ایک مرتبہ کسی فقیہ نے یہ کام کیا کہ بہت سے چیتھڑے دھوئے اور پاک صاف کر
کے انہیں اپنے سر پر عمامے کے نیچے باندھ لیا،تاکہ جب وہ کسی اعلیٰ محفل
میں ادنیٰ مقام پر بیٹھے تو عمامہ وزنی دکھائی دے اور لوگ سمجھیں کہ بڑا
عالم فاضل ہے۔ بلا شبہ ان حقیر اور بے قیمت دھجیوں سے دستار کا وزن دگنا
تگنا ضرور ہو گیا تھا،لیکن قلبِ منافق کی طرح وہ اندر سے ذلیل اور کم حیثیت
تھی۔فقیروں کی گدڑیوں کے ٹکڑے، بوسیدہ اور سڑی ہوئی روئی کے گالے اور
گداگروں کی پوستین کی دھجیاں اس عمامے کی بنیاد تھیں۔وہ فقیہ یہ وزنی عمامہ
سر پر باندھ کر اگلے روز منہ اندھیرے مدرسے میں پہنچا تاکہ وزنی دستار
سے،جسے عزت و عظمت کا سبب خیال کرتا تھا،کچھ حاصل کرے۔دور سے ایک چور نے
تاڑا کہ ایک قیمتی دستار والا چلا آتا ہے۔جوں ہی وہ فقیہ نزدیک آیا،اچکے نے
جھپٹ کر دستار سر سے اتار لی تاکہ اسے بازار میں بیچ کر ٹکے کھرے کرے۔فقیہ
نے اسے آواز دی کہ ارے بھائی، یہ دستار کدھر لیے جاتا ہے اور کس دھوکے میں
ہے؟ذرا اسے کھول کر بھی دیکھ لے اس کے بعد جی چاہے تو شوق سے لے جانا میں
نے تجھے عطا کی۔فقیہ کی یہ آواز سن کر اچکے نے دوڑتے دوڑتے وہ وزنی دستار
کھولی اس کے پیچ و خم کھولتا جاتا تھا اور اس میں سے رنگ برنگے چیتھڑے اور
دھجیاں نکل نکل کر زمین پر گرتی جاتی تھیں۔یہاں تک کہ اچکے کے ہاتھ میں
ہاتھ بھر کا بوسیدہ کپڑا رہ گیا۔اس نے جھلا کر اسے بھی زمین پر پھینکا اور
کہنے لگا’’ابے او ہلکے شخص ، تو نے دغا بازی سے خوامخواہ میری محنت برباد
کی۔یہ کیا مکر تھا کہ ایسی عمدہ دستار بنا کر مجھے اس پر ہاتھ ڈالنے اور
اڑا لے جانے کا لالچ دیا؟تجھے ذرا حیاء نہ آئی ایسا کام کرتے ہوئے؟ مجھے
بیٹھے بٹھائے ایک گناہِ بے لذت میں مبتلا کر دیا‘‘۔
فقیہ نے جواب دیا ’’تو سچ کہتا ہے۔ بے شک میں نے دھوکہ دیا،لیکن یہ تو سوچ کہ بطور نصیحت تجھے آگاہ بھی کر دیا تھا کہ لے جانے سے پہلے کھول کر دیکھ لے اب مجھے لعنت ملامت کرنے سے فائدہ؟ کچھ میرا قصور ہو تو بتا‘‘۔
اے عزیز، فقیہ کی اس وزنی اور بظاہر قیمتی دستار کی طرح یہ دنیا بھی بڑی بھاری اور بیش قیمت نظر آتی ہے۔مگر اس کے اندر جو عیب پوشیدہ ہے،اس کا بھی اس نے اظہار کر دیا ہے اور سب سے کہ دیا ہے کہ اسے اچھے طرح جانچ پھٹک کر دیکھ لو۔بعد میں گلہ شکوہ نہ کرنا۔اے عزیز،بہاروں کی دل فریبی اور نرماہٹ پر زیادہ مت اچھل۔خزاں کی سردی اور زردی بھی دھیان میں رکھ۔
فقیہ نے جواب دیا ’’تو سچ کہتا ہے۔ بے شک میں نے دھوکہ دیا،لیکن یہ تو سوچ کہ بطور نصیحت تجھے آگاہ بھی کر دیا تھا کہ لے جانے سے پہلے کھول کر دیکھ لے اب مجھے لعنت ملامت کرنے سے فائدہ؟ کچھ میرا قصور ہو تو بتا‘‘۔
اے عزیز، فقیہ کی اس وزنی اور بظاہر قیمتی دستار کی طرح یہ دنیا بھی بڑی بھاری اور بیش قیمت نظر آتی ہے۔مگر اس کے اندر جو عیب پوشیدہ ہے،اس کا بھی اس نے اظہار کر دیا ہے اور سب سے کہ دیا ہے کہ اسے اچھے طرح جانچ پھٹک کر دیکھ لو۔بعد میں گلہ شکوہ نہ کرنا۔اے عزیز،بہاروں کی دل فریبی اور نرماہٹ پر زیادہ مت اچھل۔خزاں کی سردی اور زردی بھی دھیان میں رکھ۔
0 comments:
Post a Comment