حکایت ہے کسی دانا و بینا شخص نے محض قسے کی طرح بیان کیا کہ ملکِ ہند
میں ایک عجیب و غریب درخت پایا جاتا ہے۔ جو اس درخت کا پھل ایک مرتبہ
کھائے،ہمیشہ جوان و توانا رہے اور کبھی اس پر موت طاری نہ ہو۔ایک بادشاہ نے
حکایت سنی اور جی میں کہا’’اگر اس شجر کا میوہ ملے تو کیا کہنے‘‘۔چنانچہ
اپنے مصاحبوں اور وزیروں سے ذکر کیا۔سب نے ہاں میں ہاں ملائی کہ جہاں پناہ
اگر اس درخت کا پھل کھا لیںتو رعیت ہمیشہ آپ کے زیرِ سایہ آباد اور کوش و
خرم رہے گی۔
غرض بادشاہ نے ایک ہوشیار مصاحب کو اس درخت کے پھل کی تلاش میں ہند روانہ کیا۔وہ بے چارہ مدتوں جنگل جنگل ،صحر صحرا مارا ماراپھرتا رہا،لیکن گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔جس کسی سے ایسے درخت اور پھل کا پتہ پوچھتا،وہ ہنسی اڑاتا کہ میاں، سودائی ہوئے ہو؟ایسا درخت کہاں؟کسی نے اچھی ہوائی چھوڑی ہے۔کیوں در بدر خاک بسر ہوتے پھر رہے ہو؟ٹھنڈے ٹھنڈے جدھر سے آئے ہو، ادھر کو لوٹ جاؤ۔وہ شخص اسی طرح کی نت نئی باتیں سنتا اور اپنی ہنسی اڑواتا رہا۔لیکن تھا دھن کا پکا۔ ارادے میں خم نہ آنے دیا اور برابر کوہ و دشت کی خاک چھانے گیا۔
جب برسہا برس گزر گئے ، پورے ہندوستان کے گوشے گوشے ، چپے چپے میں پھر چکا اور بقائے دوام کے شجر کا کہیں نشان نہ ملا، تب مایوس ہو کر اپنے وطن واپس چلا۔اس قدر محنت اور تکلیف اکارت جانے سے رنج و غم کی کوئی انتہا نہ تھی۔بدقسمتی پر آنسو بہاتا اور یہ سوچتا جاتا تھا کہ بادشاہ کو کیا منہ دکھائے گا کہ یکایک معلوم ہوا، کہ اس راہ میں ایک آدمی کہ ولی اللہ اور قطبِ وقت مشہور ہے،قیام پذیر ہے۔اس نے سوچا چلو اس شیخ عالی مرتبت کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی مشکل بیان کروں۔ممکن ہے شیخ کی نگہِ التفات سے بگڑا کام بن جائے اور مایوسی راحت میں بدل جائے۔یہ سوچ کر چشم پر آب لے کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کی نورانی صورت دیکھتے ہی اپنے آپ پر اختیار نہ رہا۔ضبط کا دامن ہاتھ سے نکل گیا اور روتا ہوا اس کے قدموں میں جا گرا اس قدر آنسو بہائے کہ شیخ کے پاؤں کو بھگو دیا۔
شیخ نے اٹھا کر شفقت سے گلے لگایا اور پوچھا’’ کیا بات ہے ؟ اس قدر آشفتہ سری اور پریشانی کا سبب کیا ہے؟ تفصیل سے بیان کرو‘‘
اس نے عرض کیا’’حضرت، کیا کہوں۔جس کام کے لیے برسوں پہلے وطن سے نکلا تھا،وہ کام نہیں ہوا۔اب سوچتا ہوں ، واپس جا کر بادشاہ کو کیا جواب دوں گا۔اس کے عتاب کا نشانی بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں آپ میرے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھ پر رحم کرے۔بادشاہ کے حکم سے بقائے دوام کے شجر کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔کہتے ہیں اس کا پھل کوئی کھا لے تو حیاتِ جاوداں مل جاتی ہے۔میں نے اس کی جستجو میں اس ملک کا چپہ چپہ چھان مارا، مگر ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔‘‘
یہ سن کر شیخ کامل ہنس پڑا۔ پھر ارشاد فرمایا’’ سبحان اللہ! بھائی تو نے بھی سادہ لوحی کی حد قائم کر دی ہے۔ارے اتنا وقت خوامخواہ ضائع کیا ۔پہلے ہی میرے پاس چلا آتا اور معلوم کر لیتا۔اب گوشِ ہوش سے سن کہ وہ شجر علم ہے جس کا ثمر حیاتِ جاوداں کا اثر رکھتا ہے۔تو اور تیرا بادشاہ درخت کی ظاہری صورت سے بدگمانی میں مبتلا ہو گئے، اس لیے شاخِ معنی ہاتھ نہ آئی۔اس کے نام بے شمار ہیں ۔کہیں مہرِ عالم تاب،کہیں بحرِ بے کراں،کبھی درخت،کبھی بادل،انہی ہزاروں صفات میں سے اس کی ایک صفت بقائے دوام بھی ہے۔
اے عزیز صورت کے پیچھے مت بھاگ سیرت دیکھ ۔ظاہر پر نہ جا، باطن پر دھیان دے۔الفاظ پرغور نہ کر ، معنی کے اندر غوطہ لگا۔ظاہر ی صورت کی مثال چھلکے کی سی ہے اور معنی اس چھلکے کے اندر چھپا ہوا گودا ہے۔صفت پر نظر رکھ تاکہ تجھے ذات کی جانب لے جائے۔یہ نام ہی کا جھگڑا ہے جس نے مخلوق کے اندر اختلاف کی گرہیں ڈال دی ہیں۔جہاں معنی پر نگاہ گئی اختلاف معدوم ہوا۔
__________________
غرض بادشاہ نے ایک ہوشیار مصاحب کو اس درخت کے پھل کی تلاش میں ہند روانہ کیا۔وہ بے چارہ مدتوں جنگل جنگل ،صحر صحرا مارا ماراپھرتا رہا،لیکن گوہرِ مقصود ہاتھ نہ آیا۔جس کسی سے ایسے درخت اور پھل کا پتہ پوچھتا،وہ ہنسی اڑاتا کہ میاں، سودائی ہوئے ہو؟ایسا درخت کہاں؟کسی نے اچھی ہوائی چھوڑی ہے۔کیوں در بدر خاک بسر ہوتے پھر رہے ہو؟ٹھنڈے ٹھنڈے جدھر سے آئے ہو، ادھر کو لوٹ جاؤ۔وہ شخص اسی طرح کی نت نئی باتیں سنتا اور اپنی ہنسی اڑواتا رہا۔لیکن تھا دھن کا پکا۔ ارادے میں خم نہ آنے دیا اور برابر کوہ و دشت کی خاک چھانے گیا۔
جب برسہا برس گزر گئے ، پورے ہندوستان کے گوشے گوشے ، چپے چپے میں پھر چکا اور بقائے دوام کے شجر کا کہیں نشان نہ ملا، تب مایوس ہو کر اپنے وطن واپس چلا۔اس قدر محنت اور تکلیف اکارت جانے سے رنج و غم کی کوئی انتہا نہ تھی۔بدقسمتی پر آنسو بہاتا اور یہ سوچتا جاتا تھا کہ بادشاہ کو کیا منہ دکھائے گا کہ یکایک معلوم ہوا، کہ اس راہ میں ایک آدمی کہ ولی اللہ اور قطبِ وقت مشہور ہے،قیام پذیر ہے۔اس نے سوچا چلو اس شیخ عالی مرتبت کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی مشکل بیان کروں۔ممکن ہے شیخ کی نگہِ التفات سے بگڑا کام بن جائے اور مایوسی راحت میں بدل جائے۔یہ سوچ کر چشم پر آب لے کر شیخ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کی نورانی صورت دیکھتے ہی اپنے آپ پر اختیار نہ رہا۔ضبط کا دامن ہاتھ سے نکل گیا اور روتا ہوا اس کے قدموں میں جا گرا اس قدر آنسو بہائے کہ شیخ کے پاؤں کو بھگو دیا۔
شیخ نے اٹھا کر شفقت سے گلے لگایا اور پوچھا’’ کیا بات ہے ؟ اس قدر آشفتہ سری اور پریشانی کا سبب کیا ہے؟ تفصیل سے بیان کرو‘‘
اس نے عرض کیا’’حضرت، کیا کہوں۔جس کام کے لیے برسوں پہلے وطن سے نکلا تھا،وہ کام نہیں ہوا۔اب سوچتا ہوں ، واپس جا کر بادشاہ کو کیا جواب دوں گا۔اس کے عتاب کا نشانی بننے کے سوا کوئی چارہ نہیں آپ میرے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھ پر رحم کرے۔بادشاہ کے حکم سے بقائے دوام کے شجر کی تلاش میں یہاں آیا تھا۔کہتے ہیں اس کا پھل کوئی کھا لے تو حیاتِ جاوداں مل جاتی ہے۔میں نے اس کی جستجو میں اس ملک کا چپہ چپہ چھان مارا، مگر ناکامی اور مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔‘‘
یہ سن کر شیخ کامل ہنس پڑا۔ پھر ارشاد فرمایا’’ سبحان اللہ! بھائی تو نے بھی سادہ لوحی کی حد قائم کر دی ہے۔ارے اتنا وقت خوامخواہ ضائع کیا ۔پہلے ہی میرے پاس چلا آتا اور معلوم کر لیتا۔اب گوشِ ہوش سے سن کہ وہ شجر علم ہے جس کا ثمر حیاتِ جاوداں کا اثر رکھتا ہے۔تو اور تیرا بادشاہ درخت کی ظاہری صورت سے بدگمانی میں مبتلا ہو گئے، اس لیے شاخِ معنی ہاتھ نہ آئی۔اس کے نام بے شمار ہیں ۔کہیں مہرِ عالم تاب،کہیں بحرِ بے کراں،کبھی درخت،کبھی بادل،انہی ہزاروں صفات میں سے اس کی ایک صفت بقائے دوام بھی ہے۔
اے عزیز صورت کے پیچھے مت بھاگ سیرت دیکھ ۔ظاہر پر نہ جا، باطن پر دھیان دے۔الفاظ پرغور نہ کر ، معنی کے اندر غوطہ لگا۔ظاہر ی صورت کی مثال چھلکے کی سی ہے اور معنی اس چھلکے کے اندر چھپا ہوا گودا ہے۔صفت پر نظر رکھ تاکہ تجھے ذات کی جانب لے جائے۔یہ نام ہی کا جھگڑا ہے جس نے مخلوق کے اندر اختلاف کی گرہیں ڈال دی ہیں۔جہاں معنی پر نگاہ گئی اختلاف معدوم ہوا۔
0 comments:
Post a Comment