پچھلے دنوں لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم کا کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ان کی
تحریر میں پاکستان کے خلاف بھارتی میڈیا کی جس یلغار کا ذکر کیا گیا سوچا
کہ اس کو آپ سب سے شئیر کیا جائے تاکہ آپ سب بھی اس سب سے واقف ہو سکیں۔
Kapil Komireddi ایک ہندوستانی صحافی ہے جو ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے امور پر اکثر لکھتا رہتا ہے اور اس کے کالم ہندوستان کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ کی اہم اخباروں میں بھی چھپتے رہتے ہیں۔اس صحافی نے 14جون 2009 کے انگلستان کے مشہور اخبار گارڈین میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا“The demise of pakistan is ineviable"۔یعنی پاکستان کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے۔
قارئین پاکستان کا خاتمہ ہندوستان اور اسرائیل جیسے پاکستان کے چند دشمنوں کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن اللہ کے کرم سے ایسا کبھی نہیں ہو گااور مجھے کامل یقین ہے کہ موجودہ مشکل حالات کی بھٹی سے کندن بن کر ابھرنے والا مضبوط پاکستان انشاء اللہ دنیا کے افق پر ایک روشن ستارے کی طرح ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ہندوستانی صحافی کا کہنا ہے کہ“پاکستان کی طالبان کے ساتھ لڑائی ایک نورا کشتی ہے اگر پاکستا کی حکومت خصوصا فوج طالبان کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ اپنے دو لاکھ بہترین فوجی دستے ہندوستان کے ساتھ اپنی مشرقی سرحد پر صرف گھاس کھانے کے لئے فارغ نہ بٹھا دیتی“۔
صحافی کے مطابق پاکستان امریکہ سے صرف اربوں ڈالر بٹورنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔اور امریکن بھی حیران ہیں کہ انہوں نے پہلے اربوں ڈالرز کی جو امداد پاکستان کو دی تھی وہ بھی ہندستان کے خلاف استعمال ہونے والی پاکستانی فوج کو مضبوط بنانے پر خرچ ہو گئی ہے۔صحافی نے کہا“طالبان کے پاکستان میں حالیہ حملوں نے اپنےPaymasters پاکستانیوں کو ضرور پریشان کیا ہوا ہے لیکن اس سے پاکستانی حکومت کے طالبان کے متعلق رویوں میں اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک طالبان ہندوستان کو تباہ کرنے اور کشمیر کو آزاد کرانے کے منصوبوں پر قائم ہیں“۔
صحافی کہتا ہے کہ جب وہ لاہور میں جماعۃ الدعوۃ کے یحیی مجاہد کو ملا تو اس نے بھی یہی کہا کہ ہم کشمیر کی آزادی تک ہندوستان سے لڑتے رہیں گے۔صحافی نے مزید کہا کہ حافظ سعید کی رہا کرتے وقت لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے یہ عجیب بات کہہ دی کہ پاکستانی قوانین کی کتابوں میں القاعدہ تنظیم یا اس کی بین الاقوامی دہشت گردی کا کوئی*ذکر نہیں۔
صحافی کے خیال میں 1947 میں پاکستان کی ہندوستان سے علیحدگی کا واضح جواز موجود نہ تھا یہ کہنا کہ ہندو مسلمان ایک جگہ نہیں رہ سکتے اس صورت میں ٹھیک ہوتا جب مسلمانوں کی علیحدگی کے بعد ہندوستان صرف ہندو ریاست بن کر رہ جاتا۔صحافی کے مطابق 1947 کا پاکستان 1971 میں ختم ہو گیا تھااور اس کے ساتھ وہ فلاسفی بھی جس کے تحت پاکستان وجود میں آیا تھا کہ سیکولر ہندوستان کی افواج نے ہی تو بنگالیوں کو پاکستانی حکومت کے پاگل پن سے آزاد کروایا تھا چونکہ حملہ آور بھارتی فوج کے کمانڈروں میں سے ایک بھی ہندو نہ تھا۔ائیر چیف ادریس لطیف مسلمان تھا، جنرل اروڑا سکھ تھا، آرمی چیف جنرل مانک شاہ پارسی تھا او سای جنگی حکمتِ عملی تیار کرنے والا جے ایف آر جیکب یہودی تھا۔
صحافی کے مطابق پاکستان اب ایک ناکام ریاست ہے جہاں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے علاوہ ایٹمی ٹیکنالوجی کا غیر قانونی پھیلاؤ بھی ہو رہا ہے۔انگلستان کے بہت زیادہ فروخت ہونے والے اور پوری دنیا میں انٹرنیٹ پر پھے جانے والے اخبار گارڈین میں ہندو صحافی کی آخری ہرزہ سرائی یہ تھی۔“With in next 20 years Pakistan as we know it today will probably not exist"۔
قارئین ہندوؤں کی پاکستان دشمن ذہنیت سے کون سے پاکستانی نا آشنا ہے پتہ نہیں ہمارے قائدین یہ کیوں کہتے ہیں کہ ہندوستان سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں حالانکہ ہندوستان، جس کے ہاتھ 90 ہزار کشمیری مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جس نے 1971 میں پاکستان کو دو لخت کیا، اب پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور ہے اب وہ اپنی تبدیل شدہ حکمت عملی کے تحت لڑائی نہیں لڑنا چاہتا بلکہ covert طریقوں سے پاکستان کو معاشی لحاظ سے کمزور کر کے، دنیا سے تنہا کر کے،افغانستان میں پھیلائے گئے اپنے جاسوسوں کے جال کے ذریعے،سرحد،بلوچستان،جنوبی پنجاب اور کراچی کے اندر خلفشار کو ہوا دے کر، مسلمان کو مسلمان سے لڑا کر اور افواجِ پاکستان کو بدنام کر کے پاکستان کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹنا چاہتا ہے۔پاکستانی قوم اللہ کے کرم سے دشمن کے ان مکروہ عزائم سے آگاہ ہے اور ان کو خاک میں ملا دے گی۔ہمیں اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ پاکستان کے اندر ابھرنے والے خطرات کے پیچھے بھی بیرونی ہاتھ ہیں۔کیا 50 خچروں کی گولہ بارود سے لدی ہوئی قطار کا پاکستان میں داخل ہونا،جس کو فوج نے چند دن پہلے پکڑا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ جو کچھ آج پاکستان میں ہو رہا ہے اس کے پیچھے امریکی آشیرباد کے ساتھ ہنود و یہود ہی ہیں۔کار کی نمبر پلیٹ پڑھ لینے والا ڈرون جہاز افغانستان سے آنے والے 50 خچروں او گولہ بارود سے بھری گاڑیوں کے پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے کیوں نہیں دیکھ سکتا۔
ہمارے اربابِ اختیار بے شک اٹھ اٹھ کر بھارتی قیادت کو گلے لگائیں اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو دفن کر کےاپنے کشمیر کے موقف سے بھی ہٹنے کو تیار ہو جائیں یا پھر ایٹمی ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کا وعدہ بھی کر ڈالیں پھر بھی ہندو کبھی آزاد اور مضبوط پاکستانی سلطنت کے تصور کو ہضم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا چونکہ صرف اکھنڈ بھارت کا خواب ہی اس کے دماغ پر حاوی ہے۔
اس بھارتی صحافی کی سیکولر بھارت کی بے جا تعریفوں کا پول کھولنے کے لئے میں نے اسی*صحافی کے بہت سے پرانے کالموں کو کھنگالنا شروع کیا تو مجھے اسی کے کالموں سے وہ زمینی حقائق مل گئے۔جن کو آج یہ صحافی جھٹلانے کی کوشش کر رہا ہے۔مثلا اسی صحافی نے 28 دسمبر 2008 کو ایک کالم“India's Double Standard" کے عنوان سے لکھا تھا کہ“بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دوہرے معیار نہیں ہونا چاہیں حالانکہ بھارتی قیادت خود سری لنکا میںLTTE کی مددکر کے دوہرا معیار اپنایا ہوا ہے۔صحافی لکھتا ہے کہ ہندوستان سری لنکا کے معاملات میں مداخلت پر سری لنکا کے*چیف آف آرمی سٹاف Sarath Fonsche نے شدید لفظوں میں مذمت کی تھی۔ ہندوستانی صحافی کے مطابق“The LTTE could not have grown without the support of successive state govts of India" ۔
قارئین اس سے ہندوستان کی اپنے ہمسایہ ممالک کے معاملات میں انگشت بازی ثابت ہوتی ہے۔صحافی کے مطابق اس مداخلت کی تصدیق بین الاقوامی جینز انفارمیشن گروپ نے بھی کی ہے صحافی نے لکھا کہ ہندوستان کا تبت اور برما میں کردار بھی قابلِ تعریف نہیں صحافی نے لکھا کہ“ہندوستان پاکستان کو تو کہتا ہےکہ پاکستان میں موجود جہادی تنظیموں کو لگام دینا چاہیے لیکن خود اپنے ملک میں تامل ناڈو کے سیاستدانوں کی سری لنکا میں مداخلت پر خاموش ہے۔ پاکستان کے الگ وجود کی اب مخالفت کرنے والے اس صحافی نے ماضی قریب میں لکھا تھا کہ“مسلمانوں پر ہندو مظالم کی داستان لمبی ہے 2002 میں تقریبا ایک ہزار مسلمانوں کو گجرات میں ہندوؤں نے ذبح کر دیا او وہاں کے وزیرِ اعلی نریندر مودی نے ٹی وی پر ہندوؤں کے اس جرم کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ“Every action has an equal and opposite reaction"یعنی مسلمانوں نے جو کیا بھر لیا۔
اس کے علاوہ صحافی کہتا ہے کہ“Varun Gandhi"نے حالیہ انتخابی مہم میں مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا“جو ہاتھ ہندو پر اٹھے گا وہ کاٹ دیا جائے گا“اور کہا“مسلمانوں کے اسامہ بن لادن جیسے کتنے*ڈراؤنے نام ہیں“
پاکستان کے اگلے کچھ سالوں میں ٹوٹ جانے کی اب مکروہ پیشن گوئی کرنے والے*صحافی نے چند ماہ پہلے اعتراف کیا تھا کہ ہندوستان کے سیکولرازم کی تعریف کا دارومدار اب ہندوؤں کی منشا پر ہے یعنی وہ جو چاہیں گے وہ ہو گا اس سے صحافی کے مطابق “ہندوستان ٹوٹ سکتا ہے“۔
قارئین ایک ہندوستانی صحافیKapil Komireddi کی زبان سے ہی ہندوستان میں اقلیتوں کی بدحالی کے متعلق مندرجہ بالا حقائق سن کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کا ایک الگ ریاست حاصل کرنے کا مطالبہ درست تھا یا غلط۔اور دوسرا یہ کہ سیکولرازم کا واویلا کرنے والی بھارتی حکومت اپنے اعمال میں کس حد تک سیکولر ہے۔
ہمیں اس میں شک نہیں کہ آج پاکستان حالتِ جنگ میں ہے اور اس پر اندر اور باہر سے دو طرفہ حملے ہو رہے ہیں اس لئے ہر پاکستانی کو اس ساری سازش کو صحیح طرح سے سمجھنا چاہیے تاکہ اس کا بہترین مقابلہ کیا جا سکے۔ہماری وزارتِ اطلاعات اور بیرونِ ملک ہر پاکستانی سفارت خانہ بھی پاکستان کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈے پر کڑی نظر رکھے تاکہ اہم بین الاقوامی اخبارات میں چھپنے والے ہر پاکستان دشمن کالم یا خبر کا ضرور انہی اخبارات میں اسی زبان میں منہ توڑ جواب دیا جائے۔
ملک کے دفاع کے لئے یہ جہاد ہم سب پر لازم ہے۔ ہندوستان کی اصول پرستی کے خلاف اگر کسی کو غلط فہمی ہے تو وہ ہندوستان کے فاؤنڈنگ فادر جواہر لال نہو کے مندرجہ ذیل بیان کو پڑھے جو انہوں نے 7 اگست 1952 کو ہندوستان کی پارلیمنٹ میں دیا تھا۔اور موجودہ ہندوستان کے اٹوٹ انگ والے رویے اور کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو دیکھے“I want to stress that it is only the people of kashmir who can decide the future of kashmir. it is not that we have"
Kapil Komireddi ایک ہندوستانی صحافی ہے جو ہندوستان کی خارجہ پالیسی کے امور پر اکثر لکھتا رہتا ہے اور اس کے کالم ہندوستان کے علاوہ امریکہ اور برطانیہ کی اہم اخباروں میں بھی چھپتے رہتے ہیں۔اس صحافی نے 14جون 2009 کے انگلستان کے مشہور اخبار گارڈین میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا“The demise of pakistan is ineviable"۔یعنی پاکستان کا خاتمہ نوشتہ دیوار ہے۔
قارئین پاکستان کا خاتمہ ہندوستان اور اسرائیل جیسے پاکستان کے چند دشمنوں کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن اللہ کے کرم سے ایسا کبھی نہیں ہو گااور مجھے کامل یقین ہے کہ موجودہ مشکل حالات کی بھٹی سے کندن بن کر ابھرنے والا مضبوط پاکستان انشاء اللہ دنیا کے افق پر ایک روشن ستارے کی طرح ہمیشہ چمکتا رہے گا۔ہندوستانی صحافی کا کہنا ہے کہ“پاکستان کی طالبان کے ساتھ لڑائی ایک نورا کشتی ہے اگر پاکستا کی حکومت خصوصا فوج طالبان کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہوتی تو وہ اپنے دو لاکھ بہترین فوجی دستے ہندوستان کے ساتھ اپنی مشرقی سرحد پر صرف گھاس کھانے کے لئے فارغ نہ بٹھا دیتی“۔
صحافی کے مطابق پاکستان امریکہ سے صرف اربوں ڈالر بٹورنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔اور امریکن بھی حیران ہیں کہ انہوں نے پہلے اربوں ڈالرز کی جو امداد پاکستان کو دی تھی وہ بھی ہندستان کے خلاف استعمال ہونے والی پاکستانی فوج کو مضبوط بنانے پر خرچ ہو گئی ہے۔صحافی نے کہا“طالبان کے پاکستان میں حالیہ حملوں نے اپنےPaymasters پاکستانیوں کو ضرور پریشان کیا ہوا ہے لیکن اس سے پاکستانی حکومت کے طالبان کے متعلق رویوں میں اس وقت تک کوئی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک طالبان ہندوستان کو تباہ کرنے اور کشمیر کو آزاد کرانے کے منصوبوں پر قائم ہیں“۔
صحافی کہتا ہے کہ جب وہ لاہور میں جماعۃ الدعوۃ کے یحیی مجاہد کو ملا تو اس نے بھی یہی کہا کہ ہم کشمیر کی آزادی تک ہندوستان سے لڑتے رہیں گے۔صحافی نے مزید کہا کہ حافظ سعید کی رہا کرتے وقت لاہور ہائی کورٹ کے ججوں نے یہ عجیب بات کہہ دی کہ پاکستانی قوانین کی کتابوں میں القاعدہ تنظیم یا اس کی بین الاقوامی دہشت گردی کا کوئی*ذکر نہیں۔
صحافی کے خیال میں 1947 میں پاکستان کی ہندوستان سے علیحدگی کا واضح جواز موجود نہ تھا یہ کہنا کہ ہندو مسلمان ایک جگہ نہیں رہ سکتے اس صورت میں ٹھیک ہوتا جب مسلمانوں کی علیحدگی کے بعد ہندوستان صرف ہندو ریاست بن کر رہ جاتا۔صحافی کے مطابق 1947 کا پاکستان 1971 میں ختم ہو گیا تھااور اس کے ساتھ وہ فلاسفی بھی جس کے تحت پاکستان وجود میں آیا تھا کہ سیکولر ہندوستان کی افواج نے ہی تو بنگالیوں کو پاکستانی حکومت کے پاگل پن سے آزاد کروایا تھا چونکہ حملہ آور بھارتی فوج کے کمانڈروں میں سے ایک بھی ہندو نہ تھا۔ائیر چیف ادریس لطیف مسلمان تھا، جنرل اروڑا سکھ تھا، آرمی چیف جنرل مانک شاہ پارسی تھا او سای جنگی حکمتِ عملی تیار کرنے والا جے ایف آر جیکب یہودی تھا۔
صحافی کے مطابق پاکستان اب ایک ناکام ریاست ہے جہاں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے علاوہ ایٹمی ٹیکنالوجی کا غیر قانونی پھیلاؤ بھی ہو رہا ہے۔انگلستان کے بہت زیادہ فروخت ہونے والے اور پوری دنیا میں انٹرنیٹ پر پھے جانے والے اخبار گارڈین میں ہندو صحافی کی آخری ہرزہ سرائی یہ تھی۔“With in next 20 years Pakistan as we know it today will probably not exist"۔
قارئین ہندوؤں کی پاکستان دشمن ذہنیت سے کون سے پاکستانی نا آشنا ہے پتہ نہیں ہمارے قائدین یہ کیوں کہتے ہیں کہ ہندوستان سے پاکستان کو کوئی خطرہ نہیں حالانکہ ہندوستان، جس کے ہاتھ 90 ہزار کشمیری مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور جس نے 1971 میں پاکستان کو دو لخت کیا، اب پاکستان کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ آور ہے اب وہ اپنی تبدیل شدہ حکمت عملی کے تحت لڑائی نہیں لڑنا چاہتا بلکہ covert طریقوں سے پاکستان کو معاشی لحاظ سے کمزور کر کے، دنیا سے تنہا کر کے،افغانستان میں پھیلائے گئے اپنے جاسوسوں کے جال کے ذریعے،سرحد،بلوچستان،جنوبی پنجاب اور کراچی کے اندر خلفشار کو ہوا دے کر، مسلمان کو مسلمان سے لڑا کر اور افواجِ پاکستان کو بدنام کر کے پاکستان کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹنا چاہتا ہے۔پاکستانی قوم اللہ کے کرم سے دشمن کے ان مکروہ عزائم سے آگاہ ہے اور ان کو خاک میں ملا دے گی۔ہمیں اس میں ذرا برابر شک نہیں کہ پاکستان کے اندر ابھرنے والے خطرات کے پیچھے بھی بیرونی ہاتھ ہیں۔کیا 50 خچروں کی گولہ بارود سے لدی ہوئی قطار کا پاکستان میں داخل ہونا،جس کو فوج نے چند دن پہلے پکڑا یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ جو کچھ آج پاکستان میں ہو رہا ہے اس کے پیچھے امریکی آشیرباد کے ساتھ ہنود و یہود ہی ہیں۔کار کی نمبر پلیٹ پڑھ لینے والا ڈرون جہاز افغانستان سے آنے والے 50 خچروں او گولہ بارود سے بھری گاڑیوں کے پاکستان میں داخل ہونے سے پہلے کیوں نہیں دیکھ سکتا۔
ہمارے اربابِ اختیار بے شک اٹھ اٹھ کر بھارتی قیادت کو گلے لگائیں اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو دفن کر کےاپنے کشمیر کے موقف سے بھی ہٹنے کو تیار ہو جائیں یا پھر ایٹمی ہتھیار پہلے استعمال نہ کرنے کا وعدہ بھی کر ڈالیں پھر بھی ہندو کبھی آزاد اور مضبوط پاکستانی سلطنت کے تصور کو ہضم کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا چونکہ صرف اکھنڈ بھارت کا خواب ہی اس کے دماغ پر حاوی ہے۔
اس بھارتی صحافی کی سیکولر بھارت کی بے جا تعریفوں کا پول کھولنے کے لئے میں نے اسی*صحافی کے بہت سے پرانے کالموں کو کھنگالنا شروع کیا تو مجھے اسی کے کالموں سے وہ زمینی حقائق مل گئے۔جن کو آج یہ صحافی جھٹلانے کی کوشش کر رہا ہے۔مثلا اسی صحافی نے 28 دسمبر 2008 کو ایک کالم“India's Double Standard" کے عنوان سے لکھا تھا کہ“بھارتی وزیرِ اعظم من موہن سنگھ کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے لئے دوہرے معیار نہیں ہونا چاہیں حالانکہ بھارتی قیادت خود سری لنکا میںLTTE کی مددکر کے دوہرا معیار اپنایا ہوا ہے۔صحافی لکھتا ہے کہ ہندوستان سری لنکا کے معاملات میں مداخلت پر سری لنکا کے*چیف آف آرمی سٹاف Sarath Fonsche نے شدید لفظوں میں مذمت کی تھی۔ ہندوستانی صحافی کے مطابق“The LTTE could not have grown without the support of successive state govts of India" ۔
قارئین اس سے ہندوستان کی اپنے ہمسایہ ممالک کے معاملات میں انگشت بازی ثابت ہوتی ہے۔صحافی کے مطابق اس مداخلت کی تصدیق بین الاقوامی جینز انفارمیشن گروپ نے بھی کی ہے صحافی نے لکھا کہ ہندوستان کا تبت اور برما میں کردار بھی قابلِ تعریف نہیں صحافی نے لکھا کہ“ہندوستان پاکستان کو تو کہتا ہےکہ پاکستان میں موجود جہادی تنظیموں کو لگام دینا چاہیے لیکن خود اپنے ملک میں تامل ناڈو کے سیاستدانوں کی سری لنکا میں مداخلت پر خاموش ہے۔ پاکستان کے الگ وجود کی اب مخالفت کرنے والے اس صحافی نے ماضی قریب میں لکھا تھا کہ“مسلمانوں پر ہندو مظالم کی داستان لمبی ہے 2002 میں تقریبا ایک ہزار مسلمانوں کو گجرات میں ہندوؤں نے ذبح کر دیا او وہاں کے وزیرِ اعلی نریندر مودی نے ٹی وی پر ہندوؤں کے اس جرم کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ“Every action has an equal and opposite reaction"یعنی مسلمانوں نے جو کیا بھر لیا۔
اس کے علاوہ صحافی کہتا ہے کہ“Varun Gandhi"نے حالیہ انتخابی مہم میں مسلمانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا“جو ہاتھ ہندو پر اٹھے گا وہ کاٹ دیا جائے گا“اور کہا“مسلمانوں کے اسامہ بن لادن جیسے کتنے*ڈراؤنے نام ہیں“
پاکستان کے اگلے کچھ سالوں میں ٹوٹ جانے کی اب مکروہ پیشن گوئی کرنے والے*صحافی نے چند ماہ پہلے اعتراف کیا تھا کہ ہندوستان کے سیکولرازم کی تعریف کا دارومدار اب ہندوؤں کی منشا پر ہے یعنی وہ جو چاہیں گے وہ ہو گا اس سے صحافی کے مطابق “ہندوستان ٹوٹ سکتا ہے“۔
قارئین ایک ہندوستانی صحافیKapil Komireddi کی زبان سے ہی ہندوستان میں اقلیتوں کی بدحالی کے متعلق مندرجہ بالا حقائق سن کر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کا ایک الگ ریاست حاصل کرنے کا مطالبہ درست تھا یا غلط۔اور دوسرا یہ کہ سیکولرازم کا واویلا کرنے والی بھارتی حکومت اپنے اعمال میں کس حد تک سیکولر ہے۔
ہمیں اس میں شک نہیں کہ آج پاکستان حالتِ جنگ میں ہے اور اس پر اندر اور باہر سے دو طرفہ حملے ہو رہے ہیں اس لئے ہر پاکستانی کو اس ساری سازش کو صحیح طرح سے سمجھنا چاہیے تاکہ اس کا بہترین مقابلہ کیا جا سکے۔ہماری وزارتِ اطلاعات اور بیرونِ ملک ہر پاکستانی سفارت خانہ بھی پاکستان کے خلاف زہر آلود پروپیگنڈے پر کڑی نظر رکھے تاکہ اہم بین الاقوامی اخبارات میں چھپنے والے ہر پاکستان دشمن کالم یا خبر کا ضرور انہی اخبارات میں اسی زبان میں منہ توڑ جواب دیا جائے۔
ملک کے دفاع کے لئے یہ جہاد ہم سب پر لازم ہے۔ ہندوستان کی اصول پرستی کے خلاف اگر کسی کو غلط فہمی ہے تو وہ ہندوستان کے فاؤنڈنگ فادر جواہر لال نہو کے مندرجہ ذیل بیان کو پڑھے جو انہوں نے 7 اگست 1952 کو ہندوستان کی پارلیمنٹ میں دیا تھا۔اور موجودہ ہندوستان کے اٹوٹ انگ والے رویے اور کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کو دیکھے“I want to stress that it is only the people of kashmir who can decide the future of kashmir. it is not that we have"
0 comments:
Post a Comment