ان دنوں پُراسرار کہانیاں لکھنے کا رواج نیا نیا شروع ہوا تھا۔ چارلس ڈگنز نے اپنے
ایک دوست کے مشورے سے مہینوں کے غور و فکر کے بعد ایک ناول شروع کیا جس کا نام اس
نے ایڈن ڈروڈ کا اسرار رکھا۔ چارلس نے یہ کتاب 12 قسطوں میں شائع کرنے کا فیصلہ
کیا۔ اس مرتبہ ایک عجیب و غریب بات واقع ہوئی۔ ڈگنز نے ناول کے ناشر سے معاہدے میں
اس بات پر زور دیا کہ اگر ناول مکمل ہونے سے پہلے اس کی موت واقع ہو جائے تو معاوضے
کی تمام رقم اس کے وارثوں کو دے دی جائے۔ موت کے متعلق اس کا خدشہ مستقبل بینی کی
دلالت کرتا ہے کیونکہ ڈگنز 1870 میں اس وقت مر گیا جب اس کی زیرِ تحریر کتاب کی چھ
قسطیں ہی شائع ہو سکی تھیں۔ چنانچہ یہ کتاب نا مکمل رہ گئی جس سے امریکہ اور سمندر
پار کے قارئین تشنہ رہ گئے۔
وہ اس پر اسرار کہانی کے انجام کے بارے میں جو چارلس ڈگنز کے ساتھ ہی قبر میں چلا گیا تھا اپنے طور پر ہی قیاس آرائیاں کرنے لگ گئے تھے۔
لیکن اس ناول کا انجام ایک خوبرو اور آوارہ گرد ناشر کو معلوم تھا جو برٹیل بورڈ کی گلیوں میں خوبصورت لڑکیوں کا پیچھا کرتا تھا۔ اس کا نام تھامس جیمز تھا۔
ایک دن اس نے ایک لڑکی کا تعاقب کیا اور وہ اس تعاقب میں اس کے گھر تک پہنچ گیا۔ لڑکی کے حُسنِ بے مثال سے متاثر ہو کر جیمز نے اس مکان کے قریب گلی کے سرے پر ایک مکان کرائے پر لے لیا۔ اسے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ اس کے مکان کی مالکہ روحانیت کی قائل ہیں۔ جیمز ایک سال تک اس خاتون سے روحانیت کا درس لیتا رہا۔ جیمز نے اس عورت سے کوئی فیض حاصل کیا یا نہیں یہ بات اسی تک محدود ہے۔
3 اکتوبر 1872 کو اس نے مکان کی مالکہ کو بتایا کہ چارلس ڈگنز کی روح اس سے ملی ہے اور اسے اختیار دیا ہے کہ وہ اس کے نا مکمل ناول “ایڈون کا اسرار“ کو مکمل کرے۔ مالکہ مکان جیمز کے اس انکشاف پر بہت حیران ہوئی اور اس نے جیمز کو دیگر سہولتوں کے علاوہ مکان کا کرایہ بھی معاف کر دیا تاکہ وہ ناول کو آسانی سے مکمل کر سکے۔
بے شمار عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ تھامس جیمز پر ایک عجیب عجیب قسم کا روحانی وجد طاری ہو جاتا تھا جو کئی گھنٹوں تک جاری رہتا۔ اس دورے کے اختتام پر وہ اٹھ بیٹھتا تھا اور بڑی تیز رفتاری سے ناول لکھنے میں مصروف ہو جاتا۔ بعض اوقات وہ صفحوں کے صفحے لکھ جاتا۔ ایسا بھی ہوتا کہ وہ دورے کے بعد محض چند سطریں ہی لکھ پاتا۔ ایک اور عجیب بات تھی جب موسم خراب ہوتا تو وہ کچھ بھی نہیں لکھ سکتا تھا۔
تھامس کے اپنے بیان کے مطابق چارلس ڈگنز کی روح اس کے پاس آتی تھی اور اسے ناول کا بقیہ حصہ بتا جاتی تھی جسے وہ لکھتا جاتا تھا۔
جلد ہی اس عظیم منصوبے کی خبر اخبارات تک پہنچ گئی۔ جنہوں نے جیمز کے دعوے کو فراڈ قرار دیتے ہوئے صدائے احتجاج بند کی۔ ڈگنز کے نامکمل ناول کی بقیہ اقساط 31 اکتوبر 1872 کو منظرِ عام پر آئیں۔
اس وقت ڈگنز کو مرے 2 سال کا عرصہ ہو چکا تھا۔ ملک کے کئی ادیب اور نقاد اس کتاب کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس کتاب کا اندازِ تحریر چارلس ڈگنز کے اسلوبِ تحریر سے حیرت انگیز حد تک مشابہت رکھتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے یہ کتاب ڈگنز نے خود لکھی ہے۔
جیمز جو چند روز پہلے غیر معروف انسان تھا راتوں رات ادبی حلقوں میں مشہور ہو گیا۔ پرنگ فیلڈ اور میسا چوسٹس کے اخبارات نے اسے چارلس ڈگنز کا صحیح جانشین قرار دیا۔ بوسٹن کے ایک اخبار نے لکھا تھا مسٹر جیمز، چارلس ڈگنز کی مدد کے بغیر یہ کتاب کبھی نہیں لکھ سکتا تھا۔ کیا یہ روحانیت کے کرشمے ہیں؟ اس بارے میں کچھ بھی کہا نہیں جا سکتا۔
شرلاک ہومز کے انوکھے اور غیر فانی کردار کے خالق سر آرتھر کاٹن ڈائل نے جیمز کا اچھی طرح سے معائنہ کیا دسمبر 1967 کے فورٹ نائٹ ریویو میں اس نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا۔ جیمز اس کتاب کے لکھنے سے پہلے کوئی ادبی حیثیت نہیں رکھتا تھا اس نے ایک اوسط درجے کے پرائمری سکول میں صرف پانچویں جماعت تک ہی تعلیم پائی تھی۔ 13 سال کی عمر میں ہی اس نے سکول چھوڑ دیا تھا۔ وہ کتاب لکھنے کے بعد کوئی دوسری چیز لکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ اس نے کسی طریقے سے چارلس ڈگنز کا سلوبِ تحریر ذخیرہ الفاظ اور اندازِ فکر پر بہت غور و خوض کر کے یہ ناول مکمل کر لیا ہے۔ بلاشبہ یہ امریکہ کے ایک پریس کے ملازم کا جس نے بہت کم تعلیم حاصل کی ہے ایک ناقابلِ توجیہ اور حیرت انگیز کارنامہ ہے۔
اگر جیمز کی اس تحریر کو چارلس ڈگنز کی تحریر کی پیروڈی قرار دیا جائے تو پھر ماننا پڑتا ہے کہ اس کی یہ پیروڈی اصل سے بیحد قریب تھی۔ اس سلسلے میں کسی شک و شبہ یا مبالغے کی کوئی گنجائش نہیں۔ تھامس جیمز نے دوہرے اسرار کو جنم دیا وہ اچانک دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ وہ کب اور کہاں مرا؟ یہ کوئی بھی نہیں جانتا۔ امریکہ کی چند ایک لائبریریوں میں تھامس جیمز کی وہ کتاب اب بھی محفوظ ہے جو بقول اس کے چارلس ڈگنز کی روح نے لکھوائی تھی۔
وہ اس پر اسرار کہانی کے انجام کے بارے میں جو چارلس ڈگنز کے ساتھ ہی قبر میں چلا گیا تھا اپنے طور پر ہی قیاس آرائیاں کرنے لگ گئے تھے۔
لیکن اس ناول کا انجام ایک خوبرو اور آوارہ گرد ناشر کو معلوم تھا جو برٹیل بورڈ کی گلیوں میں خوبصورت لڑکیوں کا پیچھا کرتا تھا۔ اس کا نام تھامس جیمز تھا۔
ایک دن اس نے ایک لڑکی کا تعاقب کیا اور وہ اس تعاقب میں اس کے گھر تک پہنچ گیا۔ لڑکی کے حُسنِ بے مثال سے متاثر ہو کر جیمز نے اس مکان کے قریب گلی کے سرے پر ایک مکان کرائے پر لے لیا۔ اسے جلد ہی معلوم ہو گیا کہ اس کے مکان کی مالکہ روحانیت کی قائل ہیں۔ جیمز ایک سال تک اس خاتون سے روحانیت کا درس لیتا رہا۔ جیمز نے اس عورت سے کوئی فیض حاصل کیا یا نہیں یہ بات اسی تک محدود ہے۔
3 اکتوبر 1872 کو اس نے مکان کی مالکہ کو بتایا کہ چارلس ڈگنز کی روح اس سے ملی ہے اور اسے اختیار دیا ہے کہ وہ اس کے نا مکمل ناول “ایڈون کا اسرار“ کو مکمل کرے۔ مالکہ مکان جیمز کے اس انکشاف پر بہت حیران ہوئی اور اس نے جیمز کو دیگر سہولتوں کے علاوہ مکان کا کرایہ بھی معاف کر دیا تاکہ وہ ناول کو آسانی سے مکمل کر سکے۔
بے شمار عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ تھامس جیمز پر ایک عجیب عجیب قسم کا روحانی وجد طاری ہو جاتا تھا جو کئی گھنٹوں تک جاری رہتا۔ اس دورے کے اختتام پر وہ اٹھ بیٹھتا تھا اور بڑی تیز رفتاری سے ناول لکھنے میں مصروف ہو جاتا۔ بعض اوقات وہ صفحوں کے صفحے لکھ جاتا۔ ایسا بھی ہوتا کہ وہ دورے کے بعد محض چند سطریں ہی لکھ پاتا۔ ایک اور عجیب بات تھی جب موسم خراب ہوتا تو وہ کچھ بھی نہیں لکھ سکتا تھا۔
تھامس کے اپنے بیان کے مطابق چارلس ڈگنز کی روح اس کے پاس آتی تھی اور اسے ناول کا بقیہ حصہ بتا جاتی تھی جسے وہ لکھتا جاتا تھا۔
جلد ہی اس عظیم منصوبے کی خبر اخبارات تک پہنچ گئی۔ جنہوں نے جیمز کے دعوے کو فراڈ قرار دیتے ہوئے صدائے احتجاج بند کی۔ ڈگنز کے نامکمل ناول کی بقیہ اقساط 31 اکتوبر 1872 کو منظرِ عام پر آئیں۔
اس وقت ڈگنز کو مرے 2 سال کا عرصہ ہو چکا تھا۔ ملک کے کئی ادیب اور نقاد اس کتاب کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس کتاب کا اندازِ تحریر چارلس ڈگنز کے اسلوبِ تحریر سے حیرت انگیز حد تک مشابہت رکھتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے یہ کتاب ڈگنز نے خود لکھی ہے۔
جیمز جو چند روز پہلے غیر معروف انسان تھا راتوں رات ادبی حلقوں میں مشہور ہو گیا۔ پرنگ فیلڈ اور میسا چوسٹس کے اخبارات نے اسے چارلس ڈگنز کا صحیح جانشین قرار دیا۔ بوسٹن کے ایک اخبار نے لکھا تھا مسٹر جیمز، چارلس ڈگنز کی مدد کے بغیر یہ کتاب کبھی نہیں لکھ سکتا تھا۔ کیا یہ روحانیت کے کرشمے ہیں؟ اس بارے میں کچھ بھی کہا نہیں جا سکتا۔
شرلاک ہومز کے انوکھے اور غیر فانی کردار کے خالق سر آرتھر کاٹن ڈائل نے جیمز کا اچھی طرح سے معائنہ کیا دسمبر 1967 کے فورٹ نائٹ ریویو میں اس نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا۔ جیمز اس کتاب کے لکھنے سے پہلے کوئی ادبی حیثیت نہیں رکھتا تھا اس نے ایک اوسط درجے کے پرائمری سکول میں صرف پانچویں جماعت تک ہی تعلیم پائی تھی۔ 13 سال کی عمر میں ہی اس نے سکول چھوڑ دیا تھا۔ وہ کتاب لکھنے کے بعد کوئی دوسری چیز لکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ اس نے کسی طریقے سے چارلس ڈگنز کا سلوبِ تحریر ذخیرہ الفاظ اور اندازِ فکر پر بہت غور و خوض کر کے یہ ناول مکمل کر لیا ہے۔ بلاشبہ یہ امریکہ کے ایک پریس کے ملازم کا جس نے بہت کم تعلیم حاصل کی ہے ایک ناقابلِ توجیہ اور حیرت انگیز کارنامہ ہے۔
اگر جیمز کی اس تحریر کو چارلس ڈگنز کی تحریر کی پیروڈی قرار دیا جائے تو پھر ماننا پڑتا ہے کہ اس کی یہ پیروڈی اصل سے بیحد قریب تھی۔ اس سلسلے میں کسی شک و شبہ یا مبالغے کی کوئی گنجائش نہیں۔ تھامس جیمز نے دوہرے اسرار کو جنم دیا وہ اچانک دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔ وہ کب اور کہاں مرا؟ یہ کوئی بھی نہیں جانتا۔ امریکہ کی چند ایک لائبریریوں میں تھامس جیمز کی وہ کتاب اب بھی محفوظ ہے جو بقول اس کے چارلس ڈگنز کی روح نے لکھوائی تھی۔
0 comments:
Post a Comment