ایک سوال؟
کسی عاقل کا کہنا ہے کہ جب ہم کوئی گھوڑا خریدنا چاہیں تو اس کی اچھی نسل اور طرزِ تربیت کے بارے میں اچھی طرح تحقیق کرتے ہیں لیکن کیا ہم اپنے دوست کے انتخاب میں اتنی باریک بینی سے کام لیتے ہیں؟
کیا ہمارے دوست ایک گھوڑے سے بھی زیادہ ہماری زندگی پر اثر انداز نہیں ہوتے؟
دوستوں کی اقسام
امام صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“دلی دوست جو بھائی کی طرح ہوتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں۔“
1:۔ کچھ تو غذا کی طرح ہوتے ہیں کہ ان کی دوستی ضروری و ناگزیر ہے۔
2:۔ کچھ لوگ دوا کی مانند ہوتے ہیں جن کی ضرورت کبھی کبھار ہوتی ہے ( البتہ ہوتی ضرور ہے)۔
3:۔ کچھ لوگ بیماری کی طرح ہوتے ہیں جن کی ضرورت کسی بھی وقت نہیں ہوتی (بلکہ ان سے دور رہنا ضروری ہے)۔
برے دوستوں کے اثرات
جس طرح ہمارے جسم کو غذا کی ضرورت ہے جس سے ہماری قوت و طاقت میں اضافہ ہوتا ہے۔اسی طرح ہماری روح بھی دوستوں کی ہمنشینی سے کبھی اچھی باتیں کسب کرتی ہے اور کبھی برے دوستوں کی برائیاں ہماری روح میں سرائیت کر جاتی ہیں۔
عموماََ یہ دیکھا گیا ہے کہ نوجوان اپنی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے والوں کی روحانی اور اخلاقی حالت کا اچھی طرح جائزہ نہیں لیتے اور اپنی دوستی کا ہاتھ بھی ان کی طرف بڑھا دیتے ہیں اور پھر ان کی یہ بے توجہی ان کو حقیقی راستے سے دور تباہی اور بربادی کی طرف لے جاتی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ جوانوں کی اپنے دوستوں کی طرف فطری کشش اور جاذبیت سے بلکل صَرفِ نظر بھی نہ کی جائے لیکن ان کو دوستی کی حدود و قیود، شرائط و آداب سے بھی واقف کر دیا جائے تاکہ وہ غیر صالح اور ناپسندیدہ عناصر کے اثر و نفوذ سے بھی محفوظ رہ سکیں اور ان کی شخصیت کی بھی بے عیب پرورش ہو سکے۔
ممکن ہے آپ کے دوست بدخواہ نہ ہوں مگر!
یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اپنی فطرت کے تقاضوں کے تحت بچھو کی طرح ڈنک ماریں اور اپنے زہر آلودہ اخلاق کو غیر محسوس انداز میں آپ کی روح میں اتار دیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
“انسان عملاََ اپنے دوست کی سیرت و روش کی پیروی کرتا ہے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو نہایت دیکھ بھال کر دوست بنانے چاہیئیں۔“
مولا علی علیہ اسلام بھی اپنے ایک کلام میں نصیحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
“شریر لوگوں سے ربط و ضبط سے پرہیز کرو کیونکہ تمہیں خبر بھی نہ ہو گی اور تمہاری طبیعت ان کی برائی قبول کر لے گی۔“
ایک تجزیہ
معاشرہ، ماحول اور دوست کس طرح ایک شخصیت پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ نفسیات کے ماہرین نے اس سلسلے میں کئی تجربے کئے ہیں۔
“1953 کے موسم بہار میں کیلی فورنیا یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات نے ایک آزمائش کا اہتمام کیا اور اس سلسلے میں انہوں نے 100 افراد کو 3 روز تک اپنے زیرِ آزمائش رکھا۔
تیسرے اور آخری روز ان کا ایک ٹیسٹ لیا گیا اور ان 100 افراد کو پچاس پچاس افراد کے دو گرو میں تقسیم کر دیا گیا۔ ایک گروہ کو گروہِ آزمائش کا نام دیا گیا اور دوسرے گروہ کو گروہِ شاہد کا نام۔
گروہِ آزمائش کو 5،5 افراد کے 10 دستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ان میں سے ہر فرد کی میز پر ایک بٹن تھا جس کے ذریعے وہ اپنے دستے سے تعلق رکھنے والے تمام لوگوں کے جواب سے آگاہ ہو سکتا تھا لیکن اس آزمائش کا راز ایک نقطے میں پنہاں تھا اور وہ یہ کہ اس بٹن کو دبانے سے اسکرین پر جو جواب آتا تھا وہ آزمائش کرنے والوں کا اپنا بنایا ہوا جواب تھا اس دستے کے افراد کی اکثریت کا نہیں۔
درحقیقت آزمائش کرنے والوں نے ہر مسئلہ کا ایک مصنوعی جواب ایجاد کر کے آزمائش ہونے والوں میں سے ہر ایک کی رائے کو فریب دیا اور یہ لوگ اس راز سے بے خبری کی بناء پر جس جواب کو اسکرین پر دیکھتے، اسے اکثریت کی رائے سمجھتے اور اکثر افراد نے اندھا دھند اسی رائے کا اظہار کیا۔
ریاضی کے ایک سوال کا غلط جواب 89 افراد نے مصنوعی اکثریت کے فریب میں آ کر بے سوچے سمجھے دیا۔“
لہٰذا رذیل اور اوباش لوگوں سے ملنا جلنا انسان کے اندر ناپاک خیالات اور پست خواہشات پیدا کرتا ہے اور طویل مدت تک ان سے تعلقات رکھے جائیں تو یہ بات یقینی ہے کہ انسان کے اخلاق بھی پست ہو جاتے ہیں اور وہ ان کی کے خراب ماحول کے رنگ میں رنگ جاتا ہے۔
ایسے لوگوں سے میل جول رکھنا طاعون کی طرح ہے جو فوراََ انسان کے بدن میں سارئیت کر جاتا ہے۔
روئی آگ کے پاس رکھی جائے تو خود بخود جل اٹھتی ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ برائی اس سے زیادہ تیزی سے انسان کی روح میں اثر کر جاتی ہے اور اس کی مثال بارود کے ایک ڈھیر کی سی ہے جو ایک شرارے سے بھڑک اٹھتا ہے اور اپنے شعلوں سے ہر چیز کو جلا کر راکھ کر دیتا ہے۔
اپنے گھر کو سیلاب کی گزر گاہ پر تعمیر مت کیجئے؟
جس شخص کو اپنی نیکو کاری پر ناز ہو اور وہ برے دوستوں سے میل جو ترک نہ کرے تو اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو اپنا گھر سیلاب کی گزر گاہ پر تعمیر کرے اور یہ سمجھے کہ سیلاب کی قوت اس کے گھر کی بنیادوں پر اثر انداز نہ ہو گی۔
وہ لڑکی جس کی سہیلیاں اچھی ہوں یا وہ لڑکے جن کے دوست نیکو کار ہوں وہ خوش نصیب ہیں کیونکہ بہت سے لوگ فقط اس وجہ سے بدبختی سے دوچار ہو جاتے ہیں کہ وہ اپنے دوستوں یا سہیلیوں کے انتخاب میں مکمل احتیاط نہیں برتتے۔
ہم فرض کر لیتے ہیں کہ آپ بہتر شریف اور متین ہیں کہ بُروں سے ملاقات آپ کی روح پر اثر نہیں ڈالتی لیکن لوگ آپ کے بارے میں کیا کہیں گے؟ کیا وہ آپ کو انہیں کے زمرے میں شمار نہیں کریں گے کہ آپ ان سے میل جول رکھتے ہیں؟
ایک قدیم عربی مثل ہے کہ
“ایک بُرا دوست لوہار کی مانند ہے اگر تمہیں اپنی آگ سے نہ بھی جلائے تب بھی اس کی بھٹی کا دھواں تمہاری آنکھوں کو تکلیف پہنچاتا ہے۔“
0 comments:
Post a Comment