جب سکاٹ لینڈ یارڈ گمشدہ ہیرے کی بازیابی میں ناکام ہو گئی تو اسے بادل نخواستہ
پیٹر ہرکس جس کا دماغ ایکسرے شعاعوں کو بھی مات کرتا تھا سے مدد حاصل کرنا
پڑی۔
یہ ہیرا دسمبر 1950 میں ویسٹ سنٹر اپنے کے قریب ایک جگہ سے چرایا گیا تھا یہ ایک جرم تھا جسے عالمگیر شہرت حاصل ہو گئی۔ساٹ لینڈ*پولیس کے لئے تو یہ ایک چیلنج کی حیثیت اختیارکر چکا تھا۔ ہرکس سادہ اور خاموش طبیعت کا ڈچ نوجوان تھا سکاٹ لینڈ کے نمائندے اسے ڈارڈرچ میں ملے تاکہ اس سلسلہ میں تمام شرائط طے کی جا سکیں۔ شرائط طے ہونے کے بعد اس نے لندن کے لئے پرواز کی جہاں ائیر پورٹ پر پولیس سارجنٹ اور دیگر حکام اس کے استقبال کے لئے موجود تھے۔حکام نے اسے ایک ہتھیار اور ایک کلائی کی گھڑی دی جو چور جاتے وقت چھوڑ گیا تھا۔
موقع واردات پر کاغذ کے چند ٹکڑوں کے معائنے کے بعد ہرکس نے لندن کے نقشہ پر آہستہ آہستہ ایک لکیر کھینچی یہ لکیر ہرکس کے کہنے کے مطابق وہ راستہ تھا جو چور نے لندن سے فرار ہوتے وقت اختیار کیا تھا۔اگرچہ اس نے اس سے پہلے لندن نہیں دیکھا تھا تاہم اس نے اس نقشہ پر اسی راستے کے اردگرد مخصوص عمارتوں کی نشنادہی بھی کر دی، اس نے یہ بھی بتایا کہ چور ایک نہیں تین ہیں اور ان کے ساتھ ایک عورت بھی ہے۔
بلآخر جب تین ماہ کی سر توڑ کوششوں کے بعد چور گرفتار ہوئے تو ان کے حلیے ہرکس کی تفصیلات کے عین مطابق تھے۔
جنگ کے دوران چند ڈچ محب وطنوں کو اپنے ایک نئے ممبر کے متعلق شک گزرا تو وہ اس کی تصویر لے کر ہرکس کے پاس پہنچ گئے۔ ہرکس نے چند لمحوں کے لئے اپنی انگلیاں تصویر پر پھیریں میں اس آدمی کو جرمن آفیسر کے روپ میں دیکھ رہا ہوں۔ چنانچہ بعد میں اس کی کڑی نگرانی کی گئی اور بلآخر اسے جرمنی کو جنگ کی معلومات بھیجنے پر گرفتار کر لیا گیا۔بعد میں اس نے نازی جاسوسی نظام کے ایک آفیسر کی حیثیت سے اقبالِ جرم کر لیا۔ہرکس نے یہی پیشن گوئی کی تھی۔
نجمی گن(ہالینڈ) کی پولیس ہرکس کی خصوصی طور پر شکرگزار ہے۔اگست 1951 میں اس قدیم شہر کے ارد گرد کے علاقے میں کوئی نامعلوم شخص آگ لگا کر لوگوں کو پریشان کرتا تھا۔ دو سو سے زائد سپاہی اس علاقے میں گشت پر معمور کئے گئے تھے۔لیکن اس کے باوجود جھونپڑیوں،مکانوں اور پلوں کو آگ لگانے کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔ان وارداتوں کے شروع ہونے کے بعد ایک رات ہرکس نجمی گن کے کارخانہ دار دوست کے ساتھ گھوم رہا تھا کہ اچانک وہ ٹھہر گیا۔اس نے اپنے دوست کو بتایا کہ جلد ہی جانسن کے کھیتوں میں آگ لگائی جانے والی ہے۔پھر وہ اپنے دوست کے ساتھ پولیس کو آگہ کرنے کے لئے دوڑا۔لیکن وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ اس آگ کی اطلاع دو منٹ پہلے چوکی کو مل چکی ہے۔پولیس نہ صرف ہرکس کی خصوصیات کے بارے میں نا علم تھی بلکہ الٹا اس کے ساتھ گستاخی سے بھی پیش آ رہی تھی۔ہرکس نے اصرار کے ساتھ یہ پیش کش کی کہ اسے اگر ایک موقع دیا جائے تو وہ اس پر اسرار آگ کے بارے میں پولیس کی مدد کر سکتا ہے۔
اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور پولیس کپتان کی جیب میں موجود اشیاء کی تفصٰل بتا دی حتی کہ اس نے اس پنسل کے اوپر موجود تجارتی نشان بھی بتا دیا جو پولیس کیپٹن کی جیب میں تھی۔چنانچہ ہرکس کی درخواست منظور کر لی گئی اور اس کی راہنمائی میں نجمی گن کی پولیس نے آگ لگانے والے نامعلوم شخص کا سراغ لگا لیا۔
سب ے پہلے ہرکس نے درخواست کی کہ پولیس اسے وہ جگہ دکھائے جہاں اس سے پہلے آگ لگ چکی ہے۔چنانچہ راکھ ٹٹولنے کے بعد اسے ایک جلا ہوا پیچ کس ملا۔اس نے چند لمحوں کے لئے اسے خاموشی سے ٹٹولا اور کہا، ہمیں ایک نوجوان طالبِ علم کی تلاش کرنی چاہیے۔چنانچہ اسے سکولوں کی سالانہ کتاب میں موجود طلبہ کی تصویریں دکھائی گئیں۔آخر کار ہرکس نے گروپ فوٹو میں ایک لڑے کی نشاندہی کر دی۔
لڑکا جس کے متعلق میں ابھی ابھی آپ کو بتارہا تھا یہ شہر کے ایک امیر کبیر آدمی کا بیٹا ہے جس کی عمر سترہ سال ہے ہرکس ے پولیس کیپٹن کو بتایا۔یہ بڑا مضحکہ خیز انکشاف ہے پولیس کیپٹن بڑبڑایا۔لیکن ہرکس بدستور کہتا رہا۔ اس لڑکے کی ایک جیب میں تمہیں ماچس ملے گی اور دوسری میں لائیٹر میں جلنے والا مادہ۔ لیکن یہ لڑکا سگریٹ بلکل نہیں یتا۔
جب اس لڑکے کو پولس سٹیشن لایا گیا تو اس نے اقبالِ جرم کرنے سے انکار کر دیا۔حتی کہ ہرکس نے کہا اپنی ٹانگ اوپر اٹھاؤ اور پولیس کو وہ زخم دکھاؤ جو بھاگتے وقت تمہیں خار دار تاروں کی باڑ کو پھلانگتے وقت لگا تھا۔ یہ زخم ٹھیک اسی جگہ موجود تھا۔ چنانچہ لڑکے نے تمام الزامات تسلیم کر لئے۔ بلآخر اسے دماغی امراض کے سنٹر بھیج دیا گیا۔اس حیرت انگیز تفتیش نے بڑی شہرت اختیار کر لی مگر ہرکس کے لئے تو یہ ایک معمولی بات تھی۔
ہرکس کو اس جگہ لے جایا گیا جہاں ایک آدمی کو اس کی دہلیز پر قتل کر دیا گیا تھا۔ہرکس نے مقتول کا کوٹ ٹٹولا اور پولیس کو بتایا کہ قاتل ایک بوڑھا آدمی ہے جس نے چشمہ لگا رکھا ہے۔اس کی مونچھیں بھی ہیں مزید برآں وہ مصنوعی ٹانگوں کے سہارے چلتا ہے۔اس آدمی نے آلہ قتل مقتول کی چھت میں چھپا رکھا ہے۔چنانچہ پولیس نے اس کی راہنمائی میں چھت سے وہ بندوق برآمد کر لی جس سے مقتول پر گولی چلائی گئی تھی اور اس بندوق پر سے قاتل کی انگلیوں کے نشانات بھی مل گئے یہ نشانات مقتول کے خُسر کے تھے جس کی مونچھیں بھی تھیں اور وہ عینک بھی لگاتا تھا۔مزید برآں وہ بیساکھیوں کو بھی استعمال کرتا تھا۔پیٹر ہرکس کو خود معلوم نہیں کہ وہ کس طرح کسی معمے کو حل کر لیتا ہے۔
1958 میں اسے امریکہ لیجایا گیا جہاں دماغی ماہرین کی ایک ٹیم نے اس کا معائنہ کیا۔ انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ وہ ہرکس کی ان عجیب و غریب خصوصیات کو دیکھ کر حیران ہیں جس کا ذہن راڈار کی مانند ہے۔ یہ قدرت کا ایک ایسا عطیہ تھا جو سائنس سے بھی عجیب ہے گویا سائنس سے عجائبات تک ایک قدم ہے۔
__________________
یہ ہیرا دسمبر 1950 میں ویسٹ سنٹر اپنے کے قریب ایک جگہ سے چرایا گیا تھا یہ ایک جرم تھا جسے عالمگیر شہرت حاصل ہو گئی۔ساٹ لینڈ*پولیس کے لئے تو یہ ایک چیلنج کی حیثیت اختیارکر چکا تھا۔ ہرکس سادہ اور خاموش طبیعت کا ڈچ نوجوان تھا سکاٹ لینڈ کے نمائندے اسے ڈارڈرچ میں ملے تاکہ اس سلسلہ میں تمام شرائط طے کی جا سکیں۔ شرائط طے ہونے کے بعد اس نے لندن کے لئے پرواز کی جہاں ائیر پورٹ پر پولیس سارجنٹ اور دیگر حکام اس کے استقبال کے لئے موجود تھے۔حکام نے اسے ایک ہتھیار اور ایک کلائی کی گھڑی دی جو چور جاتے وقت چھوڑ گیا تھا۔
موقع واردات پر کاغذ کے چند ٹکڑوں کے معائنے کے بعد ہرکس نے لندن کے نقشہ پر آہستہ آہستہ ایک لکیر کھینچی یہ لکیر ہرکس کے کہنے کے مطابق وہ راستہ تھا جو چور نے لندن سے فرار ہوتے وقت اختیار کیا تھا۔اگرچہ اس نے اس سے پہلے لندن نہیں دیکھا تھا تاہم اس نے اس نقشہ پر اسی راستے کے اردگرد مخصوص عمارتوں کی نشنادہی بھی کر دی، اس نے یہ بھی بتایا کہ چور ایک نہیں تین ہیں اور ان کے ساتھ ایک عورت بھی ہے۔
بلآخر جب تین ماہ کی سر توڑ کوششوں کے بعد چور گرفتار ہوئے تو ان کے حلیے ہرکس کی تفصیلات کے عین مطابق تھے۔
جنگ کے دوران چند ڈچ محب وطنوں کو اپنے ایک نئے ممبر کے متعلق شک گزرا تو وہ اس کی تصویر لے کر ہرکس کے پاس پہنچ گئے۔ ہرکس نے چند لمحوں کے لئے اپنی انگلیاں تصویر پر پھیریں میں اس آدمی کو جرمن آفیسر کے روپ میں دیکھ رہا ہوں۔ چنانچہ بعد میں اس کی کڑی نگرانی کی گئی اور بلآخر اسے جرمنی کو جنگ کی معلومات بھیجنے پر گرفتار کر لیا گیا۔بعد میں اس نے نازی جاسوسی نظام کے ایک آفیسر کی حیثیت سے اقبالِ جرم کر لیا۔ہرکس نے یہی پیشن گوئی کی تھی۔
نجمی گن(ہالینڈ) کی پولیس ہرکس کی خصوصی طور پر شکرگزار ہے۔اگست 1951 میں اس قدیم شہر کے ارد گرد کے علاقے میں کوئی نامعلوم شخص آگ لگا کر لوگوں کو پریشان کرتا تھا۔ دو سو سے زائد سپاہی اس علاقے میں گشت پر معمور کئے گئے تھے۔لیکن اس کے باوجود جھونپڑیوں،مکانوں اور پلوں کو آگ لگانے کی اطلاعات موصول ہوتی رہیں۔ان وارداتوں کے شروع ہونے کے بعد ایک رات ہرکس نجمی گن کے کارخانہ دار دوست کے ساتھ گھوم رہا تھا کہ اچانک وہ ٹھہر گیا۔اس نے اپنے دوست کو بتایا کہ جلد ہی جانسن کے کھیتوں میں آگ لگائی جانے والی ہے۔پھر وہ اپنے دوست کے ساتھ پولیس کو آگہ کرنے کے لئے دوڑا۔لیکن وہاں پہنچ کر انہیں معلوم ہوا کہ اس آگ کی اطلاع دو منٹ پہلے چوکی کو مل چکی ہے۔پولیس نہ صرف ہرکس کی خصوصیات کے بارے میں نا علم تھی بلکہ الٹا اس کے ساتھ گستاخی سے بھی پیش آ رہی تھی۔ہرکس نے اصرار کے ساتھ یہ پیش کش کی کہ اسے اگر ایک موقع دیا جائے تو وہ اس پر اسرار آگ کے بارے میں پولیس کی مدد کر سکتا ہے۔
اس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور پولیس کپتان کی جیب میں موجود اشیاء کی تفصٰل بتا دی حتی کہ اس نے اس پنسل کے اوپر موجود تجارتی نشان بھی بتا دیا جو پولیس کیپٹن کی جیب میں تھی۔چنانچہ ہرکس کی درخواست منظور کر لی گئی اور اس کی راہنمائی میں نجمی گن کی پولیس نے آگ لگانے والے نامعلوم شخص کا سراغ لگا لیا۔
سب ے پہلے ہرکس نے درخواست کی کہ پولیس اسے وہ جگہ دکھائے جہاں اس سے پہلے آگ لگ چکی ہے۔چنانچہ راکھ ٹٹولنے کے بعد اسے ایک جلا ہوا پیچ کس ملا۔اس نے چند لمحوں کے لئے اسے خاموشی سے ٹٹولا اور کہا، ہمیں ایک نوجوان طالبِ علم کی تلاش کرنی چاہیے۔چنانچہ اسے سکولوں کی سالانہ کتاب میں موجود طلبہ کی تصویریں دکھائی گئیں۔آخر کار ہرکس نے گروپ فوٹو میں ایک لڑے کی نشاندہی کر دی۔
لڑکا جس کے متعلق میں ابھی ابھی آپ کو بتارہا تھا یہ شہر کے ایک امیر کبیر آدمی کا بیٹا ہے جس کی عمر سترہ سال ہے ہرکس ے پولیس کیپٹن کو بتایا۔یہ بڑا مضحکہ خیز انکشاف ہے پولیس کیپٹن بڑبڑایا۔لیکن ہرکس بدستور کہتا رہا۔ اس لڑکے کی ایک جیب میں تمہیں ماچس ملے گی اور دوسری میں لائیٹر میں جلنے والا مادہ۔ لیکن یہ لڑکا سگریٹ بلکل نہیں یتا۔
جب اس لڑکے کو پولس سٹیشن لایا گیا تو اس نے اقبالِ جرم کرنے سے انکار کر دیا۔حتی کہ ہرکس نے کہا اپنی ٹانگ اوپر اٹھاؤ اور پولیس کو وہ زخم دکھاؤ جو بھاگتے وقت تمہیں خار دار تاروں کی باڑ کو پھلانگتے وقت لگا تھا۔ یہ زخم ٹھیک اسی جگہ موجود تھا۔ چنانچہ لڑکے نے تمام الزامات تسلیم کر لئے۔ بلآخر اسے دماغی امراض کے سنٹر بھیج دیا گیا۔اس حیرت انگیز تفتیش نے بڑی شہرت اختیار کر لی مگر ہرکس کے لئے تو یہ ایک معمولی بات تھی۔
ہرکس کو اس جگہ لے جایا گیا جہاں ایک آدمی کو اس کی دہلیز پر قتل کر دیا گیا تھا۔ہرکس نے مقتول کا کوٹ ٹٹولا اور پولیس کو بتایا کہ قاتل ایک بوڑھا آدمی ہے جس نے چشمہ لگا رکھا ہے۔اس کی مونچھیں بھی ہیں مزید برآں وہ مصنوعی ٹانگوں کے سہارے چلتا ہے۔اس آدمی نے آلہ قتل مقتول کی چھت میں چھپا رکھا ہے۔چنانچہ پولیس نے اس کی راہنمائی میں چھت سے وہ بندوق برآمد کر لی جس سے مقتول پر گولی چلائی گئی تھی اور اس بندوق پر سے قاتل کی انگلیوں کے نشانات بھی مل گئے یہ نشانات مقتول کے خُسر کے تھے جس کی مونچھیں بھی تھیں اور وہ عینک بھی لگاتا تھا۔مزید برآں وہ بیساکھیوں کو بھی استعمال کرتا تھا۔پیٹر ہرکس کو خود معلوم نہیں کہ وہ کس طرح کسی معمے کو حل کر لیتا ہے۔
1958 میں اسے امریکہ لیجایا گیا جہاں دماغی ماہرین کی ایک ٹیم نے اس کا معائنہ کیا۔ انہوں نے بھی تسلیم کیا کہ وہ ہرکس کی ان عجیب و غریب خصوصیات کو دیکھ کر حیران ہیں جس کا ذہن راڈار کی مانند ہے۔ یہ قدرت کا ایک ایسا عطیہ تھا جو سائنس سے بھی عجیب ہے گویا سائنس سے عجائبات تک ایک قدم ہے۔
0 comments:
Post a Comment