شانتی دیوی کا دعوی ہے کہ وہ اس دنیا میں دوسری مرتبہ آئی ہے۔ سائنسدان جنہوں نے اس
کا طبی اور نفسیاتی معائنہ کیا ہے اپنی شکست تسلیم کر چکے ہیں۔ وہ شانتی کی کہانی
کو صحیح گردانتے ہیں لیکن اس کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں۔
شانتی دیوی کے والدین دہلی میں رہائش پذیر ہیں وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ شانتی دیوی 1926 میں دہلی میں پیدا ہوئی اس کی پیدائش کوئی غیر معمولی نہیں تھی۔ بچپن میں وہ عام بچوں کی طرح زندگی بسر کرتی تھی۔ مگر جوں جوں وہ بڑی ہوتی گئی کھوئی کھوئی سی رہنے لگی۔ اس کی ماں کو معلوم ہوا کہ وہ فضاء میں غیر مرئی انسانوں سے باتیں کرتی رہتی ہے۔جب وہ سات برس کی ہوئی تو اس نے پہلی بار اپنی ماں کو بتایا کہ وہ اس سے پہلے متھرا نامی قصبے میں زندگی بسر کر چکی ہے اور اس نے متھرا میں اپنے مکان کا محلِ وقوع بھی بتایا جہاں وہ اپنا پہلا جنم گزار چکی تھی۔
شانتی کی ماں نے جب اپنے خاوند کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیا تو وہ اسے ہسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس سے کئی قسم کے سوالات پوچھے۔ جب لڑکی نے اپنی پوری کہانی بیان کی تو ڈاکٹروں نے اس انوکھے معمے کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ وہ کافی سوچ و بچار کے بعد بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔
اگر یہ فرض کر لیا جاتا کہ اس کی دماغی حالت خراب ہے تو یہ ایک غیر معمولی اور انوکھا کیس تھا اور اگر وہ بقائمی ہوش و حواس تھی تو یہ ایک قصہ تھا جس کی سائنسی توضیع ناممکن تھی اور ڈاکٹروں نے اس کے باپ کو نصیحت کی کہ وہ لڑکی سے برابر پوچھ گچھ کرتا رہے اور اگر وہ اپنے دعوے پر بد ستور قائم رہے تو اسے دوبارہ پیش کیا جائے۔
شانتی دیوی اپنے دعوے پر بدستور قائم رہی اور اس کی کہانی میں بال برابر بھی فرق نہیں*آیا۔اس کے والدین اپنی بیٹی کی ان باتوں سے حیران تھے۔ انہیں یقین ہو چکا تھا کہ ان کی بیٹی کا دماغ چل گیا ہے۔جب وہ نو برس کی کوئی تو اس نے بتایا کہ وہ اپنا پہلا جنم متھرا میں گزار چکی ہے جہاں اس کی شادی بھی ہوئی تھی اور اس کے دو بچے بھی پیدا ہوئے تھے اس نے اپنے دونوں بچوں کے نام بھی بتائے اور یہ دعوی بھی کیا کہ ان دنوں اس کا نام لُدگی تھا اس کے والدین اس انکشاف پر محض مسکرا دئیے۔
ایک شام جب اس کی ماں اور شانتی رات کا کھانا تیار کر رہی تھیں دروازے پر دستک ہوئی۔شانتی دوڑی دوڑی دروازے کی طرف گئی اور جب وہ کافی دیر تک واپس نہ آئی تو اس کی ماں کو تشویش لاحق ہوئی اور وہ شانتی کو دیکھنے کے لئے دروازے کی طرف آئی جہاں شانتی سیڑھیوں پر کھڑے ایک شخص کو گھور رہی تھی۔
ماں یہ میرے خاوند کا چچا زاد بھائی ہے جو متھرا میں ہمارے مکان کے نزدیک ہی رہتا تھا۔ اجنبی واقعی متھرا میں رہائش پذیر تھا اور وہ شانتی کے باپ کے ساتھ کاروباری سلسلہ میں ملاقات کرنے آیا تھا۔ اس نے شانتی کو تو نہ پہچانا التہ اتنا کہا ک اس کے چچا زاد بھائی کی بیوی کا نام لُدگی ہی تھا اور وہ 10 سال پہلے بچے کی پیدائش کے وقت مر گئی تھی۔
اس کے پریشان حال والدین نے اجنبی کو جب شانتی کی پوری کہانی سنائی تو وہ اس بات پر رضامند ہو گیا کہ وہ اپنے چچازاد بھائی کو متھرا سے دہلی لائے گا اور یہ معوم کرنے کی کوشش کرے گا کہ شانتی اسے پہچانتی بھی ہے یا نہیں۔
شانتی کو اس منصوبے سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ لیکن جب اجنبی کا چچا زاد بھائی یعنی شانتی کا مفروضہ شوہر آیا تو وہ اس سے لپٹ گئی اور اس نے بتایا وہ اس کا خاوند ہے۔ اس کا یہ خاوند اس کے باپ کے ساتھ اعلی حکام کے پاس گیا۔جہاں اس نے لڑکی کی عجیب و غریب کہانی بیان کی۔
چنانچہ حکومتِ ہند نے سائنسدانوں کی ایک خاص کمیٹی تشکیل دی تاکہ اس انوکھے معمہ کو حل کیا جا سکے جو ان دنوں قومی دلچسپی کا باعث بنا ہوا تھا۔
کیا وہ لُدگی کا دوسرا جنم تھا؟۔ سائنسدان یہ معلوم کرنے کے لئے اسے متھرا لے گئے جب وہ گاڑی سے اتری تو اس نے اپنے مفروضہ خاوند کی ماں اور بہن کی صحیح صحیح نشاندہی کر دی اور اس نے نشاندہی کے علاوہ ان کے نام بھی بتا دئیے۔حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے ان کے ساتھ متھرا کی مقامی زبان میں گفتگو کی۔ حالانکہ اسے صرف اردو زبان سکھائی گئی تھی۔حیران و پریشان سائنسدانوں نے اس کا معائنہ جاری رکھا۔
انہوں نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے چھکڑے پر بٹھایا وہ تمام راستے میں ڈرائیور کو صحیح صحیح ہدائتیں دیتی رہی۔ وہ جس جگہ سے بھی گزری اس کے صحیح کوائف بتاتی رہی آخر کار اس نے*ڈرائیور کو ایک تنگ گلی کے سرے پر رکنے کے لئے کہا۔یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ رہتی تھی۔ جب اس کی آنکھوں کی پٹی کھولی گئی تو اس نے ایک آدمی کو مکان کے باہر حقہ پیتے دیکھا جس کی بابت اس نے انکشاف کیا کہ وہ اس کا خسر ہے اور وہ حقیقتا اس کے مفروضہ خاوند کا باپ تھا۔ شانتی نے اپنے دونوں بچوں کو بھی پہچان لیا لیکن وہ اپنے اس بچے کو نہیں پہچان سکی جس کے طفیل اس کی موت واقع ہوئی تھی۔
سائنسدان اس بات پر متفق ہو گئے کہ شانتی دیوی دہلی میں پیدا ہوئی لیکن حیران کن حد تک متھرا میں اپنی زندگی کے متعلق جانتی ہے۔ انہوں نے حکومت کو رپورٹ پیش کی کہ انہیں اس کہانی کی*صداقت پر ذرہ بھر بھی شک نہیں لیکن وہ آج تک اس کہانی کی تشریح نہیں کر سکے۔شانتی دیوی اب دہلی میں رہتی ہے اور سرکاری ملازمت کرتی ہے اس کی یہ عجیب و غریب کہانی حکومت کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ 1958 میں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ اپنے ماضی سے پریشان ہونے کی بجائے اپنے حال سے مطمئن ہے۔ شانتی دیوی کی کہانی ایک ایسے معمے کا زندہ ثبوت ہے جسے سائنس حل نہیں کر سکی۔
شانتی دیوی کے والدین دہلی میں رہائش پذیر ہیں وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ شانتی دیوی 1926 میں دہلی میں پیدا ہوئی اس کی پیدائش کوئی غیر معمولی نہیں تھی۔ بچپن میں وہ عام بچوں کی طرح زندگی بسر کرتی تھی۔ مگر جوں جوں وہ بڑی ہوتی گئی کھوئی کھوئی سی رہنے لگی۔ اس کی ماں کو معلوم ہوا کہ وہ فضاء میں غیر مرئی انسانوں سے باتیں کرتی رہتی ہے۔جب وہ سات برس کی ہوئی تو اس نے پہلی بار اپنی ماں کو بتایا کہ وہ اس سے پہلے متھرا نامی قصبے میں زندگی بسر کر چکی ہے اور اس نے متھرا میں اپنے مکان کا محلِ وقوع بھی بتایا جہاں وہ اپنا پہلا جنم گزار چکی تھی۔
شانتی کی ماں نے جب اپنے خاوند کو اس صورتِ حال سے آگاہ کیا تو وہ اسے ہسپتال لے گیا جہاں ڈاکٹروں نے اس سے کئی قسم کے سوالات پوچھے۔ جب لڑکی نے اپنی پوری کہانی بیان کی تو ڈاکٹروں نے اس انوکھے معمے کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے۔ وہ کافی سوچ و بچار کے بعد بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔
اگر یہ فرض کر لیا جاتا کہ اس کی دماغی حالت خراب ہے تو یہ ایک غیر معمولی اور انوکھا کیس تھا اور اگر وہ بقائمی ہوش و حواس تھی تو یہ ایک قصہ تھا جس کی سائنسی توضیع ناممکن تھی اور ڈاکٹروں نے اس کے باپ کو نصیحت کی کہ وہ لڑکی سے برابر پوچھ گچھ کرتا رہے اور اگر وہ اپنے دعوے پر بد ستور قائم رہے تو اسے دوبارہ پیش کیا جائے۔
شانتی دیوی اپنے دعوے پر بدستور قائم رہی اور اس کی کہانی میں بال برابر بھی فرق نہیں*آیا۔اس کے والدین اپنی بیٹی کی ان باتوں سے حیران تھے۔ انہیں یقین ہو چکا تھا کہ ان کی بیٹی کا دماغ چل گیا ہے۔جب وہ نو برس کی کوئی تو اس نے بتایا کہ وہ اپنا پہلا جنم متھرا میں گزار چکی ہے جہاں اس کی شادی بھی ہوئی تھی اور اس کے دو بچے بھی پیدا ہوئے تھے اس نے اپنے دونوں بچوں کے نام بھی بتائے اور یہ دعوی بھی کیا کہ ان دنوں اس کا نام لُدگی تھا اس کے والدین اس انکشاف پر محض مسکرا دئیے۔
ایک شام جب اس کی ماں اور شانتی رات کا کھانا تیار کر رہی تھیں دروازے پر دستک ہوئی۔شانتی دوڑی دوڑی دروازے کی طرف گئی اور جب وہ کافی دیر تک واپس نہ آئی تو اس کی ماں کو تشویش لاحق ہوئی اور وہ شانتی کو دیکھنے کے لئے دروازے کی طرف آئی جہاں شانتی سیڑھیوں پر کھڑے ایک شخص کو گھور رہی تھی۔
ماں یہ میرے خاوند کا چچا زاد بھائی ہے جو متھرا میں ہمارے مکان کے نزدیک ہی رہتا تھا۔ اجنبی واقعی متھرا میں رہائش پذیر تھا اور وہ شانتی کے باپ کے ساتھ کاروباری سلسلہ میں ملاقات کرنے آیا تھا۔ اس نے شانتی کو تو نہ پہچانا التہ اتنا کہا ک اس کے چچا زاد بھائی کی بیوی کا نام لُدگی ہی تھا اور وہ 10 سال پہلے بچے کی پیدائش کے وقت مر گئی تھی۔
اس کے پریشان حال والدین نے اجنبی کو جب شانتی کی پوری کہانی سنائی تو وہ اس بات پر رضامند ہو گیا کہ وہ اپنے چچازاد بھائی کو متھرا سے دہلی لائے گا اور یہ معوم کرنے کی کوشش کرے گا کہ شانتی اسے پہچانتی بھی ہے یا نہیں۔
شانتی کو اس منصوبے سے بے خبر رکھا گیا تھا۔ لیکن جب اجنبی کا چچا زاد بھائی یعنی شانتی کا مفروضہ شوہر آیا تو وہ اس سے لپٹ گئی اور اس نے بتایا وہ اس کا خاوند ہے۔ اس کا یہ خاوند اس کے باپ کے ساتھ اعلی حکام کے پاس گیا۔جہاں اس نے لڑکی کی عجیب و غریب کہانی بیان کی۔
چنانچہ حکومتِ ہند نے سائنسدانوں کی ایک خاص کمیٹی تشکیل دی تاکہ اس انوکھے معمہ کو حل کیا جا سکے جو ان دنوں قومی دلچسپی کا باعث بنا ہوا تھا۔
کیا وہ لُدگی کا دوسرا جنم تھا؟۔ سائنسدان یہ معلوم کرنے کے لئے اسے متھرا لے گئے جب وہ گاڑی سے اتری تو اس نے اپنے مفروضہ خاوند کی ماں اور بہن کی صحیح صحیح نشاندہی کر دی اور اس نے نشاندہی کے علاوہ ان کے نام بھی بتا دئیے۔حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے ان کے ساتھ متھرا کی مقامی زبان میں گفتگو کی۔ حالانکہ اسے صرف اردو زبان سکھائی گئی تھی۔حیران و پریشان سائنسدانوں نے اس کا معائنہ جاری رکھا۔
انہوں نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے چھکڑے پر بٹھایا وہ تمام راستے میں ڈرائیور کو صحیح صحیح ہدائتیں دیتی رہی۔ وہ جس جگہ سے بھی گزری اس کے صحیح کوائف بتاتی رہی آخر کار اس نے*ڈرائیور کو ایک تنگ گلی کے سرے پر رکنے کے لئے کہا۔یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ رہتی تھی۔ جب اس کی آنکھوں کی پٹی کھولی گئی تو اس نے ایک آدمی کو مکان کے باہر حقہ پیتے دیکھا جس کی بابت اس نے انکشاف کیا کہ وہ اس کا خسر ہے اور وہ حقیقتا اس کے مفروضہ خاوند کا باپ تھا۔ شانتی نے اپنے دونوں بچوں کو بھی پہچان لیا لیکن وہ اپنے اس بچے کو نہیں پہچان سکی جس کے طفیل اس کی موت واقع ہوئی تھی۔
سائنسدان اس بات پر متفق ہو گئے کہ شانتی دیوی دہلی میں پیدا ہوئی لیکن حیران کن حد تک متھرا میں اپنی زندگی کے متعلق جانتی ہے۔ انہوں نے حکومت کو رپورٹ پیش کی کہ انہیں اس کہانی کی*صداقت پر ذرہ بھر بھی شک نہیں لیکن وہ آج تک اس کہانی کی تشریح نہیں کر سکے۔شانتی دیوی اب دہلی میں رہتی ہے اور سرکاری ملازمت کرتی ہے اس کی یہ عجیب و غریب کہانی حکومت کے ریکارڈ میں موجود ہے۔ 1958 میں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ وہ اپنے ماضی سے پریشان ہونے کی بجائے اپنے حال سے مطمئن ہے۔ شانتی دیوی کی کہانی ایک ایسے معمے کا زندہ ثبوت ہے جسے سائنس حل نہیں کر سکی۔
0 comments:
Post a Comment