برمودا تکون جسے شیطانی تکون کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ مثلث بحر اوقیانوس
میں واقع ہے جو فلوریڈا سے شروع ہو کر برمودا اور پورٹوریکو سے ہوتی ہوئی واپس
فلوریڈا پر اختتام پذیر ہوتی ہے یوں یہ ایک مثلث کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
اس مثلث کی شہرت کی وجہ اس سے جڑے ہوئے کچھ مافوق الفطرت واقعات ہیں جنہیں سائنس تو
نہیں مانتی لیکن اس کے باوجود جس انداز میں ان واقعات کو پیش کیا گیا اور انہیں
مافوق الفطرت مخلوقات وغیرہ سے تشبیہہ دی گئی یہ مثلث ایک عرصہ تک عالمی فورمز پر
زیرِ بحث رہی۔
ان واقعات میں جو مشہور واقعات بیان کئے جاتے ہیں ان میں بحری جہازوں اور فضائی جہازوں کا پر اسرار طور پر غائب ہو جانا، انسانوں کا غائب ہو جانا وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
اس مثلث کا برمودا مثلث نام پہلی مرتبہ Vincent H. Gaddis نے 1964 میں Argosy magazine میں لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں استعمال کیا۔ اس آرٹیکل میں اس نے لکھا کہ اس خطرناک علاقے میں بہت سے بحری اور ہوائی جہاز بنا کوئی نشان چھوڑے غائب ہو گئے۔Gaddis پہلا شخص نہیں تھا جس نے اس جانب توجہ مبذول کروائی بلکہ اس سے پہلے 1952 میں George X. Sands نے اپنی ایک رپورٹ جو اس نے Fate magazine کو مہیا کی اس میں اس بارے میں کافی کچھ بتایا تھا۔ اس کے علاوہ 1969 میں John Wallace Spencer نے ایک کتاب لکھی جس کا نام Limbo of the Lost Ships ہے جس میں اس پر اسرار تکون پر تفصیل کے ساتھ بات کی گئی۔
ان سب کتابوں کے علاوہ بے شمار مضامین اور کتابیں اس حوالے سے شائع ہوئیں۔ جن میں برمودا مثلث کو ایک افسانوی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ لیکن سائنس نے آج تک کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بناء پر ان سب چیزوں کو رد کر دیا۔ کیونکہ یہ تمام باتیں سائنسی اصولوں سے ہٹ کر صرف اور صرف مافوق الفطرت انداز میں پیش کی گئیں۔ بہت سے مصنفین اور ناول نگاروں نے ان واقعات کو مزید نمک مرچ لگا کر اور اندازو بیان کی آرائش سے مزید پر اسرار بنا کر پیش کیا۔
اس مثلث سے جس کہانی کو سب سے پہلے منسوب کیا گیا وہ ایک مشہورو معروف بحری جہاز USS Cyclops کا غائب ہونا تھا جو 1918 میں اس کا شکار ہوا۔ 542 فٹ لمبا یہ جہاز 1910 میں بنایا گیا تھا اور یہ امریکن نیوی کو دوسری جنگِ عظیم میں بحری جہازوں کے لئے ایندھن لے جانے کا کام کرتا تھا۔ یہ جہاز Bahia،Salvador سے سپلائی لے کر Baltimore, Maryland کی جانب روانہ ہوا لیکن اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکا۔ بعد میں اس کے بارے میں صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ یہ جہاز اپنی روٹین سے ہٹ کر 3 اور 4 مارچ 1918 کو بارباڈوس میں مزید سپلائی لینے کے لئے رکا تھا۔ لیکن اس کے بعد یہ ایسا غائب ہوا کہ اپنا نام و نشان تک نہیں چھوڑا۔ اس جہاز میں عملے سمیت کل 306 مسافر سوار تھے جن میں سے کسی کا بھی کوئی سراغ نہیں ملا۔ یہ جنگِ عظیم میں امریکی نیوی کا سب سے بڑا نقصان تھا جو بغیر کسی لڑائی کے ہوا۔ یہ بلاشبہ ایک پر اسرار واقعہ تھا لیکن یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ واقعی برمودا مثلث کے علاقے میں ہی غائب ہوا، ہو سکتا ہے یہ جہاز بارباڈوس اور بالٹیمور کے درمیان کسی اور علاقے میں غائب ہوا ہو کیونکہ بارباڈوس اور بالٹیمور کے درمیان بے حد وسیع سمندری علاقہ ہے۔
دوسرا بڑا واقعہ جو اس سلسلے میں بیان کیا جاتا ہے وہ SS Marine Sulphur Queen Vanishes بحری جہاز کی گمشدگی کا ہے جو 1963 میں فلوریڈا کے قریب اس مثلث میں غائب ہوا۔ اس جہاز میں عملے کے 39 افراد سوار تھے لیکن ان میں سے ایک بھی نہیں ملا۔ مگر کوسٹ گارڈ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جہازاس طرح بنا ہوا تھا کہ اسے کسی وقت بھی ٹکڑوں میں تبدیل کر کے رکھا جا سکتا تھا اور یہ جہاز یقینآ سمندر میں اترا ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ماہرین کے مطابق کیونکہ یہ جہاز ایک آئل ٹینکر تھا لیکن بعد میں یہ اپنے اصلی کام سے ہٹ کر مولٹن سلفر لے جانے لگا اور اس تبدیلی کی وجہ سے یہ جہاز تباہ ہو گیا۔ بعد میں سمندر میں کسی جلے ہوئے جہاز کے آثار بھی ملے تھے۔
اس کے علاوہ 28 دسمبر 1948 کی رات ایک ہوائی جہاز NC16002 جو DC-3 مسافر بردار جہاز تھا اور سان جان San Juan (پورٹوریکو) سے میامی(فلوریڈا) جا رہا تھا غائب ہوا۔موسم بھی بلکل صاف تھا اور پائلٹ کے مطابق میامی سے 50 میل دور تھا کہ اچانک غائب ہو گیا اس میں سوار عملے کے تین اور 29 مسافروں کا کبھی بھی سراغ نہیں مل سکا۔ محکمانہ تفتیش میں یہ بات بتائی گئی کہ ٹیک آف کے وقت جہاز کی بیٹریاں مکمل طور پر چارج نہیں تھیں جو بعد میں اڑان کے دوران رابطہ سسٹم خراب ہو جانے کا سبب بنیں اور میامی سے جو میسج جہاز کو دیا گیا کہ ہوا کا رخ تبدیل ہو گیا ہے پائلٹ کو موصول نہیں ہو سکا اور وہ بروقت حفاظتی انتظام نہیں کر سکا۔
اس کے علاوہ 25 اکتوبر 1980 کو ایک اور بحری جہاز S.S.POET بھی اسی طرح پر اسرار طور پر غائب ہوا اور اپنا نام و نشان تک نہ چھوڑا لیکن تحقیق میں یہ الزام لگایا گیا کہ انشورنش کی رقم حاصل کرنے کے لئے اس جہاز کو غائب کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے بڑا واقعہ جو بے حد مشہور ہوا وہ 5 ایونجر Avenger تارپیڈو بمبار جہازوں جسے فلائٹ 19 بھی کہا جاتا تھا کا پر اسرار طور پر غائب ہو جانا تھا۔ ان جہازوں کے گروپ نے فلوریڈا کے فورٹ لاؤڈرڈیل Fort Lauderdale کے نیول ائیر بیس سے 2 بج کر 10 منٹ پر اڑان بھری یہ ایک معمول کی اڑان تھی جس کا کمانڈر لیفٹینٹ چارلس ٹیلر تھا اور باقی اس کے شاگرد شامل تھے جنہیں مشرق کی جانب 56 میل تک جانا تھا۔ لیکن یہ فاصلہ طے کرنے کے بعد کمانڈر نے مزید 67 میل مشرق کی جانب اڑنے کا کہا اور پھر وہاں سے 73 میل شمال کی جانب جا کر سیدھا واپس بیس پر آنا تھا یہ فاصلہ 120 میل کا بن گیا۔ اور یہ اضافی فاصلہ انہیں اس ٹرائی اینگل کی جانب لے گیا۔ اڑان کے تقریبا ایک گھنٹے بعد ٹیلر نے بیس کو ایک پیغام بھیجا کہ طیارے کے سمت بتانے والےآلات compasses کام نہیں کر رہے لیکن اسے خود پر یقین تھا کہ وہ فلوریڈا کے ٹاپوؤں( یہ ٹاپو فلوریڈا کے چھوٹے چھوٹے آئس لینڈز کا ایک سلسلہ ہے جو فلوریڈا کے مین جزیرے کے جنوب میں واقعہ ہیں) کے اوپر ہی کہیں اڑ رہے ہیں۔ بیس میں موجود لیفٹینٹ کاکس نے کہا کہ اگر تمہیں یقین ہے کہ تم وہاں ہو تو شمال کی جانب میامی کی طرف اڑو۔
آج کل کے جہازوں کے پاس تو اپنی موجودہ پوزیشن کو چیک کرنے کے لئے بہت سے راستے موجود ہیں جن کا مطالعہ جی۔پی۔ایس (Global Positioning Satellites) کے تحت کیا جاتا ہے اور اگر وہ ان سب آلات کو بہترین طریقے سے استعمال کرنا جانتا ہو تو ان حالات میں یہ بات تقریبا ناممکن ہے کہ کوئی پائلٹ اپنا راستہ کھو دے ۔ لیکن 1945 میں پانی پر اڑتے ہوئے اپنے ابتدائی نقطے کے بارے میں معلومات پر انحصار کیا جاتا تھا کہ وہ کتنی رفتار سے کتنی دور اور کس سمت میں اڑ رہے ہیں اور اگر پائلٹ ان میں سے کسی ایک کا بھی حساب نہیں رکھ پاتا تو وہ یقینآ گم ہو جاتا تھا سمندر کے اوپر کوئی نشانیاں نہیں تھیں جو انہیں سیدھا راستہ دکھا سکتیں۔
یہ سب جہاز 3 بجکر 45 منٹ پر غائب ہو گئے اور اس کے بعد ان کا بیس سے رابطہ منقطع ہو گیا۔اس بیڑے کو بچانے کے لئے جانے والا ایک اور جہاز Martin Mariner بھی پراسرارطور پر غائب ہو گیا۔ تحیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ جہاز اپنی اڑان کے کچھ ہی دیر کے بعد ایک دھماکے سے تباہ ہو گیا تھا بعد میں اس جہاز کا تیل اور ٹکڑے سطع سمندر پر تیرتے ہوئے ملے۔ اس جہاز کی تباہی کا سبب کاک پٹ میں گیس بھر جانے اور عملے کے ارکان میں سے کسی کے سگریٹ جلانے کی وجہ سے اس میں ہونے والے دھماکے کو بیان کیا گیا۔
ادھر ایونجر کی گمشدگی کے بارے میں تحقیق میں کہا گیا کہ ٹیلر سمت کے بارے میں دو راہے کا شکار تھا لیکن ٹیلر ایک ماہر پائلٹ تھا اور اس سے اس قسم کی غلطی کی کوئی توقع نہیں تھی۔ بعد میں اس تحقیق کو اس عنوان کے ساتھ بند کر دیا گیا کہ causes or reasons unknown۔
یہ واقعہ اس مثلث کی پر اسراریت کے عنوان میں بار بار دہرایا جاتا ہے۔
برمودا تکون کے بارے میں مختلف تھیوریاں:۔
برمودا تکون کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جگہ ایک دروازے کی حیثیت رکھتی ہے جہاں دوسری دنیا سے آنے والی مخلوق اس دنیا میں داخل ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اسے وقت کا خلاء کہتے ہیں جہاں آنے والی ہر چیز وقت کے خلاء میں گم ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے سمندر کی تہہ میں ڈوبے ہوئے اٹلانٹس کے سگنلز کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ لیکن سائنس اور ماہرین اس سب کو حقیقت کے منافی اور من گھڑت افسانوں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔
اس کے علاوہ اس کا ایک سبب پانی کی تیز لہروں کو قرار دیا جاتا ہے جو ہر ہونے والے حادثے کے نشان کو اس طرح صاف کر دیتی ہیں کہ ان کا نشان تک نہیں ملتا۔اس کے علاوہ ایک وجہ علاقائی موسم بھی بتایا جاتا ہے جو اچانک بادو باراں اور طوفان کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے جہاز غائب ہوتے ہیں اور اموات واقع ہوتی ہیں۔
کچھ دانشور ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں تین سمندروں گلف آف میکسیکو، اٹلانٹک اور کیریبئن کے پانیوں کا میلاپ ہوتا ہے۔ اور ان کے پانیوں کے آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے اس میں ایسی مقناطیسی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو اپنے اوپر سے گزرنے والی ہر چیز کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔ اور بعد میں تیز لہریں وقت کے ساتھ ساتھ اس کا نشان مٹا دیتی ہیں۔
بعض مفکرین کے نزدیک ایک سبب یہاں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برطانوی اور امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی ہے جن سے لوگوں کو دور رکھنے کے لئے یہ من گھڑت قصے گھڑے گئے۔
کچھ مفکرین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں امریکہ نے ایسی لیبارٹریاں بنا رکھی ہیں جہاں انسانوں کے خاتمے کے لئے مہلک ترین ہتھاروں کی تیاری اور تجربات کا کام کیا جاتا ہے۔ اور لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ نہ چلے اس لئے یہ ڈرامہ رچایا گیا۔ حقیقت کیا ہے یہ آج تک کسی تحقیق میں سامنے نہیں آ سکی۔
ان واقعات میں جو مشہور واقعات بیان کئے جاتے ہیں ان میں بحری جہازوں اور فضائی جہازوں کا پر اسرار طور پر غائب ہو جانا، انسانوں کا غائب ہو جانا وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
اس مثلث کا برمودا مثلث نام پہلی مرتبہ Vincent H. Gaddis نے 1964 میں Argosy magazine میں لکھے گئے اپنے ایک آرٹیکل میں استعمال کیا۔ اس آرٹیکل میں اس نے لکھا کہ اس خطرناک علاقے میں بہت سے بحری اور ہوائی جہاز بنا کوئی نشان چھوڑے غائب ہو گئے۔Gaddis پہلا شخص نہیں تھا جس نے اس جانب توجہ مبذول کروائی بلکہ اس سے پہلے 1952 میں George X. Sands نے اپنی ایک رپورٹ جو اس نے Fate magazine کو مہیا کی اس میں اس بارے میں کافی کچھ بتایا تھا۔ اس کے علاوہ 1969 میں John Wallace Spencer نے ایک کتاب لکھی جس کا نام Limbo of the Lost Ships ہے جس میں اس پر اسرار تکون پر تفصیل کے ساتھ بات کی گئی۔
ان سب کتابوں کے علاوہ بے شمار مضامین اور کتابیں اس حوالے سے شائع ہوئیں۔ جن میں برمودا مثلث کو ایک افسانوی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ لیکن سائنس نے آج تک کوئی ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بناء پر ان سب چیزوں کو رد کر دیا۔ کیونکہ یہ تمام باتیں سائنسی اصولوں سے ہٹ کر صرف اور صرف مافوق الفطرت انداز میں پیش کی گئیں۔ بہت سے مصنفین اور ناول نگاروں نے ان واقعات کو مزید نمک مرچ لگا کر اور اندازو بیان کی آرائش سے مزید پر اسرار بنا کر پیش کیا۔
اس مثلث سے جس کہانی کو سب سے پہلے منسوب کیا گیا وہ ایک مشہورو معروف بحری جہاز USS Cyclops کا غائب ہونا تھا جو 1918 میں اس کا شکار ہوا۔ 542 فٹ لمبا یہ جہاز 1910 میں بنایا گیا تھا اور یہ امریکن نیوی کو دوسری جنگِ عظیم میں بحری جہازوں کے لئے ایندھن لے جانے کا کام کرتا تھا۔ یہ جہاز Bahia،Salvador سے سپلائی لے کر Baltimore, Maryland کی جانب روانہ ہوا لیکن اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکا۔ بعد میں اس کے بارے میں صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ یہ جہاز اپنی روٹین سے ہٹ کر 3 اور 4 مارچ 1918 کو بارباڈوس میں مزید سپلائی لینے کے لئے رکا تھا۔ لیکن اس کے بعد یہ ایسا غائب ہوا کہ اپنا نام و نشان تک نہیں چھوڑا۔ اس جہاز میں عملے سمیت کل 306 مسافر سوار تھے جن میں سے کسی کا بھی کوئی سراغ نہیں ملا۔ یہ جنگِ عظیم میں امریکی نیوی کا سب سے بڑا نقصان تھا جو بغیر کسی لڑائی کے ہوا۔ یہ بلاشبہ ایک پر اسرار واقعہ تھا لیکن یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ یہ واقعی برمودا مثلث کے علاقے میں ہی غائب ہوا، ہو سکتا ہے یہ جہاز بارباڈوس اور بالٹیمور کے درمیان کسی اور علاقے میں غائب ہوا ہو کیونکہ بارباڈوس اور بالٹیمور کے درمیان بے حد وسیع سمندری علاقہ ہے۔
دوسرا بڑا واقعہ جو اس سلسلے میں بیان کیا جاتا ہے وہ SS Marine Sulphur Queen Vanishes بحری جہاز کی گمشدگی کا ہے جو 1963 میں فلوریڈا کے قریب اس مثلث میں غائب ہوا۔ اس جہاز میں عملے کے 39 افراد سوار تھے لیکن ان میں سے ایک بھی نہیں ملا۔ مگر کوسٹ گارڈ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ جہازاس طرح بنا ہوا تھا کہ اسے کسی وقت بھی ٹکڑوں میں تبدیل کر کے رکھا جا سکتا تھا اور یہ جہاز یقینآ سمندر میں اترا ہی نہیں تھا۔ اس کے علاوہ ماہرین کے مطابق کیونکہ یہ جہاز ایک آئل ٹینکر تھا لیکن بعد میں یہ اپنے اصلی کام سے ہٹ کر مولٹن سلفر لے جانے لگا اور اس تبدیلی کی وجہ سے یہ جہاز تباہ ہو گیا۔ بعد میں سمندر میں کسی جلے ہوئے جہاز کے آثار بھی ملے تھے۔
اس کے علاوہ 28 دسمبر 1948 کی رات ایک ہوائی جہاز NC16002 جو DC-3 مسافر بردار جہاز تھا اور سان جان San Juan (پورٹوریکو) سے میامی(فلوریڈا) جا رہا تھا غائب ہوا۔موسم بھی بلکل صاف تھا اور پائلٹ کے مطابق میامی سے 50 میل دور تھا کہ اچانک غائب ہو گیا اس میں سوار عملے کے تین اور 29 مسافروں کا کبھی بھی سراغ نہیں مل سکا۔ محکمانہ تفتیش میں یہ بات بتائی گئی کہ ٹیک آف کے وقت جہاز کی بیٹریاں مکمل طور پر چارج نہیں تھیں جو بعد میں اڑان کے دوران رابطہ سسٹم خراب ہو جانے کا سبب بنیں اور میامی سے جو میسج جہاز کو دیا گیا کہ ہوا کا رخ تبدیل ہو گیا ہے پائلٹ کو موصول نہیں ہو سکا اور وہ بروقت حفاظتی انتظام نہیں کر سکا۔
اس کے علاوہ 25 اکتوبر 1980 کو ایک اور بحری جہاز S.S.POET بھی اسی طرح پر اسرار طور پر غائب ہوا اور اپنا نام و نشان تک نہ چھوڑا لیکن تحقیق میں یہ الزام لگایا گیا کہ انشورنش کی رقم حاصل کرنے کے لئے اس جہاز کو غائب کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے بڑا واقعہ جو بے حد مشہور ہوا وہ 5 ایونجر Avenger تارپیڈو بمبار جہازوں جسے فلائٹ 19 بھی کہا جاتا تھا کا پر اسرار طور پر غائب ہو جانا تھا۔ ان جہازوں کے گروپ نے فلوریڈا کے فورٹ لاؤڈرڈیل Fort Lauderdale کے نیول ائیر بیس سے 2 بج کر 10 منٹ پر اڑان بھری یہ ایک معمول کی اڑان تھی جس کا کمانڈر لیفٹینٹ چارلس ٹیلر تھا اور باقی اس کے شاگرد شامل تھے جنہیں مشرق کی جانب 56 میل تک جانا تھا۔ لیکن یہ فاصلہ طے کرنے کے بعد کمانڈر نے مزید 67 میل مشرق کی جانب اڑنے کا کہا اور پھر وہاں سے 73 میل شمال کی جانب جا کر سیدھا واپس بیس پر آنا تھا یہ فاصلہ 120 میل کا بن گیا۔ اور یہ اضافی فاصلہ انہیں اس ٹرائی اینگل کی جانب لے گیا۔ اڑان کے تقریبا ایک گھنٹے بعد ٹیلر نے بیس کو ایک پیغام بھیجا کہ طیارے کے سمت بتانے والےآلات compasses کام نہیں کر رہے لیکن اسے خود پر یقین تھا کہ وہ فلوریڈا کے ٹاپوؤں( یہ ٹاپو فلوریڈا کے چھوٹے چھوٹے آئس لینڈز کا ایک سلسلہ ہے جو فلوریڈا کے مین جزیرے کے جنوب میں واقعہ ہیں) کے اوپر ہی کہیں اڑ رہے ہیں۔ بیس میں موجود لیفٹینٹ کاکس نے کہا کہ اگر تمہیں یقین ہے کہ تم وہاں ہو تو شمال کی جانب میامی کی طرف اڑو۔
آج کل کے جہازوں کے پاس تو اپنی موجودہ پوزیشن کو چیک کرنے کے لئے بہت سے راستے موجود ہیں جن کا مطالعہ جی۔پی۔ایس (Global Positioning Satellites) کے تحت کیا جاتا ہے اور اگر وہ ان سب آلات کو بہترین طریقے سے استعمال کرنا جانتا ہو تو ان حالات میں یہ بات تقریبا ناممکن ہے کہ کوئی پائلٹ اپنا راستہ کھو دے ۔ لیکن 1945 میں پانی پر اڑتے ہوئے اپنے ابتدائی نقطے کے بارے میں معلومات پر انحصار کیا جاتا تھا کہ وہ کتنی رفتار سے کتنی دور اور کس سمت میں اڑ رہے ہیں اور اگر پائلٹ ان میں سے کسی ایک کا بھی حساب نہیں رکھ پاتا تو وہ یقینآ گم ہو جاتا تھا سمندر کے اوپر کوئی نشانیاں نہیں تھیں جو انہیں سیدھا راستہ دکھا سکتیں۔
یہ سب جہاز 3 بجکر 45 منٹ پر غائب ہو گئے اور اس کے بعد ان کا بیس سے رابطہ منقطع ہو گیا۔اس بیڑے کو بچانے کے لئے جانے والا ایک اور جہاز Martin Mariner بھی پراسرارطور پر غائب ہو گیا۔ تحیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق یہ جہاز اپنی اڑان کے کچھ ہی دیر کے بعد ایک دھماکے سے تباہ ہو گیا تھا بعد میں اس جہاز کا تیل اور ٹکڑے سطع سمندر پر تیرتے ہوئے ملے۔ اس جہاز کی تباہی کا سبب کاک پٹ میں گیس بھر جانے اور عملے کے ارکان میں سے کسی کے سگریٹ جلانے کی وجہ سے اس میں ہونے والے دھماکے کو بیان کیا گیا۔
ادھر ایونجر کی گمشدگی کے بارے میں تحقیق میں کہا گیا کہ ٹیلر سمت کے بارے میں دو راہے کا شکار تھا لیکن ٹیلر ایک ماہر پائلٹ تھا اور اس سے اس قسم کی غلطی کی کوئی توقع نہیں تھی۔ بعد میں اس تحقیق کو اس عنوان کے ساتھ بند کر دیا گیا کہ causes or reasons unknown۔
یہ واقعہ اس مثلث کی پر اسراریت کے عنوان میں بار بار دہرایا جاتا ہے۔
برمودا تکون کے بارے میں مختلف تھیوریاں:۔
برمودا تکون کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جگہ ایک دروازے کی حیثیت رکھتی ہے جہاں دوسری دنیا سے آنے والی مخلوق اس دنیا میں داخل ہوتی ہے۔ کچھ لوگ اسے وقت کا خلاء کہتے ہیں جہاں آنے والی ہر چیز وقت کے خلاء میں گم ہو جاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے سمندر کی تہہ میں ڈوبے ہوئے اٹلانٹس کے سگنلز کی کارستانی قرار دیتے ہیں۔ لیکن سائنس اور ماہرین اس سب کو حقیقت کے منافی اور من گھڑت افسانوں سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔
اس کے علاوہ اس کا ایک سبب پانی کی تیز لہروں کو قرار دیا جاتا ہے جو ہر ہونے والے حادثے کے نشان کو اس طرح صاف کر دیتی ہیں کہ ان کا نشان تک نہیں ملتا۔اس کے علاوہ ایک وجہ علاقائی موسم بھی بتایا جاتا ہے جو اچانک بادو باراں اور طوفان کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے جہاز غائب ہوتے ہیں اور اموات واقع ہوتی ہیں۔
کچھ دانشور ایک وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ یہاں تین سمندروں گلف آف میکسیکو، اٹلانٹک اور کیریبئن کے پانیوں کا میلاپ ہوتا ہے۔ اور ان کے پانیوں کے آپس میں ٹکرانے کی وجہ سے اس میں ایسی مقناطیسی لہریں پیدا ہوتی ہیں جو اپنے اوپر سے گزرنے والی ہر چیز کو اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔ اور بعد میں تیز لہریں وقت کے ساتھ ساتھ اس کا نشان مٹا دیتی ہیں۔
بعض مفکرین کے نزدیک ایک سبب یہاں اٹھارویں اور انیسویں صدی میں برطانوی اور امریکی فوجی اڈوں کی موجودگی ہے جن سے لوگوں کو دور رکھنے کے لئے یہ من گھڑت قصے گھڑے گئے۔
کچھ مفکرین یہ بھی کہتے ہیں کہ یہاں امریکہ نے ایسی لیبارٹریاں بنا رکھی ہیں جہاں انسانوں کے خاتمے کے لئے مہلک ترین ہتھاروں کی تیاری اور تجربات کا کام کیا جاتا ہے۔ اور لوگوں کو اس کے بارے میں پتہ نہ چلے اس لئے یہ ڈرامہ رچایا گیا۔ حقیقت کیا ہے یہ آج تک کسی تحقیق میں سامنے نہیں آ سکی۔
__________________
2 comments:
شکریہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پسند کرنے کا شکریہ
Post a Comment