مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“تعجب ہے اس آدمی پر جو اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ اس کے دوست و احباب بہت سے ہوں اور پھر بھی وہ علماء و اولیاء و پرہیزگاروں کی صحبت کیوں اختیار نہیں کرتا ان کے فضائلِ غنیمت سمجھنے کے قابل ہیں اور ان کے علوم رہنمائی کرتے ہیں۔“
یہ تمام اصول و شرائط شریعت نے اس ہی وجہ سے بتائے ہیں کہ ہر انسان اس بات کی لیاقت نہیں رکھتا کہ کس کی دوستی اختیار کی جائے؟ لٰہذا اگر کبھی دوست بنانا مقصود ہو تو ان شرائط کوملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ جس کسی کو دوست بنایا جا رہا ہو تو اس میں کچھ تو ایسی صفات ہوں جس کی وجہ سے اس میں رغبت محسوس ہو۔
ایک جیسی طبیعتوں میں آپس میں کشش ہوتی ہے
ایک روایت کے مطابق
“اگر ایک مومن اس مجلس میں جائے جس میں سو منافق ہوں اور ایک ایماندار تو وہ اسی ایماندار کے پاس جا کر بیٹھے گا اور ایک منافق اسی مجلس میں جائے جس میں سو ایماندارہوں اور ایک منافق تو وہ اسی منافق کے پاس آ کر ہم نشست ہو گا۔“
اس سے معلوم ہوا کہ مثل کی طرف کشش ہوتی ہے اگرچہ اس کو علم نہ ہو جیسے پرندے، کہ اڑنے میں دو قسم کے پرندے کبھی متفق نہیں ہوتے اور بغیر کسی مناسبت کے ان کی پرواز ایک ساتھ نہیں ہوتی ہے۔
اگر تمام صفات ایک شخص میں نہ ملیں تو کیا کریں؟
کیونکہ یہ تمام صفات اک ہی شخص میں تو جمع نہیں ہو سکتیں لٰہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہمیں دوستی کی جو بھی غرض ہے، اس کی صحیح پہچان ہو مثلاََ
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر دوستی کا مقصد صرف دوستی ہے
تو بہتر ہے کسی نیک اخلاق والے کی دوستی اختیار کریں رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا
“تمہارے ہمنیشن اور دوست صالح اور نیک ہونے چاہئیں اور تمہیں چاہیئے کہ زاہد اور پرہیزگار لوگوں کی جانب بھائی چارے اور رفاقت کا ہاتھ بڑھاؤ کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں فرمایا کہ قیامت کے دن سب دوست ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے بجز پرہیزگار لوگوں کے، جن کی دوستی پائیدار ہوگی۔“
2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر دوستی کا مقصد صحبتِ دینی ہو
تو پھر ایسے شخص کی تلاش کی جائے جو علم بھی رکھتا ہو اور پرہیز گار بھی ہو۔
3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر مھض دنیا ہی کے لئے دوستی اختیارکرنی ہے
تو پھر بہتر ہے کہ وہ کسی اہلِ کرم ہی کو ڈھونڈ لے جو سلیم الطبع ہو۔
دوستی میں احتیاط و ہوشیاری کی اہمیت
تجربہ کار اور عقل مند لوگ دوستوں کے انتخاب میں بڑی احتیاط برتتے ہیں اور اگر کسی سے دوستی پیدا کرنا اور اس کا سچا دوست بننا چاہیں تو عقل و ہوش سے کام لیتے ہیں اور جلد بازی اور بے جا احساسات کو اس امر پر اثر انداز نہیں ہونےدیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے پہل اس سے مانوس ہوتے ہیں تاکہ اس کے طرزِ فکر،اخلاق اور گزشتہ زندگی کے حالات و واقعات سے آگاہ ہو سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اسے مختلف طریقوں سے آزماتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ وہ دوستی کی تمام شرائط پر پورا اترتا ہے اور اس کی صلاحیتوں کا اندازہ لگا لیتے ہیں پھر اس سے دوستی قائم کرتے ہیں اور ایسی دوستی تمام خطرات سے پاک، مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“جو شخص صحیح آزمائش کے بعد دوستی اور رفاقت کی بنیاد ڈالتا ہے اس کی رفاقت پائیداراور دوستی مستحکم ہوتی ہے۔“
امام صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“ تمہارے جاننے والوں میں جس شخص کو تم پر تین بار غصہ آیا ہو لیکن اس نے تمارے بارے میں کوئی ناروا بات نہ کہی ہو تو تم اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا سکتے ہو اور اس کے ساتھ دوستی ک بنیاد رکھ سکتے ہو۔“
دوستی میں اعتدال اور میانہ روی ضروری ہے
دوستی میں اعتدال اور میانہ روی ضروری ہے یہ ایک ایسا نکتہ ہے کہ جسے ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔
کیونکہ ممکن ہے کہ بے اعتدالی کا نتیجہ ناقابلِ تلافی نقصان کی صورت میں نکلے جو انسان کو تباہی سے دوچار کر دے۔
دوستی ہو جانے کے بعد مندرجہ ذیل احتیاطوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست پر ایک حد تک اعتماد کریں
دوستی کے دوران دوست پر اسی حد تک اعتماد کرنا چاہیے کہ اگر بعد مین رنجیدگی کی بناء پر ایک دوسرے سے جدائی بھی ہو جائے تو وہ کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
امام علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“جس دوست سے تمہیں دلی تعلق ہو اس کے ساتھ دوستی کا اظہار اعتدال کی حد میں اور مصلحت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرو کیونکہ ممکن ہے کہ ایک دن وہ تمہارا دشمن بن جائے اور جس شخص سے تمہاری دوستی نہ ہو اس سے سرد مہری برتنے میں بھی اعتدال سے کام لو کیونکہ ممکن ہے کہ ایک دن وہ کدورت چھَٹ جائے اور وہ تمہارا دوست بن جائے۔“
2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب راز دوست کو مت بتاؤ
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ
“م اپنا ہر راز دوست کو نہ بتاؤ کیونکہ کیا خبر وہ کس وقت تمہارا دشمن بن جائے اور ہر وہ تکلیف جو تم اپنے دشمن کو پہنچا سکتے ہو مت پہنچاؤ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دن تمہارا دوست بن جائے۔“
یہی وجہ ہے کہ ایک بڑے سردار نے جو میدانِ جنگ کی طرف جا رہا تھا لوئی چہاردھم سے کہا تھا کہ آپ میرے دوستوں کے شر سے میری حفاظت کریں، دشمنوں کا مجھے کوئی خوف نہیں۔
امام علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“اپنے ووستوں پر ساری محبت نچھاور کر دو اس پر مکمل اعتماد مت کرو اس کے ساتھ ہر محاظ سے مساوات برتو اور اس کی مدد کرو لیکن اسے اپنے تمام رازوں سے آگاہ نہ کرو۔“
3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے دوست کو کبھی رنجیدہ مت کرو
مولا علیہ علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“جب انسان اپنے دوست کو رنجیدہ کر دے تو گویا اس نے جدائی کے لئے راستہ ہموار کر دیا۔“
کیونکہ اول تو قابلِ اعتماد دوست کا ملنا ہی مشکل ہے لیکن اس سے زیادہ مشکل چیز اس کے ساتھ دوستی کو برقرار رکھنا ہے۔
مولا علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“کمزور ترین شخص وہ ہے جو اپنے دوست نہ بنا سکے اور اس سے زیادہ کمزور وہ شخص ہے جو اپنے حاصل کردہ دوستوں کو کھو دے۔“
4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چغلخوروں کی بات پر توجہ نہ دیں
ایسے لوگ بھی ہمارے معاشرے میں ہیں جنہیں دوسروں کے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات نہیں بھاتے اور وہ ہمیشہ ان کے درمیان پُھوٹ ڈالنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ وہ سچی، جھوٹی باتیں ایک دوسرے کے پا جا کر لگاتے ہیں اور اس طرح انہیں ایک دوسرے سے بددل کر دیتے ہیں۔
مولا علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“جو شخص چغلخوروں کی باتوں کی طرف توجہ دے گا وہ اپنے عزیز دوست کو کھو بیٹھے گا۔“
5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جدائی کا باعث بننے والے افعال سے اجتناب کریں
ایک دن حارث بن اعور نے جو مولا علی علیہ اسلام کے اصحاب میں سے تھے، کہا کہ یا امیرالمومنین!میں آپ کو دوست رکھتا ہوں۔
توجب اس نے دوستی کا ذکر چھیڑا تو مولا علی علیہ اسلام نے مندرجہ ذیل جملوں مں ان کاموں کی تشریح فرمائی جو دوستوں کو ایک دوسرے کے بارے میں انجام نہیں دینے چاہیئیں۔ فرمایا، اگر تم کسی کو دوست رکھتے ہو تو
1۔۔۔۔۔۔۔ اس سے مخالفت اور دشمنی نہ کرو
2۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مذاق نہ اڑاؤ
3۔۔۔۔۔۔۔ اس سے جھگڑا نہ کرو
4۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ نا مناسب شوخی نہ کرو
5۔۔۔۔۔۔۔ اسے پست اور حقیر مت سمجھو
6۔۔۔۔۔۔۔ اس پر برتری اور فوقیت حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو
کیونکہ یہ کام دوستی کے مقام سے مناسبت نہیں رکھتے اور دوستوں کے تعلقات بگاڑ دیتے ہیں۔ ایک دانشور کا کہنا ہے کہ
“بیشتر لوگ تمسخر پر مبنی بات پر نقصان برداشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔“
اور ایک لاطینی زبان کی مشہور مثل ہے کہ
“تمسخر دوستی کا خون کر دیتا ہے۔“
6۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست کی ہر بات پر تنقید مت کریں
دوست کی ہر بات میں مِین میخ نکالنا اور اس کی معمولی غلطیوں اور لغزشوں سے درگزر نہ کرنا اتنی بڑی غلطی ہے جو بعض اوقات دوستی کے خاتمہ کا سبب بن جاتی ہے۔
امیرالمومنین علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“اپنے دوست کا عذر (اگر اس سے کوئی لغزش سر زد ہو جائے تو) قبول کر لو اور اپنی لغزش کے لئے کوئی عذر پیش نہ کرسکے تو خود اس کے لئے کوئی عذر گھڑ لو۔“
“تعجب ہے اس آدمی پر جو اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ اس کے دوست و احباب بہت سے ہوں اور پھر بھی وہ علماء و اولیاء و پرہیزگاروں کی صحبت کیوں اختیار نہیں کرتا ان کے فضائلِ غنیمت سمجھنے کے قابل ہیں اور ان کے علوم رہنمائی کرتے ہیں۔“
یہ تمام اصول و شرائط شریعت نے اس ہی وجہ سے بتائے ہیں کہ ہر انسان اس بات کی لیاقت نہیں رکھتا کہ کس کی دوستی اختیار کی جائے؟ لٰہذا اگر کبھی دوست بنانا مقصود ہو تو ان شرائط کوملحوظ خاطر رکھا جائے کیونکہ جس کسی کو دوست بنایا جا رہا ہو تو اس میں کچھ تو ایسی صفات ہوں جس کی وجہ سے اس میں رغبت محسوس ہو۔
ایک جیسی طبیعتوں میں آپس میں کشش ہوتی ہے
ایک روایت کے مطابق
“اگر ایک مومن اس مجلس میں جائے جس میں سو منافق ہوں اور ایک ایماندار تو وہ اسی ایماندار کے پاس جا کر بیٹھے گا اور ایک منافق اسی مجلس میں جائے جس میں سو ایماندارہوں اور ایک منافق تو وہ اسی منافق کے پاس آ کر ہم نشست ہو گا۔“
اس سے معلوم ہوا کہ مثل کی طرف کشش ہوتی ہے اگرچہ اس کو علم نہ ہو جیسے پرندے، کہ اڑنے میں دو قسم کے پرندے کبھی متفق نہیں ہوتے اور بغیر کسی مناسبت کے ان کی پرواز ایک ساتھ نہیں ہوتی ہے۔
اگر تمام صفات ایک شخص میں نہ ملیں تو کیا کریں؟
کیونکہ یہ تمام صفات اک ہی شخص میں تو جمع نہیں ہو سکتیں لٰہذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہمیں دوستی کی جو بھی غرض ہے، اس کی صحیح پہچان ہو مثلاََ
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر دوستی کا مقصد صرف دوستی ہے
تو بہتر ہے کسی نیک اخلاق والے کی دوستی اختیار کریں رسولِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا
“تمہارے ہمنیشن اور دوست صالح اور نیک ہونے چاہئیں اور تمہیں چاہیئے کہ زاہد اور پرہیزگار لوگوں کی جانب بھائی چارے اور رفاقت کا ہاتھ بڑھاؤ کیونکہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں فرمایا کہ قیامت کے دن سب دوست ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے بجز پرہیزگار لوگوں کے، جن کی دوستی پائیدار ہوگی۔“
2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر دوستی کا مقصد صحبتِ دینی ہو
تو پھر ایسے شخص کی تلاش کی جائے جو علم بھی رکھتا ہو اور پرہیز گار بھی ہو۔
3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر مھض دنیا ہی کے لئے دوستی اختیارکرنی ہے
تو پھر بہتر ہے کہ وہ کسی اہلِ کرم ہی کو ڈھونڈ لے جو سلیم الطبع ہو۔
دوستی میں احتیاط و ہوشیاری کی اہمیت
تجربہ کار اور عقل مند لوگ دوستوں کے انتخاب میں بڑی احتیاط برتتے ہیں اور اگر کسی سے دوستی پیدا کرنا اور اس کا سچا دوست بننا چاہیں تو عقل و ہوش سے کام لیتے ہیں اور جلد بازی اور بے جا احساسات کو اس امر پر اثر انداز نہیں ہونےدیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے پہل اس سے مانوس ہوتے ہیں تاکہ اس کے طرزِ فکر،اخلاق اور گزشتہ زندگی کے حالات و واقعات سے آگاہ ہو سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اسے مختلف طریقوں سے آزماتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ وہ دوستی کی تمام شرائط پر پورا اترتا ہے اور اس کی صلاحیتوں کا اندازہ لگا لیتے ہیں پھر اس سے دوستی قائم کرتے ہیں اور ایسی دوستی تمام خطرات سے پاک، مضبوط اور پائیدار ہوتی ہے۔
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“جو شخص صحیح آزمائش کے بعد دوستی اور رفاقت کی بنیاد ڈالتا ہے اس کی رفاقت پائیداراور دوستی مستحکم ہوتی ہے۔“
امام صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“ تمہارے جاننے والوں میں جس شخص کو تم پر تین بار غصہ آیا ہو لیکن اس نے تمارے بارے میں کوئی ناروا بات نہ کہی ہو تو تم اس کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھا سکتے ہو اور اس کے ساتھ دوستی ک بنیاد رکھ سکتے ہو۔“
دوستی میں اعتدال اور میانہ روی ضروری ہے
دوستی میں اعتدال اور میانہ روی ضروری ہے یہ ایک ایسا نکتہ ہے کہ جسے ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے۔
کیونکہ ممکن ہے کہ بے اعتدالی کا نتیجہ ناقابلِ تلافی نقصان کی صورت میں نکلے جو انسان کو تباہی سے دوچار کر دے۔
دوستی ہو جانے کے بعد مندرجہ ذیل احتیاطوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست پر ایک حد تک اعتماد کریں
دوستی کے دوران دوست پر اسی حد تک اعتماد کرنا چاہیے کہ اگر بعد مین رنجیدگی کی بناء پر ایک دوسرے سے جدائی بھی ہو جائے تو وہ کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
امام علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“جس دوست سے تمہیں دلی تعلق ہو اس کے ساتھ دوستی کا اظہار اعتدال کی حد میں اور مصلحت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کرو کیونکہ ممکن ہے کہ ایک دن وہ تمہارا دشمن بن جائے اور جس شخص سے تمہاری دوستی نہ ہو اس سے سرد مہری برتنے میں بھی اعتدال سے کام لو کیونکہ ممکن ہے کہ ایک دن وہ کدورت چھَٹ جائے اور وہ تمہارا دوست بن جائے۔“
2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب راز دوست کو مت بتاؤ
شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ
“م اپنا ہر راز دوست کو نہ بتاؤ کیونکہ کیا خبر وہ کس وقت تمہارا دشمن بن جائے اور ہر وہ تکلیف جو تم اپنے دشمن کو پہنچا سکتے ہو مت پہنچاؤ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک دن تمہارا دوست بن جائے۔“
یہی وجہ ہے کہ ایک بڑے سردار نے جو میدانِ جنگ کی طرف جا رہا تھا لوئی چہاردھم سے کہا تھا کہ آپ میرے دوستوں کے شر سے میری حفاظت کریں، دشمنوں کا مجھے کوئی خوف نہیں۔
امام علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“اپنے ووستوں پر ساری محبت نچھاور کر دو اس پر مکمل اعتماد مت کرو اس کے ساتھ ہر محاظ سے مساوات برتو اور اس کی مدد کرو لیکن اسے اپنے تمام رازوں سے آگاہ نہ کرو۔“
3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے دوست کو کبھی رنجیدہ مت کرو
مولا علیہ علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“جب انسان اپنے دوست کو رنجیدہ کر دے تو گویا اس نے جدائی کے لئے راستہ ہموار کر دیا۔“
کیونکہ اول تو قابلِ اعتماد دوست کا ملنا ہی مشکل ہے لیکن اس سے زیادہ مشکل چیز اس کے ساتھ دوستی کو برقرار رکھنا ہے۔
مولا علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“کمزور ترین شخص وہ ہے جو اپنے دوست نہ بنا سکے اور اس سے زیادہ کمزور وہ شخص ہے جو اپنے حاصل کردہ دوستوں کو کھو دے۔“
4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چغلخوروں کی بات پر توجہ نہ دیں
ایسے لوگ بھی ہمارے معاشرے میں ہیں جنہیں دوسروں کے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات نہیں بھاتے اور وہ ہمیشہ ان کے درمیان پُھوٹ ڈالنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ وہ سچی، جھوٹی باتیں ایک دوسرے کے پا جا کر لگاتے ہیں اور اس طرح انہیں ایک دوسرے سے بددل کر دیتے ہیں۔
مولا علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“جو شخص چغلخوروں کی باتوں کی طرف توجہ دے گا وہ اپنے عزیز دوست کو کھو بیٹھے گا۔“
5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جدائی کا باعث بننے والے افعال سے اجتناب کریں
ایک دن حارث بن اعور نے جو مولا علی علیہ اسلام کے اصحاب میں سے تھے، کہا کہ یا امیرالمومنین!میں آپ کو دوست رکھتا ہوں۔
توجب اس نے دوستی کا ذکر چھیڑا تو مولا علی علیہ اسلام نے مندرجہ ذیل جملوں مں ان کاموں کی تشریح فرمائی جو دوستوں کو ایک دوسرے کے بارے میں انجام نہیں دینے چاہیئیں۔ فرمایا، اگر تم کسی کو دوست رکھتے ہو تو
1۔۔۔۔۔۔۔ اس سے مخالفت اور دشمنی نہ کرو
2۔۔۔۔۔۔۔ اس کا مذاق نہ اڑاؤ
3۔۔۔۔۔۔۔ اس سے جھگڑا نہ کرو
4۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ نا مناسب شوخی نہ کرو
5۔۔۔۔۔۔۔ اسے پست اور حقیر مت سمجھو
6۔۔۔۔۔۔۔ اس پر برتری اور فوقیت حاصل کرنے کی کوشش نہ کرو
کیونکہ یہ کام دوستی کے مقام سے مناسبت نہیں رکھتے اور دوستوں کے تعلقات بگاڑ دیتے ہیں۔ ایک دانشور کا کہنا ہے کہ
“بیشتر لوگ تمسخر پر مبنی بات پر نقصان برداشت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔“
اور ایک لاطینی زبان کی مشہور مثل ہے کہ
“تمسخر دوستی کا خون کر دیتا ہے۔“
6۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست کی ہر بات پر تنقید مت کریں
دوست کی ہر بات میں مِین میخ نکالنا اور اس کی معمولی غلطیوں اور لغزشوں سے درگزر نہ کرنا اتنی بڑی غلطی ہے جو بعض اوقات دوستی کے خاتمہ کا سبب بن جاتی ہے۔
امیرالمومنین علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“اپنے دوست کا عذر (اگر اس سے کوئی لغزش سر زد ہو جائے تو) قبول کر لو اور اپنی لغزش کے لئے کوئی عذر پیش نہ کرسکے تو خود اس کے لئے کوئی عذر گھڑ لو۔“