غصے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک روحانی بیماری ہے اور اس کا جسمانی
بیماری سے کوئی تعلق نہیں لیکن ملاں پنج پیازہ اس بات سے قطعا اتفاق نہیں
کرتے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ اگر جسم نہیں تو روح کیسی؟ لہذا غصے کو روحانی
اور جسمانی دونوں بیماریاں ہونے کا شرف حاصل ہے۔
غصے کو انسانی جبلت سے ایک خاص تعلق ہے کیونکہ انسان کو جن عناصرِ اربعہ سے تخلیق کیا گیا ہے اس میں آگ کا بھی عمل دخل ہے اور غصہ کا تعلق بھی آگ سے ہی ہے۔ غصے کے کھانے اور پینے کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ کہتے ہیں غصہ کھانا چاہیے اور کچھ کہتے ہیں غصہ پینا چاہیے۔ اس بارے میں ملاں پنج پیازہ بھی مخمصے کا شکار ہیں حالانکہ وہ اپنے حلقہ احباب میں “فتوی باز مولوی“ کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں لیکن یہاں ان کا فتوی بھی خاموش ہے۔
غصہ یقینا حرام ہے اور اس کے حرام ہونے میں ذرہ بھر بھی شک کی گنجائش موجود نہیں لیکن ایک عام آدمی یہاں بھی شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیا غصے کا کھانا اور پینا بھی حرام ہے؟ یہاں ملاں پنج پیازہ کا فتوی کام دیتا ہے اور انہوں نے غصے کے کھانے اور پینے میں تفریق قائم کی اور یہ فتوی جاری کیا کہ غصے کا کھانا حرام اور پینا حلال ہے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ غصہ کھانے والا اپنا بھی نقصان کرتا ہے اور دوسرے کا بھی جبکہ غصہ پینے والا اپنا بھی فائدہ کرتا ہے اور دوسرے کا بھی۔
ڈارون ایک سائنسدان گزرا ہے اس نے غصہ کھا کر اپنی ساری زندگی کی محنت پر پانی پھیر دیا تھا۔ وہ بچپن میں بڑا شرارتی تھا اس کی شرارتوں کو دیکھتے ہوئے کسی نے اسے کہہ دیا کہ“ اوئے بندر کے بچے“ شرارتیں نہ کر، وہ بچپن سے لے کر پچپن تک اسی غصے کی حالت میں رہا اور اس نے یہ ثابت کیا کہ اگر میں بندر کا بچہ ہوں تو پھر ساری عالم انسانیت بندر کی اولاد ہے۔ اس لئے بعض لوگ ڈارون کو سائنسدان نہیں بلکہ سانس دان مانتے ہیں۔ بن مانس ماننے والوں کی تعداد بہت کم ہے اگر ڈارون غصہ کھانے کی بجائے غصہ پی جاتا تو شاید اس بات کی نوبت ہی نہ آتی۔ سائنسدانوں کی طرح سیاستدان بھی غصہ میں کسی سے کم نہیں بلکہ دو ہاتھ زیادہ ہی ہیں۔ ان کی عادت ہے کہ یہ دوسرے کے حصے کا غصہ بھی کھا جاتے ہیں کیونکہ انہیں کھانے پینے کی ایسی عادت پڑ چکی ہوتی ہے کہ ان کے ہاں پرہیز کرنا لازم نہیں ہوتا۔ ہمارے سیاستدان اگر غصہ نہ کھاتے تو اس پیارے وطن میں جمہوریت کبھی آمریت کی لونڈی نہ بنتی۔
سیاستدان غصہ اتنا زیادہ بنا لیتے ہیں کہ اسے ختم کرنے کے لئے کسی نہ کسی جرنیل کو دعوت طعام دے بیٹھتے ہیں اور حضرت جرنیل غصہ کھاتے ہی اپنے پیشہ ورانہ امور کو چھوڑ کر سیاست جیسے فضول کام میں ٹانگ اڑا دیتے ہیں۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ غصہ کھانے کا عمل صرف ایک خاص خطہ تک ہی محدود ہے جبکہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام خطوں میں غصہ پینے کی بجائے کھانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جیسے بش جونئیر نے 11/9 کے بعد غصہ کھاتے ہوئے 3000 کے بدلے 3 لاکھ افراد کا خون پی لیا اگر وہ غصہ پی جاتا تو آسانی سے اصل لوگوں کو پکڑ کر ان سے ناک رگڑوائی جا سکتی تھی۔
اسی طرح بعض افراد کو غصہ کھلا کر ان سے بڑی اہم باتیں بھی اگلوائی جا سکتی ہیں۔ ایک حسینہ نے اپنے عاشق سے کہا “اگر میں نہ ہوتی تو تمہیں کوئی اور لڑکی منہ بھی نہ لگاتی“۔ عاشق غصہ کھا گیا اور بولا “تم کیا سمجھتی ہو میں تمہارے پیچھے ہی پڑا ہوا ہوں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ فلاں فلاں لڑکیوں سے بھی میرا چکرچل رہا ہے“۔ اگر یہ عاشق غصہ کھانے کی بجائے پی جاتا تو اتنے قیمتی راز کبھی نہ اگلتا۔
اگر غصہ کھانے کا مقابلہ شروع کر دیا جائے تو اس مقابلے میں بڑے بڑے پہلوان چت ہو جائیں گے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ انہیں اسی اکھاڑے میں ہی دفن ہونا پڑے۔
بہر حال بھائیو ملاں پنج پیازہ کی نصیحت کے مطابق غصہ کھانا حرام ہے جتنا ممکن ہو سکے اسے پینے کی کوشش کرو یہ مشورہِ عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے۔
غصے کو انسانی جبلت سے ایک خاص تعلق ہے کیونکہ انسان کو جن عناصرِ اربعہ سے تخلیق کیا گیا ہے اس میں آگ کا بھی عمل دخل ہے اور غصہ کا تعلق بھی آگ سے ہی ہے۔ غصے کے کھانے اور پینے کے بارے میں متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ کچھ کہتے ہیں غصہ کھانا چاہیے اور کچھ کہتے ہیں غصہ پینا چاہیے۔ اس بارے میں ملاں پنج پیازہ بھی مخمصے کا شکار ہیں حالانکہ وہ اپنے حلقہ احباب میں “فتوی باز مولوی“ کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں لیکن یہاں ان کا فتوی بھی خاموش ہے۔
غصہ یقینا حرام ہے اور اس کے حرام ہونے میں ذرہ بھر بھی شک کی گنجائش موجود نہیں لیکن ایک عام آدمی یہاں بھی شش و پنج میں مبتلا ہو جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ کیا غصے کا کھانا اور پینا بھی حرام ہے؟ یہاں ملاں پنج پیازہ کا فتوی کام دیتا ہے اور انہوں نے غصے کے کھانے اور پینے میں تفریق قائم کی اور یہ فتوی جاری کیا کہ غصے کا کھانا حرام اور پینا حلال ہے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ غصہ کھانے والا اپنا بھی نقصان کرتا ہے اور دوسرے کا بھی جبکہ غصہ پینے والا اپنا بھی فائدہ کرتا ہے اور دوسرے کا بھی۔
ڈارون ایک سائنسدان گزرا ہے اس نے غصہ کھا کر اپنی ساری زندگی کی محنت پر پانی پھیر دیا تھا۔ وہ بچپن میں بڑا شرارتی تھا اس کی شرارتوں کو دیکھتے ہوئے کسی نے اسے کہہ دیا کہ“ اوئے بندر کے بچے“ شرارتیں نہ کر، وہ بچپن سے لے کر پچپن تک اسی غصے کی حالت میں رہا اور اس نے یہ ثابت کیا کہ اگر میں بندر کا بچہ ہوں تو پھر ساری عالم انسانیت بندر کی اولاد ہے۔ اس لئے بعض لوگ ڈارون کو سائنسدان نہیں بلکہ سانس دان مانتے ہیں۔ بن مانس ماننے والوں کی تعداد بہت کم ہے اگر ڈارون غصہ کھانے کی بجائے غصہ پی جاتا تو شاید اس بات کی نوبت ہی نہ آتی۔ سائنسدانوں کی طرح سیاستدان بھی غصہ میں کسی سے کم نہیں بلکہ دو ہاتھ زیادہ ہی ہیں۔ ان کی عادت ہے کہ یہ دوسرے کے حصے کا غصہ بھی کھا جاتے ہیں کیونکہ انہیں کھانے پینے کی ایسی عادت پڑ چکی ہوتی ہے کہ ان کے ہاں پرہیز کرنا لازم نہیں ہوتا۔ ہمارے سیاستدان اگر غصہ نہ کھاتے تو اس پیارے وطن میں جمہوریت کبھی آمریت کی لونڈی نہ بنتی۔
سیاستدان غصہ اتنا زیادہ بنا لیتے ہیں کہ اسے ختم کرنے کے لئے کسی نہ کسی جرنیل کو دعوت طعام دے بیٹھتے ہیں اور حضرت جرنیل غصہ کھاتے ہی اپنے پیشہ ورانہ امور کو چھوڑ کر سیاست جیسے فضول کام میں ٹانگ اڑا دیتے ہیں۔
عام لوگوں کا خیال ہے کہ غصہ کھانے کا عمل صرف ایک خاص خطہ تک ہی محدود ہے جبکہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دنیا کے تمام خطوں میں غصہ پینے کی بجائے کھانے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جیسے بش جونئیر نے 11/9 کے بعد غصہ کھاتے ہوئے 3000 کے بدلے 3 لاکھ افراد کا خون پی لیا اگر وہ غصہ پی جاتا تو آسانی سے اصل لوگوں کو پکڑ کر ان سے ناک رگڑوائی جا سکتی تھی۔
اسی طرح بعض افراد کو غصہ کھلا کر ان سے بڑی اہم باتیں بھی اگلوائی جا سکتی ہیں۔ ایک حسینہ نے اپنے عاشق سے کہا “اگر میں نہ ہوتی تو تمہیں کوئی اور لڑکی منہ بھی نہ لگاتی“۔ عاشق غصہ کھا گیا اور بولا “تم کیا سمجھتی ہو میں تمہارے پیچھے ہی پڑا ہوا ہوں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ فلاں فلاں لڑکیوں سے بھی میرا چکرچل رہا ہے“۔ اگر یہ عاشق غصہ کھانے کی بجائے پی جاتا تو اتنے قیمتی راز کبھی نہ اگلتا۔
اگر غصہ کھانے کا مقابلہ شروع کر دیا جائے تو اس مقابلے میں بڑے بڑے پہلوان چت ہو جائیں گے اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ انہیں اسی اکھاڑے میں ہی دفن ہونا پڑے۔
بہر حال بھائیو ملاں پنج پیازہ کی نصیحت کے مطابق غصہ کھانا حرام ہے جتنا ممکن ہو سکے اسے پینے کی کوشش کرو یہ مشورہِ عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لئے۔
0 comments:
Post a Comment