خون سے جب لکھ رہے تھے داستاں تیری وطن
راہنمائی کر رہا تھا آسماں تیری وطن
خون سے لتھڑے ہوئے وہ قافلوں کے قافلے
بین کرتی پھر رہی تھیں بیٹیاں تیری وطن
خون کی ندیاں بہا کر سر فروشانِ وطن
آبیاری کر رہے تھے نوجواں تیری وطن
ظلم اپنی انتہا کو چھو رہا تھا جس گھڑی
ٹوٹ کر بکھری ہوئیں تھیں بیڑیاں تیری وطن
رحمتیں چھم چھم برستی تھیں زمینِ پاک پر
جب قیادت کر رہے تھے مہرباں تیری وطن
جب تلک ہے آسماں یہ چاند تاروں کا جہاں
گنگناتی ہی رہیں گی وادیاں تیری وطن
ہے دعا اللہ سے ہر دم یونہی شاداں رہیں
جگمگاتے شہر سارے بستیاں تیری وطن
قائد و اقبال نہ ہوتے اگر تاریخ میں
نا مکمل تھی یہ عابد داستاں تیری وطن
جاوید احمد عابد شفعی
راہنمائی کر رہا تھا آسماں تیری وطن
خون سے لتھڑے ہوئے وہ قافلوں کے قافلے
بین کرتی پھر رہی تھیں بیٹیاں تیری وطن
خون کی ندیاں بہا کر سر فروشانِ وطن
آبیاری کر رہے تھے نوجواں تیری وطن
ظلم اپنی انتہا کو چھو رہا تھا جس گھڑی
ٹوٹ کر بکھری ہوئیں تھیں بیڑیاں تیری وطن
رحمتیں چھم چھم برستی تھیں زمینِ پاک پر
جب قیادت کر رہے تھے مہرباں تیری وطن
جب تلک ہے آسماں یہ چاند تاروں کا جہاں
گنگناتی ہی رہیں گی وادیاں تیری وطن
ہے دعا اللہ سے ہر دم یونہی شاداں رہیں
جگمگاتے شہر سارے بستیاں تیری وطن
قائد و اقبال نہ ہوتے اگر تاریخ میں
نا مکمل تھی یہ عابد داستاں تیری وطن
جاوید احمد عابد شفعی
0 comments:
Post a Comment