نزال ابنِ سبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن امیرالمومنین علیہ
اسلام نے ہمارے سامنے خطبہ دیا، پہلے خدا وندِ عالم کی حمد و ثناء کی اس
نے بعد تین مرتبہ فرمایا اے لوگو! جو کچھ مجھ سے پوچھنا چاہو پوچھ لو قبل
اس کے کہ تم مجھے گم کر دو یہ سن کر صعصعہ بن صوحان اٹھ کھڑے ہوئے اور
کہنے لگے یا امیر المومنین دجال کا خروج کب ہو گا؟ فرمایا کہ بیٹھ جاؤ
اللہ نے تمہاری بات سن لی اور اسے تمہارا مقصود بھی معلوم ہے۔ خدا کی قسم
اس مسئلہ میں مسئول(جس سے سوال کیا گیا ہے) سائل سے عالم تر نہیں
ہے۔(خروجِ دجال کے وقت سے لا علمی کا اظہار کیا گیا ہے اس لیے کہ وہ حتمی
وقت فقط اللہ کے علم میں ہے)۔ لیکن اس کے خروج کی کچھ علامتیں ہیں۔ جو لفظ
بلفظ متواتر پوری ہوتی رہیں گی۔ اگر تم چاہو تو علامتوں سے تمہیں آگاہ کر
سکتا ہوں۔ صعصعہ نے عرض کی یا امیر المومنین ! ارشاد فرمائیے۔ فرمایا جو
کہہ رہا ہوں اسے یاد رکھنا اس کی علامات یہ ہیں۔
کہ جب لوگ نماز کو مار ڈالیں اور امانت کو ضائع کرنے لگیں اور سود کھانے لگیں اور رشوت لینے لگیں اور مستحکم عمارتیں تعمیر کرنے لگیں اور دین کو دنیا کے بدلے فروخت کر دیں اور سفہاء( ایسے غیر ذمہ دار اور بے پرواہ اشخاص جنہیں اپنے فرائضِ منصبی سے کوئی دلچسپی نہ ہو)کو عامل بنائیں اور کام پر معمور کریں، اور عورتوں سے مشورہ کرنے لگیں اور ہوا و ہوس کی پیروی کرنے لگیں اور ایک دوسرے کے خون کو بے قیمت سمجھنے لگیں اور حلم کو انسان کی کمزوری سمجھا جانے لگے اور ظلم و ستم باعثِ فخر ہو اور جب حکمران فاجر ہوں اور وزراء ظالم ہوں عرفا خائن ہوں اور قاریانِ قرآن فاسق ہوں۔ اور جب جھوٹی گواہیاں ظاہر ہو جائیں اور فسق و فجور، بہتان تراشی، گناہ و سرکشی کا علانیہ رواج ہو جائے اور جب قرآن مزین کیے جائیں اور مسجدوں میں نقاشی کی جائے، منارے طویل بنائے جانے لگیں اور شریر افراد کی تکریم کی جانے لگے اور صف بندیاں کثرت سے ہونے لگیں، اور خواہشوں میں اختلاف ہو جائے اور معاہدے ٹوٹ جائیں اور وقت موعود قریب آ جائے اور بیویاں حرصِ دنیا میں اپنے شوہروں کے ساتھ تجارت میں شریک ہونے لگیں۔ فاسق انسانوں کی آوازیں بلند ہوں اور انہیں سنا جانے لگے اور قوم کا سردار ان کا رذیل ترین شخص ہو اور فاسق و فاجر شخص کو اس کے شر کے خوف سے پرہیزگار کہنے لگیں اور جھوٹے کی تصدیق کی جانے لگے اور جب خیانت کار امین بن جائے اور گانے والی عورتیں آلاتِ موسیقی ہاتھ میں لے کر گانا گانے لگیں اور جب لوگ اپنے گزشتہ افراد پر لعنت بھیجنے لگیں اور عورتیں زین پر سوار ہونے لگیں اور جب عورتیں مردوں سے اور مرد عورتوں سے مشابہ ہو جائیں۔ گواہ گواہی طلب کئے بغیر گواہی دینے لگے اور دوسرا اپنے دوست کی خاطر خلافِ حق گواہی دے اور لوگ علم دین کو غیر دین کے لئے حاصل کریں اور دنیا کے کام کو آخرت کے کام پر مقدم قرار دیں اور جب لوگ بھیڑوں جیسے جسم پر بکری کی کھال پہن لیں۔ اور ان کے دل مردار سے زیادہ مستعفن ہوں گے اور صبر سے زیادہ تلخ ہوں گے(جب ایسا زمانہ آ جائے تو) اس وقت عجلت اور سرعت سے کام لینا اور بہت جلدی کرنا۔ اس وقت سکونت کے لئے بہترین جگہ بیت المقدس ہو گی، انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جب ہر شخص وہاں سکونت کی تمنا کرے گا۔ یہ سن کر اصبغ بن نباتہ کھڑے ہو گئے اور عرض کی یا امیرالمومنین! دجال کون ہے؟ فرمایا، آگاہ ہو جاؤ، کہ دجال صائد بن صید ہے، وہ شقی ہے جو اس کی تصدیق کرے اور وہ سعید ہے جو اس کی تکذیب کرے، وہ اصفہان نامی ایک شہر اور یہودیہ نامی ایک گاؤں سے خروج کرے گا۔ اس کی داہنی آنکھ نہیں ہو گی اور دوسری آنکھ پیشانی پر ہو گی اور صبح کے ستارے کی طرح روشن ہو گی۔ اس کی آنکھ میں کوئی چیز ہو گی جو جمے ہوئے خون کی طرح ہو گی۔ اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان تحریر ہوگا کہ کافر ہے اور ہر پڑھا لکھا اور جاہل اسے پڑھ سکے گا اور سمندروں کو پار کرے گا اور سورج اس کے ساتھ چلے گا۔ اور اس کے سامنے دھوئیں کا پہاڑ ہو گا اور اس کے پیچھے ایک سفید پہاڑ ہو گا، جسے لوگ غذا سمجھیں گے اور وہ شدید قحط کے زمانہ میں خروج کرے گا اور ایک سفید گدھے پر سوار ہو گا۔ اس کے گدھے کا ایک قدم ایک میل ہو گا۔ زمیں اس کے قدموں کے نیچے سمٹتی جائے گی وہ جس پانی کے قریب سے گزرے گا وہ قیامت تک کے لئے خشک ہو جائے گا، وہ بلند آواز سے خطاب کرے گا، جسے مشرق و مغرب تک جن و انس اور شیطان سنیں گے اور وہ کہے گا اے میرے دوستو! آؤ میرے پیچھے میں ہی وہ ہوں جس نے خلق کیا اور توازن و اعتدال بخشا اور رزق مقرر کیا اور پھر ہدایت کی پس میں تمہارا خدائے بزرگ و برتر ہوں، وہ دشمنِ خدا جھوٹا ہو گا اور یک چشم ہو گا کھانا کھائے گا اور بازاروں میں چلے گا۔ جب کہ تمہارا رب نہ یک چشم ہے اور نہ کھانا کھاتا ہے اور نہ بازاروں میں راستہ چلتا ہے نہ فنا پذیر ہے اس زمانے میں دجال کے اکثر پیرو زنا زادے اور سبز ریشمی لباس والے لوگ ہوں گے۔ خدائے عزو جل شام کی ایک پہاڑی پر جس کا نام“ عقبی افیق“ ہو گا دجال کو قتل کرے گا۔ یہ قتل اللہ جمعہ کے روز تین ساعت بعد اس شخص کے ہاتھوں کروائے گا جس کے پیچھے عیسی بن مریم نماز پڑھیں گے۔
آگاہ ہو جاؤ کہ اس کے بعد ایک بہت بڑا حادثہ رونما ہو گا۔ ہم نے پوچھا کہ“ یا امیرالمومنین! وہ حادثہ کیا ہے؟“ فرمایا صفا کی طرف سے دابۃ الارض کا خروج ہے۔ اس کے ساتھ سلیمان کی انگوٹھی اور موسیٰ کا عصا ہو گا۔ وہ اس انگوٹھی کو جس مومن کے چہرے پر رکھے گا تو اس پر تحریر ہو جائے گا کہ یہ مومن حقیقی ہے اور جس کافر کے چہرے پر رکھے گا تو اس پر نقش ہو جائے گا کہ یہ کافر حقیقی ہے۔ یہاں تک کہ مومن آواز دے گا کہ اے کافر تجھ پر وائے ہو اور کافر کہے گا اے مومن! تیرا حال کتنا اچھا ہے مجھے یہ بہت پسند ہے کہ کاش میں بھی تیری طرح کامیاب و کامران ہوتا۔ پھر وہ دابہ اپنے سر کو بلند کرے گا اور مشرق و مغرب کے لوگ خدا کے اذن سے اسے اس وقت دیکھیں گے جب سورج اپنے مغرب سے طلوع کرے گا۔ اس وقت درِ توبہ بند ہو جائے گا نہ توبہ قبول ہو گی اور نہ کوئی عملِ صالح آسمان کی طرف جائے گا اور نہ کسی کا ایمان اسے فائدہ پہنچائے گا اگر اس نے پہلے ایمان قبول نہ کیا ہو یا ایمان کی حالت میں خیر نہ کیا ہو۔ پھر فرمایا اس کے بعد کے واقعات مجھ سے نہ پوچھو، اس لئے کہ میں نے اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عہد کیا تھا کہ اپنی عترت کے علاوہ کسی اور کو اس کی اطلاع نہ دوں گا۔ نزال ابن سبرہ نے صعصعہ سے پوچھا کہ اس بات سے امیرالمومنین کی کیا مراد ہے؟ صعصعہ نے جواب دیا کہ اے ابنِ سبرہ! وہ شخص جس کے پیچھے عیسیٰ بن مریم نماز پڑھیں گے وہ عترتِ رسول کا بارہواں اور اولادِ حسین علیہ اسلام کا نواں امام ہو گا۔ یہ وہی سورج ہے جو اپنے مغرب سے طلوع ہو گا، وہ رکن و مقام کے قریب ظاہر ہو گا زمین کو پاک کرے گا، میزانِ عدل کو قایم کرے گا۔ پھر اس کے بعد کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور امیرالمومنی نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے عہد لیا تھا کہ اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ آئمہ اہلبیت کے علاوہ کسی اور کو نہ بتلائیں گے۔
(بحار الانوار جلد 52 صفحہ 193)
کہ جب لوگ نماز کو مار ڈالیں اور امانت کو ضائع کرنے لگیں اور سود کھانے لگیں اور رشوت لینے لگیں اور مستحکم عمارتیں تعمیر کرنے لگیں اور دین کو دنیا کے بدلے فروخت کر دیں اور سفہاء( ایسے غیر ذمہ دار اور بے پرواہ اشخاص جنہیں اپنے فرائضِ منصبی سے کوئی دلچسپی نہ ہو)کو عامل بنائیں اور کام پر معمور کریں، اور عورتوں سے مشورہ کرنے لگیں اور ہوا و ہوس کی پیروی کرنے لگیں اور ایک دوسرے کے خون کو بے قیمت سمجھنے لگیں اور حلم کو انسان کی کمزوری سمجھا جانے لگے اور ظلم و ستم باعثِ فخر ہو اور جب حکمران فاجر ہوں اور وزراء ظالم ہوں عرفا خائن ہوں اور قاریانِ قرآن فاسق ہوں۔ اور جب جھوٹی گواہیاں ظاہر ہو جائیں اور فسق و فجور، بہتان تراشی، گناہ و سرکشی کا علانیہ رواج ہو جائے اور جب قرآن مزین کیے جائیں اور مسجدوں میں نقاشی کی جائے، منارے طویل بنائے جانے لگیں اور شریر افراد کی تکریم کی جانے لگے اور صف بندیاں کثرت سے ہونے لگیں، اور خواہشوں میں اختلاف ہو جائے اور معاہدے ٹوٹ جائیں اور وقت موعود قریب آ جائے اور بیویاں حرصِ دنیا میں اپنے شوہروں کے ساتھ تجارت میں شریک ہونے لگیں۔ فاسق انسانوں کی آوازیں بلند ہوں اور انہیں سنا جانے لگے اور قوم کا سردار ان کا رذیل ترین شخص ہو اور فاسق و فاجر شخص کو اس کے شر کے خوف سے پرہیزگار کہنے لگیں اور جھوٹے کی تصدیق کی جانے لگے اور جب خیانت کار امین بن جائے اور گانے والی عورتیں آلاتِ موسیقی ہاتھ میں لے کر گانا گانے لگیں اور جب لوگ اپنے گزشتہ افراد پر لعنت بھیجنے لگیں اور عورتیں زین پر سوار ہونے لگیں اور جب عورتیں مردوں سے اور مرد عورتوں سے مشابہ ہو جائیں۔ گواہ گواہی طلب کئے بغیر گواہی دینے لگے اور دوسرا اپنے دوست کی خاطر خلافِ حق گواہی دے اور لوگ علم دین کو غیر دین کے لئے حاصل کریں اور دنیا کے کام کو آخرت کے کام پر مقدم قرار دیں اور جب لوگ بھیڑوں جیسے جسم پر بکری کی کھال پہن لیں۔ اور ان کے دل مردار سے زیادہ مستعفن ہوں گے اور صبر سے زیادہ تلخ ہوں گے(جب ایسا زمانہ آ جائے تو) اس وقت عجلت اور سرعت سے کام لینا اور بہت جلدی کرنا۔ اس وقت سکونت کے لئے بہترین جگہ بیت المقدس ہو گی، انسانوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جب ہر شخص وہاں سکونت کی تمنا کرے گا۔ یہ سن کر اصبغ بن نباتہ کھڑے ہو گئے اور عرض کی یا امیرالمومنین! دجال کون ہے؟ فرمایا، آگاہ ہو جاؤ، کہ دجال صائد بن صید ہے، وہ شقی ہے جو اس کی تصدیق کرے اور وہ سعید ہے جو اس کی تکذیب کرے، وہ اصفہان نامی ایک شہر اور یہودیہ نامی ایک گاؤں سے خروج کرے گا۔ اس کی داہنی آنکھ نہیں ہو گی اور دوسری آنکھ پیشانی پر ہو گی اور صبح کے ستارے کی طرح روشن ہو گی۔ اس کی آنکھ میں کوئی چیز ہو گی جو جمے ہوئے خون کی طرح ہو گی۔ اور اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان تحریر ہوگا کہ کافر ہے اور ہر پڑھا لکھا اور جاہل اسے پڑھ سکے گا اور سمندروں کو پار کرے گا اور سورج اس کے ساتھ چلے گا۔ اور اس کے سامنے دھوئیں کا پہاڑ ہو گا اور اس کے پیچھے ایک سفید پہاڑ ہو گا، جسے لوگ غذا سمجھیں گے اور وہ شدید قحط کے زمانہ میں خروج کرے گا اور ایک سفید گدھے پر سوار ہو گا۔ اس کے گدھے کا ایک قدم ایک میل ہو گا۔ زمیں اس کے قدموں کے نیچے سمٹتی جائے گی وہ جس پانی کے قریب سے گزرے گا وہ قیامت تک کے لئے خشک ہو جائے گا، وہ بلند آواز سے خطاب کرے گا، جسے مشرق و مغرب تک جن و انس اور شیطان سنیں گے اور وہ کہے گا اے میرے دوستو! آؤ میرے پیچھے میں ہی وہ ہوں جس نے خلق کیا اور توازن و اعتدال بخشا اور رزق مقرر کیا اور پھر ہدایت کی پس میں تمہارا خدائے بزرگ و برتر ہوں، وہ دشمنِ خدا جھوٹا ہو گا اور یک چشم ہو گا کھانا کھائے گا اور بازاروں میں چلے گا۔ جب کہ تمہارا رب نہ یک چشم ہے اور نہ کھانا کھاتا ہے اور نہ بازاروں میں راستہ چلتا ہے نہ فنا پذیر ہے اس زمانے میں دجال کے اکثر پیرو زنا زادے اور سبز ریشمی لباس والے لوگ ہوں گے۔ خدائے عزو جل شام کی ایک پہاڑی پر جس کا نام“ عقبی افیق“ ہو گا دجال کو قتل کرے گا۔ یہ قتل اللہ جمعہ کے روز تین ساعت بعد اس شخص کے ہاتھوں کروائے گا جس کے پیچھے عیسی بن مریم نماز پڑھیں گے۔
آگاہ ہو جاؤ کہ اس کے بعد ایک بہت بڑا حادثہ رونما ہو گا۔ ہم نے پوچھا کہ“ یا امیرالمومنین! وہ حادثہ کیا ہے؟“ فرمایا صفا کی طرف سے دابۃ الارض کا خروج ہے۔ اس کے ساتھ سلیمان کی انگوٹھی اور موسیٰ کا عصا ہو گا۔ وہ اس انگوٹھی کو جس مومن کے چہرے پر رکھے گا تو اس پر تحریر ہو جائے گا کہ یہ مومن حقیقی ہے اور جس کافر کے چہرے پر رکھے گا تو اس پر نقش ہو جائے گا کہ یہ کافر حقیقی ہے۔ یہاں تک کہ مومن آواز دے گا کہ اے کافر تجھ پر وائے ہو اور کافر کہے گا اے مومن! تیرا حال کتنا اچھا ہے مجھے یہ بہت پسند ہے کہ کاش میں بھی تیری طرح کامیاب و کامران ہوتا۔ پھر وہ دابہ اپنے سر کو بلند کرے گا اور مشرق و مغرب کے لوگ خدا کے اذن سے اسے اس وقت دیکھیں گے جب سورج اپنے مغرب سے طلوع کرے گا۔ اس وقت درِ توبہ بند ہو جائے گا نہ توبہ قبول ہو گی اور نہ کوئی عملِ صالح آسمان کی طرف جائے گا اور نہ کسی کا ایمان اسے فائدہ پہنچائے گا اگر اس نے پہلے ایمان قبول نہ کیا ہو یا ایمان کی حالت میں خیر نہ کیا ہو۔ پھر فرمایا اس کے بعد کے واقعات مجھ سے نہ پوچھو، اس لئے کہ میں نے اپنے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عہد کیا تھا کہ اپنی عترت کے علاوہ کسی اور کو اس کی اطلاع نہ دوں گا۔ نزال ابن سبرہ نے صعصعہ سے پوچھا کہ اس بات سے امیرالمومنین کی کیا مراد ہے؟ صعصعہ نے جواب دیا کہ اے ابنِ سبرہ! وہ شخص جس کے پیچھے عیسیٰ بن مریم نماز پڑھیں گے وہ عترتِ رسول کا بارہواں اور اولادِ حسین علیہ اسلام کا نواں امام ہو گا۔ یہ وہی سورج ہے جو اپنے مغرب سے طلوع ہو گا، وہ رکن و مقام کے قریب ظاہر ہو گا زمین کو پاک کرے گا، میزانِ عدل کو قایم کرے گا۔ پھر اس کے بعد کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا اور امیرالمومنی نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کے حبیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے عہد لیا تھا کہ اس کے بعد جو کچھ ہو گا وہ آئمہ اہلبیت کے علاوہ کسی اور کو نہ بتلائیں گے۔
(بحار الانوار جلد 52 صفحہ 193)
0 comments:
Post a Comment