی خائن، ظالم اور چغلخور کی دوستی اور رفاقت سے اجتناب کرو کیونکہ جو شخص تمہارے فائدے کی خاطر دوسروں کو دھوکہ دیتا ہے وہ ایک دن تمہیں بھی دھوکہ دے گا اور جو شخص تمہاری خاطر دوسروں پر ظلم کرے وہ ایک دن تم پر بھی ظلم کرے گا اور جو شخص دوسوں کی چُغلی تمہارے پاس کھائے وہ جلد ہی تمہاری چُغلی دوسروں کے پاس بھی کھائے گا۔“
0


ایک سوال؟
کسی عاقل کا کہنا ہے کہ جب ہم کوئی گھوڑا خریدنا چاہیں تو اس کی اچھی نسل اور طرزِ تربیت کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کرتے ہیں لیکن کیا ہم اپنے دوست کے انتخاب میں اتنی باریک بینی سے کام لیتے ہیں؟
کیا ہمارے دوست ایک گھوڑے سے بھی زیادہ ہماری زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتے؟

دوستوں کی اقسام
امام صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“دلی دوست جو بھائی کی طرح ہوتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں۔“
1:۔ کچھ تو غذا کی طرح ہوتے ہیں کہ ان کی دوستی ضروری و ناگزیر ہے۔
2:۔ کچھ لوگ دوا کی مانند ہوتے ہیں جن کی ضرورت کبھی کبھار ہوتی ہے ( البتہ ہوتی ضرور ہے)۔
3:۔ کچھ لوگ بیماری کی طرح ہوتے ہیں جن کی ضرورت کسی بھی وقت نہیں ہوتی (بلکہ ان سے دور رہنا ضروری ہے)۔

برے دوستوں کے اثرات
جس طرح ہمارے جسم کو غذا کی ضرورت ہے جس سے ہماری قوت و طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔اسی طرح ہماری روح بھی دوستوں کی ہمنشینی سے کبھی اچھی باتیں کسب کرتی ہے اور کبھی برے دوستوں کی برائیاں ہماری روح میں سرائیت کر جاتی ہیں۔
عموماََ یہ دیکھا گیا ہے کہ نوجوان اپنی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے والوں کی روحانی اور اخلاقی حالت کا اچھی طرح جائزہ نہیں لیتے اور اپنی دوستی کا ہاتھ بھی ان کی طرف بڑھا دیتے ہیں اور پھر ان کی یہ بے توجہی ان کو حقیقی راستے سے دور تباہی اور بربادی کی طرف لے جاتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ جوانوں کی اپنے دوستوں کی طرف فطری کشش اور جاذبیت سے بلکل صَرفِ نظر بھی نہ کی جائے لیکن ان کو دوستی کی حدود و قیود، شرائط و آداب سے بھی واقف کر دیا جائے تاکہ وہ غیر صالح اور ناپسندیدہ عناصر کے اثر و نفوذ سے بھی محفوظ رہ سکیں اور ان کی شخصیت کی بھی بے عیب پرورش ہو سکے۔

ممکن ہے آپ کے دوست بدخواہ نہ ہوں مگر!
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی فطرت کے تقاضوں کے تحت بچھو کی طرح ڈنک ماریں اور اپنے زہر آلودہ اخلاق کو غیر محسوس انداز میں آپ کی روح میں اتار دیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
“انسان عملاََ اپنے دوست کی سیرت و روش کی پیروی کرتا ہے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو نہایت دیکھ بھال کر دوست بنانے چاہیئیں۔“
مولا علی علیہ اسلام بھی اپنے ایک کلام میں نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
“شریر لوگوں سے ربط و ضبط سے پرہیز کرو کیونکہ تمہیں خبر بھی نہ ہو گی اور تمہاری طبیعت ان کی برائی قبول کر لے گی۔“

ایک تجزیہ
معاشرہ، ماحول اور دوست کس طرح ایک شخصیت پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ نفسیات کے ماہرین نے اس سلسلے میں کئی تجربے کئے ہیں۔
“1953 کے موسم بہار میں کیلی فورنیا یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات نے ایک آزمائش کا اہتمام کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے 100 افراد کو 3 روز تک اپنے زیرِ آزمائش رکھا۔
تیسرے اور آخری روز ان کا ایک ٹیسٹ لیا گیا اور ان 100 افراد کو پچاس پچاس افراد کے دو گرو میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک گروہ کو گروہِ آزمائش کا نام دیا گیا اور دوسرے گروہ کو گروہِ شاہد کا نام۔
گروہِ آزمائش کو 5،5 افراد کے 10 دستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ان میں سے ہر فرد کی میز پر ایک بٹن تھا جس کے ذریعے وہ اپنے دستے سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کے جواب سے آگاہ ہو سکتا تھا لیکن اس آزمائش کا راز ایک نقطے میں پنہاں تھا اور وہ یہ کہ اس بٹن کو دبانے سے اسکرین پر جو جواب آتا تھا وہ آزمائش کرنے والوں کا اپنا بنایا ہوا جواب تھا اس دستے کے افراد کی اکثریت کا نہیں۔
درحقیقت آزمائش کرنے والوں نے ہر مسئلہ کا ایک مصنوعی جواب ایجاد کر کے آزمائش ہونے والوں میں سے ہر ایک کی رائے کو فریب دیا اور یہ لوگ اس راز سے بے خبری کی بناء پر جس جواب کو اسکرین پر دیکھتے، اسے اکثریت کی رائے سمجھتے اور اکثر افراد نے اندھا دھند اسی رائے کا اظہار کیا۔
ریاضی کے ایک سوال کا غلط جواب 89 افراد نے مصنوعی اکثریت کے فریب میں آ کر بے سوچے سمجھے دیا۔“
لہٰذا رذیل اور اوباش لوگوں سے ملنا جلنا انسان کے اندر ناپاک خیالات اور پست خواہشات پیدا کرتا ہے اور طویل مدت تک ان سے تعلقات رکھے جائیں تو یہ بات یقینی ہے کہ انسان کے اخلاق بھی پست ہو جاتے ہیں اور وہ ان کی کے خراب ماحول کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔
ایسے لوگوں سے میل جول رکھنا طاعون کی طرح ہے جو فوراََ انسان کے بدن میں سارئیت کر جاتا ہے۔
روئی آگ کے پاس رکھی جائے تو خود بخود جل اٹھتی ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ برائی اس سے زیادہ تیزی سے انسان کی روح میں اثر کر جاتی ہے اور اس کی مثال بارود کے ایک ڈھیر کی سی ہے جو ایک شرارے سے بھڑک اٹھتا ہے اور اپنے شعلوں سے ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔

اپنے گھر کو سیلاب کی گزر گاہ پر تعمیر مت کیجئے؟
جس شخص کو اپنی نیکو کاری پر ناز ہو اور وہ برے دوستوں سے میل جو ترک نہ کرے تو اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو اپنا گھر سیلاب کی گزر گاہ پر تعمیر کرے اور یہ سمجھے کہ سیلاب کی قوت اس کے گھر کی بنیادوں پر اثر انداز نہ ہو گی۔
وہ لڑکی جس کی سہیلیاں اچھی ہوں یا وہ لڑکے جن کے دوست نیکو کار ہوں وہ خوش نصیب ہیں کیونکہ بہت سے لوگ فقط اس وجہ سے بدبختی سے دوچار ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے دوستوں یا سہیلیوں کے انتخاب میں مکمل احتیاط نہیں برتتے۔

ہم فرض کر لیتے ہیں کہ‌ آپ بہتر شریف اور متین ہیں کہ بُروں سے ملاقات آپ کی روح پر اثر نہیں ڈالتی لیکن لوگ آپ کے بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا وہ آپ کو انہیں کے زمرے میں شمار نہیں کریں گے کہ آپ ان سے میل جول رکھتے ہیں؟
ایک قدیم عربی مثل ہے کہ
“ایک بُرا دوست لوہار کی مانند ہے اگر تمہیں اپنی آگ سے نہ بھی جلائے تب بھی اس کی بھٹی کا دھواں تمہاری آنکھوں کو تکلیف پہنچاتا ہے۔“
0
ایک مرتبہ کسی فقیہ نے یہ کام کیا کہ بہت سے چیتھڑے دھوئے اور پاک صاف کر کے انہیں اپنے سر پر عمامے کے نیچے باندھ لیا،تاکہ جب وہ کسی اعلیٰ محفل میں ادنیٰ مقام پر بیٹھے تو عمامہ وزنی دکھائی دے اور لوگ سمجھیں کہ بڑا عالم فاضل ہے۔ بلا شبہ ان حقیر اور بے قیمت دھجیوں سے دستار کا وزن دگنا تگنا ضرور ہو گیا تھا،لیکن قلبِ منافق کی طرح وہ اندر سے ذلیل اور کم حیثیت تھی۔فقیروں کی گدڑیوں کے ٹکڑے، بوسیدہ اور سڑی ہوئی روئی کے گالے اور گداگروں کی پوستین کی دھجیاں اس عمامے کی بنیاد تھیں۔وہ فقیہ یہ وزنی عمامہ سر پر باندھ کر اگلے روز منہ اندھیرے مدرسے میں پہنچا تاکہ وزنی دستار سے،جسے عزت و عظمت کا سبب خیال کرتا تھا،کچھ حاصل کرے۔دور سے ایک چور نے تاڑا کہ ایک قیمتی دستار والا چلا آتا ہے۔جوں ہی وہ فقیہ نزدیک آیا،اچکے نے جھپٹ کر دستار سر سے اتار لی تاکہ اسے بازار میں بیچ کر ٹکے کھرے کرے۔فقیہ نے اسے آواز دی کہ ارے بھائی، یہ دستار کدھر لیے جاتا ہے اور کس دھوکے میں ہے؟ذرا اسے کھول کر بھی دیکھ لے اس کے بعد جی چاہے تو شوق سے لے جانا میں نے تجھے عطا کی۔فقیہ کی یہ آواز سن کر اچکے نے دوڑتے دوڑتے وہ وزنی دستار کھولی اس کے پیچ و خم کھولتا جاتا تھا اور اس میں سے رنگ برنگے چیتھڑے اور دھجیاں نکل نکل کر زمین پر گرتی جاتی تھیں۔یہاں تک کہ اچکے کے ہاتھ میں ہاتھ بھر کا بوسیدہ کپڑا رہ گیا۔اس نے جھلا کر اسے بھی زمین پر پھینکا اور کہنے لگا’’ابے او ہلکے شخص ، تو نے دغا بازی سے خوامخواہ میری محنت برباد کی۔یہ کیا مکر تھا کہ ایسی عمدہ دستار بنا کر مجھے اس پر ہاتھ ڈالنے اور اڑا لے جانے کا لالچ دیا؟تجھے ذرا حیاء نہ آئی ایسا کام کرتے ہوئے؟ مجھے بیٹھے بٹھائے ایک گناہِ بے لذت میں مبتلا کر دیا‘‘۔

فقیہ نے جواب دیا ’’تو سچ کہتا ہے۔ بے شک میں نے دھوکہ دیا،لیکن یہ تو سوچ کہ بطور نصیحت تجھے آگاہ بھی کر دیا تھا کہ لے جانے سے پہلے کھول کر دیکھ لے اب مجھے لعنت ملامت کرنے سے فائدہ؟ کچھ میرا قصور ہو تو بتا‘‘۔


اے عزیز، فقیہ کی اس وزنی اور بظاہر قیمتی دستار کی طرح یہ دنیا بھی بڑی بھاری اور بیش قیمت نظر آتی ہے۔مگر اس کے اندر جو عیب پوشیدہ ہے،اس کا بھی اس نے اظہار کر دیا ہے اور سب سے کہ دیا ہے کہ اسے اچھے طرح جانچ پھٹک کر دیکھ لو۔بعد میں گلہ شکوہ نہ کرنا۔اے عزیز،بہاروں کی دل فریبی اور نرماہٹ پر زیادہ مت اچھل۔خزاں کی سردی اور زردی بھی دھیان میں رکھ۔
آپ بے وجہ پریشان سی کیوں ہیں مادام؟
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہو گی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے
نورِ سرمایا سے ہے نورِ تمدن کی جلا
ہم جہاں ہیں وہاں تہذیب نہیں پل سکتی
مفلسی حسِ لطافت کو مٹا دیتی ہے
بھوک آداب کے سانچے میں نہیں ڈھل سکتی
لوگ کہتے ہیں تو لوگوں پہ تعجب کیسا؟
سچ تو کہتے ہیں کہ ناداروں کی عزت کیسی
لوگ کہتے ہیں،مگر آپ ابھی تک چپ ہیں
آپ بھی کہیے غریبوں میں شرافت کیسی
نیک مادام، بہت جلد وہ دور آۓ گا!!
جب ہمیں زیست کے ادوار پرکھنے ہوں گے
اپنی ذلت کی قسم، آپ کی عظمت کی قسم
ہم کو تعظیم کے معیار پرکھنے ہوں گے
ہم نے ہر دور میں تذلیل سہی ہے لیکن
ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیاء بخشی ہے
ہم نے ہر دور میں محنت کے ستم جھیلے ہیں
ہم نے ہر دور کے ہاتھوں کو حنا بخشی ہے
لیکن ان تلخ مباحث سے بھلا کیا حاصل؟
لوگ کہتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہو گی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے
__________________
0
حکایت ہے کسی دانا و بینا شخص نے محض قسے کی طرح بیان کیا کہ ملکِ ہند میں ایک عجیب و غریب درخت پایا جاتا ہے۔ جو اس درخت کا پھل ایک مرتبہ کھائے،ہمیشہ جوان و توانا رہے اور کبھی اس پر موت طاری نہ ہو۔ایک بادشاہ نے حکایت سنی اور جی میں کہا’’اگر اس شجر کا میوہ ملے تو کیا کہنے‘‘۔چنانچہ اپنے مصاحبوں اور وزیروں سے ذکر کیا۔سب نے ہاں میں ہاں ملائی کہ جہاں پناہ اگر اس درخت کا پھل کھا لیںتو رعیت ہمیشہ آپ کے زیرِ سایہ آباد اور کوش و خرم رہے گی۔
غرض بادشاہ نے ایک ہوشیار مصاحب کو اس درخت کے پھل کی تلاش میں ہند روانہ کیا۔وہ بے چارہ مدتوں جنگل جنگل ،صحر صحرا مارا ماراپھرتا رہا،لیکن گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔جس کسی سے ایسے درخت اور پھل کا پتہ پوچھتا،وہ ہنسی اڑاتا کہ میاں، سودائی ہوئے ہو؟ایسا درخت کہاں؟کسی نے اچھی ہوائی چھوڑی ہے۔کیوں در بدر خاک بسر ہوتے پھر رہے ہو؟ٹھنڈے ٹھنڈے جدھر سے آئے ہو، ادھر کو لوٹ جاؤ۔وہ شخص اسی طرح کی نت نئی باتیں سنتا اور اپنی ہنسی اڑواتا رہا۔لیکن تھا دھن کا پکا۔ ارادے میں خم نہ آنے دیا اور برابر کوہ و دشت کی خاک چھانے گیا۔
جب برسہا برس گزر گئے ، پورے ہندوستان کے گوشے گوشے ، چپے چپے میں پھر چکا اور بقائے دوام کے شجر کا کہیں نشان نہ ملا، تب مایوس ہو کر اپنے وطن واپس چلا۔اس قدر محنت اور تکلیف اکارت جانے سے رنج و غم کی کوئی انتہا نہ تھی۔بدقسمتی پر آنسو بہاتا اور یہ سوچتا جاتا تھا کہ بادشاہ کو کیا منہ دکھائے گا کہ یکایک معلوم ہوا، کہ اس راہ میں ایک آدمی کہ ولی اللہ اور قطبِ وقت مشہور ہے،قیام پذیر ہے۔اس نے سوچا چلو اس شیخ عالی مرتبت کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی مشکل بیان کروں۔ممکن ہے شیخ کی نگہِ التفات سے بگڑا کام بن جائے اور مایوسی راحت میں بدل جائے۔یہ سوچ کر چشم پر آب لے کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کی نورانی صورت دیکھتے ہی اپنے آپ پر اختیار نہ رہا۔ضبط کا دامن ہاتھ سے نکل گیا اور روتا ہوا اس کے قدموں میں جا گرا اس قدر آنسو بہائے کہ شیخ کے پاؤں کو بھگو دیا۔
شیخ نے اٹھا کر شفقت سے گلے لگایا اور پوچھا’’ کیا بات ہے ؟ اس قدر آشفتہ سری اور پریشانی کا سبب کیا ہے؟ تفصیل سے بیان کرو‘‘
اس نے عرض کیا’’حضرت، کیا کہوں۔جس کام کے لیے برسوں پہلے وطن سے نکلا تھا،وہ کام نہیں ہوا۔اب سوچتا ہوں ، واپس جا کر بادشاہ کو کیا جواب دوں گا۔اس کے عتاب کا نشانی بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں آپ میرے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھ پر رحم کرے۔بادشاہ کے حکم سے بقائے دوام کے شجر کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔کہتے ہیں اس کا پھل کوئی کھا لے تو حیاتِ جاوداں مل جاتی ہے۔میں نے اس کی جستجو میں اس ملک کا چپہ چپہ چھان مارا، مگر ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔‘‘
یہ سن کر شیخ کامل ہنس پڑا۔ پھر ارشاد فرمایا’’ سبحان اللہ! بھائی تو نے بھی سادہ لوحی کی حد قائم کر دی ہے۔ارے اتنا وقت خوامخواہ ضائع کیا ۔پہلے ہی میرے پاس چلا آتا اور معلوم کر لیتا۔اب گوشِ ہوش سے سن کہ وہ شجر علم ہے جس کا ثمر حیاتِ جاوداں کا اثر رکھتا ہے۔تو اور تیرا بادشاہ درخت کی ظاہری صورت سے بدگمانی میں مبتلا ہو گئے، اس لیے شاخِ معنی ہاتھ نہ آئی۔اس کے نام بے شمار ہیں ۔کہیں مہرِ عالم تاب،کہیں بحرِ بے کراں،کبھی درخت،کبھی بادل،انہی ہزاروں صفات میں سے اس کی ایک صفت بقائے دوام بھی ہے۔
اے عزیز صورت کے پیچھے مت بھاگ سیرت دیکھ ۔ظاہر پر نہ جا، باطن پر دھیان دے۔الفاظ پرغور نہ کر ، معنی کے اندر غوطہ لگا۔ظاہر ی صورت کی مثال چھلکے کی سی ہے اور معنی اس چھلکے کے اندر چھپا ہوا گودا ہے۔صفت پر نظر رکھ تاکہ تجھے ذات کی جانب لے جائے۔یہ نام ہی کا جھگڑا ہے جس نے مخلوق کے اندر اختلاف کی گرہیں ڈال دی ہیں۔جہاں معنی پر نگاہ گئی اختلاف معدوم ہوا۔
__________________
0
عید اب کے برس بھی آئی ہے
وہی آسماں زمیں ہے وہی
ماہ و انجم اسی طرح روشن
کہکشاں ا ب بھی مسکراتی ہے
پھول کلیاں مہک رہی ہی یونہی
بعد مدت کے سارے پردیسی
اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آئے
ہر طرف رنگ و بو کا میلہ ہے
اور تنہا میں اپنے کمرے میں
کب سے بیٹھا ہوں ا ور سو چتا ہوں
جانے کیا بات ہے کہ گھر میں میرے
جو گزشتہ برس تھی رونق اب
وہ کہیں بھی نظر نہیں آتی
ہے فضا ء میں عجیب سناٹا
ہاں فقط آپ کے نہ آنے سے
ایسا محسوس ہو رہا ہے مجھے
رت خوشی کی تو ہر طرف آئی
صرف چھوٹے سے میرے آنگن میں
’’ عید اب کے برس نہیں آئی ‘‘
جہاں مردے ہوں ،قبریں ہوں
جہاں ناموں کے کتبے ہوں
وہاں تو شام ہونے پر اگر بتی جلاتے ہیں
وہاں تو فاتحہ ہوتی ہے
اور چادر چڑھاتے ہیں
وہاں تو سوگ ہوتا ہے
وہاں تو بین ہوتا ہے
وہاں جا کر تو زندہ آدمی بے چین ہوتا ہے
مگر۔’’یہ‘‘ کیسی بستی ہے
یہاں زندوں کو گاڑا ہے
یہاں تو آدمی نے آدمیت کو پچھاڑا ہے
یہ قبریں ہیں
مگر مردوں کے تن میں جان باقی ہے
یہاں کتبے ہیں
لیکن موت کا اعلان باقی ہے
یہاں جب شام ہوتی ہے
تو بستی جاگ جاتی ہے
سو خونِ آدمیت سے
سحر تک یہ نہاتی ہے
یہاں بھی شور ہوتا ہے
مگر طبلے کی تھاپوں کا
یہاں بھی بین ہوتا ہے
مگر زخمی الاپوں کا
یہاں بھی اشک بہتے ہیں
مگر لب مسکراتے ہیں
یہاں تو بین کرتے ساز بھی نغمے سناتے ہیں
یہاں کچھ گورکن ہر روز
لاشوں کو سجاتے ہیں
جھروکوں سے لہو رستا ہے
تو گھنگھرو بجاتے ہیں
یہ بستی ہے کہ زندہ بستیوں کا موت کا عالم
کریں ان محفلوں میں عیش یا تہذیب کا ماتم
یہاں مجبور لاشیں ہیں
مگر محسوس ہوتا ہے
کہ یہ تہذیب کے ہیں تازیے
دل خون روتا ہے
یہ قبرستان ہے
لیکن یہاں تو رقص ہوتا ہے!!
(فیصل عظیم)
کوئی سمھے مجھے اچھا
یہ خواہش تنگ کرتی ہے
تو میں اکثر بظاہر بھول کر تاریک ماضی کو
نکل پڑتا ہوں چہرے پر سجا کر بے نیازی کو
لٹاتا ہوں میں ہر اک سمت خوشبو اپنی باتوں سے
سیاہی دور کرتا ہوں کہیں تاریک راتوں سے
مگر اس خول سے باہر میں آجاتا ہوں کچھ ایسے
گھٹا چھٹ کر نظر آتا ہے نیلا آسماں جیسے
تو وہ بھی دیکھ لیتا ہے
فقط جس کی نگاہوں کے لیے خود کو سنوارا تھا
وہی،
جس کے لیے میں نے پرایا روپ دھارا تھا
اسی لمحے میں اپنے خول میں واپس سمٹتا ہوں
نجانے کیسا لگتا ہوں!
پھر اپنے خول میں رہ کر
اسی کی راہ تکتا ہوں
کہ شاید پھر مجھے وہ دیکھ لے مانوس نظروں سے
میں ظاہر یہ کروں، گویا
میرا جو روپ بدلا تھا
وہ اک ساعت کا دھوکہ تھا
میں جب تنہائی میں اس دو رخی پر غور کرتا ہوں
اذیت سے گزرتا ہوں
کہ دنیا تو منافق ہے
مگر دنیا سے کیا شکوہ
کہ میں خود بھی تو دنیا ہوں!
(فیصل عظیم)
اگر میں اپنے وطن میں کوئی مقام رکھتا
تو ایسے لوگوں کی انگلیوں کو تراش دیتا
جو اپنے لفظوں کو ظالموں کے غلیظ جوتوں پہ پھیرتے ہیں
اور ان میں ایسی چمک دکھاتے ہیں کہ
جو بھی دیکھے خود اپنے چہرے کے روبرو ہو
تونگروں کے مصاحبوں کو ذلیل کرتا
جو شوربے کی مہک پہ کتوں کی مثل ہونٹوں کو چاٹتے ہیں
اور ان کو لفظوں کے سخت دروں کی مار دیتا
جو اہل زر کی مداح سرائی میں جھوٹ کی فصل کاٹتے ہیں
میں ایسے لفظوں کو کاٹ دیتا جو بے ہنر ہیں
اور آنے والے دنوں کی جھوٹی تسلیوں سے
ہر ایک منظر کو دیکھتے ہیں
میں لفظ بازوں کے سارے کھیلوں کو ، شعلوں کو
فصاحتوں اور صنعتوں کو، وطن کی حد سے نکال دیتا
اور ان قصیدوں کو پھاڑ دیتا
جو اگلے وقتوں کے خواب دے کر گزرتے لمحوں کو روندتے ہیں
اگر وطن میں مجھے کوئی اختیار ہو تو
میں اپنے صحرا میں چلنے والے
نئے امیروں کے بھاری خلعت اتار پھینکوں
یہ ارضِ یورپ کے سارے تحفے
جو جگمگاتے ہیں ، مسخ کر دوں
اور ان کے چہروں کو اس ملمع سے پاک کر دوں
جسے سجا کر یہ اپنے اہلِ وطن سے ظاہر میں مختلف ہیں
انہیں بٹھاؤں بغیر زینوں کی گھوڑیوں پر
سلاؤں صحرا کی سرد راتوں میں
جب سروں پہ کھلا فلک ہو
پلاؤں ان کو وہ دودھ جس سے
نظر میں ان کی وہی چمک ہو
جو ان کے ناموں کا حاشیہ ہے
عرب شجاعت کا اور غیرت کا نام ،جس سے
تمام تاریخ آشنا ہے
__________________
میں آج کل فارغ اوقات میں حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں پڑھ رہا ہوں۔ آج کل آپ کے مکتوبات نظر سے گزر رہے ہیں ۔ بخدا بعد از کلامِ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جتنی گہرائی حضرت علی علیہ السلام کے کلام میں ملتی ہے اور کہیں نہیں ملتی۔میں نےسوچا کہ کیوں نہ اس سعادت میں آپ سب کو بھی شریک کیا جائے۔۔
خطباتِ عالیات(حصہ سوم)
(حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کے خطبات کا اردو ترجمہ ماخوذ از نہج البلاغہ)
رائیٹر :۔
الحاج سید مبارک حسن نقوی





والی بصرہ عبداللہ ابن عباس کے نام:۔
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ بصرہ وہ جگہ ہے جہاں شیطان اترتا ہے اور فتنے سر اٹھاتے ہیں ،یہاں کے باشندوں کو حسنِ سلوک سے خوش رکھو ، اور ان کے دلوں سے خوف کی گرہیں کھول دو،مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم بنی تمیم سے درشتی سے پیش آتے ہو اور ا ن پر سختی روا رکھتے ہو،بنی تمیم تو وہ ہیں کہ جب بھی ان کا کوئی ستارہ ڈوبتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا ابھر آتا ہے،اور جاہلیت اور اسلام میں کوئی ان سے جنگ جوئی میں بڑھ نہ سکا ،اور پھر انہیں تم سے قرابت کا لگاؤ اور عزیز داری کا تعلق بھی ہے کہ اگر ہم اس کا خیال رکھیں گے تو اجر پائیں گے،اور اس کا لحاظ نہ کریں گے تو گناہگار ہوں گے،دیکھو ابنِ عباس!خدا تم پر رحم کرے( رعیت کے بارے میں) تمہارے ہاتھ اور زبان سے جو اچھائی اور برائی ہونے والی ہو ، اس میں جلد بازی نہ کیا کرو، کیونکہ ہم دونوں اس ( ذمہ داری) میں برابر کے شریک ہیں تمہیں اس حسنِ ظن کے مطابق ثابت ہونا چاہیے جو مجھے تمہارے ساتھ ہے، اور تمہارے بارے میں میری رائے غلط ثابت نہ ہونا چاہیے۔والسلام۔
ایک عامل کے نام:۔
تمہارے شہر کے زمینداروں نے تمہاری سختی ،سنگدلی ،تحقیر آمیز برتاؤ اور تشدد کے رویہ کی شکایت کی ہے۔میں نے غور کیا تو وہ شرک کی وجہ سے اس قابل تو نظر نہیں آتے کہ انہیں نزدیک کیا جائے اور معاہدے کی بنا پر انہیں دور پھینکا اور دھتکارا بھی نہیں جا سکتا۔لہذا ان کے لیے نرمی کا ایسا شعار اختیار کرو جس میں کہیں کہیں سختی کی جھلک بھی ہو،اور کبھی سختی کر لو اور کبھی نرمی برتو اور قرب و بعد اور نزدیکی و دوری کو سمو کر بین بین راستہ اختیار کرو۔انشاء اللہ۔
زیاد ابنِ ابیہ کے نام:۔
جب کے عبداللہ ابن عباس بصرہ،نواحی اہواز اور فارس و کرمان پر حکمران تھے اور یہ بصرہ میں ان کا قائم مقام تھا:۔
میں اللہ کی سچی قسم کھاتا ہوں کہ اگر مجھے یہ پتہ چل گیا کہ تم نے مسلمانوں کے مال میں خیانت کرتے ہوئے کسی چھوٹی یا بڑی چیز میں ہیر پھیر کیا ہے تو یاد رکھو! کہ میں ایسی مار ماروں گا کہ جو تمہیں تہی دست و بوجھل پیٹھ والا اور بے آبرو کر کے چھوڑے گی۔والسلام۔
زیاد ابن ابیہ کے نام:۔
میانہ روی اختیار کرتے ہوئے فضول خرچی سے باز آؤ ، آج کے دن کل کو بھول نہ جاؤ،صرف ضرورت بھر کے تحت مال روک کر باقی محتاجی کے دن کے لیے آگے بڑھاؤ،کیا تم یہ آس لگائے بیٹھے ہو کہ اللہ تمہیں عجزو انکساری کرنے والوں کا اجر دے گا،حالانکہ تم اس کے نزدیک متکبروں میں سے ہو،اور یہ طمع رکھتے وہ کہ وہ خیرات کرنے والوں کا ثواب تمہارے لیے قرار دے گا، حالانکہ تم عشرت سامانیوں میں لوٹ رہے ہو اور بے کسوں اور بیواؤں کو محروم رکھا ہے ،انسان اپنے ہی کیے کی جزا پاتا ہے اور جو آگے بھیج چکا ہے وہی آگے بڑھ کر پائے گا ۔ والسلام۔
عبداللہ ابن عباس کے نام :۔
عبداللہ ابن عباس کہا کرتے تھے کہ جتنا فائدہ میں نے اس کلام سے حاصل کیا اتنا پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کلام سے حاصل نہیں کیا:۔
انسان کو کبھی ایسی چیز کا پا لینا خوش کرتا ہے جو اس کے ہاتھوں سے جانے والی ہو تی ہی نہیں اور کبھی ایسی چیز کا ہاتھ سے نکل جانا اسے غمگین کر دیتا ہے جو اسے حاصل ہونے والی ہوتی ہی نہیں۔یہ خوشی اور غم بے کار ہے،تمہاری خوشی صرف آخرت کی حاصل کی ہوئی چیزوں پر ہونا چاہیے۔اور اس میں کوئی چیز جاتی رہے اس پر رنج ہونا چاہیے۔اور جو چیز دنیا سے پا لو اس پر زیادہ خوش نہ ہو اور جو چیز اس سے جاتی رہے اس پر بے قرار ہو کے افسوس کرنے نہ لگوبلکہ تمہیں موت کے بعد پیش آنے والے حالات کی طرف اپنی توجہ موڑنا چاہیے۔
جب حضرت کو یہ خبر پہنچی کہ والی بصرہ عثمان ابن حنیف کو وہاں کے لوگوں نے کھانے کی دعوت دی ہے اور وہ اس میں شریک ہوئے ہیں تو انہیں تحریر فرمایا:۔
اے ابنِ حنیف! مجھے اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے جوانوں میں سے ایک شخص نے تمہیں کھانے پر بلایا اور تم لپک کر پہنچ گئے کہ رنگا رنگ کے عمدہ عمدہ کھانے تمہارے لیے چن چن کر لائے جا رہے تھے ، اور بڑے بڑے پیالے تمہاری جانب بڑھائے جا رہے تھے ، مجھے امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن کے ہاں فقیر و نادار دھتکارے گئے ہوں اور دولت مند مدعو ہوں،جو لقمے چباتے ہو انہیں دیکھ لیا کرو،اور جس کے متعلق شبہ بھی ہو اسے چھوڑ دیا کرو اور جس کے پاک و پاکیزہ طریق سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کھاؤ۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر مقتدی کا ایک پیشوا ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور جس کے نورِ علم سے کسبِ ضیاء کرتا ہے،دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس نے دنیا کے سازو سامان سے دو پھٹی پرانی چادر وں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔میں مانتا ہوں کہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے، لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری ، سعی و کوشش ،پاک دامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو، خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا،اور نہ اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکھے ہیں اور نہ ان پرانے کپڑوں کے بدلے میں جو( پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پرانا کپڑا میں نے مہیا کیا ہے،بے شک اس آسمان کے سایہ تلے لے دے کر ایک فدک ہمارے ہاتھوں میں تھا، اس پر بھی کچھ لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پرواہ نہیں کی،اور بہترین فیصلہ کرنے والا اللہ ہے، بھلامیں فدک یا فدک کے علاوہ کسی اور چیز کو لے کر کروں گا ہی کیا جبکہ نفس کی منزل قبر قرار پانے والی ہے جس کی اندھیاریوں میں اس کے نشانات مٹ جائیں گے اور اس کی خبریں ناپید ہو جائیں گی،وہ تو ایک گڑھا ہے کہ اگر اس کا پھیلاؤ بڑھا بھی دیا جائے اور گورکن کے ہاتھ اسے کشادہ بھی رکھیں جب بھی پتھر اور کنکر اس کو تنگ کر دیں گے،اور مسلسل مٹی کے ڈالے جانے سے اس کی دراڑیں بند ہو جائیں گی، میری توجہ تو صرف اس طرف ہے کہ میں تقوائے الہٰی کے ذریعے اپنے نفس کو بے قابو نہ ہونے دوں تاکہ اس دن کہ جب خوف حد سے بڑھ جائے گا، وہ مطمئن رہے اور پھسلنے کی جگہوں پر مضبوطی سے جما رہے ، اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد، عمدہ گہیوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کے لیے ذرائع مہیا کر سکتا تھا لیکن ایسا کہاں ہو سکتا ہے کہ خواہشیں مجھے مغلوب بنا لیں اور حرص مجھے اچھے اچھے کھانے چن لینے کی دعوت دے،جبکہ حجاز و یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی بھی آس نہ ہو،اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہوا ہو،کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہا کروں،درانحالیکہ میرے گرد و پیش بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر تڑپتے ہوں،یا میں ایسا ہو جاؤںجیسا کہنے والے نے کہا ہے کہ تمہاری بیماری کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو،اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کی ترس رہے ہوں،کیا میں اسی میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنین کہا جاتا ہے ، مگر میں زمانے کی سختیوں میں مومنوں کا شریک و ہمدم اور زندگی کی بد مزگیوں میں ان کے لیے نمونہ نہ بنوں،میں اس لیے تو پیدا نہیں ہوا ہوں کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہو ں اس بندھے ہوئے چوپائے کی طرح جسے اپنے چارے ہی کی فکر رہتی ہے یا اس کھلے ہوئے جانور کی طرح کہ جس کا کام منہ مارنا ہوتا ہے وہ گھاس سے پیٹ بھر لیتا ہے اور جو اس سے مقصد پیشِ نظر ہوتا ہے اس سے غافل رہتا ہے ، کیا میں بے قید و بند چھوڑ دیا گیا ہوں یا بے کار کھلے بندوں رہا کر دیا گیا ہوں کہ گمراہیوں کی رسیوں کو کھینچتا رہوں اور بھٹکنے کی جگہوں میں منہ اٹھائے پھرتا رہوں ، میں سمجھتا ہوں کہ تم میں سے کوئی کہے گا کہ جب ابن ابی طالب کی خوراک یہ ہے تو ضعف و ناتوانی نے اسے حریفوں سے بھڑنے اور دلیروں سے ٹکرانے سے بٹھا دیا ہو گا،مگر یاد رکھو جنگل کے درخت کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے ، اور تروتازہ پیڑوں کی چھال کمزور اور پتلی ہوتی ہے اور صحرائی جھاڑ کا ایندھن زیادہ بھڑکتا ہے اور دیر میں بجھتا ہے،مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہی نسبت ہے جو ایک ہی جڑ سے پھوٹنے والی دو شاخوں کو ایک دوسرے سے اور کلائی کو بازو سے ہوتی ہے، خدا کی قسم اگر تمام عرب ایکا کر کے مجھ سے بھڑنا چاہیں تو میدان چھوڑ کر پیٹھ نہ دکھاؤں گا اور موقع پاتے ہی ان کی گردن دبوچ لینے کے لیے لپک کر آگے بڑھوں گا اور کوشش کروں گا کہ اس الٹی کھوپڑی والے بے ہنگم ڈھانچے سے زمین کو پاک کر دوں ، تاکہ کھلیان کے دانوں سے کنکر نکل جائے۔
اے دنیا ! میرا پیچھا چھوڑ دے ، تیری باگ ڈور تیرے کاندھے پر ہے،میں تیرے پنجوں سے نکل چکا ہوں، تیرے پھندوں سے باہر ہو چکا ہوں، اور تیری پھسلنے والی جگہوں میں بڑھنے سے قدم روک رکھے ہیں،کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں تو نے کھیل تفریح کی باتوں سے چکمے دئیے؟کدھر ہیں وہ جماعتیں جنہیں تو نے اپنی آرائشوں سے ورغلائے رکھا؟وہ تو قبر میں جکڑے ہوئے اور خاکِ لحد میں دبکے پڑے ہیں ، اگر تو دکھائی دینے والا مجسمہ اور سامنے آنے والا ڈھانچہ ہوتی تو بخدا میں تجھ پر اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں جاری کرتا کہ تو نے بندوں کو امیدیں دلا دلا کر بہکایا،قوموں کی قوموں کو ( ہلاکت کے) گڑھوں میں لا پھینکا اور تاجدارو ں کو تباہیوں کے حوالے کر دیا اور سختیوں کی گھاٹ پر لا اتارا جن پر اس کے بعد نہ سیراب ہوانے کے لیے اترا جائے گا اور نہ سیراب ہو کر پلٹا جائے گا،پناہ بخدا!جو تیری پھسلن پر قدم رکھے گا ، وہ ضرور پھسلے گا، جو تیری موجوں پر سوار ہو گا وہ ضرور ڈوبے گا اور جو تیرے پھندوں سے بچ کر رہے گا وہ توفیق سے ہم کنار ہو گا، تم سے دامن چھڑانے والا پرواہ نہیں کرتا، اگرچہ دنیا کی وسعتیں اس کے لیے تنگ ہو جائیں ، اس کے نزدیک تو دنیا ایک دن کے برابر ہے کہ جو ختم ہوا چاہتا ہے، مجھ سے دور ہو میں تیرے قابو میں آنے والا نہیں کہ تو مجھے ذلتوں میں جھونک دے اور نہ میں تیرے سامنے اپنی باگ ڈھیلی چھوڑنے والا ہوں کہ تو مجھے ہنکا لے جائے،میں خدا کی قسم کھاتا ہوں ، ایسی قسم جس میں اللہ کی مشیت کے علاوہ کسی چیز کا استثنا نہیں کرتا کہ میں اپنے نفس کو ایسا سدھاؤں گا کہ وہ کھانے میں سے ایک روٹی کے ملنے پر خوش ہو جائے اور اس کے ساتھ صرف نمک پر قناعت کر لے، اور اپنی آنکھوں کا سونا اس طرح خالی کر دوں گا جس طرح وہ چشمہ آب جس کا پانی تہہ نشین ہو چکا ہو ، کیا جس طرح بکریاں پیٹ بھرنے کے بعد سینہ کے بل بیٹھ جاتی ہیں اسی طرح علی بھی اپنے پاس کا کھانا کھا لے اور بس سو جائے،اس کی آنکھیں بے نور ہو جائیں اور وہ زندگی کے طویل سال گذارنے کے بعد کھلے ہوئے چوپاؤں اور چرنے والے جانوروں کی پیروی کرنے لگے۔
خوشا نصیب اس شخص کے کہ جس نے اللہ کے فرائض کو پورا کیا ، سختی اور مصیبت میں صبر کیے پڑا رہا، روتوں کو اپنی آنکھوں کو بیدار رکھا، اور جب نیند کا غلبہ ہوا تو ہاتھ کو تکیہ بنا کر ان لوگوں کے ساتھ فرشِ خاک پر پڑ رہا کہ جن کی آنکھیں خوفِ حشر سے بیدار ، پہلو بچھونوں سے الگ اور ہونٹ یادِ الٰہی میں زمزمہ سنج رہتے ہیں اور کثرت استغفار سے جن کے گناہ چھٹ گئے ہیں، یہی اللہ کا گروہ ہے اور بے شک اللہ کا گروہ ہی کامران ہونے والا ہے۔
اے ابن حنیف اللہ سے ڈرو اور اپنی ہی روٹیوں پر قناعت کرو تاکہ جہنم کی آگ سے چھٹکارا پا سکو۔

خون سے جب لکھ رہے تھے داستاں تیری وطن
راہنمائی کر رہا تھا آسماں تیری وطن

خون سے لتھڑے ہوئے وہ قافلوں کے قافلے

بین کرتی پھر رہی تھیں بیٹیاں تیری وطن

خون کی ندیاں بہا کر سر فروشانِ وطن

آبیاری کر رہے تھے نوجواں تیری وطن

ظلم اپنی انتہا کو چھو رہا تھا جس گھڑی

ٹوٹ کر بکھری ہوئیں تھیں بیڑیاں تیری وطن

رحمتیں چھم چھم برستی تھیں زمینِ پاک پر

جب قیادت کر رہے تھے مہرباں تیری وطن

جب تلک ہے آسماں یہ چاند تاروں کا جہاں

گنگناتی ہی رہیں گی وادیاں تیری وطن

ہے دعا اللہ سے ہر دم یونہی شاداں رہیں

جگمگاتے شہر سارے بستیاں تیری وطن

قائد و اقبال نہ ہوتے اگر تاریخ میں

نا مکمل تھی یہ عابد داستاں تیری وطن

جاوید احمد عابد شفعی

پچھلے دنوں لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم کا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ان کی تحریر میں پاکستان کے خلاف بھارتی میڈیا کی جس یلغار کا ذکر کیا گیا سوچا کہ اس کو آپ سب سے شئیر کیا جائے تاکہ آپ سب بھی اس سب سے واقف ہو سکیں۔

Kapil Komireddi ایک ہندوستانی صحافی ہے جو ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے امور پر اکثر لکھتا رہتا ہے اور اس کے کالم ہندوستان کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ کی اہم اخباروں میں بھی چھپتے رہتے ہیں۔اس صحافی نے 14جون 2009 کے انگلستان کے مشہور اخبار گارڈین میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا“The demise of pakistan is ineviable"۔یعنی پاکستان کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے۔

قارئین پاکستان کا خاتمہ ہندوستان اور اسرائیل جیسے پاکستان کے چند دشمنوں کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن اللہ کے کرم سے ایسا کبھی نہیں ہو گااور مجھے کامل یقین ہے کہ موجودہ مشکل حالات کی بھٹی سے کندن بن کر ابھرنے والا مضبوط پاکستان انشاء اللہ دنیا کے افق پر ایک روشن ستارے کی طرح ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ہندوستانی صحافی کا کہنا ہے کہ“پاکستان کی طالبان کے ساتھ لڑائی ایک نورا کشتی ہے اگر پاکستا کی حکومت خصوصا فوج طالبان کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ اپنے دو لاکھ بہترین فوجی دستے ہندوستان کے ساتھ اپنی مشرقی سرحد پر صرف گھاس کھانے کے لئے فارغ نہ بٹھا دیتی“۔
صحافی کے مطابق پاکستان امریکہ سے صرف اربوں ڈالر بٹورنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔اور امریکن بھی حیران ہیں کہ انہوں نے پہلے اربوں ڈالرز کی جو امداد پاکستان کو دی تھی وہ بھی ہندستان کے خلاف استعمال ہونے والی پاکستانی فوج کو مضبوط بنانے پر خرچ ہو گئی ہے۔صحافی نے کہا“طالبان کے پاکستان میں حالیہ حملوں نے اپنےPaymasters پاکستانیوں کو ضرور پریشان کیا ہوا ہے لیکن اس سے پاکستانی حکومت کے طالبان کے متعلق رویوں میں اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک طالبان ہندوستان کو تباہ کرنے اور کشمیر کو آزاد کرانے کے منصوبوں پر قائم ہیں“۔
صحافی کہتا ہے کہ جب وہ لاہور میں جماعۃ الدعوۃ کے یحیی مجاہد کو ملا تو اس نے بھی یہی کہا کہ ہم کشمیر کی آزادی تک ہندوستان سے لڑتے رہیں گے۔صحافی نے مزید کہا کہ حافظ سعید کی رہا کرتے وقت لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے یہ عجیب بات کہہ دی کہ پاکستانی قوانین کی کتابوں میں القاعدہ تنظیم یا اس کی بین الاقوامی دہشت گردی کا کوئی*ذکر نہیں۔
صحافی کے خیال میں 1947 میں پاکستان کی ہندوستان سے علیحدگی کا واضح جواز موجود نہ تھا یہ کہنا کہ ہندو مسلمان ایک جگہ نہیں رہ سکتے اس صورت میں ٹھیک ہوتا جب مسلمانوں کی علیحدگی کے بعد ہندوستان صرف ہندو ریاست بن کر رہ جاتا۔صحافی کے مطابق 1947 کا پاکستان 1971 میں ختم ہو گیا تھااور اس کے ساتھ وہ فلاسفی بھی جس کے تحت پاکستان وجود میں آیا تھا کہ سیکولر ہندوستان کی افواج نے ہی تو بنگالیوں کو پاکستانی حکومت کے پاگل پن سے آزاد کروایا تھا چونکہ حملہ آور بھارتی فوج کے کمانڈروں میں سے ایک بھی ہندو نہ تھا۔ائیر چیف ادریس لطیف مسلمان تھا، جنرل اروڑا سکھ تھا، آرمی چیف جنرل مانک شاہ پارسی تھا او سای جنگی حکمتِ عملی تیار کرنے والا جے ایف آر جیکب یہودی تھا۔
صحافی کے مطابق پاکستان اب ایک ناکام ریاست ہے جہاں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے علاوہ ایٹمی ٹیکنالوجی کا غیر قانونی پھیلاؤ بھی ہو رہا ہے۔انگلستان کے بہت زیادہ فروخت ہونے والے اور پوری دنیا میں انٹرنیٹ پر پھے جانے والے اخبار گارڈین میں ہندو صحافی کی آخری ہرزہ سرائی یہ تھی۔“With in next 20 years Pakistan as we know it today will probably not exist"۔
قارئین ہندوؤں کی پاکستان دشمن ذہنیت سے کون سے پاکستانی نا آشنا ہے پتہ نہیں ہمارے قائدین یہ کیوں کہتے ہیں کہ ہندوستان سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں حالانکہ ہندوستان، جس کے ہاتھ 90 ہزار کشمیری مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جس نے 1971 میں پاکستان کو دو لخت کیا، اب پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور ہے اب وہ اپنی تبدیل شدہ حکمت عملی کے تحت لڑائی نہیں لڑنا چاہتا بلکہ covert طریقوں سے پاکستان کو معاشی لحاظ سے کمزور کر کے، دنیا سے تنہا کر کے،افغانستان میں پھیلائے گئے اپنے جاسوسوں کے جال کے ذریعے،سرحد،بلوچستان،جنوبی پنجاب اور کراچی کے اندر خلفشار کو ہوا دے کر، مسلمان کو مسلمان سے لڑا کر اور افواجِ پاکستان کو بدنام کر کے پاکستان کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹنا چاہتا ہے۔پاکستانی قوم اللہ کے کرم سے دشمن کے ان مکروہ عزائم سے آگاہ ہے اور ان کو خاک میں ملا دے گی۔ہمیں اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ پاکستان کے اندر ابھرنے والے خطرات کے پیچھے بھی بیرونی ہاتھ ہیں۔کیا 50 خچروں کی گولہ بارود سے لدی ہوئی قطار کا پاکستان میں داخل ہونا،جس کو فوج نے چند دن پہلے پکڑا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ جو کچھ آج پاکستان میں ہو رہا ہے اس کے پیچھے امریکی آشیرباد کے ساتھ ہنود و یہود ہی ہیں۔کار کی نمبر پلیٹ پڑھ لینے والا ڈرون جہاز افغانستان سے آنے والے 50 خچروں او گولہ بارود سے بھری گاڑیوں کے پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے کیوں نہیں دیکھ سکتا۔
ہمارے اربابِ اختیار بے شک اٹھ اٹھ کر بھارتی قیادت کو گلے لگائیں اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو دفن کر کےاپنے کشمیر کے موقف سے بھی ہٹنے کو تیار ہو جائیں یا پھر ایٹمی ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کا وعدہ بھی کر ڈالیں پھر بھی ہندو کبھی آزاد اور مضبوط پاکستانی سلطنت کے تصور کو ہضم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا چونکہ صرف اکھنڈ بھارت کا خواب ہی اس کے دماغ پر حاوی ہے۔
اس بھارتی صحافی کی سیکولر بھارت کی بے جا تعریفوں کا پول کھولنے کے لئے میں نے اسی*صحافی کے بہت سے پرانے کالموں کو کھنگالنا شروع کیا تو مجھے اسی کے کالموں سے وہ زمینی حقائق مل گئے۔جن کو آج یہ صحافی جھٹلانے کی کوشش کر رہا ہے۔مثلا اسی صحافی نے 28 دسمبر 2008 کو ایک کالم“India's Double Standard" کے عنوان سے لکھا تھا کہ“بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دوہرے معیار نہیں ہونا چاہیں حالانکہ بھارتی قیادت خود سری لنکا میںLTTE کی مددکر کے دوہرا معیار اپنایا ہوا ہے۔صحافی لکھتا ہے کہ ہندوستان سری لنکا کے معاملات میں مداخلت پر سری لنکا کے*چیف آف آرمی سٹاف Sarath Fonsche نے شدید لفظوں میں مذمت کی تھی۔ ہندوستانی صحافی کے مطابق“The LTTE could not have grown without the support of successive state govts of India" ۔
قارئین اس سے ہندوستان کی اپنے ہمسایہ ممالک کے معاملات میں انگشت بازی ثابت ہوتی ہے۔صحافی کے مطابق اس مداخلت کی تصدیق بین الاقوامی جینز انفارمیشن گروپ نے بھی کی ہے صحافی نے لکھا کہ ہندوستان کا تبت اور برما میں کردار بھی قابلِ تعریف نہیں صحافی نے لکھا کہ“ہندوستان پاکستان کو تو کہتا ہےکہ پاکستان میں موجود جہادی تنظیموں کو لگام دینا چاہیے لیکن خود اپنے ملک میں تامل ناڈو کے سیاستدانوں کی سری لنکا میں مداخلت پر خاموش ہے۔ پاکستان کے الگ وجود کی اب مخالفت کرنے والے اس صحافی نے ماضی قریب میں لکھا تھا کہ“مسلمانوں پر ہندو مظالم کی داستان لمبی ہے 2002 میں تقریبا ایک ہزار مسلمانوں کو گجرات میں ہندوؤں نے ذبح کر دیا او وہاں کے وزیرِ اعلی نریندر مودی نے ٹی وی پر ہندوؤں کے اس جرم کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ“Every action has an equal and opposite reaction"یعنی مسلمانوں نے جو کیا بھر لیا۔
اس کے علاوہ صحافی کہتا ہے کہ“Varun Gandhi"نے حالیہ انتخابی مہم میں مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا“جو ہاتھ ہندو پر اٹھے گا وہ کاٹ دیا جائے گا“اور کہا“مسلمانوں کے اسامہ بن لادن جیسے کتنے*ڈراؤنے نام ہیں“
پاکستان کے اگلے کچھ سالوں میں ٹوٹ جانے کی اب مکروہ پیشن گوئی کرنے والے*صحافی نے چند ماہ پہلے اعتراف کیا تھا کہ ہندوستان کے سیکولرازم کی تعریف کا دارومدار اب ہندوؤں کی منشا پر ہے یعنی وہ جو چاہیں گے وہ ہو گا اس سے صحافی کے مطابق “ہندوستان ٹوٹ سکتا ہے“۔
قارئین ایک ہندوستانی صحافیKapil Komireddi کی زبان سے ہی ہندوستان میں اقلیتوں کی بدحالی کے متعلق مندرجہ بالا حقائق سن کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کا ایک الگ ریاست حاصل کرنے کا مطالبہ درست تھا یا غلط۔اور دوسرا یہ کہ سیکولرازم کا واویلا کرنے والی بھارتی حکومت اپنے اعمال میں کس حد تک سیکولر ہے۔
ہمیں اس میں شک نہیں کہ آج پاکستان حالتِ جنگ میں ہے اور اس پر اندر اور باہر سے دو طرفہ حملے ہو رہے ہیں اس لئے ہر پاکستانی کو اس ساری سازش کو صحیح طرح سے سمجھنا چاہیے تاکہ اس کا بہترین مقابلہ کیا جا سکے۔ہماری وزارتِ اطلاعات اور بیرونِ ملک ہر پاکستانی سفارت خانہ بھی پاکستان کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈے پر کڑی نظر رکھے تاکہ اہم بین الاقوامی اخبارات میں چھپنے والے ہر پاکستان دشمن کالم یا خبر کا ضرور انہی اخبارات میں اسی زبان میں منہ توڑ جواب دیا جائے۔
ملک کے دفاع کے لئے یہ جہاد ہم سب پر لازم ہے۔ ہندوستان کی اصول پرستی کے خلاف اگر کسی کو غلط فہمی ہے تو وہ ہندوستان کے فاؤنڈنگ فادر جواہر لال نہو کے مندرجہ ذیل بیان کو پڑھے جو انہوں نے 7 اگست 1952 کو ہندوستان کی پارلیمنٹ میں دیا تھا۔اور موجودہ ہندوستان کے اٹوٹ انگ والے رویے اور کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو دیکھے“I want to stress that it is only the people of kashmir who can decide the future of kashmir. it is not that we have"
0
میری دعا ہے مناؤ ہزار عیدیں تم
مسرتوں کی ہر گھڑی مبارک ہو
........
ملیں نہ دکھہ زندگی میں
پھول کی طرح مہکو خدا کرے
زندہ رہے نام ابد تک تمھارا
عید کی خوشیاں مبارک خدا کرے
............
عام دنوں کا تو حساب رہنے دو
!یہ بتاؤ عید پر مجھے یاد کیا تم نے
0

غصے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک روحانی بیماری ہے اور اس کا جسمانی بیماری سے کوئی تعلق نہیں لیکن ملاں پنج پیازہ اس بات سے قطعا اتفاق نہیں کرتے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر جسم نہیں تو روح کیسی؟ لہذا غصے کو روحانی اور جسمانی دونوں بیماریاں ہونے کا شرف حاصل ہے۔
غصے کو انسانی جبلت سے ایک خاص تعلق ہے کیونکہ انسان کو جن عناصرِ اربعہ سے تخلیق کیا گیا ہے اس میں آگ کا بھی عمل دخل ہے اور غصہ کا تعلق بھی آگ سے ہی ہے۔ غصے کے کھانے اور پینے کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ کہتے ہیں غصہ کھانا چاہیے اور کچھ کہتے ہیں غصہ پینا چاہیے۔ اس بارے میں ملاں پنج پیازہ بھی مخمصے کا شکار ہیں حالانکہ وہ اپنے حلقہ احباب میں “فتوی باز مولوی“ کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں لیکن یہاں ان کا فتوی بھی خاموش ہے۔
غصہ یقینا حرام ہے اور اس کے حرام ہونے میں ذرہ بھر بھی شک کی گنجائش موجود نہیں لیکن ایک عام آدمی یہاں بھی شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیا غصے کا کھانا اور پینا بھی حرام ہے؟ یہاں ملاں پنج پیازہ کا فتوی کام دیتا ہے اور انہوں نے غصے کے کھانے اور پینے میں تفریق قائم کی اور یہ فتوی جاری کیا کہ غصے کا کھانا حرام اور پینا حلال ہے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ غصہ کھانے والا اپنا بھی نقصان کرتا ہے اور دوسرے کا بھی جبکہ غصہ پینے والا اپنا بھی فائدہ کرتا ہے اور دوسرے کا بھی۔
ڈارون ایک سائنسدان گزرا ہے اس نے غصہ کھا کر اپنی ساری زندگی کی محنت پر پانی پھیر دیا تھا۔ وہ بچپن میں بڑا شرارتی تھا اس کی شرارتوں کو دیکھتے ہوئے کسی نے اسے کہہ دیا کہ“ اوئے بندر کے بچے“ شرارتیں نہ کر، وہ بچپن سے لے کر پچپن تک اسی غصے کی حالت میں رہا اور اس نے یہ ثابت کیا کہ اگر میں بندر کا بچہ ہوں تو پھر ساری عالم انسانیت بندر کی اولاد ہے۔ اس لئے بعض لوگ ڈارون کو سائنسدان نہیں بلکہ سانس دان مانتے ہیں۔ بن مانس ماننے والوں کی تعداد بہت کم ہے اگر ڈارون غصہ کھانے کی بجائے غصہ پی جاتا تو شاید اس بات کی نوبت ہی نہ آتی۔ سائنسدانوں کی طرح سیاستدان بھی غصہ میں کسی سے کم نہیں بلکہ دو ہاتھ زیادہ ہی ہیں۔ ان کی عادت ہے کہ یہ دوسرے کے حصے کا غصہ بھی کھا جاتے ہیں کیونکہ انہیں کھانے پینے کی ایسی عادت پڑ چکی ہوتی ہے کہ ان کے ہاں پرہیز کرنا لازم نہیں ہوتا۔ ہمارے سیاستدان اگر غصہ نہ کھاتے تو اس پیارے وطن میں جمہوریت کبھی آمریت کی لونڈی نہ بنتی۔
سیاستدان غصہ اتنا زیادہ بنا لیتے ہیں کہ اسے ختم کرنے کے لئے کسی نہ کسی جرنیل کو دعوت طعام دے بیٹھتے ہیں اور حضرت جرنیل غصہ کھاتے ہی اپنے پیشہ ورانہ امور کو چھوڑ کر سیاست جیسے فضول کام میں ٹانگ اڑا دیتے ہیں۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ غصہ کھانے کا عمل صرف ایک خاص خطہ تک ہی محدود ہے جبکہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام خطوں میں غصہ پینے کی بجائے کھانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جیسے بش جونئیر نے 11/9 کے بعد غصہ کھاتے ہوئے 3000 کے بدلے 3 لاکھ افراد کا خون پی لیا اگر وہ غصہ پی جاتا تو آسانی سے اصل لوگوں کو پکڑ کر ان سے ناک رگڑوائی جا سکتی تھی۔
اسی طرح بعض افراد کو غصہ کھلا کر ان سے بڑی اہم باتیں بھی اگلوائی جا سکتی ہیں۔ ایک حسینہ نے اپنے عاشق سے کہا “اگر میں نہ ہوتی تو تمہیں کوئی اور لڑکی منہ بھی نہ لگاتی“۔ عاشق غصہ کھا گیا اور بولا “تم کیا سمجھتی ہو میں تمہارے پیچھے ہی پڑا ہوا ہوں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ فلاں فلاں لڑکیوں سے بھی میرا چکرچل رہا ہے“۔ اگر یہ عاشق غصہ کھانے کی بجائے پی جاتا تو اتنے قیمتی راز کبھی نہ اگلتا۔
اگر غصہ کھانے کا مقابلہ شروع کر دیا جائے تو اس مقابلے میں بڑے بڑے پہلوان چت ہو جائیں گے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ انہیں اسی اکھاڑے میں ہی دفن ہونا پڑے۔
بہر حال بھائیو ملاں پنج پیازہ کی نصیحت کے مطابق غصہ کھانا حرام ہے جتنا ممکن ہو سکے اسے پینے کی کوشش کرو یہ مشورہِ عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے۔
آج کل پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بار پھر مذاکرات کا کھیل کھیلا جا رہا ہے لیکن ان مذاکرات کی آڑ میں بھارت ایک بار پھر اپنا مکروہ چہرہ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے جس پر سے سیکولرازم کا نقاب اتر چکا ہے اور ساری دنیا نے اس کا اندر سے نکلتا بدنما چہرہ دیکھ لیا ہے۔ پاکستان کو مسلسل دہشت گردی کا طعنہ دینے والے بھارت کا اصلی چہرہ کیا ہے کسی سے *ڈھکا چھپا نہیں۔ بھارت نےاپنے تمام پڑوسی ممالک کے خلاف درپردہ جو جنگ چھیڑ رکھی ہے اسے وہ مذاکرات کے خوشنما پردے میں چھپانا چاہتا ہے۔
بھارت “دوسروں کو نصیحت اور خود میاں فصیحت“ کے مترادف ایک جانب تو دہشت گردی روکنے کے لئے پاکستان پر دباؤ ڈال رہا ہے اور دوسری جانب اپنی خفیہ ایجنسی “را“ کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اب جبکہ بھارت بین الاقوامی دباؤ کے تحت پاکستان سے مذاکرات کرنے پر مجبور ہوا ہے تو دوسری جانب بھارت کی خفیہ ایجنسی نے ایک نیا پلان ترتیب دیا ہے کہ ان مذاکرات کے کھیل میں پاکستان کو الجھا کر دنیا کو یہ باور کروایا جائے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ امن چاہتا ہے جبکہ دوسری جانب بھارتی خفیہ ایجنسی “را“ پاکستان میں تخریبی کاروائیوں کو مزید وسیع کر دے۔
بھارتی خفیہ ایجنسی “را“ سے ملنے والی دستاویز میں یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ اسکے ایجنٹ القاعدہ کے کارکن بن کر دہشت گردی کی کاروائیاں کر رہے ہیں۔ اس دستاویز کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی فاٹا، اندورنِ سندھ اور جنوبی پنجاب تک اپنی کاروائیوں کو وسیع کرنا چاہتی ہے۔
اس منصوبہ کے مطابق بھارتی ایجنسی“را“ کی ذیلی تنظیم کاؤنٹر انٹیلیجنس ٹیم (سی آئی ٹی) نے کچھ عرصہ قبل یہ حکمتِ عملی تیار کی تھی کہ ایک طرف پاکستان کو سفارتی سطح پر مذاکرات کی دعوت دی جائے اور دوسری جانب پاکستان میں تخریبی کاروائیوں کو تیز کر دیا جائے۔ اپنے اس منصوبے کوعملی جامہ پہنانے کے لئے “را“ نے مقبوضہ کشمیر، مشرقی پنجاب، اترپردیش، راجھستان، گجرات، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، کرناٹک اور آسام میں 57 تربیتی مراکز قائم کئے۔ ان مراکز میں پاکستان مخالف قوم پرست ہندو نوجوانوں کو بھرتی کیا گیا اور انہیں تربیت دے کر مختلف ذرائع سے پاکستان داخل کر دیا گیا جہاں یہ تربیت یافتہ لوگ القاعدہ کے ایجنٹوں کے روپ میں کام کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو القاعدہ کے کارکن کی حیثیت سے شناخت کروا کرسادہ لوح قبائلی نوجوانوں کو اسلحہ و بارود اور رقوم فراہم کرتے رہے ہیں تاکہ وہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کو فروغ دے سکیں۔ اس منصوبہ بندی میں اسرائیلی خفیہ ایجنسی “موساد“ کی فلسطین میں کی گئی کاروائیوں کو نمونے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ ان خفیہ دستاویزات سے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ “را“ کے منصوبہ ساز اپنی تخریبی کاروائیوں کا دائرہ کار پاکستان کے قبائلی علاقوں سے لے کر اندرونِ سندھ اور سرائیکی اضلاع کے علاوہ پاکستان کے شمالی علاقہ جات تک بڑھانا چاہتے ہیں۔
بھارت کو جب سر پہ پڑتی ہیں تب وہ مذاکرات مذاکرات چلانا شروع کر دیتا ہے تاکہ کچھ عرصہ تک اپنے سر کو سہلا سکے اور پھر وہی آنکھیں دکھانا شروع کر دیتا ہے اس کی حالت یہ بن چکی ہے کہ ڈنڈا مارو تو چلے گا ورنہ اکڑ کر کھڑا ہو جائے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ دنیا میں امن و امان کی بات کی ہے فلسطین کا مسئلہ، کشمیر کا مسئلہ اور دوسرے مسلمان ممالک کا مسئلہ دنیا میں امن کے بگاڑ کی ایک بڑی وجہ ہے کیونکہ کوئی قوم بھی اپنے اوپر کسی دوسرے کا تسلط برداشت نہیں کر سکتی۔ اگر اسرائیل،بھارت اور امریکہ جیسے نام نہاد مہذب ممالک مسلمان قوم پر ظلم و ستم ڈھائیں گے تو جواب میں مسلمان انہیں پھولوں کے ہار نہیں پہنائیں گے بلکہ حریت پسند نوجوان ہر محاذ پر ان کے خلاف نبرد آزما ہوں گے۔ اور پاکستان کا موقف یہ ہے کہ ان مسائل کو حل کیا جائے تاکہ دنیا امن و سکون کے ساتھ رہ سکے مگر جمہوریت کے سب سے بڑے علمبردار بھارت اور مظلومیت کے سب سے بڑے دعوے دار اسرائیل کے “میں نہ مانوں“ والے رویے کی وجہ سے آج دنیا تباہی کے دھانے پر کھڑی ہے۔
پاکستانی حکومت کو سفارتی ذرائع سے بھارت کو متنبع کرنا چاہیے کہ “بغل میں چھری اور منہ پہ رام رام“ والے رویے سے باز رہے ورنہ اگر پاکستان نے جوابی کاروائی کا سوچا تو ہندو بنئے کو دھوتی سنبھالنی مشکل ہو جائے گی۔
0
Established in 1992, HAARP, based in Gokona, Alaska, is an array of high-powered antennas that transmit, through high-frequency radio waves, massive amounts of energy into the ionosphere (the upper layer of the atmosphere). Their construction was funded by the US Air Force, the US Navy and the Defense Advanced Research Projects Agency (DARPA). Operated jointly by the Air Force Research Laboratory and the Office of Naval Research, HAARP constitutes a system of powerful antennas capable of creating ‘controlled local modifications of the ionosphere’. According to its official website, http://www.haarp.alaska.edu/ , HAARP will be used ‘to induce a small, localized change in ionospheric temperature so physical reactions can be studied by other instruments located either at or close to the HAARP site’.

But Rosalie Bertell, president of the International Institute of Concern for Public Health, says HAARP operates as ‘a gigantic heater that can cause major disruptions in the ionosphere, creating not just holes, but long incisions in the protective layer that keeps deadly radiation from bombarding the planet’.

Physicist Dr Bernard Eastlund called it ‘the largest ionospheric heater ever built’. HAARP is presented by the US Air Force as a research programme, but military documents confirm its main objective is to ‘induce ionospheric modifications’ with a view to altering weather patterns and disrupting communications and radar.

According to a report by the Russian State Duma: ‘The US plans to carry out large-scale experiments under the HAARP programme [and] create weapons capable of breaking radio communication lines and equipment installed on spaceships and rockets, provoke serious accidents in electricity networks and in oil and gas pipelines, and have a negative impact on the mental health of entire regions.’*

An analysis of statements emanating from the US Air Force points to the unthinkable: the covert manipulation of weather patterns, communications and electric power systems as a weapon of global warfare, enabling the US to disrupt and dominate entire regions. Weather manipulation is the pre-emptive weapon par excellence. It can be directed against enemy countries or ‘friendly nations’ without their knowledge, used to destabilise economies, ecosystems and agriculture. It can also trigger havoc in financial and commodity markets. The disruption in agriculture creates a greater dependency on food aid and imported grain staples from the US and other Western countries.

HAARP was developed as part of an Anglo-American partnership between Raytheon Corporation, which owns the HAARP patents, the US Air Force and British Aerospace Systems (BAES).

The HAARP project is one among several collaborative ventures in advanced weapons systems between the two defence giants. The HAARP project was initiated in 1992 by Advanced Power Technologies, Inc. (APTI), a subsidiary of Atlantic Richfield Corporation (ARCO). APTI (including the HAARP patents) was sold by ARCO to E-Systems Inc, in 1994. E-Systems, on contract to the CIA and US Department of Defense, outfitted the ‘Doomsday Plan’, which ‘allows the President to manage a nuclear war’.Subsequently acquired by Raytheon Corporation, it is among the largest intelligence contractors in the World. BAES was involved in the development of the advanced stage of the HAARP antenna array under a 2004 contract with the Office of Naval Research.

The installation of 132 high frequency transmitters was entrusted by BAES to its US subsidiary, BAE Systems Inc. The project, according to a July report in Defense News, was undertaken by BAES’s Electronic Warfare division. In September it received DARPA’s top award for technical achievement for the design, construction and activation of the HAARP array of antennas. The HAARP system is fully operational and in many regards dwarfs existing conventional and strategic weapons systems. While there is no firm evidence of its use for military purposes, Air Force documents suggest HAARP is an integral part of the militarisation of space. One would expect the antennas already to have been subjected to routine testing.

Under the UNFCCC, the Intergovernmental Panel on Climate Change (IPCC) has a mandate ‘to assess scientific, technical and socioeconomic information relevant for the understanding of climate change’. This mandate includes environmental warfare. ‘Geo-engineering’ is acknowledged, but the underlying military applications are neither the object of policy analysis or scientific research in the thousands of pages of IPCC reports and supporting documents, based on the expertise and input of some 2,500 scientists, policymakers and environmentalists. ‘Climatic warfare’ potentially threatens the future of humanity, but has casually been excluded from the reports for which the IPCC received the 2007 Nobel Peace Prize.

The HAARP system is fully operational and in many regards dwarfs existing conventional and strategic weapons systems. While there is no firm evidence of its use for military purposes, Air Force documents suggest HAARP is an integral part of the militarisation of space. One would expect the antennas already to have been subjected to routine testing.


Proven Facts

-HAARP is acknowledged by the government.
-It stand for HIGH FREQUENCY ACTIVE AURORAL RESEARCH PROGRAM
-It conducts experiments with the ionosphere
"HAARP is a scientific endeavor aimed at studying the properties and behavior of the ionosphere, with particular emphasis on being able to understand and use it to enhance communications and surveillance systems for both civilian and defense purposes."

Rumored Truths About The Project

-It operates at the same frequency as the brain.
-It's intent is to interfer with the thought process.
-They are using brain tissue in conjuction with altering the ionosphere to create living computers
-Tampering with the ionosphere could change weather patterns.
-According to Alaskan anti-HAARP activist Clare Zickuhr "The military is going to give the ionosphere a big kick and see what happens."
(read less)
People must know about HAARP in Alaska!
and what it does.

HAARP stand for:
High Frequency Active Auroral Research

"HAARP is a weapon of mass destruction, capable of destabilising agricultural and ecological systems globally."

"‘Climatic warfare’ potentially threatens the future of humanity, but has casually been excluded from the reports for which the IPCC received the 2007 Nobel Peace Prize."
اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کا کوئی بھی خطہ ہو،ہر جگہ،ہر زمانے میں سچ اور جھوٹ،اچھائی اور برائی،رات اور دن،اندھیرے اور اجالے یعنی حق اور باطل کی جنگ کسی نہ کسی رنگ،کسی نہ کسی انداز اور کسی نہ کسی حال میں جاری رہی ہے۔اور ان سب جنگوں میں احسن ترین روپ اس جنگ کا ہے جو اللہ کے نام پر،اللہ کے لئے اللہ کے راستے میں، اللہ کے حکم سے لڑی جاتی رہی،لڑی جاتی ہے اور لڑی جاتی رہے گی۔
پاکستان اللہ کے نام پر معرضِ وجود میں‌ آنے والا وہ عظیم ملک ہے جس کے اندر بسنے والے کتنے بھی نا سمجھ،کتنے بھی نافرمان،کتنے بھی بُرے ہوں،جب بات اللہ اور اس کے رسول مولائے کائنات،باعثِ وجود و عدم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آ جائے تو یہ نکمے اور اچھے،بُرے اور بھلے،فوجی اور عوام سب کے سب جان ہتھیلیوں پر لے کر قربان ہونے کے لئے میدانِ عمل میں نکل آتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ پاک فوج کے جوانوں نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیے کہ جن کی مثال شاید آنے والا وقت بھی فراہم نہ کر سکے۔ہاں ان بے مثال کارناموں کی ریت روایت کو آگے بڑھانے کا کام پاک فوج ضرور فرض جان کر کرتی رہے گی انشاء اللہ۔
عرصہ 45 سال سے ہر سال ملک بھر میں“یومِ دفاع منایا جاتا ہے اور قوم احسان مندی اور شکر گزاری کے ساتھ اپنے شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔جنہوں نے ستمبر 1965 کو کڑی آزمائش میں بڑی دلیری اور جوانمردی سے وطن اور قوم کی حفاظت کی اور پاکستان کو سربلندی بخشی۔انہوں نے اپنی جرات و مہارت سے اپنے سے کئی گنا قوی بھارت کو نیچا دکھا کر دنیا بھر سے اپنا لوہا منوا لیا۔
پاکستان کے ہر فرد نے اس قومی معرکے میں اپنے فرض کو پہچانا اور ان کی ادائیگی کا حق ادا کر دیا۔آزاد اور حق پسند قوم کے عوام و خواص اور ادیبوں اور شاعروں کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں آنے والی نسلیں ان کی مثال اور خدمات سے ہمیشہ سبق لیتی رہیں گی۔
اس موقع پہ ہمیں خاص طور پر ان بلند مقاصد کو یاد رکھنا چاہیے جس کی خاطر وطن کے بے شمار فرزندوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ ان کی شہادت کی حرمت کو ہم اسی طرح قائم رکھ سکتے ہیں کہ خود بھی انہی قدروں کی حفاظت کریں اور انہی بلند مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں جن کے لئے انہوں نے اپنی جانیں نثار کیں۔
آپ واقف ہیں کہ دوسری جنگِ عظیم کے نتائج سے دنیا مٹاثر ہوئی۔ ان نتائج کا سب سے بڑا اثر یہ مرتب ہوا کہ دنیا کے پچاس کروڑ انسانوں کو نو آبادیاتی نظام اور غلامی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں بڑی مدد ملی۔ پاکستان،ہندوستان،انڈونیشیا،برما اور لنکا بیرونی حکومت کی غلامی سے آزاد ہوئے اور اپنی اپنی خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔آئیے دیکھیں کہ اس 17 دن کی جنگ سے ہمارے لئے کیا نتائج برآمد ہوئے اور خود ہم نے ان سے کیا سبق سیکھا؟
پہلی بات جو ہمیں یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ آج کل کی لڑائی میں سپاہی قوم سے الگ کوئی فرد نہیں ہوتا۔پوری قوم کو جنگ لڑنا پڑتی ہے۔گویا ساری قوم ہی سپاہی ہوتی ہے۔لڑنے والے سپاہی کو تو صرف تلوار کی دھار سمجھنا چاہیے۔تلوار اصل میں قوم ہوتی ہے۔اگر پوری قوم تلوار یعنی اس کے لوگ لوگ اس کا پھل اور اس کا قبضہ،سب کے سب فولاد کی طرح مضبوط نہ ہوں تو اکیلی دھار کیا کر سکتی ہے؟چاہے وہ کیسی ہی تیز کیوں نہ ہو! اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اگر تلوار بھی مضبوط ہو اور اس کی دھار بھی تیز ہو تب بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس سے کام لینے والے بازوؤں میں قوت اور توانائی کے ساتھ ساتھ بیلنس یعنی توازن نہ ہو۔کیونکہ اگر یہ سب باتیں نہ ہوں تو تلوار اپنا کام نہیں کر سکتی۔ہماری تلوار کی دھار کیسی تھی؟ یعنی ہمارے لڑنے والے سپاہیوں نے کیسا کام کیا؟ہم سب اس سے اچھی طرح واقف ہیں اور ساری دنیا جانتی ہے۔دشمن ہم سے کئی گنا بڑا تھا لیکن اللہ تعالٰی کے فضل اور رحمت سے ہمارے سپاہیوں نے ایسے ایسے کارنامے انجام دئیے کہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔
پوری تلوار کس فولاد کی بنی ہوئی تھی؟یہ بھی پوری قوم اچھی طرح جانتی ہے اور ساری دنیا جانتی ہے۔اس کا بیلنس یعنی توازن کس قوت نے قائم رکھا؟یہ بھی سب پر عیاں ہو چکا کہ یہ قوم کا جذبہ ایمانی تھا۔یعنی اسلام پر کُلی اعتقاد اور اللہ کی مدد پر پورا بھروسا اور ہماری راہنمائی کرنے والے قائدِ اعظم محمد علی جناح کا سکھایا ہوا وہ سبق تھا جس پر ہمارے وطن اور ہماری قومیت کا دارومدار ہے۔یعنی اتحاد،ایمان و تنظیم اور یقینِ محکم۔دوسرا سبق جو ہم نے عملی طور پر سیکھا وہ یہ ہے کہ لڑائی بھی جدید جنگوں کی طرح مکمل اور بھرپور لڑائی تھی جو صرف سرحدوں پر لڑنے والے سپاہیوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ ملک کا ہر فرد اور ادارہ اس میں شریک ہوتے ہیں اور زیادہ تر خطرہ شہریوں کو ہوتا ہے جن کے پاس اپنے بچاؤ کے لئے کوئی ہتھیار بھی نہیں ہوتا۔اس کے برخلاف وہ دشمن کے اس زبردست ہتھیار کی زد میں ہوتے ہیں جو پچھلی لڑائیوں میں نہایت زود اثر،قوی اور دیر پا ثابت ہو چکا ہے۔اس ہتھیار کو “پروپیگنڈہ“ یا فوجی اصطلاح میں SPY WAR کہتے ہیں۔یعنی ذہنی یا نفسیاتی لڑائی۔یہ ہتھیار اس قدر زبردست ہوتا ہے کہ لڑنے والی فوجوں کے سر پر سے گزر کر شہریوں پر حملہ کرتا ہے اور اس کا دفاع بھی آسانی سے ممکن نہیں۔اس کا سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لڑنے والی قوم کے باہمی اتحاد اور اتفاق میں ہر طرح سے رخنے ڈالے جائیں یا انہیں نفسیاتی طور پر اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ لڑائی جاری رکھنے کے لائق نہ رہ سکیں۔
جدید دور میں لڑائی کا پورا تخیل اور اس کا پورا فن بلکل بدل چکا ہے۔جنگ اب تلواروں یا توپ و تفنگ کی جنگ نہیں رہی بلکہ سر تا سر دماغی جنگ بن چکی ہے اور اس کا مقصد لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کر کے ان پر قابو حاصل کرنا ہے۔گویا جدید لڑائی خیال و فکر کی لڑائی بن چکی ہے۔اس کے نتائج اور اثرات جنگ کے بعد نمودار ہوتے ہیں اور عرصے تک قائم رہتے ہیں۔
ستمبر 1965 کی جنگ کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟اس موضوع پر ایک تجویز حکومت کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں خاص طور پر حکومت کی توجہ اس بات کی طرف دلائی گئی تھی کہ ہم کو اس جنگ کے  معاشرتی اور سیاسی اثرات پر غور کرنا چاہیے کیونکہ اس جنگ نے سب سے زیادہ ہماری قوم اور ملک کے ان ہی پہلوؤں کو متاثر کیا ہے۔مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس رپورٹ پر اس وقت کی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ جیسا ہونا چاہیے تھا اور جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہی سب کچھ ہوا یعنی پوری قوم نے فتنہ و فساد کے وہ تکلیف دہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے جو ملک کے گوشے گوشے میں مسلسل برپا ہوتے رہے۔
اس افراتفری کے مختلف اسباب بیان کیے جا سکتے ہیں لیکن اگر مجھ سے دریافت کریں تو میں عرض کروں گا کہ اس کی ذمہ داری ہم سب پر یکساں عائد ہوتی ہے اور اس کا واحد سبب یہ ہے کہ ہم سب اپنے قومی نظرئیے اور اس بنیاد سے جس پر نظریہ قائم ہے،مسلسل غفلت برت رہے ہیں اور ان مقاصد سے دور ہوتے جا رہے ہیں جن کی خاطر پاکستان وجود میں آیا تھا۔
یہ واقعہ ہے کہ میں آج بھی جہاں کہیں جاتا ہوں، مجھ سے قوم کے جوان اکثر یہی سوال کرتے ہیں کہ نظریہ پاکستان سے دراصل کیا مراد ہے؟غور فرمائیے کہ قیام کے 63 سال گزر جانے کے بعد پاکستان کے بارے میں آج بھی یہ سوال کیا جا رہا ہے۔
کسی قوم کی اصل قوت کا اندازہ محض اس معیار سے نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے مادی طور پر کتنی ترقی کی ہے۔قوموں کی برادری میں سرفرازی اس وقت حاصل ہو سکتی ہے جب ہمیں اپنے وطن میں بھی عزت حاصل ہو اور اس کے لئے کسی نہ کسی نصب العین کا ہونا ضروری ہے۔کوئی قوم بغیر کسی نصب العین کے زندہ نہیں رہ سکتی۔ہمارے سامنے بھی ہمارا خاص نصب العین موجود ہے اس کی بناء پر ہماری قومیت،ہمارا اتحاد اور ہماری وحدت قائم ہے۔اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لئے پاکستان وجود میں آیا۔اس کی خاطر قوم کے دلیر فرزندوں نے اپنی جانوں کی بازی لگائی تھی۔
ہمارا نصب العین یہ ہے کہ ہم پاکستان کو قمری دور میں اسلام کی سادی،سچی اور صاف ستھری طرزِ زندگی کا مثالی نمونہ بنا دیں۔
اپنے نصب العین کے حاصل کرنے میں ہمیں اب تک جو ناکامی ہوئی ہے میری ناچیز رائے میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بھول گئے کہ “ انسان صرف پیٹ کا بندہ نہیں ہے۔“ اس کا ایک دماغ بھی ہے، ایک دل بھی ہے،ایک روح بھی ہے اور جب تک ان سب میں توازن نہ ہو گا،اسے نہ وہ قناعت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ وہ خوشحالی اور اطمینان نصیب ہو سکتا ہے جو ہر قوم کا نصب العین ہونا چاہیے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے ملک میں مادی ترقی کے لئے بہت زیادہ کوششیں صرف کی گئیں،مگر دماغی،اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے کیا کیا گیا؟
آپ حضرات جانتے ہیں کہ ایک معمولی مشین کو بھی درست کرنے کے لئے اس کے مرکزی کنٹرول کو سمجھنا پڑتا ہے۔انسانوں کا مرکزی کنٹرول پیٹ میں نہیں بلکہ ان کے قلب و ذہن میں واقع ہے۔سب سے پہلے اس کی طرف توجہ دینی چاہیے تھی،لیکن افسوس اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کیا گیا۔
میں یہ بات واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم جس قدر اپنے قومی نظریے سے،جس کی بنیاد اسلام پر قائم ہے،دور ہوتے جائیں گے،ہمارا قومی اتحاد بھی اتنا ہی کمزور ہوتا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی سالمیت بھی خدانخواستہ خطرے میں پڑتی جائے گی۔
میں اسلام کوئی لیکچر یا واعظ دینے کی جرات نہیں کر سکتا اور نہ کوئی فتویٰ دے سکتا ہوں کہ اسلام یہ ہے اور وہ نہیں ہے۔یہ تو عالموں فاضلوں کا کام ہے کہ وہ اس موضوع پر مباحثے،سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کریں۔میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اسلام صرف مذہب ہی نہیں بلکہ ایک طریقہ زندگی ہے۔ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک پیش آنے والی ہر حالت اور ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
ہماری دنیاوی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں اسلام مکمل اور واضح ہدایتیں دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے ان ہدایتوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے عملی تفسیر اور مثالوں سے ہماری راہنمائی بھی کرتا ہے۔
اسلامی معاشرے میں اخلاق اور کردار کو سب سے افضل درجہ دیا گیا ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ“میں اعلٰی اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔اللہ تعالٰی کے نزدیک بھی وہی مسلمان سب سے اچھا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔“
اسلام میں والدین کے حقوق،اولاد کے حقوق،ہمسایوں کے حقوق،رشتہ داروں کے حقوق،میاں بیوی کے حقوق اور فرائض،غریبوں،مسکینوں،محتاجوں کی دیکھ بھال،شریفوں کی عزت،بڑوں کا ادب،چھوٹوں کا لحاظ،برابر والوں سے میل مروت،اہلِ علم،اہلِ فن کی عزت،کاروبار میں دیانت،ضعیفوں ،بیماروں کی خدمت،غرض اسلام ہمیں ہر طرح کی نیکی کی تعلیم دیتا ہے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔
اسلامی معاشرے میں فرد کے حقوق و فرائض بھی مقرر ہیں جس سے سوسائٹی میں توازن قائم رہتا ہے۔نہ کسی شخص کو اتنی آزادی ہے کہ وہ دوسروں کا حق چھین لے،نہ ایسی بندش ہے کہ وہ ترقی کے جائز مواقع سے بھی محروم رہے،نہ امیر،غریب کو حقارت کی نظر سے دیکھ سکتا ہے۔غریب امیر سب مسلمان ایک برادری کی طرح آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے کا سہارا بن کر یکساں طور پر خوشحال رہ سکتے ہیں کیونکہ اللہ کے نزدیک سب برابر ہیں۔
اسلام میں سب کے لئے محبت ہے،مساوات ہے،عدل ہے،غرض کہ زندگی میں ہر ایک کے لئے جائز مقام ہے اور مرنے کے بعد ہر ایک کے لئے اپنی اپنی قبر ہے،وہ بھی سب کی یکساں ہوتی ہے۔اسلام میں بہت زور معاشرے کت صحیح اصولوں پر دیا گیا ہے۔حلال روزی کمانے اور اسے جائز طریقے سے خرچ کرنے کے واضح احکامات ہیں۔نہ تجارت میں بے ایمانی اور ملاوٹ کی گنجائش ہے،نہ رشوت ستانی کی کوئی جگہ ہے اور نہ دھوکہ دہی کی اجازت۔
اسلام میں وراثت کے قانون ایسے زبردست ہیں کہ ایک نسل سے دوسری نسل تک جائیداد اور دولت صحیح وارثوں کو پہنچانے کی سخت تاکید ہے جس کی وجہ سے دولت کبھی چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہو سکتی۔اسی طرح اسلام نے زکٰوۃ کا نظام ایسا عمدہ اور منظم رکھا ہے کہ اس پر عمل کرنے سے پوری سوسائٹی کے لئے سوشل انشورنس سکیم مرتب ہو جاتی ہے جس سے غریب،مسکین،یتیم،اپاہج،ضعیف اور حاجت مند سب مالداروں کی ذمہ داری بن جاتے ہیں۔اس طرح سوسائٹی میں توازن برقرار رہتا ہے۔
یہ موٹی موٹی باتیں ہیں جو میں نے کسی خاص خیال یا کسی سوچے سمجھے ہوئے مقصد سے عرض نہیں کیں،بلکہ سادگی اور سچائی کے ساتھ جو کچھ میری سمجھ میں‌ آیا پیش کر دیا۔میرے نزدیک اسلام اور اسلامی سوسائٹی کا یہ تصور ہے۔
میرے خیال میں تو کسی کو اصول اور روح اسلام سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اسلام میں کسی قسم کی مذہبی ٹھیکیداری نہیں ہے۔ اسلام سب کے لئے یکساں اور اللہ تعالٰی کی کتاب یعنی قرآن پاک ہر ایک کے لئے کھُلی ہوئی ہے اور سب کو یکساں غور کرنے اور عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
اسلام کسی دنیاوی رتبے یا درجے کو تسلیم نہیں کرتا،نہ کسی خاص لباس اور وضع قطع پر زور دیتا ہے۔اس میں ظاہری صورت اور کوشش وغیرہ کو مطلق اہمیت نہیں دی گئی۔جس بات پر زور دیا گیا ہے وہ قلب و نظر کی پاکیزگی،اخلاق و کردار کی درستی اور ذہنی شرافت ہے۔
ایک بات جو میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں،یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے اسلام کو اتنی عظمت بخش دی ہے کہ مسلمانوں پر کسی نا اہل کا حکومت کرنا بہت ہی مشکل کام بن گیا ہے۔ہماری ساری تاریخ اس کی شاہد ہے کہ مسلمانوں نے صرف ایسی شخصیتوں کی ہدایت قبول کی ہے جن کا اپنا طریقِ زندگی عوام کے مطابق تھا۔دوسروں کو تلقین کرتے تھے خود بھی اسی پر عمل کرتے تھے اور جن کو عوام اخلاق اور کردار کے لحاظ سے اپنے سے بہتر سمجھتے تھے۔
میں مسلمانوں پر حکومت کرنے کو اس لئے مشکل کہتا ہوں کہ مسلمان کی پرواز میں کوئی رکاوٹیں یا منزلیں نہیں ہوتیں۔وہ جب چاہے اپنے خالق اور مالک کو پُکار سکتا ہے بلکہ صبح سے رات تک ہر روز پانچ وقت تو اس کا اللہ تعالٰی سے ملاقات کا وقت پہلے سے مقرر ہے۔
آپ غور فرمائیں کہ ایسے لوگوں کو جو اللہ کے ساتھ ہر طرح ہر روز قربت حاصل کرنے کے عادی ہوں، انہیں بھلا کوئی شخص کس طرح ہدایت دے سکتا ہے،جب تک کہ اس میں بھی وہی صفات موجود نہ ہوں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالٰی نے ہمسب کو دی ہیں۔
میں مسلمانوں کے ساتھ لفظ حاکم اور محکوم استعمال نہیں کر رہا کیونکہ میرے نزدیک مسلمانوں کو رُول کرنا یعنی ان پر حکومت چلانا ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ہاں انہیں گائیڈ کیا جا سکتا ہے۔یعنی انہیں ہدایت دی جا سکتی ہے۔انہیں لیڈ کیا جا سکتا ہے۔یعنی ان کی راہبری کی جا سکتی ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہدایت دینے والا اور راہبری کرنے والا وہ تمام خوبیاں اور صفات نہ رکھتا ہو بلکہ اس کا اخلاق و کردار سب سے بہتر اور افضل ہو۔
اسلام جب پھیلا اور جس تیزی کے ساتھ پھیلا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کے اصولوں میں فطری سادگی اور سچائی تھی حالانکہ اس کے پھیلانے والوں کا یہ حال تھا کہ وہ دنیاوی اعتبار سے تہی دست تھے۔لیکن اپنے قول کے پکے اور عمل کے سچے تھے اور ایک خاص جذبے سے سرشار تھے۔ اسی لئے دنیا کی بڑی طاقتیں بھی ان کے سامنے تھراتی تھیں۔
وہ خاص جذبہ کیا تھا؟ملاحظہ ہو۔
کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے
کسی کی آس بغیر از خدا نہیں رکھتے
ہمیں تو دیتا ہے رازق بغیر منت خلق
وہی سوال کریں جو خدا نہیں رکھتے
ہم میں بھی یہ جذبہ پیدا ہو جائے گا تب ہی ہم سر اٹھا کر چل سکیں گے۔دنی ہماری عزت کرے گی اور دنیا کے سارےممالک ہمری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے اور ہم سے دوستی کرنے پر فخر کریں گے۔ہمیں یاد رکھنا اہیے کہ پاکستان کی عزت سے ہماری عزت ہے اور پاکستان کی بقاء میں ہماری بقاء ہے۔ہم کویہ بھی یاد رکھنا چاہیے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم قوم پہلے وجود میں آئی اور پاکستان بعد میں قائم ہوا۔
قومیت یا نیشنلزم کا جو تصور مغربی اقوام میں رائج ہے س کا اطلاق پاکستان پر نہیں ہو سکتا۔پاکستان نے خودکسی قوم کو جنم نہیں دیا بلکہ اس کے بر عکس قوم نے پاکستان کو جنم دیا ہے۔گویا یہ ملک کسی قومیت کے وجود کے سبب نہیں بلکہ مسلم قوم کے اتحاد کا نتیجہ اور ثمر ہے۔اللہ تعالٰی ہمیں اپنا قومی اتحاد برقرار رکھنے اور اپنے وطن کے استحکام کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
0
اس پر اسرار موٹر میں صرف چھ آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی اور یہ خاص طور پر سیر و تفریح کے لئے بنائی گئی تھی اس کا رنگ سرخ اور سفید تھا اور یہ کار بادشاہ اور اس کے خاندان کے لئے مخصوص تھی۔
28 جون 1914 کو آرک ڈیوک فرانزفرڈی نینڈ اور اس کی ملکہ اس کار میں سارا جیود کی سیر کے لئے نکلے۔ اس وقت پورے یورپ کی فضاء ایک ایسے بارود کی طرح تھی جو صرف پھٹنے کے لئے ایک چنگاری کا منتظر تھا۔ جب شاہی جوڑا سارا جیود کی سڑکوں پر سیر کے لئے نکلا تو ان کی کار پر کسی نا معلوم آدمی نے بم دے مارا جو کار کو چھوتا ہوا سڑک پر گرا اور ایک خوفناک دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس دھماکے سے بادشاہ کے چار محافظ زخمی ہو گئے اور بادشاہ زخمیوں کی مرہم پٹی کا حکم دے کر آگے روانہ ہو گیا۔ ایک اور بات قابلِ تشریح ہے کہ بادشاہ کا ڈرائیور جو تمام گلیوں اور سڑکوں سے بخوبی واقف تھا پہلے سے طے شدہ راستے سے ہٹ کر کار کو ایک تنگ گلی میں لے گیا۔ اس گلی میں ایک نوجوان جو کہ مسلح تھا وہ بادشاہ کو گالیاں دیتا ہوا اپنے گھر سے باہر نکلا اور اس نے ریوالور سے کار پر فائرنگ شروع کر دی اس سے پیشتر کہ حیرت زدہ محافظ قاتل پر قابو پاتے بادشاہ اور ملکہ ہلاک ہو چکے تھے۔
شاہی جوڑے کا قتل ایک ایسی چنگاڑی تھی جس سے جنگِ عظیم اول کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس انقلابِ عظیم کے پسِ پردہ وہ خونی کار جس پر بادشاہ سوار تھا ہر اس شخص کی جان لیتی رہی جو کسی نہ کسی صورت اس سے وابستہ رہا تھا۔
اس واقعہ کے ایک ہفتے بعد جنگِ عظیم پورے یورپ میں پھیل چکی تھی جنرل پوٹیورک جو پانچویں آسٹروی ڈویژن کا مشہور کمانڈر تھا سارا جیود کے گورنر ہاؤس میں آیا۔ اسے اسی موٹر میں بٹھایا گیا۔ اسے اپنے انجام کو دیکھنے کے لئے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اکیس روز بعد اسے ویلی ویو کے مقام پر بری طرح شکست ہوئی جس کی وجہ سے اسے واپس وی آنا بھیج دیا گیا وہاں وہ مفلسی اور پاگل پن کی حالت میں ایک محتاج خانے میں چل بسا۔
اس کے بعد یہ کار ایک آسٹروی کے ہاتھ لگی جو بدقسمتی سے جنرل پوٹیورک کے ڈویژن میں کیپٹن تھا۔ ایک روز یہ کار تیز رفتاری سے ایک درخت کے ساتھ ٹکرا گئی اور دو دیہاتی ہلاک ہو گئے اور کیپٹن بھی ہلاک ہو گیا۔ یاد رہے کہ یہ کار صرف نو دن کیپٹن کے زیرِ تصرف رہی۔
جنگِ عظیم کے بعد یہ کار یوگو سلواکیہ کے قبضے میں آئی جس نے نئے سرے سے کار کی مرمت کا حکم دیا۔ اس زمانے میں موٹر کاریں اتنی اہم نہیں تھیں۔ گورنر کو چار ماہ میں چار مرتبہ اس کار میں سوار ہونے کی وجہ سے حادثے کا شکار ہونا پڑا۔ آخری حادثے میں اس کا دایاں بازو ہی علیحدہ ہو گیا۔ یہ کار اتنی مشہور ہو گئی کہ کوئی شخص بھی اسے چلانے کی جرات نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ گورنر نے اس کار کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔لیکن اس کار کو ایک ڈاکٹر نے خرید لیا یہ کار چھ سال تک اس کے مصرف میں رہی اور اسے کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔ لیکن ایک صبح یہ کار سڑک پر الٹی پڑی ہوئی پائی گئی اور اس کے پہلو میں ڈاکٹر کی لاش بھی موجود تھی کار ڈاکٹر کے جسم پر سے گزری تھی۔
ڈاکٹر کی وفات کے بعد اس کی بیوی نے یہ کار ایک امیر کبیر سنار کے ہاتھ فروخت کر دی۔ یہ سنار ایک سال تک یہ کار چلاتا رہا۔ اس کار کو حادثہ تو کوئی پیش نہ آیا البتہ سنار نے خودکشی ضرور کر لی۔ اب یہ کار ایک دوسرے ڈاکٹر کے پاس پہنچی جس کے مریضوں نے اس کے پاس آنا چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر نے اس کار کا وزن کم کرایا اور اسے سوٹزرلینڈ کی ڈولا مائٹ ریس میں مقابلے کے لئے بھیج دیا جہاں اس کار نے اپنے ڈرائیور کو پتھریلی زمین پر پٹخ دیا جس سے ڈرائیور موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد یہ کار ایک کھاتے پیتے زمیندار نے خرید لی۔ جس نے اس کی از سر نو مرمت کروائی اور یہ کار بغیر حادثے کے مہینوں چلتی رہی۔ ایک صبح یہ سڑک پر رک گئی۔ کسان نے پاس سے گزرنے والے ایک کسان کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ کار کو اپنی گھوڑا گاڑی کے پیچھے باندھ کر شہر تک لے چلے۔ ابھی گھوڑا گاڑی نے بمشکل تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ کار زبردست قوت کا مظاہرہ کرتی ہوئی گھوڑا گاڑی سے ٹکرا گئی اور اسے تہہ و بالا کرتی ہوئی ایک طرف کو مڑ گئی جس سے مالک خود بھی ہلاک ہو گیا۔
بلآخر اس خونی کار کا انجام قریب آ گیا۔ یہ شکستہ کار ہرش فیلڈ نے خریدی ہرش فیلڈ ایک ورکشاپ کا مالک تھا۔ اس نے اس کی مرمت کے بعد اس پر نیلا رنگ کیا۔ پھر جب یہ کار فروخت نہ ہو سکی تو اس نے اسے استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن وہ اپنے چھ دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح کے لئے جا رہا تھا۔ اس کی کار تیز رفتاری کی حالت میں آگے نکلنے کی کوشش میں اگلی کار سے ٹکڑا گئی جس سے ہرش فیلڈ اور اس کے چھ ساتھی ہلاک ہو گئے۔
آخر کار حکومت نے اس خونی کار کو اپنے خرچے پر مرمت کر کے وی آنا کے عجائب گھر میں بھیج دیا۔ اس وقت یہ شیطانی کار سولہ آدمیوں کو ہلاک کر چکی تھی۔ علاوہ ازیں یہ جنگِ عظیم اول کا بھی باعث بنی جس میں بیس لاکھ جانیں ضائع ہوئیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں وی آنا کے اس عجائب گھر پر ایک بم آ گرا جس میں یہ کار موجود تھی۔ جس سے یہ کار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہو گئی۔ ایک خبر کے مطابق جنگ کے بعد عجائب گھر کے ملبے سے نہ اس کار کا کوئی سراغ ملا اور نہ ہی اس کے محافظ کا کوئی سراغ ملا۔
__________________
04/09/2010. Powered by Blogger.