اس پر اسرار موٹر میں صرف چھ آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی اور یہ خاص طور پر سیر
و تفریح کے لئے بنائی گئی تھی اس کا رنگ سرخ اور سفید تھا اور یہ کار بادشاہ اور اس
کے خاندان کے لئے مخصوص تھی۔
28 جون 1914 کو آرک ڈیوک فرانزفرڈی نینڈ اور اس کی ملکہ اس کار میں سارا جیود کی سیر کے لئے نکلے۔ اس وقت پورے یورپ کی فضاء ایک ایسے بارود کی طرح تھی جو صرف پھٹنے کے لئے ایک چنگاری کا منتظر تھا۔ جب شاہی جوڑا سارا جیود کی سڑکوں پر سیر کے لئے نکلا تو ان کی کار پر کسی نا معلوم آدمی نے بم دے مارا جو کار کو چھوتا ہوا سڑک پر گرا اور ایک خوفناک دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس دھماکے سے بادشاہ کے چار محافظ زخمی ہو گئے اور بادشاہ زخمیوں کی مرہم پٹی کا حکم دے کر آگے روانہ ہو گیا۔ ایک اور بات قابلِ تشریح ہے کہ بادشاہ کا ڈرائیور جو تمام گلیوں اور سڑکوں سے بخوبی واقف تھا پہلے سے طے شدہ راستے سے ہٹ کر کار کو ایک تنگ گلی میں لے گیا۔ اس گلی میں ایک نوجوان جو کہ مسلح تھا وہ بادشاہ کو گالیاں دیتا ہوا اپنے گھر سے باہر نکلا اور اس نے ریوالور سے کار پر فائرنگ شروع کر دی اس سے پیشتر کہ حیرت زدہ محافظ قاتل پر قابو پاتے بادشاہ اور ملکہ ہلاک ہو چکے تھے۔
شاہی جوڑے کا قتل ایک ایسی چنگاڑی تھی جس سے جنگِ عظیم اول کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس انقلابِ عظیم کے پسِ پردہ وہ خونی کار جس پر بادشاہ سوار تھا ہر اس شخص کی جان لیتی رہی جو کسی نہ کسی صورت اس سے وابستہ رہا تھا۔
اس واقعہ کے ایک ہفتے بعد جنگِ عظیم پورے یورپ میں پھیل چکی تھی جنرل پوٹیورک جو پانچویں آسٹروی ڈویژن کا مشہور کمانڈر تھا سارا جیود کے گورنر ہاؤس میں آیا۔ اسے اسی موٹر میں بٹھایا گیا۔ اسے اپنے انجام کو دیکھنے کے لئے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اکیس روز بعد اسے ویلی ویو کے مقام پر بری طرح شکست ہوئی جس کی وجہ سے اسے واپس وی آنا بھیج دیا گیا وہاں وہ مفلسی اور پاگل پن کی حالت میں ایک محتاج خانے میں چل بسا۔
اس کے بعد یہ کار ایک آسٹروی کے ہاتھ لگی جو بدقسمتی سے جنرل پوٹیورک کے ڈویژن میں کیپٹن تھا۔ ایک روز یہ کار تیز رفتاری سے ایک درخت کے ساتھ ٹکرا گئی اور دو دیہاتی ہلاک ہو گئے اور کیپٹن بھی ہلاک ہو گیا۔ یاد رہے کہ یہ کار صرف نو دن کیپٹن کے زیرِ تصرف رہی۔
جنگِ عظیم کے بعد یہ کار یوگو سلواکیہ کے قبضے میں آئی جس نے نئے سرے سے کار کی مرمت کا حکم دیا۔ اس زمانے میں موٹر کاریں اتنی اہم نہیں تھیں۔ گورنر کو چار ماہ میں چار مرتبہ اس کار میں سوار ہونے کی وجہ سے حادثے کا شکار ہونا پڑا۔ آخری حادثے میں اس کا دایاں بازو ہی علیحدہ ہو گیا۔ یہ کار اتنی مشہور ہو گئی کہ کوئی شخص بھی اسے چلانے کی جرات نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ گورنر نے اس کار کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔لیکن اس کار کو ایک ڈاکٹر نے خرید لیا یہ کار چھ سال تک اس کے مصرف میں رہی اور اسے کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔ لیکن ایک صبح یہ کار سڑک پر الٹی پڑی ہوئی پائی گئی اور اس کے پہلو میں ڈاکٹر کی لاش بھی موجود تھی کار ڈاکٹر کے جسم پر سے گزری تھی۔
ڈاکٹر کی وفات کے بعد اس کی بیوی نے یہ کار ایک امیر کبیر سنار کے ہاتھ فروخت کر دی۔ یہ سنار ایک سال تک یہ کار چلاتا رہا۔ اس کار کو حادثہ تو کوئی پیش نہ آیا البتہ سنار نے خودکشی ضرور کر لی۔ اب یہ کار ایک دوسرے ڈاکٹر کے پاس پہنچی جس کے مریضوں نے اس کے پاس آنا چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر نے اس کار کا وزن کم کرایا اور اسے سوٹزرلینڈ کی ڈولا مائٹ ریس میں مقابلے کے لئے بھیج دیا جہاں اس کار نے اپنے ڈرائیور کو پتھریلی زمین پر پٹخ دیا جس سے ڈرائیور موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد یہ کار ایک کھاتے پیتے زمیندار نے خرید لی۔ جس نے اس کی از سر نو مرمت کروائی اور یہ کار بغیر حادثے کے مہینوں چلتی رہی۔ ایک صبح یہ سڑک پر رک گئی۔ کسان نے پاس سے گزرنے والے ایک کسان کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ کار کو اپنی گھوڑا گاڑی کے پیچھے باندھ کر شہر تک لے چلے۔ ابھی گھوڑا گاڑی نے بمشکل تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ کار زبردست قوت کا مظاہرہ کرتی ہوئی گھوڑا گاڑی سے ٹکرا گئی اور اسے تہہ و بالا کرتی ہوئی ایک طرف کو مڑ گئی جس سے مالک خود بھی ہلاک ہو گیا۔
بلآخر اس خونی کار کا انجام قریب آ گیا۔ یہ شکستہ کار ہرش فیلڈ نے خریدی ہرش فیلڈ ایک ورکشاپ کا مالک تھا۔ اس نے اس کی مرمت کے بعد اس پر نیلا رنگ کیا۔ پھر جب یہ کار فروخت نہ ہو سکی تو اس نے اسے استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن وہ اپنے چھ دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح کے لئے جا رہا تھا۔ اس کی کار تیز رفتاری کی حالت میں آگے نکلنے کی کوشش میں اگلی کار سے ٹکڑا گئی جس سے ہرش فیلڈ اور اس کے چھ ساتھی ہلاک ہو گئے۔
آخر کار حکومت نے اس خونی کار کو اپنے خرچے پر مرمت کر کے وی آنا کے عجائب گھر میں بھیج دیا۔ اس وقت یہ شیطانی کار سولہ آدمیوں کو ہلاک کر چکی تھی۔ علاوہ ازیں یہ جنگِ عظیم اول کا بھی باعث بنی جس میں بیس لاکھ جانیں ضائع ہوئیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں وی آنا کے اس عجائب گھر پر ایک بم آ گرا جس میں یہ کار موجود تھی۔ جس سے یہ کار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہو گئی۔ ایک خبر کے مطابق جنگ کے بعد عجائب گھر کے ملبے سے نہ اس کار کا کوئی سراغ ملا اور نہ ہی اس کے محافظ کا کوئی سراغ ملا۔
28 جون 1914 کو آرک ڈیوک فرانزفرڈی نینڈ اور اس کی ملکہ اس کار میں سارا جیود کی سیر کے لئے نکلے۔ اس وقت پورے یورپ کی فضاء ایک ایسے بارود کی طرح تھی جو صرف پھٹنے کے لئے ایک چنگاری کا منتظر تھا۔ جب شاہی جوڑا سارا جیود کی سڑکوں پر سیر کے لئے نکلا تو ان کی کار پر کسی نا معلوم آدمی نے بم دے مارا جو کار کو چھوتا ہوا سڑک پر گرا اور ایک خوفناک دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس دھماکے سے بادشاہ کے چار محافظ زخمی ہو گئے اور بادشاہ زخمیوں کی مرہم پٹی کا حکم دے کر آگے روانہ ہو گیا۔ ایک اور بات قابلِ تشریح ہے کہ بادشاہ کا ڈرائیور جو تمام گلیوں اور سڑکوں سے بخوبی واقف تھا پہلے سے طے شدہ راستے سے ہٹ کر کار کو ایک تنگ گلی میں لے گیا۔ اس گلی میں ایک نوجوان جو کہ مسلح تھا وہ بادشاہ کو گالیاں دیتا ہوا اپنے گھر سے باہر نکلا اور اس نے ریوالور سے کار پر فائرنگ شروع کر دی اس سے پیشتر کہ حیرت زدہ محافظ قاتل پر قابو پاتے بادشاہ اور ملکہ ہلاک ہو چکے تھے۔
شاہی جوڑے کا قتل ایک ایسی چنگاڑی تھی جس سے جنگِ عظیم اول کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس انقلابِ عظیم کے پسِ پردہ وہ خونی کار جس پر بادشاہ سوار تھا ہر اس شخص کی جان لیتی رہی جو کسی نہ کسی صورت اس سے وابستہ رہا تھا۔
اس واقعہ کے ایک ہفتے بعد جنگِ عظیم پورے یورپ میں پھیل چکی تھی جنرل پوٹیورک جو پانچویں آسٹروی ڈویژن کا مشہور کمانڈر تھا سارا جیود کے گورنر ہاؤس میں آیا۔ اسے اسی موٹر میں بٹھایا گیا۔ اسے اپنے انجام کو دیکھنے کے لئے زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا۔ اکیس روز بعد اسے ویلی ویو کے مقام پر بری طرح شکست ہوئی جس کی وجہ سے اسے واپس وی آنا بھیج دیا گیا وہاں وہ مفلسی اور پاگل پن کی حالت میں ایک محتاج خانے میں چل بسا۔
اس کے بعد یہ کار ایک آسٹروی کے ہاتھ لگی جو بدقسمتی سے جنرل پوٹیورک کے ڈویژن میں کیپٹن تھا۔ ایک روز یہ کار تیز رفتاری سے ایک درخت کے ساتھ ٹکرا گئی اور دو دیہاتی ہلاک ہو گئے اور کیپٹن بھی ہلاک ہو گیا۔ یاد رہے کہ یہ کار صرف نو دن کیپٹن کے زیرِ تصرف رہی۔
جنگِ عظیم کے بعد یہ کار یوگو سلواکیہ کے قبضے میں آئی جس نے نئے سرے سے کار کی مرمت کا حکم دیا۔ اس زمانے میں موٹر کاریں اتنی اہم نہیں تھیں۔ گورنر کو چار ماہ میں چار مرتبہ اس کار میں سوار ہونے کی وجہ سے حادثے کا شکار ہونا پڑا۔ آخری حادثے میں اس کا دایاں بازو ہی علیحدہ ہو گیا۔ یہ کار اتنی مشہور ہو گئی کہ کوئی شخص بھی اسے چلانے کی جرات نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ گورنر نے اس کار کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔لیکن اس کار کو ایک ڈاکٹر نے خرید لیا یہ کار چھ سال تک اس کے مصرف میں رہی اور اسے کوئی حادثہ پیش نہ آیا۔ لیکن ایک صبح یہ کار سڑک پر الٹی پڑی ہوئی پائی گئی اور اس کے پہلو میں ڈاکٹر کی لاش بھی موجود تھی کار ڈاکٹر کے جسم پر سے گزری تھی۔
ڈاکٹر کی وفات کے بعد اس کی بیوی نے یہ کار ایک امیر کبیر سنار کے ہاتھ فروخت کر دی۔ یہ سنار ایک سال تک یہ کار چلاتا رہا۔ اس کار کو حادثہ تو کوئی پیش نہ آیا البتہ سنار نے خودکشی ضرور کر لی۔ اب یہ کار ایک دوسرے ڈاکٹر کے پاس پہنچی جس کے مریضوں نے اس کے پاس آنا چھوڑ دیا۔ ڈاکٹر نے اس کار کا وزن کم کرایا اور اسے سوٹزرلینڈ کی ڈولا مائٹ ریس میں مقابلے کے لئے بھیج دیا جہاں اس کار نے اپنے ڈرائیور کو پتھریلی زمین پر پٹخ دیا جس سے ڈرائیور موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد یہ کار ایک کھاتے پیتے زمیندار نے خرید لی۔ جس نے اس کی از سر نو مرمت کروائی اور یہ کار بغیر حادثے کے مہینوں چلتی رہی۔ ایک صبح یہ سڑک پر رک گئی۔ کسان نے پاس سے گزرنے والے ایک کسان کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ کار کو اپنی گھوڑا گاڑی کے پیچھے باندھ کر شہر تک لے چلے۔ ابھی گھوڑا گاڑی نے بمشکل تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا تھا کہ کار زبردست قوت کا مظاہرہ کرتی ہوئی گھوڑا گاڑی سے ٹکرا گئی اور اسے تہہ و بالا کرتی ہوئی ایک طرف کو مڑ گئی جس سے مالک خود بھی ہلاک ہو گیا۔
بلآخر اس خونی کار کا انجام قریب آ گیا۔ یہ شکستہ کار ہرش فیلڈ نے خریدی ہرش فیلڈ ایک ورکشاپ کا مالک تھا۔ اس نے اس کی مرمت کے بعد اس پر نیلا رنگ کیا۔ پھر جب یہ کار فروخت نہ ہو سکی تو اس نے اسے استعمال میں لانے کا فیصلہ کیا۔ ایک دن وہ اپنے چھ دوستوں کے ساتھ سیر و تفریح کے لئے جا رہا تھا۔ اس کی کار تیز رفتاری کی حالت میں آگے نکلنے کی کوشش میں اگلی کار سے ٹکڑا گئی جس سے ہرش فیلڈ اور اس کے چھ ساتھی ہلاک ہو گئے۔
آخر کار حکومت نے اس خونی کار کو اپنے خرچے پر مرمت کر کے وی آنا کے عجائب گھر میں بھیج دیا۔ اس وقت یہ شیطانی کار سولہ آدمیوں کو ہلاک کر چکی تھی۔ علاوہ ازیں یہ جنگِ عظیم اول کا بھی باعث بنی جس میں بیس لاکھ جانیں ضائع ہوئیں۔ دوسری جنگِ عظیم میں وی آنا کے اس عجائب گھر پر ایک بم آ گرا جس میں یہ کار موجود تھی۔ جس سے یہ کار ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہو گئی۔ ایک خبر کے مطابق جنگ کے بعد عجائب گھر کے ملبے سے نہ اس کار کا کوئی سراغ ملا اور نہ ہی اس کے محافظ کا کوئی سراغ ملا۔
0 comments:
Post a Comment