خطباتِ عالیات(حصہ سوم)
(حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کے خطبات کا اردو ترجمہ ماخوذ از نہج البلاغہ)
رائیٹر :۔
الحاج سید مبارک حسن نقوی
والی بصرہ عبداللہ ابن عباس کے نام:۔
تمہیں
معلوم ہونا چاہیے کہ بصرہ وہ جگہ ہے جہاں شیطان اترتا ہے اور فتنے سر
اٹھاتے ہیں ،یہاں کے باشندوں کو حسنِ سلوک سے خوش رکھو ، اور ان کے دلوں سے
خوف کی گرہیں کھول دو،مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم بنی تمیم سے درشتی سے پیش
آتے ہو اور ا ن پر سختی روا رکھتے ہو،بنی تمیم تو وہ ہیں کہ جب بھی ان کا
کوئی ستارہ ڈوبتا ہے تو اس کی جگہ دوسرا ابھر آتا ہے،اور جاہلیت اور اسلام
میں کوئی ان سے جنگ جوئی میں بڑھ نہ سکا ،اور پھر انہیں تم سے قرابت کا
لگاؤ اور عزیز داری کا تعلق بھی ہے کہ اگر ہم اس کا خیال رکھیں گے تو اجر
پائیں گے،اور اس کا لحاظ نہ کریں گے تو گناہگار ہوں گے،دیکھو ابنِ عباس!خدا
تم پر رحم کرے( رعیت کے بارے میں) تمہارے ہاتھ اور زبان سے جو اچھائی اور
برائی ہونے والی ہو ، اس میں جلد بازی نہ کیا کرو، کیونکہ ہم دونوں اس (
ذمہ داری) میں برابر کے شریک ہیں تمہیں اس حسنِ ظن کے مطابق ثابت ہونا
چاہیے جو مجھے تمہارے ساتھ ہے، اور تمہارے بارے میں میری رائے غلط ثابت نہ
ہونا چاہیے۔والسلام۔
ایک عامل کے نام:۔
تمہارے
شہر کے زمینداروں نے تمہاری سختی ،سنگدلی ،تحقیر آمیز برتاؤ اور تشدد کے
رویہ کی شکایت کی ہے۔میں نے غور کیا تو وہ شرک کی وجہ سے اس قابل تو نظر
نہیں آتے کہ انہیں نزدیک کیا جائے اور معاہدے کی بنا پر انہیں دور پھینکا
اور دھتکارا بھی نہیں جا سکتا۔لہذا ان کے لیے نرمی کا ایسا شعار اختیار کرو
جس میں کہیں کہیں سختی کی جھلک بھی ہو،اور کبھی سختی کر لو اور کبھی نرمی
برتو اور قرب و بعد اور نزدیکی و دوری کو سمو کر بین بین راستہ اختیار
کرو۔انشاء اللہ۔
زیاد ابنِ ابیہ کے نام:۔
جب کے عبداللہ ابن عباس بصرہ،نواحی اہواز اور فارس و کرمان پر حکمران تھے اور یہ بصرہ میں ان کا قائم مقام تھا:۔میں اللہ کی سچی قسم کھاتا ہوں کہ اگر مجھے یہ پتہ چل گیا کہ تم نے مسلمانوں کے مال میں خیانت کرتے ہوئے کسی چھوٹی یا بڑی چیز میں ہیر پھیر کیا ہے تو یاد رکھو! کہ میں ایسی مار ماروں گا کہ جو تمہیں تہی دست و بوجھل پیٹھ والا اور بے آبرو کر کے چھوڑے گی۔والسلام۔
زیاد ابن ابیہ کے نام:۔
میانہ
روی اختیار کرتے ہوئے فضول خرچی سے باز آؤ ، آج کے دن کل کو بھول نہ
جاؤ،صرف ضرورت بھر کے تحت مال روک کر باقی محتاجی کے دن کے لیے آگے
بڑھاؤ،کیا تم یہ آس لگائے بیٹھے ہو کہ اللہ تمہیں عجزو انکساری کرنے والوں
کا اجر دے گا،حالانکہ تم اس کے نزدیک متکبروں میں سے ہو،اور یہ طمع رکھتے
وہ کہ وہ خیرات کرنے والوں کا ثواب تمہارے لیے قرار دے گا، حالانکہ تم عشرت
سامانیوں میں لوٹ رہے ہو اور بے کسوں اور بیواؤں کو محروم رکھا ہے ،انسان
اپنے ہی کیے کی جزا پاتا ہے اور جو آگے بھیج چکا ہے وہی آگے بڑھ کر پائے گا
۔ والسلام۔
عبداللہ ابن عباس کے نام :۔
عبداللہ
ابن عباس کہا کرتے تھے کہ جتنا فائدہ میں نے اس کلام سے حاصل کیا اتنا
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی کلام سے حاصل نہیں کیا:۔انسان کو کبھی ایسی چیز کا پا لینا خوش کرتا ہے جو اس کے ہاتھوں سے جانے والی ہو تی ہی نہیں اور کبھی ایسی چیز کا ہاتھ سے نکل جانا اسے غمگین کر دیتا ہے جو اسے حاصل ہونے والی ہوتی ہی نہیں۔یہ خوشی اور غم بے کار ہے،تمہاری خوشی صرف آخرت کی حاصل کی ہوئی چیزوں پر ہونا چاہیے۔اور اس میں کوئی چیز جاتی رہے اس پر رنج ہونا چاہیے۔اور جو چیز دنیا سے پا لو اس پر زیادہ خوش نہ ہو اور جو چیز اس سے جاتی رہے اس پر بے قرار ہو کے افسوس کرنے نہ لگوبلکہ تمہیں موت کے بعد پیش آنے والے حالات کی طرف اپنی توجہ موڑنا چاہیے۔
جب حضرت کو یہ خبر پہنچی کہ والی بصرہ عثمان ابن حنیف کو وہاں کے لوگوں نے کھانے کی دعوت دی ہے اور وہ اس میں شریک ہوئے ہیں تو انہیں تحریر فرمایا:۔
اے ابنِ حنیف! مجھے اطلاع ملی ہے کہ بصرہ کے جوانوں میں سے ایک شخص نے تمہیں کھانے پر بلایا اور تم لپک کر پہنچ گئے کہ رنگا رنگ کے عمدہ عمدہ کھانے تمہارے لیے چن چن کر لائے جا رہے تھے ، اور بڑے بڑے پیالے تمہاری جانب بڑھائے جا رہے تھے ، مجھے امید نہ تھی کہ تم ان لوگوں کی دعوت قبول کر لو گے کہ جن کے ہاں فقیر و نادار دھتکارے گئے ہوں اور دولت مند مدعو ہوں،جو لقمے چباتے ہو انہیں دیکھ لیا کرو،اور جس کے متعلق شبہ بھی ہو اسے چھوڑ دیا کرو اور جس کے پاک و پاکیزہ طریق سے حاصل ہونے کا یقین ہو اس میں سے کھاؤ۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہر مقتدی کا ایک پیشوا ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتا ہے اور جس کے نورِ علم سے کسبِ ضیاء کرتا ہے،دیکھو تمہارے امام کی حالت تو یہ ہے کہ اس نے دنیا کے سازو سامان سے دو پھٹی پرانی چادر وں اور کھانے میں سے دو روٹیوں پر قناعت کر لی ہے۔میں مانتا ہوں کہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے، لیکن اتنا تو کرو کہ پرہیز گاری ، سعی و کوشش ،پاک دامنی اور سلامت روی میں میرا ساتھ دو، خدا کی قسم میں نے تمہاری دنیا سے سونا سمیٹ کر نہیں رکھا،اور نہ اس کے مال و متاع میں سے انبار جمع کر رکھے ہیں اور نہ ان پرانے کپڑوں کے بدلے میں جو( پہنے ہوئے ہوں) اور کوئی پرانا کپڑا میں نے مہیا کیا ہے،بے شک اس آسمان کے سایہ تلے لے دے کر ایک فدک ہمارے ہاتھوں میں تھا، اس پر بھی کچھ لوگوں کے منہ سے رال ٹپکی اور دوسرے فریق نے اس کے جانے کی پرواہ نہیں کی،اور بہترین فیصلہ کرنے والا اللہ ہے، بھلامیں فدک یا فدک کے علاوہ کسی اور چیز کو لے کر کروں گا ہی کیا جبکہ نفس کی منزل قبر قرار پانے والی ہے جس کی اندھیاریوں میں اس کے نشانات مٹ جائیں گے اور اس کی خبریں ناپید ہو جائیں گی،وہ تو ایک گڑھا ہے کہ اگر اس کا پھیلاؤ بڑھا بھی دیا جائے اور گورکن کے ہاتھ اسے کشادہ بھی رکھیں جب بھی پتھر اور کنکر اس کو تنگ کر دیں گے،اور مسلسل مٹی کے ڈالے جانے سے اس کی دراڑیں بند ہو جائیں گی، میری توجہ تو صرف اس طرف ہے کہ میں تقوائے الہٰی کے ذریعے اپنے نفس کو بے قابو نہ ہونے دوں تاکہ اس دن کہ جب خوف حد سے بڑھ جائے گا، وہ مطمئن رہے اور پھسلنے کی جگہوں پر مضبوطی سے جما رہے ، اگر میں چاہتا تو صاف ستھرے شہد، عمدہ گہیوں اور ریشم کے بنے ہوئے کپڑوں کے لیے ذرائع مہیا کر سکتا تھا لیکن ایسا کہاں ہو سکتا ہے کہ خواہشیں مجھے مغلوب بنا لیں اور حرص مجھے اچھے اچھے کھانے چن لینے کی دعوت دے،جبکہ حجاز و یمامہ میں شاید ایسے لوگ ہوں جنہیں ایک روٹی کے ملنے کی بھی آس نہ ہو،اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کبھی نصیب نہ ہوا ہو،کیا میں شکم سیر ہو کر پڑا رہا کروں،درانحالیکہ میرے گرد و پیش بھوکے پیٹ اور پیاسے جگر تڑپتے ہوں،یا میں ایسا ہو جاؤںجیسا کہنے والے نے کہا ہے کہ تمہاری بیماری کیا کم ہے کہ تم پیٹ بھر کر لمبی تان لو،اور تمہارے گرد کچھ ایسے جگر ہوں جو سوکھے چمڑے کی ترس رہے ہوں،کیا میں اسی میں مگن رہوں کہ مجھے امیر المومنین کہا جاتا ہے ، مگر میں زمانے کی سختیوں میں مومنوں کا شریک و ہمدم اور زندگی کی بد مزگیوں میں ان کے لیے نمونہ نہ بنوں،میں اس لیے تو پیدا نہیں ہوا ہوں کہ اچھے اچھے کھانوں کی فکر میں لگا رہو ں اس بندھے ہوئے چوپائے کی طرح جسے اپنے چارے ہی کی فکر رہتی ہے یا اس کھلے ہوئے جانور کی طرح کہ جس کا کام منہ مارنا ہوتا ہے وہ گھاس سے پیٹ بھر لیتا ہے اور جو اس سے مقصد پیشِ نظر ہوتا ہے اس سے غافل رہتا ہے ، کیا میں بے قید و بند چھوڑ دیا گیا ہوں یا بے کار کھلے بندوں رہا کر دیا گیا ہوں کہ گمراہیوں کی رسیوں کو کھینچتا رہوں اور بھٹکنے کی جگہوں میں منہ اٹھائے پھرتا رہوں ، میں سمجھتا ہوں کہ تم میں سے کوئی کہے گا کہ جب ابن ابی طالب کی خوراک یہ ہے تو ضعف و ناتوانی نے اسے حریفوں سے بھڑنے اور دلیروں سے ٹکرانے سے بٹھا دیا ہو گا،مگر یاد رکھو جنگل کے درخت کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے ، اور تروتازہ پیڑوں کی چھال کمزور اور پتلی ہوتی ہے اور صحرائی جھاڑ کا ایندھن زیادہ بھڑکتا ہے اور دیر میں بجھتا ہے،مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہی نسبت ہے جو ایک ہی جڑ سے پھوٹنے والی دو شاخوں کو ایک دوسرے سے اور کلائی کو بازو سے ہوتی ہے، خدا کی قسم اگر تمام عرب ایکا کر کے مجھ سے بھڑنا چاہیں تو میدان چھوڑ کر پیٹھ نہ دکھاؤں گا اور موقع پاتے ہی ان کی گردن دبوچ لینے کے لیے لپک کر آگے بڑھوں گا اور کوشش کروں گا کہ اس الٹی کھوپڑی والے بے ہنگم ڈھانچے سے زمین کو پاک کر دوں ، تاکہ کھلیان کے دانوں سے کنکر نکل جائے۔
اے دنیا ! میرا پیچھا چھوڑ دے ، تیری باگ ڈور تیرے کاندھے پر ہے،میں تیرے پنجوں سے نکل چکا ہوں، تیرے پھندوں سے باہر ہو چکا ہوں، اور تیری پھسلنے والی جگہوں میں بڑھنے سے قدم روک رکھے ہیں،کہاں ہیں وہ لوگ جنہیں تو نے کھیل تفریح کی باتوں سے چکمے دئیے؟کدھر ہیں وہ جماعتیں جنہیں تو نے اپنی آرائشوں سے ورغلائے رکھا؟وہ تو قبر میں جکڑے ہوئے اور خاکِ لحد میں دبکے پڑے ہیں ، اگر تو دکھائی دینے والا مجسمہ اور سامنے آنے والا ڈھانچہ ہوتی تو بخدا میں تجھ پر اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں جاری کرتا کہ تو نے بندوں کو امیدیں دلا دلا کر بہکایا،قوموں کی قوموں کو ( ہلاکت کے) گڑھوں میں لا پھینکا اور تاجدارو ں کو تباہیوں کے حوالے کر دیا اور سختیوں کی گھاٹ پر لا اتارا جن پر اس کے بعد نہ سیراب ہوانے کے لیے اترا جائے گا اور نہ سیراب ہو کر پلٹا جائے گا،پناہ بخدا!جو تیری پھسلن پر قدم رکھے گا ، وہ ضرور پھسلے گا، جو تیری موجوں پر سوار ہو گا وہ ضرور ڈوبے گا اور جو تیرے پھندوں سے بچ کر رہے گا وہ توفیق سے ہم کنار ہو گا، تم سے دامن چھڑانے والا پرواہ نہیں کرتا، اگرچہ دنیا کی وسعتیں اس کے لیے تنگ ہو جائیں ، اس کے نزدیک تو دنیا ایک دن کے برابر ہے کہ جو ختم ہوا چاہتا ہے، مجھ سے دور ہو میں تیرے قابو میں آنے والا نہیں کہ تو مجھے ذلتوں میں جھونک دے اور نہ میں تیرے سامنے اپنی باگ ڈھیلی چھوڑنے والا ہوں کہ تو مجھے ہنکا لے جائے،میں خدا کی قسم کھاتا ہوں ، ایسی قسم جس میں اللہ کی مشیت کے علاوہ کسی چیز کا استثنا نہیں کرتا کہ میں اپنے نفس کو ایسا سدھاؤں گا کہ وہ کھانے میں سے ایک روٹی کے ملنے پر خوش ہو جائے اور اس کے ساتھ صرف نمک پر قناعت کر لے، اور اپنی آنکھوں کا سونا اس طرح خالی کر دوں گا جس طرح وہ چشمہ آب جس کا پانی تہہ نشین ہو چکا ہو ، کیا جس طرح بکریاں پیٹ بھرنے کے بعد سینہ کے بل بیٹھ جاتی ہیں اسی طرح علی بھی اپنے پاس کا کھانا کھا لے اور بس سو جائے،اس کی آنکھیں بے نور ہو جائیں اور وہ زندگی کے طویل سال گذارنے کے بعد کھلے ہوئے چوپاؤں اور چرنے والے جانوروں کی پیروی کرنے لگے۔
خوشا نصیب اس شخص کے کہ جس نے اللہ کے فرائض کو پورا کیا ، سختی اور مصیبت
میں صبر کیے پڑا رہا، روتوں کو اپنی آنکھوں کو بیدار رکھا، اور جب نیند کا
غلبہ ہوا تو ہاتھ کو تکیہ بنا کر ان لوگوں کے ساتھ فرشِ خاک پر پڑ رہا کہ
جن کی آنکھیں خوفِ حشر سے بیدار ، پہلو بچھونوں سے الگ اور ہونٹ یادِ الٰہی
میں زمزمہ سنج رہتے ہیں اور کثرت استغفار سے جن کے گناہ چھٹ گئے ہیں، یہی
اللہ کا گروہ ہے اور بے شک اللہ کا گروہ ہی کامران ہونے والا ہے۔
اے ابن حنیف اللہ سے ڈرو اور اپنی ہی روٹیوں پر قناعت کرو تاکہ جہنم کی آگ سے چھٹکارا پا سکو۔
0 comments:
Post a Comment