بُرے دوست آخرت کے لئے خطرہ!
یہ بات یاد رہے کہ بُرے دوستوں یا بُری سہیلیوں سے خطرہ صرف دنیاوی زندگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس قسم کی دوستی کی وجہ سے لوگوں کو قیامت کے دن بھی شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔
جو لوگ قیامت کے دن عذابِ خداوندی میں گرفتار ہوں گے اس میں سے ایک گروہ کے بارے میں قرآن یوں ارشاد فرماتا ہے کہ:
“وہ آرزو کرتے ہیں کہ اے کاش! ہم دنیا میں فلاں غیر صالح شخص سے دوستی اور رفاقت نہ کرتے۔وہی تھا جس نے ہمیں گمراہی کے راستے پر ڈالا۔“(سورہ فرقان آیت نمبر 28،29)
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“دنیا و آخرت کی بھلائی دو چیزوں میں جمع ہوتی ہے ایک رازوں کا چھپانا اور دوسری اچھے لوگوں سے دوستی کرنا۔ اسی طرح دنیا و کی بد بختی بھی دو چیزوں میں مضمر ہے، ایک راز کا فاش کرنا اور دوسرے بُرے لوگوں کی رفاقت اختیار کرنا۔“
جو شخص بُرے لوگوں سے دوستی کرتا ہے اگرچہ ان کی فطرت اس پر اثر انداز نہ بھی ہو تب بھی اس پر ان کے طور طریقوں کا الزام آ جاتا ہے اور اگر وہ شراب خانے میں نماز بھی پڑھنے جائے تب بھی شراب خوری سے منسوب ہو جاتا ہے۔
امام صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“میرے والد بزرگوار نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹے! جو شخص بُرے لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ ان کی برائی سے محفوظ نہیں رہتا اور جو شخص بدنام جگہوں پر جاتا ہے وہ بدنام ہو جاتا ہے۔“
دوست کن کو بنائیں؟
کیونکہ ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کی صحبت اختیار کی جائے اور اس سے دوستی کی جا سکے کیونکہ دوستی کے لائق وہی ہوتا ہے جس میں یہ صفات پائی جائیں۔
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست عاقل و باشعور ہو
کیونکہ احمق و بیوقوف شخص کی دوستی بلکل بیکار ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ س سے دوستی ہو بھی جائے تو بلآخر وحشت ہونے لگتی ہے۔احمق وہ شخص ہے جو کچھ سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اور اسے اگر کچھ بتانے کی کوشش بھی کریں تو بھی اس کے پلے کچھ نہ پڑتا ہو۔
مولا علی علیہ اسلام فرماتے ہیں:
“کسی صورت بیوقوف کو اپنا دوست مت بناؤ“
2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست جو خوش اخلاق اور نیک طبیعت ہو
کیونکہبد اخلاق سے کسی قسم کی سلامتی کی توقع نہیں کی جا سکتی اور جب اس کی بد اخلاقی حرکت میں آتی ہے تو اسے کسی کے حقوق پائمال کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ:
“نیک خو فاسق کی صحبت بد خو قاری سے بہتر ہے۔“
3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست جو نیکو کار اور صالح ہو
کیونکہ جو شخص خدا کی نافرمانی اور گناہوں میں ڈوبا رہے، اس کو خدا کا خوف نہیں ہوتا اور جس میں خدا کا خوف نہ ہو اس کی دوستی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ نیک اور صالح لوگوں سے ملنا جلنا ہماری روحانی قوتوں کو بڑھاتا ہے،ہماری قوتِ ارادی کو مضبوط کرتا ہے۔
ایسے ہی دوست کے بارے میں شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ
“ایک دن حمام میں ایک خوشبودار مٹی ایک محبوب کے ہاتھ سے میرے ہاتھ میں آئی تو میں نے اس سے کہا کہ تو مُشک ہے یا عنبر کیونکہ تیری دلآویز خوشبو سے میں مست ہو رہا ہوں تو اس نے کہا میں تو ایک ناچیز مٹی تھی لیکن ایک مدت تک گلاب کے پھولوں کے ساتھ رہی،میرے ساتھی کے جمال نے مجھ میں اثر کیا تو میں خوشبو دار ہو گئی ورنہ میں تو وہی ناچیز مٹی ہوں۔“(ترجمہ اشعار)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ
“سب سے زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہے جو کریم اور صلح لوگوں سے دوستی رکھے۔“
4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست دنیا کا حریص اور لالچی نہ ہو
کیونکہ ایک دوست کی طبیعت دوسرے دوست کی طبیعت میں سے کچھ ایسی چیزیں چُرا لیتی ہے کہ خود اس کو بھی خبر نہ ہو گی کہ مجھ میں دوست کی کون کون سی برائیاں آ گئی ہیں۔ لٰہذا اگر دنیا کے حریص سے دوستی ہو گی تو خود دوسرے دوست میں بھی دنیا کی حرص پیدا ہو جائے گی اور اگر کسی متقی و دیندار سے دوستی ہو گی تو اس سے خود زہد و تقویٰ دوسرے میں پیدا ہو گا۔اسی وجہ سے طالبینِ دنیا کی صحبت مکروہ ہے اور راغبینِ آخرت کی دوستی پسندیدہ ہے۔
مولا علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“دنیا پرست لوگوں سے دوستی نہ کرو اگر تمہارے مال و دولت میں کمی واقع ہو گی تو وہ تمہیں حقارت سے دیکھیں گے اور اگر اس میں فراوانی ہو گی تو وہ رشک اور حسد میں مبتلا ہو جائیں گے۔“
5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست احمق، کنجوس، بزدل اور جھوٹا نہ ہو
امام محمد باقر علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“چار لوگوں سے میل جول نہ رکھو اور نہ ہی ان سے رشہ داری قائم کرو۔ احمق سے، کنجوس سے،بزدل سے اور جھوٹے سے کیونکہ
احمق۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہو گا تب بھی ناسمجھی میں نقصان پہنچا دے گا۔
کنجوس۔۔۔۔۔۔ تم سے لے گا تو سہی لیکن دے گا کچھ نہیں۔
بُزدل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معمولی مشکل کے وقت نہ صرف تمہیں بکہ اپنے والدین کو بھی چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو گا۔
جھوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر سچ بھی بولے گا تب بھی اس کی بات پر اعتبار نہیں کیا جا سکے گا۔
6۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست فاسق و فاجر نہ ہو
امام جعفرِ صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“فاسق سے دوستی سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ وہ ایک لقمہ بلکہ اس سے بھی کمتر کی خاطر تجھے فوخت کرنے سے نہ چُوکے گا۔“
لوگوں نے پوچھا۔ مولا “لقمہ سے کمتر“ کا کیا مطلب ہے؟ تو فرمایا کہ محض اس کی طمع کے لئے (یعنی لقمہ حاضر نہ ہو محض امید ہو کہ شاید مل جائے)
7۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست خوشامدی اور چاپلوسی نہ ہو
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“خوشامدی اور چاپلوس کو اپنا دوست نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنے ناپسندیدہ اعمال کو اچھا بنا کر پیش کرے گا اور اس کی خواہش ہو گی کہ تمہارا کردار بھی ویسا ہی ہو جائے۔“
8۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست ایسا نہ ہو جو آپ کی لغزشوں کو یاد رکھے اور خوبیاں بھول جائے
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“ہرگز ایسے شخص کی دوستی اختیار نہ کرو جو تمہاری لغزشوں کو یاد رکھے اور تمہاری خوبیاں بھول جائے۔“
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“وہ دوست جو کسبِ حلال اور اچھے اخلاق کے حصول میں تمہارا مددگار نہ ہو۔اگر سمجھو تو اس کی دوستی تمہارے لئے وبال ہے۔“
10۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست تلون مزاج اور دھوکا باز نہ ہو
امیرالمومنین علیہ اسلام ارشاد فرماتے ہیں کہ
“تلون مزاج اور دھوکہ باز لوگوں کی دوستی میں بھلائی نہیں کیونکہ وہ جس رُخ کی ہوا چلے اسی رُخ کو ہو لیتے ہیں۔ جب تمہیں ان کی مدد کی ضرورت نہ ہو تو وہ بڑے سخی اور فیاض ہوتے ہیں لیکن اگر تم کسی دن ان کے محتاج ہو جاؤ تو وہ بخیل اور سخت گیر ہو جاتے ہیں۔“
11۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست خائن، ظالم اور چغلخور نہ ہو
امام صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“تین قسم کے لوگوں سے یعنی خائن، ظالم اور چغلخور کی دوستی اور رفاقت سے اجتناب کرو کیونکہ جو شخص تمہارے فائدے کی خاطر دوسروں کو دھوکہ دیتا ہے وہ ایک دن تمہیں بھی دھوکہ دے گا اور جو شخص تمہاری خاطر دوسروں پر ظلم کرے وہ ایک دن تم پر بھی ظلم کرے گا اور جو شخص دوسوں کی چُغلی تمہارے پاس کھائے وہ جلد ہی تمہاری چُغلی دوسروں کے پاس بھی کھائے گا۔“
یہ بات یاد رہے کہ بُرے دوستوں یا بُری سہیلیوں سے خطرہ صرف دنیاوی زندگی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس قسم کی دوستی کی وجہ سے لوگوں کو قیامت کے دن بھی شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔
جو لوگ قیامت کے دن عذابِ خداوندی میں گرفتار ہوں گے اس میں سے ایک گروہ کے بارے میں قرآن یوں ارشاد فرماتا ہے کہ:
“وہ آرزو کرتے ہیں کہ اے کاش! ہم دنیا میں فلاں غیر صالح شخص سے دوستی اور رفاقت نہ کرتے۔وہی تھا جس نے ہمیں گمراہی کے راستے پر ڈالا۔“(سورہ فرقان آیت نمبر 28،29)
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“دنیا و آخرت کی بھلائی دو چیزوں میں جمع ہوتی ہے ایک رازوں کا چھپانا اور دوسری اچھے لوگوں سے دوستی کرنا۔ اسی طرح دنیا و کی بد بختی بھی دو چیزوں میں مضمر ہے، ایک راز کا فاش کرنا اور دوسرے بُرے لوگوں کی رفاقت اختیار کرنا۔“
جو شخص بُرے لوگوں سے دوستی کرتا ہے اگرچہ ان کی فطرت اس پر اثر انداز نہ بھی ہو تب بھی اس پر ان کے طور طریقوں کا الزام آ جاتا ہے اور اگر وہ شراب خانے میں نماز بھی پڑھنے جائے تب بھی شراب خوری سے منسوب ہو جاتا ہے۔
امام صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“میرے والد بزرگوار نے مجھ سے فرمایا کہ بیٹے! جو شخص بُرے لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے وہ ان کی برائی سے محفوظ نہیں رہتا اور جو شخص بدنام جگہوں پر جاتا ہے وہ بدنام ہو جاتا ہے۔“
دوست کن کو بنائیں؟
کیونکہ ہر شخص اس قابل نہیں ہوتا کہ اس کی صحبت اختیار کی جائے اور اس سے دوستی کی جا سکے کیونکہ دوستی کے لائق وہی ہوتا ہے جس میں یہ صفات پائی جائیں۔
1۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست عاقل و باشعور ہو
کیونکہ احمق و بیوقوف شخص کی دوستی بلکل بیکار ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ س سے دوستی ہو بھی جائے تو بلآخر وحشت ہونے لگتی ہے۔احمق وہ شخص ہے جو کچھ سمجھنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو اور اسے اگر کچھ بتانے کی کوشش بھی کریں تو بھی اس کے پلے کچھ نہ پڑتا ہو۔
مولا علی علیہ اسلام فرماتے ہیں:
“کسی صورت بیوقوف کو اپنا دوست مت بناؤ“
2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست جو خوش اخلاق اور نیک طبیعت ہو
کیونکہبد اخلاق سے کسی قسم کی سلامتی کی توقع نہیں کی جا سکتی اور جب اس کی بد اخلاقی حرکت میں آتی ہے تو اسے کسی کے حقوق پائمال کرنے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ:
“نیک خو فاسق کی صحبت بد خو قاری سے بہتر ہے۔“
3۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست جو نیکو کار اور صالح ہو
کیونکہ جو شخص خدا کی نافرمانی اور گناہوں میں ڈوبا رہے، اس کو خدا کا خوف نہیں ہوتا اور جس میں خدا کا خوف نہ ہو اس کی دوستی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ نیک اور صالح لوگوں سے ملنا جلنا ہماری روحانی قوتوں کو بڑھاتا ہے،ہماری قوتِ ارادی کو مضبوط کرتا ہے۔
ایسے ہی دوست کے بارے میں شیخ سعدی فرماتے ہیں کہ
“ایک دن حمام میں ایک خوشبودار مٹی ایک محبوب کے ہاتھ سے میرے ہاتھ میں آئی تو میں نے اس سے کہا کہ تو مُشک ہے یا عنبر کیونکہ تیری دلآویز خوشبو سے میں مست ہو رہا ہوں تو اس نے کہا میں تو ایک ناچیز مٹی تھی لیکن ایک مدت تک گلاب کے پھولوں کے ساتھ رہی،میرے ساتھی کے جمال نے مجھ میں اثر کیا تو میں خوشبو دار ہو گئی ورنہ میں تو وہی ناچیز مٹی ہوں۔“(ترجمہ اشعار)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ
“سب سے زیادہ خوش نصیب وہ شخص ہے جو کریم اور صلح لوگوں سے دوستی رکھے۔“
4۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست دنیا کا حریص اور لالچی نہ ہو
کیونکہ ایک دوست کی طبیعت دوسرے دوست کی طبیعت میں سے کچھ ایسی چیزیں چُرا لیتی ہے کہ خود اس کو بھی خبر نہ ہو گی کہ مجھ میں دوست کی کون کون سی برائیاں آ گئی ہیں۔ لٰہذا اگر دنیا کے حریص سے دوستی ہو گی تو خود دوسرے دوست میں بھی دنیا کی حرص پیدا ہو جائے گی اور اگر کسی متقی و دیندار سے دوستی ہو گی تو اس سے خود زہد و تقویٰ دوسرے میں پیدا ہو گا۔اسی وجہ سے طالبینِ دنیا کی صحبت مکروہ ہے اور راغبینِ آخرت کی دوستی پسندیدہ ہے۔
مولا علی علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“دنیا پرست لوگوں سے دوستی نہ کرو اگر تمہارے مال و دولت میں کمی واقع ہو گی تو وہ تمہیں حقارت سے دیکھیں گے اور اگر اس میں فراوانی ہو گی تو وہ رشک اور حسد میں مبتلا ہو جائیں گے۔“
5۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست احمق، کنجوس، بزدل اور جھوٹا نہ ہو
امام محمد باقر علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“چار لوگوں سے میل جول نہ رکھو اور نہ ہی ان سے رشہ داری قائم کرو۔ احمق سے، کنجوس سے،بزدل سے اور جھوٹے سے کیونکہ
احمق۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کو فائدہ پہنچانا چاہتا ہو گا تب بھی ناسمجھی میں نقصان پہنچا دے گا۔
کنجوس۔۔۔۔۔۔ تم سے لے گا تو سہی لیکن دے گا کچھ نہیں۔
بُزدل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معمولی مشکل کے وقت نہ صرف تمہیں بکہ اپنے والدین کو بھی چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو گا۔
جھوٹا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر سچ بھی بولے گا تب بھی اس کی بات پر اعتبار نہیں کیا جا سکے گا۔
6۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست فاسق و فاجر نہ ہو
امام جعفرِ صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“فاسق سے دوستی سے ہمیشہ پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ وہ ایک لقمہ بلکہ اس سے بھی کمتر کی خاطر تجھے فوخت کرنے سے نہ چُوکے گا۔“
لوگوں نے پوچھا۔ مولا “لقمہ سے کمتر“ کا کیا مطلب ہے؟ تو فرمایا کہ محض اس کی طمع کے لئے (یعنی لقمہ حاضر نہ ہو محض امید ہو کہ شاید مل جائے)
7۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست خوشامدی اور چاپلوسی نہ ہو
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“خوشامدی اور چاپلوس کو اپنا دوست نہ بناؤ کیونکہ وہ اپنے ناپسندیدہ اعمال کو اچھا بنا کر پیش کرے گا اور اس کی خواہش ہو گی کہ تمہارا کردار بھی ویسا ہی ہو جائے۔“
8۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست ایسا نہ ہو جو آپ کی لغزشوں کو یاد رکھے اور خوبیاں بھول جائے
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“ہرگز ایسے شخص کی دوستی اختیار نہ کرو جو تمہاری لغزشوں کو یاد رکھے اور تمہاری خوبیاں بھول جائے۔“
مولائے کائنات علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“وہ دوست جو کسبِ حلال اور اچھے اخلاق کے حصول میں تمہارا مددگار نہ ہو۔اگر سمجھو تو اس کی دوستی تمہارے لئے وبال ہے۔“
10۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست تلون مزاج اور دھوکا باز نہ ہو
امیرالمومنین علیہ اسلام ارشاد فرماتے ہیں کہ
“تلون مزاج اور دھوکہ باز لوگوں کی دوستی میں بھلائی نہیں کیونکہ وہ جس رُخ کی ہوا چلے اسی رُخ کو ہو لیتے ہیں۔ جب تمہیں ان کی مدد کی ضرورت نہ ہو تو وہ بڑے سخی اور فیاض ہوتے ہیں لیکن اگر تم کسی دن ان کے محتاج ہو جاؤ تو وہ بخیل اور سخت گیر ہو جاتے ہیں۔“
11۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوست خائن، ظالم اور چغلخور نہ ہو
امام صادق علیہ اسلام فرماتے ہیں کہ
“تین قسم کے لوگوں سے یعنی خائن، ظالم اور چغلخور کی دوستی اور رفاقت سے اجتناب کرو کیونکہ جو شخص تمہارے فائدے کی خاطر دوسروں کو دھوکہ دیتا ہے وہ ایک دن تمہیں بھی دھوکہ دے گا اور جو شخص تمہاری خاطر دوسروں پر ظلم کرے وہ ایک دن تم پر بھی ظلم کرے گا اور جو شخص دوسوں کی چُغلی تمہارے پاس کھائے وہ جلد ہی تمہاری چُغلی دوسروں کے پاس بھی کھائے گا۔“
0 comments:
Post a Comment