کوئی سمھے مجھے اچھا
یہ خواہش تنگ کرتی ہے
تو میں اکثر بظاہر بھول کر تاریک ماضی کو
نکل پڑتا ہوں چہرے پر سجا کر بے نیازی کو
لٹاتا ہوں میں ہر اک سمت خوشبو اپنی باتوں سے
سیاہی دور کرتا ہوں کہیں تاریک راتوں سے
مگر اس خول سے باہر میں آجاتا ہوں کچھ ایسے
گھٹا چھٹ کر نظر آتا ہے نیلا آسماں جیسے
تو وہ بھی دیکھ لیتا ہے
فقط جس کی نگاہوں کے لیے خود کو سنوارا تھا
وہی،
جس کے لیے میں نے پرایا روپ دھارا تھا
اسی لمحے میں اپنے خول میں واپس سمٹتا ہوں
نجانے کیسا لگتا ہوں!
پھر اپنے خول میں رہ کر
اسی کی راہ تکتا ہوں
کہ شاید پھر مجھے وہ دیکھ لے مانوس نظروں سے
میں ظاہر یہ کروں، گویا
میرا جو روپ بدلا تھا
وہ اک ساعت کا دھوکہ تھا
میں جب تنہائی میں اس دو رخی پر غور کرتا ہوں
اذیت سے گزرتا ہوں
کہ دنیا تو منافق ہے
مگر دنیا سے کیا شکوہ
کہ میں خود بھی تو دنیا ہوں!
(فیصل عظیم)
یہ خواہش تنگ کرتی ہے
تو میں اکثر بظاہر بھول کر تاریک ماضی کو
نکل پڑتا ہوں چہرے پر سجا کر بے نیازی کو
لٹاتا ہوں میں ہر اک سمت خوشبو اپنی باتوں سے
سیاہی دور کرتا ہوں کہیں تاریک راتوں سے
مگر اس خول سے باہر میں آجاتا ہوں کچھ ایسے
گھٹا چھٹ کر نظر آتا ہے نیلا آسماں جیسے
تو وہ بھی دیکھ لیتا ہے
فقط جس کی نگاہوں کے لیے خود کو سنوارا تھا
وہی،
جس کے لیے میں نے پرایا روپ دھارا تھا
اسی لمحے میں اپنے خول میں واپس سمٹتا ہوں
نجانے کیسا لگتا ہوں!
پھر اپنے خول میں رہ کر
اسی کی راہ تکتا ہوں
کہ شاید پھر مجھے وہ دیکھ لے مانوس نظروں سے
میں ظاہر یہ کروں، گویا
میرا جو روپ بدلا تھا
وہ اک ساعت کا دھوکہ تھا
میں جب تنہائی میں اس دو رخی پر غور کرتا ہوں
اذیت سے گزرتا ہوں
کہ دنیا تو منافق ہے
مگر دنیا سے کیا شکوہ
کہ میں خود بھی تو دنیا ہوں!
(فیصل عظیم)
0 comments:
Post a Comment