اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کا کوئی بھی خطہ ہو،ہر جگہ،ہر زمانے میں سچ اور جھوٹ،اچھائی اور برائی،رات اور دن،اندھیرے اور اجالے یعنی حق اور باطل کی جنگ کسی نہ کسی رنگ،کسی نہ کسی انداز اور کسی نہ کسی حال میں جاری رہی ہے۔اور ان سب جنگوں میں احسن ترین روپ اس جنگ کا ہے جو اللہ کے نام پر،اللہ کے لئے اللہ کے راستے میں، اللہ کے حکم سے لڑی جاتی رہی،لڑی جاتی ہے اور لڑی جاتی رہے گی۔
پاکستان اللہ کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والا وہ عظیم ملک ہے جس کے اندر بسنے والے کتنے بھی نا سمجھ،کتنے بھی نافرمان،کتنے بھی بُرے ہوں،جب بات اللہ اور اس کے رسول مولائے کائنات،باعثِ وجود و عدم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آ جائے تو یہ نکمے اور اچھے،بُرے اور بھلے،فوجی اور عوام سب کے سب جان ہتھیلیوں پر لے کر قربان ہونے کے لئے میدانِ عمل میں نکل آتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ پاک فوج کے جوانوں نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیے کہ جن کی مثال شاید آنے والا وقت بھی فراہم نہ کر سکے۔ہاں ان بے مثال کارناموں کی ریت روایت کو آگے بڑھانے کا کام پاک فوج ضرور فرض جان کر کرتی رہے گی انشاء اللہ۔
عرصہ 45 سال سے ہر سال ملک بھر میں“یومِ دفاع منایا جاتا ہے اور قوم احسان مندی اور شکر گزاری کے ساتھ اپنے شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔جنہوں نے ستمبر 1965 کو کڑی آزمائش میں بڑی دلیری اور جوانمردی سے وطن اور قوم کی حفاظت کی اور پاکستان کو سربلندی بخشی۔انہوں نے اپنی جرات و مہارت سے اپنے سے کئی گنا قوی بھارت کو نیچا دکھا کر دنیا بھر سے اپنا لوہا منوا لیا۔
پاکستان کے ہر فرد نے اس قومی معرکے میں اپنے فرض کو پہچانا اور ان کی ادائیگی کا حق ادا کر دیا۔آزاد اور حق پسند قوم کے عوام و خواص اور ادیبوں اور شاعروں کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں آنے والی نسلیں ان کی مثال اور خدمات سے ہمیشہ سبق لیتی رہیں گی۔
اس موقع پہ ہمیں خاص طور پر ان بلند مقاصد کو یاد رکھنا چاہیے جس کی خاطر وطن کے بے شمار فرزندوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ ان کی شہادت کی حرمت کو ہم اسی طرح قائم رکھ سکتے ہیں کہ خود بھی انہی قدروں کی حفاظت کریں اور انہی بلند مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں جن کے لئے انہوں نے اپنی جانیں نثار کیں۔
آپ واقف ہیں کہ دوسری جنگِ عظیم کے نتائج سے دنیا مٹاثر ہوئی۔ ان نتائج کا سب سے بڑا اثر یہ مرتب ہوا کہ دنیا کے پچاس کروڑ انسانوں کو نو آبادیاتی نظام اور غلامی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں بڑی مدد ملی۔ پاکستان،ہندوستان،انڈونیشیا،برما اور لنکا بیرونی حکومت کی غلامی سے آزاد ہوئے اور اپنی اپنی خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔آئیے دیکھیں کہ اس 17 دن کی جنگ سے ہمارے لئے کیا نتائج برآمد ہوئے اور خود ہم نے ان سے کیا سبق سیکھا؟
پہلی بات جو ہمیں یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ آج کل کی لڑائی میں سپاہی قوم سے الگ کوئی فرد نہیں ہوتا۔پوری قوم کو جنگ لڑنا پڑتی ہے۔گویا ساری قوم ہی سپاہی ہوتی ہے۔لڑنے والے سپاہی کو تو صرف تلوار کی دھار سمجھنا چاہیے۔تلوار اصل میں قوم ہوتی ہے۔اگر پوری قوم تلوار یعنی اس کے لوگ لوگ اس کا پھل اور اس کا قبضہ،سب کے سب فولاد کی طرح مضبوط نہ ہوں تو اکیلی دھار کیا کر سکتی ہے؟چاہے وہ کیسی ہی تیز کیوں نہ ہو! اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اگر تلوار بھی مضبوط ہو اور اس کی دھار بھی تیز ہو تب بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس سے کام لینے والے بازوؤں میں قوت اور توانائی کے ساتھ ساتھ بیلنس یعنی توازن نہ ہو۔کیونکہ اگر یہ سب باتیں نہ ہوں تو تلوار اپنا کام نہیں کر سکتی۔ہماری تلوار کی دھار کیسی تھی؟ یعنی ہمارے لڑنے والے سپاہیوں نے کیسا کام کیا؟ہم سب اس سے اچھی طرح واقف ہیں اور ساری دنیا جانتی ہے۔دشمن ہم سے کئی گنا بڑا تھا لیکن اللہ تعالٰی کے فضل اور رحمت سے ہمارے سپاہیوں نے ایسے ایسے کارنامے انجام دئیے کہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔
پوری تلوار کس فولاد کی بنی ہوئی تھی؟یہ بھی پوری قوم اچھی طرح جانتی ہے اور ساری دنیا جانتی ہے۔اس کا بیلنس یعنی توازن کس قوت نے قائم رکھا؟یہ بھی سب پر عیاں ہو چکا کہ یہ قوم کا جذبہ ایمانی تھا۔یعنی اسلام پر کُلی اعتقاد اور اللہ کی مدد پر پورا بھروسا اور ہماری راہنمائی کرنے والے قائدِ اعظم محمد علی جناح کا سکھایا ہوا وہ سبق تھا جس پر ہمارے وطن اور ہماری قومیت کا دارومدار ہے۔یعنی اتحاد،ایمان و تنظیم اور یقینِ محکم۔دوسرا سبق جو ہم نے عملی طور پر سیکھا وہ یہ ہے کہ لڑائی بھی جدید جنگوں کی طرح مکمل اور بھرپور لڑائی تھی جو صرف سرحدوں پر لڑنے والے سپاہیوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ ملک کا ہر فرد اور ادارہ اس میں شریک ہوتے ہیں اور زیادہ تر خطرہ شہریوں کو ہوتا ہے جن کے پاس اپنے بچاؤ کے لئے کوئی ہتھیار بھی نہیں ہوتا۔اس کے برخلاف وہ دشمن کے اس زبردست ہتھیار کی زد میں ہوتے ہیں جو پچھلی لڑائیوں میں نہایت زود اثر،قوی اور دیر پا ثابت ہو چکا ہے۔اس ہتھیار کو “پروپیگنڈہ“ یا فوجی اصطلاح میں SPY WAR کہتے ہیں۔یعنی ذہنی یا نفسیاتی لڑائی۔یہ ہتھیار اس قدر زبردست ہوتا ہے کہ لڑنے والی فوجوں کے سر پر سے گزر کر شہریوں پر حملہ کرتا ہے اور اس کا دفاع بھی آسانی سے ممکن نہیں۔اس کا سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لڑنے والی قوم کے باہمی اتحاد اور اتفاق میں ہر طرح سے رخنے ڈالے جائیں یا انہیں نفسیاتی طور پر اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ لڑائی جاری رکھنے کے لائق نہ رہ سکیں۔
جدید دور میں لڑائی کا پورا تخیل اور اس کا پورا فن بلکل بدل چکا ہے۔جنگ اب تلواروں یا توپ و تفنگ کی جنگ نہیں رہی بلکہ سر تا سر دماغی جنگ بن چکی ہے اور اس کا مقصد لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کر کے ان پر قابو حاصل کرنا ہے۔گویا جدید لڑائی خیال و فکر کی لڑائی بن چکی ہے۔اس کے نتائج اور اثرات جنگ کے بعد نمودار ہوتے ہیں اور عرصے تک قائم رہتے ہیں۔
ستمبر 1965 کی جنگ کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟اس موضوع پر ایک تجویز حکومت کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں خاص طور پر حکومت کی توجہ اس بات کی طرف دلائی گئی تھی کہ ہم کو اس جنگ کے معاشرتی اور سیاسی اثرات پر غور کرنا چاہیے کیونکہ اس جنگ نے سب سے زیادہ ہماری قوم اور ملک کے ان ہی پہلوؤں کو متاثر کیا ہے۔مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس رپورٹ پر اس وقت کی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ جیسا ہونا چاہیے تھا اور جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہی سب کچھ ہوا یعنی پوری قوم نے فتنہ و فساد کے وہ تکلیف دہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے جو ملک کے گوشے گوشے میں مسلسل برپا ہوتے رہے۔
اس افراتفری کے مختلف اسباب بیان کیے جا سکتے ہیں لیکن اگر مجھ سے دریافت کریں تو میں عرض کروں گا کہ اس کی ذمہ داری ہم سب پر یکساں عائد ہوتی ہے اور اس کا واحد سبب یہ ہے کہ ہم سب اپنے قومی نظرئیے اور اس بنیاد سے جس پر نظریہ قائم ہے،مسلسل غفلت برت رہے ہیں اور ان مقاصد سے دور ہوتے جا رہے ہیں جن کی خاطر پاکستان وجود میں آیا تھا۔
یہ واقعہ ہے کہ میں آج بھی جہاں کہیں جاتا ہوں، مجھ سے قوم کے جوان اکثر یہی سوال کرتے ہیں کہ نظریہ پاکستان سے دراصل کیا مراد ہے؟غور فرمائیے کہ قیام کے 63 سال گزر جانے کے بعد پاکستان کے بارے میں آج بھی یہ سوال کیا جا رہا ہے۔
کسی قوم کی اصل قوت کا اندازہ محض اس معیار سے نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے مادی طور پر کتنی ترقی کی ہے۔قوموں کی برادری میں سرفرازی اس وقت حاصل ہو سکتی ہے جب ہمیں اپنے وطن میں بھی عزت حاصل ہو اور اس کے لئے کسی نہ کسی نصب العین کا ہونا ضروری ہے۔کوئی قوم بغیر کسی نصب العین کے زندہ نہیں رہ سکتی۔ہمارے سامنے بھی ہمارا خاص نصب العین موجود ہے اس کی بناء پر ہماری قومیت،ہمارا اتحاد اور ہماری وحدت قائم ہے۔اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لئے پاکستان وجود میں آیا۔اس کی خاطر قوم کے دلیر فرزندوں نے اپنی جانوں کی بازی لگائی تھی۔
ہمارا نصب العین یہ ہے کہ ہم پاکستان کو قمری دور میں اسلام کی سادی،سچی اور صاف ستھری طرزِ زندگی کا مثالی نمونہ بنا دیں۔
اپنے نصب العین کے حاصل کرنے میں ہمیں اب تک جو ناکامی ہوئی ہے میری ناچیز رائے میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بھول گئے کہ “ انسان صرف پیٹ کا بندہ نہیں ہے۔“ اس کا ایک دماغ بھی ہے، ایک دل بھی ہے،ایک روح بھی ہے اور جب تک ان سب میں توازن نہ ہو گا،اسے نہ وہ قناعت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ وہ خوشحالی اور اطمینان نصیب ہو سکتا ہے جو ہر قوم کا نصب العین ہونا چاہیے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے ملک میں مادی ترقی کے لئے بہت زیادہ کوششیں صرف کی گئیں،مگر دماغی،اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے کیا کیا گیا؟
آپ حضرات جانتے ہیں کہ ایک معمولی مشین کو بھی درست کرنے کے لئے اس کے مرکزی کنٹرول کو سمجھنا پڑتا ہے۔انسانوں کا مرکزی کنٹرول پیٹ میں نہیں بلکہ ان کے قلب و ذہن میں واقع ہے۔سب سے پہلے اس کی طرف توجہ دینی چاہیے تھی،لیکن افسوس اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کیا گیا۔
میں یہ بات واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم جس قدر اپنے قومی نظریے سے،جس کی بنیاد اسلام پر قائم ہے،دور ہوتے جائیں گے،ہمارا قومی اتحاد بھی اتنا ہی کمزور ہوتا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی سالمیت بھی خدانخواستہ خطرے میں پڑتی جائے گی۔
میں اسلام کوئی لیکچر یا واعظ دینے کی جرات نہیں کر سکتا اور نہ کوئی فتویٰ دے سکتا ہوں کہ اسلام یہ ہے اور وہ نہیں ہے۔یہ تو عالموں فاضلوں کا کام ہے کہ وہ اس موضوع پر مباحثے،سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کریں۔میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اسلام صرف مذہب ہی نہیں بلکہ ایک طریقہ زندگی ہے۔ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک پیش آنے والی ہر حالت اور ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
ہماری دنیاوی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں اسلام مکمل اور واضح ہدایتیں دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے ان ہدایتوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے عملی تفسیر اور مثالوں سے ہماری راہنمائی بھی کرتا ہے۔
اسلامی معاشرے میں اخلاق اور کردار کو سب سے افضل درجہ دیا گیا ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ“میں اعلٰی اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔اللہ تعالٰی کے نزدیک بھی وہی مسلمان سب سے اچھا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔“
اسلام میں والدین کے حقوق،اولاد کے حقوق،ہمسایوں کے حقوق،رشتہ داروں کے حقوق،میاں بیوی کے حقوق اور فرائض،غریبوں،مسکینوں،محتاجوں کی دیکھ بھال،شریفوں کی عزت،بڑوں کا ادب،چھوٹوں کا لحاظ،برابر والوں سے میل مروت،اہلِ علم،اہلِ فن کی عزت،کاروبار میں دیانت،ضعیفوں ،بیماروں کی خدمت،غرض اسلام ہمیں ہر طرح کی نیکی کی تعلیم دیتا ہے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔
اسلامی معاشرے میں فرد کے حقوق و فرائض بھی مقرر ہیں جس سے سوسائٹی میں توازن قائم رہتا ہے۔نہ کسی شخص کو اتنی آزادی ہے کہ وہ دوسروں کا حق چھین لے،نہ ایسی بندش ہے کہ وہ ترقی کے جائز مواقع سے بھی محروم رہے،نہ امیر،غریب کو حقارت کی نظر سے دیکھ سکتا ہے۔غریب امیر سب مسلمان ایک برادری کی طرح آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے کا سہارا بن کر یکساں طور پر خوشحال رہ سکتے ہیں کیونکہ اللہ کے نزدیک سب برابر ہیں۔
اسلام میں سب کے لئے محبت ہے،مساوات ہے،عدل ہے،غرض کہ زندگی میں ہر ایک کے لئے جائز مقام ہے اور مرنے کے بعد ہر ایک کے لئے اپنی اپنی قبر ہے،وہ بھی سب کی یکساں ہوتی ہے۔اسلام میں بہت زور معاشرے کت صحیح اصولوں پر دیا گیا ہے۔حلال روزی کمانے اور اسے جائز طریقے سے خرچ کرنے کے واضح احکامات ہیں۔نہ تجارت میں بے ایمانی اور ملاوٹ کی گنجائش ہے،نہ رشوت ستانی کی کوئی جگہ ہے اور نہ دھوکہ دہی کی اجازت۔
اسلام میں وراثت کے قانون ایسے زبردست ہیں کہ ایک نسل سے دوسری نسل تک جائیداد اور دولت صحیح وارثوں کو پہنچانے کی سخت تاکید ہے جس کی وجہ سے دولت کبھی چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہو سکتی۔اسی طرح اسلام نے زکٰوۃ کا نظام ایسا عمدہ اور منظم رکھا ہے کہ اس پر عمل کرنے سے پوری سوسائٹی کے لئے سوشل انشورنس سکیم مرتب ہو جاتی ہے جس سے غریب،مسکین،یتیم،اپاہج،ضعیف اور حاجت مند سب مالداروں کی ذمہ داری بن جاتے ہیں۔اس طرح سوسائٹی میں توازن برقرار رہتا ہے۔
یہ موٹی موٹی باتیں ہیں جو میں نے کسی خاص خیال یا کسی سوچے سمجھے ہوئے مقصد سے عرض نہیں کیں،بلکہ سادگی اور سچائی کے ساتھ جو کچھ میری سمجھ میں آیا پیش کر دیا۔میرے نزدیک اسلام اور اسلامی سوسائٹی کا یہ تصور ہے۔
میرے خیال میں تو کسی کو اصول اور روح اسلام سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اسلام میں کسی قسم کی مذہبی ٹھیکیداری نہیں ہے۔ اسلام سب کے لئے یکساں اور اللہ تعالٰی کی کتاب یعنی قرآن پاک ہر ایک کے لئے کھُلی ہوئی ہے اور سب کو یکساں غور کرنے اور عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
اسلام کسی دنیاوی رتبے یا درجے کو تسلیم نہیں کرتا،نہ کسی خاص لباس اور وضع قطع پر زور دیتا ہے۔اس میں ظاہری صورت اور کوشش وغیرہ کو مطلق اہمیت نہیں دی گئی۔جس بات پر زور دیا گیا ہے وہ قلب و نظر کی پاکیزگی،اخلاق و کردار کی درستی اور ذہنی شرافت ہے۔
ایک بات جو میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں،یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے اسلام کو اتنی عظمت بخش دی ہے کہ مسلمانوں پر کسی نا اہل کا حکومت کرنا بہت ہی مشکل کام بن گیا ہے۔ہماری ساری تاریخ اس کی شاہد ہے کہ مسلمانوں نے صرف ایسی شخصیتوں کی ہدایت قبول کی ہے جن کا اپنا طریقِ زندگی عوام کے مطابق تھا۔دوسروں کو تلقین کرتے تھے خود بھی اسی پر عمل کرتے تھے اور جن کو عوام اخلاق اور کردار کے لحاظ سے اپنے سے بہتر سمجھتے تھے۔
میں مسلمانوں پر حکومت کرنے کو اس لئے مشکل کہتا ہوں کہ مسلمان کی پرواز میں کوئی رکاوٹیں یا منزلیں نہیں ہوتیں۔وہ جب چاہے اپنے خالق اور مالک کو پُکار سکتا ہے بلکہ صبح سے رات تک ہر روز پانچ وقت تو اس کا اللہ تعالٰی سے ملاقات کا وقت پہلے سے مقرر ہے۔
آپ غور فرمائیں کہ ایسے لوگوں کو جو اللہ کے ساتھ ہر طرح ہر روز قربت حاصل کرنے کے عادی ہوں، انہیں بھلا کوئی شخص کس طرح ہدایت دے سکتا ہے،جب تک کہ اس میں بھی وہی صفات موجود نہ ہوں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالٰی نے ہمسب کو دی ہیں۔
میں مسلمانوں کے ساتھ لفظ حاکم اور محکوم استعمال نہیں کر رہا کیونکہ میرے نزدیک مسلمانوں کو رُول کرنا یعنی ان پر حکومت چلانا ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ہاں انہیں گائیڈ کیا جا سکتا ہے۔یعنی انہیں ہدایت دی جا سکتی ہے۔انہیں لیڈ کیا جا سکتا ہے۔یعنی ان کی راہبری کی جا سکتی ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہدایت دینے والا اور راہبری کرنے والا وہ تمام خوبیاں اور صفات نہ رکھتا ہو بلکہ اس کا اخلاق و کردار سب سے بہتر اور افضل ہو۔
اسلام جب پھیلا اور جس تیزی کے ساتھ پھیلا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کے اصولوں میں فطری سادگی اور سچائی تھی حالانکہ اس کے پھیلانے والوں کا یہ حال تھا کہ وہ دنیاوی اعتبار سے تہی دست تھے۔لیکن اپنے قول کے پکے اور عمل کے سچے تھے اور ایک خاص جذبے سے سرشار تھے۔ اسی لئے دنیا کی بڑی طاقتیں بھی ان کے سامنے تھراتی تھیں۔
وہ خاص جذبہ کیا تھا؟ملاحظہ ہو۔
کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے
کسی کی آس بغیر از خدا نہیں رکھتے
ہمیں تو دیتا ہے رازق بغیر منت خلق
وہی سوال کریں جو خدا نہیں رکھتے
ہم میں بھی یہ جذبہ پیدا ہو جائے گا تب ہی ہم سر اٹھا کر چل سکیں گے۔دنی ہماری عزت کرے گی اور دنیا کے سارےممالک ہمری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے اور ہم سے دوستی کرنے پر فخر کریں گے۔ہمیں یاد رکھنا اہیے کہ پاکستان کی عزت سے ہماری عزت ہے اور پاکستان کی بقاء میں ہماری بقاء ہے۔ہم کویہ بھی یاد رکھنا چاہیے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم قوم پہلے وجود میں آئی اور پاکستان بعد میں قائم ہوا۔
قومیت یا نیشنلزم کا جو تصور مغربی اقوام میں رائج ہے س کا اطلاق پاکستان پر نہیں ہو سکتا۔پاکستان نے خودکسی قوم کو جنم نہیں دیا بلکہ اس کے بر عکس قوم نے پاکستان کو جنم دیا ہے۔گویا یہ ملک کسی قومیت کے وجود کے سبب نہیں بلکہ مسلم قوم کے اتحاد کا نتیجہ اور ثمر ہے۔اللہ تعالٰی ہمیں اپنا قومی اتحاد برقرار رکھنے اور اپنے وطن کے استحکام کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
اللہ کی بنائی ہوئی کائنات کا کوئی بھی خطہ ہو،ہر جگہ،ہر زمانے میں سچ اور جھوٹ،اچھائی اور برائی،رات اور دن،اندھیرے اور اجالے یعنی حق اور باطل کی جنگ کسی نہ کسی رنگ،کسی نہ کسی انداز اور کسی نہ کسی حال میں جاری رہی ہے۔اور ان سب جنگوں میں احسن ترین روپ اس جنگ کا ہے جو اللہ کے نام پر،اللہ کے لئے اللہ کے راستے میں، اللہ کے حکم سے لڑی جاتی رہی،لڑی جاتی ہے اور لڑی جاتی رہے گی۔
پاکستان اللہ کے نام پر معرضِ وجود میں آنے والا وہ عظیم ملک ہے جس کے اندر بسنے والے کتنے بھی نا سمجھ،کتنے بھی نافرمان،کتنے بھی بُرے ہوں،جب بات اللہ اور اس کے رسول مولائے کائنات،باعثِ وجود و عدم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آ جائے تو یہ نکمے اور اچھے،بُرے اور بھلے،فوجی اور عوام سب کے سب جان ہتھیلیوں پر لے کر قربان ہونے کے لئے میدانِ عمل میں نکل آتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ پاک فوج کے جوانوں نے ایسے ایسے کارہائے نمایاں سر انجام دیے کہ جن کی مثال شاید آنے والا وقت بھی فراہم نہ کر سکے۔ہاں ان بے مثال کارناموں کی ریت روایت کو آگے بڑھانے کا کام پاک فوج ضرور فرض جان کر کرتی رہے گی انشاء اللہ۔
عرصہ 45 سال سے ہر سال ملک بھر میں“یومِ دفاع منایا جاتا ہے اور قوم احسان مندی اور شکر گزاری کے ساتھ اپنے شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔جنہوں نے ستمبر 1965 کو کڑی آزمائش میں بڑی دلیری اور جوانمردی سے وطن اور قوم کی حفاظت کی اور پاکستان کو سربلندی بخشی۔انہوں نے اپنی جرات و مہارت سے اپنے سے کئی گنا قوی بھارت کو نیچا دکھا کر دنیا بھر سے اپنا لوہا منوا لیا۔
پاکستان کے ہر فرد نے اس قومی معرکے میں اپنے فرض کو پہچانا اور ان کی ادائیگی کا حق ادا کر دیا۔آزاد اور حق پسند قوم کے عوام و خواص اور ادیبوں اور شاعروں کی جو ذمہ داریاں ہوتی ہیں آنے والی نسلیں ان کی مثال اور خدمات سے ہمیشہ سبق لیتی رہیں گی۔
اس موقع پہ ہمیں خاص طور پر ان بلند مقاصد کو یاد رکھنا چاہیے جس کی خاطر وطن کے بے شمار فرزندوں نے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ ان کی شہادت کی حرمت کو ہم اسی طرح قائم رکھ سکتے ہیں کہ خود بھی انہی قدروں کی حفاظت کریں اور انہی بلند مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں جن کے لئے انہوں نے اپنی جانیں نثار کیں۔
آپ واقف ہیں کہ دوسری جنگِ عظیم کے نتائج سے دنیا مٹاثر ہوئی۔ ان نتائج کا سب سے بڑا اثر یہ مرتب ہوا کہ دنیا کے پچاس کروڑ انسانوں کو نو آبادیاتی نظام اور غلامی کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں بڑی مدد ملی۔ پاکستان،ہندوستان،انڈونیشیا،برما اور لنکا بیرونی حکومت کی غلامی سے آزاد ہوئے اور اپنی اپنی خود مختار حکومتیں قائم کر لیں۔آئیے دیکھیں کہ اس 17 دن کی جنگ سے ہمارے لئے کیا نتائج برآمد ہوئے اور خود ہم نے ان سے کیا سبق سیکھا؟
پہلی بات جو ہمیں یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ آج کل کی لڑائی میں سپاہی قوم سے الگ کوئی فرد نہیں ہوتا۔پوری قوم کو جنگ لڑنا پڑتی ہے۔گویا ساری قوم ہی سپاہی ہوتی ہے۔لڑنے والے سپاہی کو تو صرف تلوار کی دھار سمجھنا چاہیے۔تلوار اصل میں قوم ہوتی ہے۔اگر پوری قوم تلوار یعنی اس کے لوگ لوگ اس کا پھل اور اس کا قبضہ،سب کے سب فولاد کی طرح مضبوط نہ ہوں تو اکیلی دھار کیا کر سکتی ہے؟چاہے وہ کیسی ہی تیز کیوں نہ ہو! اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اگر تلوار بھی مضبوط ہو اور اس کی دھار بھی تیز ہو تب بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس سے کام لینے والے بازوؤں میں قوت اور توانائی کے ساتھ ساتھ بیلنس یعنی توازن نہ ہو۔کیونکہ اگر یہ سب باتیں نہ ہوں تو تلوار اپنا کام نہیں کر سکتی۔ہماری تلوار کی دھار کیسی تھی؟ یعنی ہمارے لڑنے والے سپاہیوں نے کیسا کام کیا؟ہم سب اس سے اچھی طرح واقف ہیں اور ساری دنیا جانتی ہے۔دشمن ہم سے کئی گنا بڑا تھا لیکن اللہ تعالٰی کے فضل اور رحمت سے ہمارے سپاہیوں نے ایسے ایسے کارنامے انجام دئیے کہ دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہیں گے۔
پوری تلوار کس فولاد کی بنی ہوئی تھی؟یہ بھی پوری قوم اچھی طرح جانتی ہے اور ساری دنیا جانتی ہے۔اس کا بیلنس یعنی توازن کس قوت نے قائم رکھا؟یہ بھی سب پر عیاں ہو چکا کہ یہ قوم کا جذبہ ایمانی تھا۔یعنی اسلام پر کُلی اعتقاد اور اللہ کی مدد پر پورا بھروسا اور ہماری راہنمائی کرنے والے قائدِ اعظم محمد علی جناح کا سکھایا ہوا وہ سبق تھا جس پر ہمارے وطن اور ہماری قومیت کا دارومدار ہے۔یعنی اتحاد،ایمان و تنظیم اور یقینِ محکم۔دوسرا سبق جو ہم نے عملی طور پر سیکھا وہ یہ ہے کہ لڑائی بھی جدید جنگوں کی طرح مکمل اور بھرپور لڑائی تھی جو صرف سرحدوں پر لڑنے والے سپاہیوں تک محدود نہیں رہتی بلکہ ملک کا ہر فرد اور ادارہ اس میں شریک ہوتے ہیں اور زیادہ تر خطرہ شہریوں کو ہوتا ہے جن کے پاس اپنے بچاؤ کے لئے کوئی ہتھیار بھی نہیں ہوتا۔اس کے برخلاف وہ دشمن کے اس زبردست ہتھیار کی زد میں ہوتے ہیں جو پچھلی لڑائیوں میں نہایت زود اثر،قوی اور دیر پا ثابت ہو چکا ہے۔اس ہتھیار کو “پروپیگنڈہ“ یا فوجی اصطلاح میں SPY WAR کہتے ہیں۔یعنی ذہنی یا نفسیاتی لڑائی۔یہ ہتھیار اس قدر زبردست ہوتا ہے کہ لڑنے والی فوجوں کے سر پر سے گزر کر شہریوں پر حملہ کرتا ہے اور اس کا دفاع بھی آسانی سے ممکن نہیں۔اس کا سب سے بڑا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لڑنے والی قوم کے باہمی اتحاد اور اتفاق میں ہر طرح سے رخنے ڈالے جائیں یا انہیں نفسیاتی طور پر اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ وہ لڑائی جاری رکھنے کے لائق نہ رہ سکیں۔
جدید دور میں لڑائی کا پورا تخیل اور اس کا پورا فن بلکل بدل چکا ہے۔جنگ اب تلواروں یا توپ و تفنگ کی جنگ نہیں رہی بلکہ سر تا سر دماغی جنگ بن چکی ہے اور اس کا مقصد لوگوں کے ذہنوں کو متاثر کر کے ان پر قابو حاصل کرنا ہے۔گویا جدید لڑائی خیال و فکر کی لڑائی بن چکی ہے۔اس کے نتائج اور اثرات جنگ کے بعد نمودار ہوتے ہیں اور عرصے تک قائم رہتے ہیں۔
ستمبر 1965 کی جنگ کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟اس موضوع پر ایک تجویز حکومت کے سامنے پیش کی گئی تھی جس میں خاص طور پر حکومت کی توجہ اس بات کی طرف دلائی گئی تھی کہ ہم کو اس جنگ کے معاشرتی اور سیاسی اثرات پر غور کرنا چاہیے کیونکہ اس جنگ نے سب سے زیادہ ہماری قوم اور ملک کے ان ہی پہلوؤں کو متاثر کیا ہے۔مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس رپورٹ پر اس وقت کی حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی جس کا نتیجہ جیسا ہونا چاہیے تھا اور جو کچھ ہونا چاہیے تھا وہی سب کچھ ہوا یعنی پوری قوم نے فتنہ و فساد کے وہ تکلیف دہ مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے جو ملک کے گوشے گوشے میں مسلسل برپا ہوتے رہے۔
اس افراتفری کے مختلف اسباب بیان کیے جا سکتے ہیں لیکن اگر مجھ سے دریافت کریں تو میں عرض کروں گا کہ اس کی ذمہ داری ہم سب پر یکساں عائد ہوتی ہے اور اس کا واحد سبب یہ ہے کہ ہم سب اپنے قومی نظرئیے اور اس بنیاد سے جس پر نظریہ قائم ہے،مسلسل غفلت برت رہے ہیں اور ان مقاصد سے دور ہوتے جا رہے ہیں جن کی خاطر پاکستان وجود میں آیا تھا۔
یہ واقعہ ہے کہ میں آج بھی جہاں کہیں جاتا ہوں، مجھ سے قوم کے جوان اکثر یہی سوال کرتے ہیں کہ نظریہ پاکستان سے دراصل کیا مراد ہے؟غور فرمائیے کہ قیام کے 63 سال گزر جانے کے بعد پاکستان کے بارے میں آج بھی یہ سوال کیا جا رہا ہے۔
کسی قوم کی اصل قوت کا اندازہ محض اس معیار سے نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے مادی طور پر کتنی ترقی کی ہے۔قوموں کی برادری میں سرفرازی اس وقت حاصل ہو سکتی ہے جب ہمیں اپنے وطن میں بھی عزت حاصل ہو اور اس کے لئے کسی نہ کسی نصب العین کا ہونا ضروری ہے۔کوئی قوم بغیر کسی نصب العین کے زندہ نہیں رہ سکتی۔ہمارے سامنے بھی ہمارا خاص نصب العین موجود ہے اس کی بناء پر ہماری قومیت،ہمارا اتحاد اور ہماری وحدت قائم ہے۔اس نصب العین کو حاصل کرنے کے لئے پاکستان وجود میں آیا۔اس کی خاطر قوم کے دلیر فرزندوں نے اپنی جانوں کی بازی لگائی تھی۔
ہمارا نصب العین یہ ہے کہ ہم پاکستان کو قمری دور میں اسلام کی سادی،سچی اور صاف ستھری طرزِ زندگی کا مثالی نمونہ بنا دیں۔
اپنے نصب العین کے حاصل کرنے میں ہمیں اب تک جو ناکامی ہوئی ہے میری ناچیز رائے میں اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم بھول گئے کہ “ انسان صرف پیٹ کا بندہ نہیں ہے۔“ اس کا ایک دماغ بھی ہے، ایک دل بھی ہے،ایک روح بھی ہے اور جب تک ان سب میں توازن نہ ہو گا،اسے نہ وہ قناعت حاصل ہو سکتی ہے اور نہ وہ خوشحالی اور اطمینان نصیب ہو سکتا ہے جو ہر قوم کا نصب العین ہونا چاہیے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارے ملک میں مادی ترقی کے لئے بہت زیادہ کوششیں صرف کی گئیں،مگر دماغی،اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے کیا کیا گیا؟
آپ حضرات جانتے ہیں کہ ایک معمولی مشین کو بھی درست کرنے کے لئے اس کے مرکزی کنٹرول کو سمجھنا پڑتا ہے۔انسانوں کا مرکزی کنٹرول پیٹ میں نہیں بلکہ ان کے قلب و ذہن میں واقع ہے۔سب سے پہلے اس کی طرف توجہ دینی چاہیے تھی،لیکن افسوس اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کیا گیا۔
میں یہ بات واضح طور پر کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم جس قدر اپنے قومی نظریے سے،جس کی بنیاد اسلام پر قائم ہے،دور ہوتے جائیں گے،ہمارا قومی اتحاد بھی اتنا ہی کمزور ہوتا جائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی سالمیت بھی خدانخواستہ خطرے میں پڑتی جائے گی۔
میں اسلام کوئی لیکچر یا واعظ دینے کی جرات نہیں کر سکتا اور نہ کوئی فتویٰ دے سکتا ہوں کہ اسلام یہ ہے اور وہ نہیں ہے۔یہ تو عالموں فاضلوں کا کام ہے کہ وہ اس موضوع پر مباحثے،سیمینار اور کانفرنسیں منعقد کریں۔میں صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اسلام صرف مذہب ہی نہیں بلکہ ایک طریقہ زندگی ہے۔ایک ایسا مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک پیش آنے والی ہر حالت اور ہر ضرورت کو پورا کرتا ہے۔
ہماری دنیاوی زندگی کے ہر پہلو کے بارے میں اسلام مکمل اور واضح ہدایتیں دیتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے ان ہدایتوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے عملی تفسیر اور مثالوں سے ہماری راہنمائی بھی کرتا ہے۔
اسلامی معاشرے میں اخلاق اور کردار کو سب سے افضل درجہ دیا گیا ہے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ“میں اعلٰی اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہوں۔اللہ تعالٰی کے نزدیک بھی وہی مسلمان سب سے اچھا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔“
اسلام میں والدین کے حقوق،اولاد کے حقوق،ہمسایوں کے حقوق،رشتہ داروں کے حقوق،میاں بیوی کے حقوق اور فرائض،غریبوں،مسکینوں،محتاجوں کی دیکھ بھال،شریفوں کی عزت،بڑوں کا ادب،چھوٹوں کا لحاظ،برابر والوں سے میل مروت،اہلِ علم،اہلِ فن کی عزت،کاروبار میں دیانت،ضعیفوں ،بیماروں کی خدمت،غرض اسلام ہمیں ہر طرح کی نیکی کی تعلیم دیتا ہے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرتا ہے۔
اسلامی معاشرے میں فرد کے حقوق و فرائض بھی مقرر ہیں جس سے سوسائٹی میں توازن قائم رہتا ہے۔نہ کسی شخص کو اتنی آزادی ہے کہ وہ دوسروں کا حق چھین لے،نہ ایسی بندش ہے کہ وہ ترقی کے جائز مواقع سے بھی محروم رہے،نہ امیر،غریب کو حقارت کی نظر سے دیکھ سکتا ہے۔غریب امیر سب مسلمان ایک برادری کی طرح آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے کا سہارا بن کر یکساں طور پر خوشحال رہ سکتے ہیں کیونکہ اللہ کے نزدیک سب برابر ہیں۔
اسلام میں سب کے لئے محبت ہے،مساوات ہے،عدل ہے،غرض کہ زندگی میں ہر ایک کے لئے جائز مقام ہے اور مرنے کے بعد ہر ایک کے لئے اپنی اپنی قبر ہے،وہ بھی سب کی یکساں ہوتی ہے۔اسلام میں بہت زور معاشرے کت صحیح اصولوں پر دیا گیا ہے۔حلال روزی کمانے اور اسے جائز طریقے سے خرچ کرنے کے واضح احکامات ہیں۔نہ تجارت میں بے ایمانی اور ملاوٹ کی گنجائش ہے،نہ رشوت ستانی کی کوئی جگہ ہے اور نہ دھوکہ دہی کی اجازت۔
اسلام میں وراثت کے قانون ایسے زبردست ہیں کہ ایک نسل سے دوسری نسل تک جائیداد اور دولت صحیح وارثوں کو پہنچانے کی سخت تاکید ہے جس کی وجہ سے دولت کبھی چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہو سکتی۔اسی طرح اسلام نے زکٰوۃ کا نظام ایسا عمدہ اور منظم رکھا ہے کہ اس پر عمل کرنے سے پوری سوسائٹی کے لئے سوشل انشورنس سکیم مرتب ہو جاتی ہے جس سے غریب،مسکین،یتیم،اپاہج،ضعیف اور حاجت مند سب مالداروں کی ذمہ داری بن جاتے ہیں۔اس طرح سوسائٹی میں توازن برقرار رہتا ہے۔
یہ موٹی موٹی باتیں ہیں جو میں نے کسی خاص خیال یا کسی سوچے سمجھے ہوئے مقصد سے عرض نہیں کیں،بلکہ سادگی اور سچائی کے ساتھ جو کچھ میری سمجھ میں آیا پیش کر دیا۔میرے نزدیک اسلام اور اسلامی سوسائٹی کا یہ تصور ہے۔
میرے خیال میں تو کسی کو اصول اور روح اسلام سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اسلام میں کسی قسم کی مذہبی ٹھیکیداری نہیں ہے۔ اسلام سب کے لئے یکساں اور اللہ تعالٰی کی کتاب یعنی قرآن پاک ہر ایک کے لئے کھُلی ہوئی ہے اور سب کو یکساں غور کرنے اور عمل کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
اسلام کسی دنیاوی رتبے یا درجے کو تسلیم نہیں کرتا،نہ کسی خاص لباس اور وضع قطع پر زور دیتا ہے۔اس میں ظاہری صورت اور کوشش وغیرہ کو مطلق اہمیت نہیں دی گئی۔جس بات پر زور دیا گیا ہے وہ قلب و نظر کی پاکیزگی،اخلاق و کردار کی درستی اور ذہنی شرافت ہے۔
ایک بات جو میں ذاتی طور پر محسوس کرتا ہوں،یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول و فعل سے اسلام کو اتنی عظمت بخش دی ہے کہ مسلمانوں پر کسی نا اہل کا حکومت کرنا بہت ہی مشکل کام بن گیا ہے۔ہماری ساری تاریخ اس کی شاہد ہے کہ مسلمانوں نے صرف ایسی شخصیتوں کی ہدایت قبول کی ہے جن کا اپنا طریقِ زندگی عوام کے مطابق تھا۔دوسروں کو تلقین کرتے تھے خود بھی اسی پر عمل کرتے تھے اور جن کو عوام اخلاق اور کردار کے لحاظ سے اپنے سے بہتر سمجھتے تھے۔
میں مسلمانوں پر حکومت کرنے کو اس لئے مشکل کہتا ہوں کہ مسلمان کی پرواز میں کوئی رکاوٹیں یا منزلیں نہیں ہوتیں۔وہ جب چاہے اپنے خالق اور مالک کو پُکار سکتا ہے بلکہ صبح سے رات تک ہر روز پانچ وقت تو اس کا اللہ تعالٰی سے ملاقات کا وقت پہلے سے مقرر ہے۔
آپ غور فرمائیں کہ ایسے لوگوں کو جو اللہ کے ساتھ ہر طرح ہر روز قربت حاصل کرنے کے عادی ہوں، انہیں بھلا کوئی شخص کس طرح ہدایت دے سکتا ہے،جب تک کہ اس میں بھی وہی صفات موجود نہ ہوں جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالٰی نے ہمسب کو دی ہیں۔
میں مسلمانوں کے ساتھ لفظ حاکم اور محکوم استعمال نہیں کر رہا کیونکہ میرے نزدیک مسلمانوں کو رُول کرنا یعنی ان پر حکومت چلانا ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ہاں انہیں گائیڈ کیا جا سکتا ہے۔یعنی انہیں ہدایت دی جا سکتی ہے۔انہیں لیڈ کیا جا سکتا ہے۔یعنی ان کی راہبری کی جا سکتی ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہدایت دینے والا اور راہبری کرنے والا وہ تمام خوبیاں اور صفات نہ رکھتا ہو بلکہ اس کا اخلاق و کردار سب سے بہتر اور افضل ہو۔
اسلام جب پھیلا اور جس تیزی کے ساتھ پھیلا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس کے اصولوں میں فطری سادگی اور سچائی تھی حالانکہ اس کے پھیلانے والوں کا یہ حال تھا کہ وہ دنیاوی اعتبار سے تہی دست تھے۔لیکن اپنے قول کے پکے اور عمل کے سچے تھے اور ایک خاص جذبے سے سرشار تھے۔ اسی لئے دنیا کی بڑی طاقتیں بھی ان کے سامنے تھراتی تھیں۔
وہ خاص جذبہ کیا تھا؟ملاحظہ ہو۔
کوئی انیس کوئی آشنا نہیں رکھتے
کسی کی آس بغیر از خدا نہیں رکھتے
ہمیں تو دیتا ہے رازق بغیر منت خلق
وہی سوال کریں جو خدا نہیں رکھتے
ہم میں بھی یہ جذبہ پیدا ہو جائے گا تب ہی ہم سر اٹھا کر چل سکیں گے۔دنی ہماری عزت کرے گی اور دنیا کے سارےممالک ہمری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائیں گے اور ہم سے دوستی کرنے پر فخر کریں گے۔ہمیں یاد رکھنا اہیے کہ پاکستان کی عزت سے ہماری عزت ہے اور پاکستان کی بقاء میں ہماری بقاء ہے۔ہم کویہ بھی یاد رکھنا چاہیے اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم قوم پہلے وجود میں آئی اور پاکستان بعد میں قائم ہوا۔
قومیت یا نیشنلزم کا جو تصور مغربی اقوام میں رائج ہے س کا اطلاق پاکستان پر نہیں ہو سکتا۔پاکستان نے خودکسی قوم کو جنم نہیں دیا بلکہ اس کے بر عکس قوم نے پاکستان کو جنم دیا ہے۔گویا یہ ملک کسی قومیت کے وجود کے سبب نہیں بلکہ مسلم قوم کے اتحاد کا نتیجہ اور ثمر ہے۔اللہ تعالٰی ہمیں اپنا قومی اتحاد برقرار رکھنے اور اپنے وطن کے استحکام کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
0 comments:
Post a Comment