حضرت عبد اللہ ابنِ مسعود( یہ مشہور صحابی نہیں بلکہ فقط ایک راوی ہیں) نے
فرمایا کہ جب علی مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو بصرہ آئے اور شہر کی جامع
مسجد کے منبر پر بیٹھ کر آپ نے ایسا خطبہ دیا کہ لوگوں کی عقلیں مدہوش ہو
گئیں اور ان کے بدن تھرا اٹھے جب انہوں نے آپ کے اس خطبہ کو سنا تو شدت سے
گریہ کیا اور نالہ و شیون کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ حضرت ابنِ مسعور
فرماتے ہیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ اسرارِ مخفیہ جو
آپ کے اور خدا وند عالم کے درمیان تھے علی کو پوشیدہ طور پر بتلا دئیے
تھے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نور جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ
مبارک میں تھا وہ علی ابن ابی طالب کے چہرے میں منتقل ہو گیا تھا۔ پیغمبر
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس مرض میں انتقال فرمایا۔ اس میں امیر
المومنین علیہ اسلام کو وصیت بھی کی کی تھی اور یہ وصیت بھی کی تھی کہ وہ
لوگوں کے سامنے خطبۃ البیان کو بطور خطبہ ارشاد فرما دیں۔ جس میں پورے
ماضی اور قیامت تک کے مستقبل کا علم ہے۔ پھر علی نے وفاتِ رسول کے بعد امت
کے مظالم پر صبر کیا اور اس پر قیام کیے رہے۔ یہاں تک کہ ان کی زندگی کا
پیمانہ چھلک اٹھا اور اس خطبہ کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی وصیت پر عمل کرنے کا مرحلہ آ گیا۔ پس امیر المومنین اٹھے اور منبر
پر تشریف فرما ہوئے۔ یہ آپ کی زندگی کا آخری خطبہ تھا۔ آپ نے پہلے حمد و
ثنائے الہٰی کی پھر رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکرِ خیر
فرمایا اور پھر ارشاد فرمایا اے لوگو! میں اور میرے حبیب محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح ہیں (کلمہ والی انگلی اور درمیان والی
انگلی کو ملا کر دکھلایا) اگر خدا کی کتاب میں ایک آیت نہ ہوتی تو میں
تمہیں آسمان و زمین میں جو کچھ ہے بتلا دیتا اور اس کی تہہ میں کیا ہے وہ
بھی بتلا دیتا۔ پس اس کی کوئی شے مجھ سے مخفی نہیں ہے اور اس کا کوئی کلمہ
مجھ سے اوجھل نہیں ہے اور( یاد رکھو کہ) میری طرف وحی نہیں کی گئی ہے۔
بلکہ یہ وہ علم ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تعلیم
کیا ہے۔ انہوں نے پوشیدہ طور سے مجھے ہزار مسئلے بتائے ہیں اور ہر مسئلے
میں ہزار باب ہیں اور ہر باب میں ہزار نوع ہیں۔ پس مجھ سے پوچھو قبل اس کے
کہ تم مجھے گم کر دو۔ عرش کے علاوہ مجھ سے پوچھو میں تمہیں بتلاؤں گا۔ اور
اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ تمہارا کہنے والا کہے گا کہ علی ابنِ ابی طالب
جادوگر ہے جیسا کہ میرے ابنِ عم کے بارے میں کہا گیاتو تمہارے خوابوں کے
موارد بتلا دیتا اور خزانوں کے پوشیدہ راز بتلا دیتا۔ اور میں تمہیں
بتلاتا کہ زمین کی تہہ میں کیا ہے۔ اور یہ ہے آپ کا وہ خطبہ جو آپ نے
ارشاد فرمایا تھا اور اس کا نام خطبۃ البیان ہے۔
پہلے آپ نے تفصیل کے ساتھ پروردگارِ علم کے اوصافِ جمیلہ و جلیلہ کا ذکر فرمایا۔ پھررسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتہائی جامع اور مبارک تذکرہ فرمایا، پھر ارشاد فرمایا:
اے لوگو! جو نمونہ تھا وہ جا رہا ہے اور موت محقق ہو چکی ہے اور خوف و ترس بڑھ گیا ہے۔ اور کوچ کا وقت قریب آ گیا ہے اور میری عمر سے ایک قلیل وقفہ کے علاوہ کچھ باقی نہیں ہے، تو مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ تم مجھے گم کر دو۔
اس کے بعد آپ نے اپنے سو(100) اہم فضائل اَنَا(میں) کے ساتھ بیان فرمائے ہیں ۔ انہیں اس لئے ذکر نہیں کیا جا رہا کہ وہ ہمارے موضوع سے براہِ راست مربوط نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ بعض جملے قابلِ تشریح ہیں اور بعض قابلِ تاویل جس کی یہاں بلکل بھی گنجائش نہیں۔
ایک سو ایک ویں(101) فضیلت میں آپ نے ارشاد فرمایا“ میں مہدی کا پدر ہوں جو آخری زمانے میں قیام کرے گا۔ یہ سن کر مالک اشتر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا امیرالمومنین! آپ کی اولاد میں یہ قائم کب قیام کرے گا؟ اس وقت آپ نے جواب میں فرمایا:
جب باطل ونارواٰ مقدم ہو اور جب حق و حقیقت خفیف ہوں اور جب پہنچنے والی چیز پہنچ جائے اور جب پشتیں بھاری ہو جائیں اور امور ایک دوسرے کے قریب آ جائیں اور اظہار سے روک دیا جائے اور مالک کی ناک رگڑی جائے اور جب قدم بڑھانے والا قدم بڑھاتا جائے اور جب ہلاک ہونے والا ہلاک ہو جائے اور جب نہریں خشک ہو جائیں اور جب قبیلے باغی ہو جائیں اور جب سختیاں بڑھ جائیں اور عمر کوتاہ ہو جائے اور(فتنوں کی) تعداد دہشت زدہ کردے اور وسوسے ہیجان انگیز ہوں اور جب بھیڑئیے(ساہی) مجتمع ہو جائیں اور جب موجوں میں تموّج آ جائے۔ اور جب حج کرنے والا کمزورو ناتواں ہو جائے اور جب والہانہ پن میں شدت آ جائے اور جب دشمن ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہو جائیں اور قومِ عرب کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے اور طلب شدید ہو جائے اور ڈرنے والے پیچھے ہٹ جائیں اور جب قرض مانگیں جائیں اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوں، اور کم عقل دھوکہ کھا جائے اور خوش ہونے والا ہلاک ہو جائے۔ اور جب شورش کرنے والے شورش کریں اور جس کی اطاعت کی جاتی ہو وہ عاجز درماندہ ہو جائے اور کرن(نورِ شمس) تاریک ہو جائے اور سماعتیں بہری ہو جائیں اور پاک دامنی رخصت ہو جائے اور جب عدل و انصاف قابلِ علامت بن جائے اور جب شیطان مسلط ہو جائے اور جب گناہ بڑے ہو جائیں اور عورتیں حکومت کریں اور جب سخت اور دشوار حادثے رونما ہونے لگیں اور جب زہر برسانے والے زہر برسائیں اور جب کودنے والا ہجوم کرے اور خواہشات مختلف ہو جائیں اور بلائیں بزرگ ہو جائیں اور شکوے(شکائتیں) سدت اختیار کر لیں اور دعوے مسلسل جاری رہیں اور تجاوز کرنے والا اپنی حد سے تجاوز کر جائے اور غضب ناک ہونے والا غضب ناک ہو جائے اور جب جنگوں میں سرعت پیدا ہو جائے اور دین پر معترض ہونے والا تیز زبان ہو جائے اور بیابان دھول سے اٹ جائیں اور حکمران فریاد کرنے لگیں اور ایذا رسانی کرنے والا ایذا کے تیر برسائے اور مٹی ڈالنے والا مٹی ڈالے اور زمین کو زلزلہ آ جائے اور فرض(خداوندی) معطل ہو جائے اور امانت ضائع ہو جائے اور خیانت آشکار ہو جائے اور حفاظت(کرنے والی طاقتیں) خوفزدہ ہو جائیں۔ غیظ و غضب شدید ہو جائے اور موت لوگوں کو ڈرائے اور منہ بولے اٹھ کھڑے ہوں اور (سچے) دوست بیٹھ جائیں اور صاحبانِ دولت خبیث ہو جائیں اور شقی لوگ(اعلی مقامات تک) پہنچ جائیں اور معاشرے کے دانشور حق سے پھر جائیں اور امور مبہم ہو جائیں اور سستی و ناچاری عام ہو جائے اور کمال سے روکا جائے اور بخیل و حریص قرعہ میں ایک دوسرے پر غلبہ کی کوشش کریں اور کامیاب انسان روک دیا جائے اور عافیت لوگوں تک پہنچنے سے روک لی جائے اور جب بہت کھانے والا تیزی دکھلائے اور جب بے صبر اور ڈرپوک انسان اپنے سرو گردن کو جھکا لے اور ڈرپوک بہت تیز دوڑنے لگے اور جب تاریکی بکھرنے لگے اور جب بدمزاج اپنا چہرہ بگاڑ لے اور شب روی کرنے والا بجبر روک دیا جائے اور دانا نکتہ رس انسان کو قریب کر لیا جائے اور جب گائے کا بچھڑا سبک روی سے دوڑنے لگے(کمسن بچے اہم امور میں مداخلت کرنے لگیں)اور وہ چیز (یہ چیزیں برق بھی ہو سکتی ہیں اور خطرناک اسلحہ بھی جو جہاز سے گرایا جائے یا فضاء سے آئے) اوپر سے نیچے گرے جو حیران کن ہو اور افیق(افیق اردن میں ایک گھاٹی ہے) کو روشن کر دے اور دور کرنے والا دور کر دے اور جستجو کرنے والا جستجو کرے اور کوشش کرنے والا کوشش کرے اور رنج دینے والا رنج دے اور غضب ناک ہونے والا غضب ناک ہو جائے اور جب ناروا خون بہنے لگے اور کینہ پرور شخص کہیں پیغام بھیجے اور اضافہ والے کو مزید اضافہ ہو اور جو منتشر ہیں وہ مزید منتشر ہوں اور شماتت کرنے والے شماتت کریں اور بہت بوڑھا شخص رنج و تعب میں گرفتار ہو اور توٹنے والا ٹوٹ جائے اور غضب ناک ہونے والا نادم و پشیمان ہو اور قلیل حصہ پائے اور کوشش کرنے والا کوشش کرتا رہے اور قسم ہے نجمِ ثاقب(بعض لوگوں نے اسے ستارہ زحل مراد لیا ہے) کی اور قرآن کو زینت دیا جائے اور دیر(بعض محققین نے اسے دبران پڑھا ہے دبران چاند کی اٹائس منزلوں میں سے چوتھی منزل ہے) سرخ ہو جائیں۔ اور جب کہ شرطان تسدیس( یہ علمِ نجوم کی اصطلاحیں ہیں شرطان برجِ حمل کے دو ستارے ہیں اور تسدیس چاند کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے) میں ہو اور زہرقان(زہرقان چاند ہے) حالت تربیع میں ہو اور زحل سہم(زحل مقارنیہ کی حالت میں ہو گا۔ نجوم کی ان اصطلاحوں کو سمجھنے کے لئے اس علم کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔) کے خانے میں ہو اور وہ ہر چیز جو دوسری چیز کی طرف پلٹتی ہو ناپید ہو جائے اور بصرہ اور مکہ کے درمیان کے میدان روک دئیے جائیں اور مقدرات ثابت ہو جائیں اور دس(علامات) مکمل ہو جائیں اور زہرہ تسدیس میں ہو اور منتشرو پراگندہ افراد مختلف جگہوں سے جمع ہو جائیں اور ظاہر(یہ ترک ہیں جو قنطورہ کی نسل سے ہیں) ہو جائیں چپٹی ناکوں والے اور پستہ قد(غالبآ اس سے مراد چینی ہیں) چوڑے جسم والے توہم میں پڑ جائیں اور ان پر مقدم ہوں ایسے لوگ جو عالی قدر ہوں اور آزاد عورتوں کو معیوب قرار دیں اور جزیروں کے مالک ہو جائیں اور حیلہ و مکرو ایجاد کریں اور خراسان کو خراب کریں اور خانہ نشینوں کو خانہ نشینی سے پلٹا دیں اور قلعوں کو مسمار کر دیں اور پوشیدہ چیزوں کو ظاہر کر دیں اور شاخوں کو کاٹ ڈالیں اور عراق کو فتح کر لیں اور دشمنی کرنے میں تیزی دکھائیں اس خون کے سبب جو بہایا گیا ہو(یہاں نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکہ کا انتہائی تیز رفتاری سے افغانستان پر الزام لگا کر حملہ کرنا قابلِ غور ہے)۔ پس اس وقت صاحب الزمان کے خروج کے منتظر رہو۔ پھر آپ منبر کے بلند ترین زینے پر تشریف فرما ہوئے۔ پھر فرمایا کہ ہونٹوں کے کنایہ میں یہ بات کرنے پر اور دہنوں کی پژمردگی پر آہ ہے۔پھر آہ ہے۔
راوی کا بیان ہے کہ آپ نے داہنے اور بائیں نظر کی اور آپ نے عرب کے عشیروں اور ان کے سرداروں اور شرفائے اہلِ کوفہ اور بزرگانِ قبائل جو آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان پر نگاہ ڈالی اور وہ لوگ اس طرح دم سادھے ہوئے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں ۔ پھر آپ نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور ایک غم ناک چیخ ماری اور حزن و اندوہ کا اظہار کیا اور کچھ دیر ساکت رہے۔ اتنے میں سویدا بن نوفل جو خوارج کے سرداروں میں تھا۔ ایک تمسخر کرنے والے کی طرح اٹھ کے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اے امیرالمومنین جو چیزیں آپ نے ذکر کی ہیں کیا آپ ان کے سامنے حاضر ہیں اور جو بھی آپ نے خبر دی ہے کیا آپ اسے جانتے ہیں؟ راوی کہتا ہے کہ امام اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے نگاہِ غضب سے گھور کے دیکھا، جس پر سوید ابنِ نوفل نے ایک بڑی چیخ ماری اس عذاب کے سبب جو اس پر نازل ہوا تھا اور اسی وقت مر گیا اور لوگ اسے اٹھا کر اس حالت میں مسجد سے باہر لے گئے کہ اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا۔
پھر آپ علیہ اسلام نے فرمایا کہ کیا استہزاء کرنے والے یا مجھ جیسے شخص کا استہزاء کرنے والے اعتراض کرتے ہیں۔ کیا مجھ جیسے شخص کے لائق ہے یہ بات کہ وہ اس بات کو بیان کرے جسے نہیں جانتا اور اس چیز کا دعوی کرے جس کا اسے حق نہیں ہے؟ خدا کی قسم باطل(کام) کا انجام دینے والے ہلاک ہوں گے اور میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر میں چاہوں تو روئے زمین پر خدا کے منکر کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منافق کو اور وصی رسول کے مکذب کو زندہ نہ چھوڑوں میں اپنے حزن و اندوہ اور شکوہ کو فقط اور فقط خدا پر چھوڑ رہا ہوں اور وہ کچھ خدا کی طرف سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو۔
اس موقع پر صعصعہ ابنِ صوحان اور میثم اور ابراہیم ابن مالک اشتر اور عمرو بن صالح اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یا امیر المومنین زمانے کے آخر میں جو ہونے والا ہے وہ ہمارے لئے بیان فرمائیں۔ اس لیے کہ آپ کا بیان ہمارے دلوں کی حیات کا باعث ہے اور ہمارے ایمان میں اضافے کا سبب ہے آپ نے فرمایا ضرور تمہاری خوشی پوری کروں گا۔
راوی کا بیان ہے کہ پھر آپ کھڑے ہوئے اور ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جنت کی تشویق اور آتشِ جہنم سے تحزیر تھی۔
پھر فرمایا اے لوگو! میں نے اپنے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ فرمایا کہ میری امت میں سو(100) خصلتیں جمع ہوں گی جو کسی اور قوم میں جمع نہیں ہوئیں یہ سن کر علمائ و فضلائ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے تلوؤں کو چومنے لگے اور کہنے لگے یا امیرالمومنین! ہم آپ کو آپ کے ابنِ عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم دیتے ہیں کہ زمانے کے طول و عرض میں جو ہونے والا ہے اسے اس طرح ہمارے لیے بیان فرمائیں کہ عاقل اور جاہل دونوں سمجھ لیں۔
راوی کا بیان ہے کہ آپ نے حمد و ثنائے الٰہی بیان کی پھر رسول اللہ کا ذکرِ مبارک فرمایا اور کہا کہ میری موت کے بعد جو کچھ ظہور پذیر ہو گا اور میرے بیٹے حسین کی ذریت سے قیام کرنے والے صاحب الزمان کے خروج تک جو کچھ ہو گا وہ بتلا رہا ہوں تاکہ تم اس بیان کی حقیقت سے آگاہ ہو جاؤ۔ انہوں نے پوچھا یا امیر المومنین! یہ کب ہو گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب فقہا میں موت واقع ہو جائے اور محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت نمازوں کو ضائع کر دے اور لوگ خواہشوں کی پیروی کرنے لگیں۔ اور جب امانتیں ضائع ہو جائیں اور خیانتیں بڑھ جائیں اور لوگ مختلف قسم کے نشہ آور مشروبات(قہوات) پینے لگیں اور ماں باپ کو گالی دینا اپنا شعار بنا لیں اور جھگڑوں کے سبب مسجدوں سے نمازیں اٹھ جائیں اور وہاں کھانوں کی نشستیں ہونے لگیں۔ برائیاں بڑھ جائیں اور اچھائیاں کم ہو جائیں اور آسمانوں کو نچوڑا جانے لگے اس وقت سال مہینوں کی طرح اور مہینہ ہفتہ کی طرح اور ہفتہ ایک دن کی طرح اور دن ایک گھنٹہ کی طرح ہو جائے گا۔ اس وقت بغیر موسم کے بارش ہو گی۔ اور بیٹا ماں باپ سے دل میں کینہ رکھے گا اس زمانے کے لوگوں کے چہرے خوبصورت اور ضمیر مردہ ہوں گے۔ جو انہیں دیکھے گا پسند کرے گا اور جو ان سے معاملہ کرے گا وہ اس پر ظلم کریں گے ان کے چہرے آدمیوں کے اور قلوب شیطانوں کے ہوں گے۔ وہ لوگ صبر سے زیادہ کڑوے، مردار سے زیادہ بدبو دار، کتے سے زیادہ نجس اور لومڑی سے زیادہ چالاک اور اشعب سے زیادہ حریص اور جرب سے زیادہ چپکنے والے ہوں گے جن برائیوں پر عامل ہوں گے ان سے باز نہیں آئیں گے اور اگر تم ان سے گفتگو کرو گے تو تم سے جھوٹ بولیں گے۔ اگر انہیں امانت دار بناؤ گے تو خیانت کریں گے اور اگر ان سے روگردانی کرو گے تو تمہارے پیٹھ پیچھے غیبت کریں گے اور اگر تمہارے پاس مال ہو گا تو حسد کریں گے۔اگر ان سے بخل کرو گے تو دشمنی کریں گے اور اگر تم ان کی تعریف کرو گے تو تم کو گالیاں دیں گے۔ وہ جھوٹ سننے اور حرام کھانے کے عادی ہوں گے۔ وہ زنا، شراب آلاتِ موسیقی اور ساز و آواز کو جائز جان کر استعمال کریں گے۔ فقیہ ان کے نزدیک ذلیل و حقیر ہو گا اور مومن کمزور اور کم حیثیت ہو گا اور عالم ان کے نزدیک پست درجہ اور فاسق ان کے نزدیک عالی مرتبت ہو گا اور ظالم ان کے نزدیک قابلِ تعظیم ہو گا اور کمزور انسان قابلِ ہلاکت ہو گا اور طاقت رکھنے والا ان کا مالک ہو گا۔ اور وہ امربلمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کریں گے۔ ان کے نزدیک استغناء دولت اور امانت مالِ غنیمت اور زکوۃ جرمانہ ہو گی۔ مرد اپنی بیوی کی اطاعت اور والدین کے ساتھ نافرمانی اور جفا کرے گا اور اپنے بھائی کو ہلاک کرنے کی کوشش کرے گا۔ فاجروں کی آوازیں بلند ہوں گی اور لوگ فساد، گانا اور زناکاری کو پسند کریں گے۔ لوگ مالِ حرام اور سود سے کاروبار کریں گے۔ اور علماء کو سرزنش کی جائے گی۔ آپس میں بہت خون ریزیاں ہوں گی۔ ان کے قاضی رشوتیں قبول کریں گے اور عورت عورت سے شادی کرے گی اور اس طرح آمادہ ہو گی جس طرح اپنے شوہر کے لیے آمادہ و آراستہ ہوتی ہے۔ اور ہر جگہ لڑکوں کی حکومت و سلطنت ہو گی اور نوجوان گانے اور شراب نوشی کو حلال کر لیں گے اور مرد مرد پر اکتفاء کریں گے اور عورتیں عورتوں پر اکتفاء کریں گی اور عورتٰن زینوں پر سواری کریں گی۔ اس وقت عورت ہر چیز میں اپنے شوہر پر مسلط ہو جائے گی اور لوگ تین ارادوں سے حج کے لئے جائیں گے۔ دولت مند تفریح کے لئے متوسط طبقہ والا تجارت کے لئے اور فقیر بھیک مانگنے کے لیے اور احکام(شریعت) باطل و معطل ہو جائیں گے اور اسلام پست ہو جائے گا اور شریر لوگوں کی حکومت ظاہر ہو گی اور دنیا کے ہر حصہ میں ظلم سرایت کر جائے گا۔ اس وقت تاجر اپنی تجارت میں اور سنار اپنے کام میں اور ہر پیشے والا اپنے پیشے میں جھوٹ بولے گا۔ اس وقت منافع کم ہو جائے گا۔ خواہشیں ضیق میں ہونگی۔ نظریات میں اختلافات ہوں گے اور فساد بڑھ جائے گا اور نیکی کم ہو جائے گی۔ اس وقت لوگوں کے ضمیر سیاہ ہو جائیں گے۔ لوگوں پر ظالم و جابر بادشاہ حکومت کرے گا۔ ان کی گفتگو بہت کڑوی ہو گی اور ان کے دل مردار سے زیادہ بدبودار ہوں گے۔ تو جب ایسا ہو جائے تو علماء مر جائیں گے۔ دل فاسد ہو جائیں گے۔ گناہ بکثرت ہوں گے۔ قرآن متروک ہو جائیں گے اور مسجدیں خراب ہو جائیں گی۔ آرزوئیں طویل ہوں گی اور اعمال قلیل ہوں گےاور شہروں میں نازل ہونے والے عظیم حادثوں کے لیے فصیلیں بنائی جائیں(بعید نہیں ہے کہ ان فصیلوں سے راڈار سسٹم مراد ہو۔ اس لیے کہ آج فضاؤں اور آسمانی حملوں کے عہد میں ماضی کی فصیلوں یا شہر پناہوں کی افادیت صفر ہے)۔ اس وقت ان میں سے اگر کوئی شخص دن رات میں نماز پڑھے تو نامہ اعمال میں کچھ نہیں لکھا جائے گا اور نہ اس کی نماز قبول ہو گی۔ اس لیے کہ وہ نماز میں کھڑا ہوا ہو گا اور دل میں سوچ رہا ہو گا کہ کیسے لوگوں پر ظلم کرے اور کیسے مسلمانوں کو دھوکہ دے۔
ان کی غذا چرب پرندے اور تیہوا کی اقسام ہوں گی اور ان کا لباس حریر و ریشم کا ہو گا۔ وہ سود اور مالِ شبہہ کو حلال سمجھیں گے۔ سچی گواہیوں کے متعارض ہوں گے اپنے اعمال میں ریاکاری کریں گے۔ ان کی عمریں کم ہوں گی چغل خور ان سے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ حلال کو حرام قرار دیں گے۔ ان کے افعال منکرات پر مبنی ہوں گے اور قلوب مختلف ہوں گے۔ ایک دوسرے کو باطل کا سبق پڑھائیں گے اور اعمال بد کو ترک نہیں کریں گے ان کے اچھے لوگ ان کے بُروں سے خوف کھائیں گے۔ لوگ خدا کے ذکر کے علاوہ کاموں میں ایک دوسرے کے محارم کی ہتک حرمت کریں گے۔ ایک دوسرے کی مدد کی بجائے روگردانی کریں گے اگر کسی صالح کو دیکھیں گے تو اسے واپس کر دیں گے اور اگر کسی گنہہ گار کو دیکھیں گے تو اس کا استقبال کریں گے۔ جو ان کی برائی کرے گا اس کی تعظیم کریں گے۔ غیر حلال زادوں کی کثرت ہو جائے گی اور باپ اپنی اولاد کے اعمال قبیحہ کو دیکھ کر خوش ہوں گے نہ انہیں منع کریں گے نہ باز رکھیں گے۔ مرد اپنی زوجہ کو قبیح حالت میں دیکھے گا نہ اسے منع کرے گا نہ اسے باز رکھے گا بلکہ اس کے حاصل کردہ مال کو خرچ کرے گا یہاں تک کہ اگر وہ عورت طول و عرض میں مناکحت کرتی پھرے تو وہ اسے مہتم نہ کرے گا۔ اور اگر لوگ اس عورت کے بارے میں کچھ کہیں گے تو کان نہیں دھرے گا تو یہی وہ دیوث ہے خدا جس کا کوئی قول اور عذر قبول نہیں فرمائے گا۔ اس کی غذا اور نکاح حرام ہے اور شریعتِ اسلام میں اس کا قتل اور لوگوں کے درمیان اس کی تذلیل واجب ہے اور قیامت کے دن وہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اس وقت کے لوگ ماں باپ کو اعلانیہ گالیاں دیں گے۔ اور بزرگانِ قوم ذلیل ہوں گے اور کم درجہ عوام بلندی پائیں گے اور بے شعوری اور اعصاب زدگی بڑھ جائے گی۔ اخوت فی اللہ نایاب ہو جائے گی۔ حلال پیسے کم ہو جائیں گے۔ لوگ بدترین حالت کی طرف پلٹ جائیں گے۔ اس وقت شیاطین کی حکومت کا دور دورہ ہو گا اور سلاطین کمزور انسان اور عوام پر اس طرح جست کریں گے جیسے چیتا اپنے شکار پر جست کرتا ہے۔ مال دار اپنی دولت میں بخل کریں گے اور فقیر اپنی آخرت کو دنیا کے عوض فروخت کر دے گا افسوس ہے فقیر پر کہ زمانہ اسے خسارہ ذلت اور سبلی میں مبتلا کر دے گا وہ اپنے اہل و عیال میں ضعیف و حقیر ہو گا۔ اور یہ فقیر لوگ ان چیزوں کی خواہش کریں گے جو حلال نہیں ہیں تو جب ایسا ہو گا تو ان پر ایسے فتنے وارد ہوں گے کہ ان سے مقابلہ کی طاقت نہ ہو گی۔
آگاہ ہو جاؤ کہ فتنہ کا آغاز ہجری اور رقطی ہیں(“ھجر“ بحرین کی نواحی بستی ہے۔ ہجری وہاں کا رہنے والا ہو گا اور رقطی اس شخص کو کہتے ہیں جسے برص کا مرض یا کوئی ایسا مرض ہو جس میں جلد پر داغ ہو جائیں) اور اس کا اختتام سفیانی اور شامی ہیں÷ اور تم سات طبقوں میں منقسم ہو۔ پس پہلا طبقہ سختی سے زندگی گزارنے والوں کا ہے(دوسرے نسخہ کے مطابق پہلا طبقہ تقوی کی افزونی کا ہے)اور یہ سنہ70 ہجری تک ہے۔ اور دوسرا طبقہ مروت و مہربانی والوں کا ہے یہ سنہ 230 ہجری تک ہے۔ اور تیسرا طبقہ روگردانی کرنے والوں اور روابط کاٹنے والوں کا ہے یہ سنہ 550 ہجری تک ہے۔ اور چوتھا طبقہ سگ فطرتوں اور حاسدوں کا ہے یہ سنہ 700 ہجری تک ہے۔اور پانچوں طبقہ تکبر کرنے والوں اور بہتان لگانے والوں کا ہے یہ سنہ 820 ہجری تک ہے۔ اور چھٹا طبقہ فساد اور قتل اور دشمنوں سے سگ فطری کرنے والوں کا اور خائنوں کے ظاہر ہونے کا ہے یہ سنہ 940 تک ہے اور ساتواں طبقہ حیلہ جویوں، فریب کاروں، جنگ آزماؤں، مکاروں، دھوکہ بازوں، فاسقوں، روگرداں رہنے والوں اور ایک دوسرے سے دشمنی کرنے والوں کا ہے۔ یہ طبقہ لہو و لعب کے لئے عظیم الشان مکانات بنوانے والوں کا، غذائے حرام کے شائقین کا، مشکل امور میں گرفتاروں کا،شہوت دانوں کا، شہروں اور گھروں کی تباہی کا اور عمارات اور محلات کے انہدام کا ہے۔ اس طبقہ میں منحوس وادی سے ملعون(سفیانی شام میں وادی یابس سے خروج کرے گا) ظاہر ہو گا اس وقت پردے چاک اور بروج منکشف ہوں گے اور یہی حالات رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا قائم مہدی( صلوات اللہ وسلامہ علیہ) ظاہر ہو گا۔
پہلے آپ نے تفصیل کے ساتھ پروردگارِ علم کے اوصافِ جمیلہ و جلیلہ کا ذکر فرمایا۔ پھررسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتہائی جامع اور مبارک تذکرہ فرمایا، پھر ارشاد فرمایا:
اے لوگو! جو نمونہ تھا وہ جا رہا ہے اور موت محقق ہو چکی ہے اور خوف و ترس بڑھ گیا ہے۔ اور کوچ کا وقت قریب آ گیا ہے اور میری عمر سے ایک قلیل وقفہ کے علاوہ کچھ باقی نہیں ہے، تو مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ تم مجھے گم کر دو۔
اس کے بعد آپ نے اپنے سو(100) اہم فضائل اَنَا(میں) کے ساتھ بیان فرمائے ہیں ۔ انہیں اس لئے ذکر نہیں کیا جا رہا کہ وہ ہمارے موضوع سے براہِ راست مربوط نہیں ہیں۔ مزید یہ کہ بعض جملے قابلِ تشریح ہیں اور بعض قابلِ تاویل جس کی یہاں بلکل بھی گنجائش نہیں۔
ایک سو ایک ویں(101) فضیلت میں آپ نے ارشاد فرمایا“ میں مہدی کا پدر ہوں جو آخری زمانے میں قیام کرے گا۔ یہ سن کر مالک اشتر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا امیرالمومنین! آپ کی اولاد میں یہ قائم کب قیام کرے گا؟ اس وقت آپ نے جواب میں فرمایا:
جب باطل ونارواٰ مقدم ہو اور جب حق و حقیقت خفیف ہوں اور جب پہنچنے والی چیز پہنچ جائے اور جب پشتیں بھاری ہو جائیں اور امور ایک دوسرے کے قریب آ جائیں اور اظہار سے روک دیا جائے اور مالک کی ناک رگڑی جائے اور جب قدم بڑھانے والا قدم بڑھاتا جائے اور جب ہلاک ہونے والا ہلاک ہو جائے اور جب نہریں خشک ہو جائیں اور جب قبیلے باغی ہو جائیں اور جب سختیاں بڑھ جائیں اور عمر کوتاہ ہو جائے اور(فتنوں کی) تعداد دہشت زدہ کردے اور وسوسے ہیجان انگیز ہوں اور جب بھیڑئیے(ساہی) مجتمع ہو جائیں اور جب موجوں میں تموّج آ جائے۔ اور جب حج کرنے والا کمزورو ناتواں ہو جائے اور جب والہانہ پن میں شدت آ جائے اور جب دشمن ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہو جائیں اور قومِ عرب کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے اور طلب شدید ہو جائے اور ڈرنے والے پیچھے ہٹ جائیں اور جب قرض مانگیں جائیں اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوں، اور کم عقل دھوکہ کھا جائے اور خوش ہونے والا ہلاک ہو جائے۔ اور جب شورش کرنے والے شورش کریں اور جس کی اطاعت کی جاتی ہو وہ عاجز درماندہ ہو جائے اور کرن(نورِ شمس) تاریک ہو جائے اور سماعتیں بہری ہو جائیں اور پاک دامنی رخصت ہو جائے اور جب عدل و انصاف قابلِ علامت بن جائے اور جب شیطان مسلط ہو جائے اور جب گناہ بڑے ہو جائیں اور عورتیں حکومت کریں اور جب سخت اور دشوار حادثے رونما ہونے لگیں اور جب زہر برسانے والے زہر برسائیں اور جب کودنے والا ہجوم کرے اور خواہشات مختلف ہو جائیں اور بلائیں بزرگ ہو جائیں اور شکوے(شکائتیں) سدت اختیار کر لیں اور دعوے مسلسل جاری رہیں اور تجاوز کرنے والا اپنی حد سے تجاوز کر جائے اور غضب ناک ہونے والا غضب ناک ہو جائے اور جب جنگوں میں سرعت پیدا ہو جائے اور دین پر معترض ہونے والا تیز زبان ہو جائے اور بیابان دھول سے اٹ جائیں اور حکمران فریاد کرنے لگیں اور ایذا رسانی کرنے والا ایذا کے تیر برسائے اور مٹی ڈالنے والا مٹی ڈالے اور زمین کو زلزلہ آ جائے اور فرض(خداوندی) معطل ہو جائے اور امانت ضائع ہو جائے اور خیانت آشکار ہو جائے اور حفاظت(کرنے والی طاقتیں) خوفزدہ ہو جائیں۔ غیظ و غضب شدید ہو جائے اور موت لوگوں کو ڈرائے اور منہ بولے اٹھ کھڑے ہوں اور (سچے) دوست بیٹھ جائیں اور صاحبانِ دولت خبیث ہو جائیں اور شقی لوگ(اعلی مقامات تک) پہنچ جائیں اور معاشرے کے دانشور حق سے پھر جائیں اور امور مبہم ہو جائیں اور سستی و ناچاری عام ہو جائے اور کمال سے روکا جائے اور بخیل و حریص قرعہ میں ایک دوسرے پر غلبہ کی کوشش کریں اور کامیاب انسان روک دیا جائے اور عافیت لوگوں تک پہنچنے سے روک لی جائے اور جب بہت کھانے والا تیزی دکھلائے اور جب بے صبر اور ڈرپوک انسان اپنے سرو گردن کو جھکا لے اور ڈرپوک بہت تیز دوڑنے لگے اور جب تاریکی بکھرنے لگے اور جب بدمزاج اپنا چہرہ بگاڑ لے اور شب روی کرنے والا بجبر روک دیا جائے اور دانا نکتہ رس انسان کو قریب کر لیا جائے اور جب گائے کا بچھڑا سبک روی سے دوڑنے لگے(کمسن بچے اہم امور میں مداخلت کرنے لگیں)اور وہ چیز (یہ چیزیں برق بھی ہو سکتی ہیں اور خطرناک اسلحہ بھی جو جہاز سے گرایا جائے یا فضاء سے آئے) اوپر سے نیچے گرے جو حیران کن ہو اور افیق(افیق اردن میں ایک گھاٹی ہے) کو روشن کر دے اور دور کرنے والا دور کر دے اور جستجو کرنے والا جستجو کرے اور کوشش کرنے والا کوشش کرے اور رنج دینے والا رنج دے اور غضب ناک ہونے والا غضب ناک ہو جائے اور جب ناروا خون بہنے لگے اور کینہ پرور شخص کہیں پیغام بھیجے اور اضافہ والے کو مزید اضافہ ہو اور جو منتشر ہیں وہ مزید منتشر ہوں اور شماتت کرنے والے شماتت کریں اور بہت بوڑھا شخص رنج و تعب میں گرفتار ہو اور توٹنے والا ٹوٹ جائے اور غضب ناک ہونے والا نادم و پشیمان ہو اور قلیل حصہ پائے اور کوشش کرنے والا کوشش کرتا رہے اور قسم ہے نجمِ ثاقب(بعض لوگوں نے اسے ستارہ زحل مراد لیا ہے) کی اور قرآن کو زینت دیا جائے اور دیر(بعض محققین نے اسے دبران پڑھا ہے دبران چاند کی اٹائس منزلوں میں سے چوتھی منزل ہے) سرخ ہو جائیں۔ اور جب کہ شرطان تسدیس( یہ علمِ نجوم کی اصطلاحیں ہیں شرطان برجِ حمل کے دو ستارے ہیں اور تسدیس چاند کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے) میں ہو اور زہرقان(زہرقان چاند ہے) حالت تربیع میں ہو اور زحل سہم(زحل مقارنیہ کی حالت میں ہو گا۔ نجوم کی ان اصطلاحوں کو سمجھنے کے لئے اس علم کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے۔) کے خانے میں ہو اور وہ ہر چیز جو دوسری چیز کی طرف پلٹتی ہو ناپید ہو جائے اور بصرہ اور مکہ کے درمیان کے میدان روک دئیے جائیں اور مقدرات ثابت ہو جائیں اور دس(علامات) مکمل ہو جائیں اور زہرہ تسدیس میں ہو اور منتشرو پراگندہ افراد مختلف جگہوں سے جمع ہو جائیں اور ظاہر(یہ ترک ہیں جو قنطورہ کی نسل سے ہیں) ہو جائیں چپٹی ناکوں والے اور پستہ قد(غالبآ اس سے مراد چینی ہیں) چوڑے جسم والے توہم میں پڑ جائیں اور ان پر مقدم ہوں ایسے لوگ جو عالی قدر ہوں اور آزاد عورتوں کو معیوب قرار دیں اور جزیروں کے مالک ہو جائیں اور حیلہ و مکرو ایجاد کریں اور خراسان کو خراب کریں اور خانہ نشینوں کو خانہ نشینی سے پلٹا دیں اور قلعوں کو مسمار کر دیں اور پوشیدہ چیزوں کو ظاہر کر دیں اور شاخوں کو کاٹ ڈالیں اور عراق کو فتح کر لیں اور دشمنی کرنے میں تیزی دکھائیں اس خون کے سبب جو بہایا گیا ہو(یہاں نائن الیون کے حملوں کے بعد امریکہ کا انتہائی تیز رفتاری سے افغانستان پر الزام لگا کر حملہ کرنا قابلِ غور ہے)۔ پس اس وقت صاحب الزمان کے خروج کے منتظر رہو۔ پھر آپ منبر کے بلند ترین زینے پر تشریف فرما ہوئے۔ پھر فرمایا کہ ہونٹوں کے کنایہ میں یہ بات کرنے پر اور دہنوں کی پژمردگی پر آہ ہے۔پھر آہ ہے۔
راوی کا بیان ہے کہ آپ نے داہنے اور بائیں نظر کی اور آپ نے عرب کے عشیروں اور ان کے سرداروں اور شرفائے اہلِ کوفہ اور بزرگانِ قبائل جو آپ کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ ان پر نگاہ ڈالی اور وہ لوگ اس طرح دم سادھے ہوئے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں ۔ پھر آپ نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور ایک غم ناک چیخ ماری اور حزن و اندوہ کا اظہار کیا اور کچھ دیر ساکت رہے۔ اتنے میں سویدا بن نوفل جو خوارج کے سرداروں میں تھا۔ ایک تمسخر کرنے والے کی طرح اٹھ کے کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اے امیرالمومنین جو چیزیں آپ نے ذکر کی ہیں کیا آپ ان کے سامنے حاضر ہیں اور جو بھی آپ نے خبر دی ہے کیا آپ اسے جانتے ہیں؟ راوی کہتا ہے کہ امام اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے نگاہِ غضب سے گھور کے دیکھا، جس پر سوید ابنِ نوفل نے ایک بڑی چیخ ماری اس عذاب کے سبب جو اس پر نازل ہوا تھا اور اسی وقت مر گیا اور لوگ اسے اٹھا کر اس حالت میں مسجد سے باہر لے گئے کہ اس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا۔
پھر آپ علیہ اسلام نے فرمایا کہ کیا استہزاء کرنے والے یا مجھ جیسے شخص کا استہزاء کرنے والے اعتراض کرتے ہیں۔ کیا مجھ جیسے شخص کے لائق ہے یہ بات کہ وہ اس بات کو بیان کرے جسے نہیں جانتا اور اس چیز کا دعوی کرے جس کا اسے حق نہیں ہے؟ خدا کی قسم باطل(کام) کا انجام دینے والے ہلاک ہوں گے اور میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ اگر میں چاہوں تو روئے زمین پر خدا کے منکر کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منافق کو اور وصی رسول کے مکذب کو زندہ نہ چھوڑوں میں اپنے حزن و اندوہ اور شکوہ کو فقط اور فقط خدا پر چھوڑ رہا ہوں اور وہ کچھ خدا کی طرف سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ہو۔
اس موقع پر صعصعہ ابنِ صوحان اور میثم اور ابراہیم ابن مالک اشتر اور عمرو بن صالح اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے کہ یا امیر المومنین زمانے کے آخر میں جو ہونے والا ہے وہ ہمارے لئے بیان فرمائیں۔ اس لیے کہ آپ کا بیان ہمارے دلوں کی حیات کا باعث ہے اور ہمارے ایمان میں اضافے کا سبب ہے آپ نے فرمایا ضرور تمہاری خوشی پوری کروں گا۔
راوی کا بیان ہے کہ پھر آپ کھڑے ہوئے اور ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں جنت کی تشویق اور آتشِ جہنم سے تحزیر تھی۔
پھر فرمایا اے لوگو! میں نے اپنے بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ فرمایا کہ میری امت میں سو(100) خصلتیں جمع ہوں گی جو کسی اور قوم میں جمع نہیں ہوئیں یہ سن کر علمائ و فضلائ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ کے تلوؤں کو چومنے لگے اور کہنے لگے یا امیرالمومنین! ہم آپ کو آپ کے ابنِ عم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قسم دیتے ہیں کہ زمانے کے طول و عرض میں جو ہونے والا ہے اسے اس طرح ہمارے لیے بیان فرمائیں کہ عاقل اور جاہل دونوں سمجھ لیں۔
راوی کا بیان ہے کہ آپ نے حمد و ثنائے الٰہی بیان کی پھر رسول اللہ کا ذکرِ مبارک فرمایا اور کہا کہ میری موت کے بعد جو کچھ ظہور پذیر ہو گا اور میرے بیٹے حسین کی ذریت سے قیام کرنے والے صاحب الزمان کے خروج تک جو کچھ ہو گا وہ بتلا رہا ہوں تاکہ تم اس بیان کی حقیقت سے آگاہ ہو جاؤ۔ انہوں نے پوچھا یا امیر المومنین! یہ کب ہو گا؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ جب فقہا میں موت واقع ہو جائے اور محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت نمازوں کو ضائع کر دے اور لوگ خواہشوں کی پیروی کرنے لگیں۔ اور جب امانتیں ضائع ہو جائیں اور خیانتیں بڑھ جائیں اور لوگ مختلف قسم کے نشہ آور مشروبات(قہوات) پینے لگیں اور ماں باپ کو گالی دینا اپنا شعار بنا لیں اور جھگڑوں کے سبب مسجدوں سے نمازیں اٹھ جائیں اور وہاں کھانوں کی نشستیں ہونے لگیں۔ برائیاں بڑھ جائیں اور اچھائیاں کم ہو جائیں اور آسمانوں کو نچوڑا جانے لگے اس وقت سال مہینوں کی طرح اور مہینہ ہفتہ کی طرح اور ہفتہ ایک دن کی طرح اور دن ایک گھنٹہ کی طرح ہو جائے گا۔ اس وقت بغیر موسم کے بارش ہو گی۔ اور بیٹا ماں باپ سے دل میں کینہ رکھے گا اس زمانے کے لوگوں کے چہرے خوبصورت اور ضمیر مردہ ہوں گے۔ جو انہیں دیکھے گا پسند کرے گا اور جو ان سے معاملہ کرے گا وہ اس پر ظلم کریں گے ان کے چہرے آدمیوں کے اور قلوب شیطانوں کے ہوں گے۔ وہ لوگ صبر سے زیادہ کڑوے، مردار سے زیادہ بدبو دار، کتے سے زیادہ نجس اور لومڑی سے زیادہ چالاک اور اشعب سے زیادہ حریص اور جرب سے زیادہ چپکنے والے ہوں گے جن برائیوں پر عامل ہوں گے ان سے باز نہیں آئیں گے اور اگر تم ان سے گفتگو کرو گے تو تم سے جھوٹ بولیں گے۔ اگر انہیں امانت دار بناؤ گے تو خیانت کریں گے اور اگر ان سے روگردانی کرو گے تو تمہارے پیٹھ پیچھے غیبت کریں گے اور اگر تمہارے پاس مال ہو گا تو حسد کریں گے۔اگر ان سے بخل کرو گے تو دشمنی کریں گے اور اگر تم ان کی تعریف کرو گے تو تم کو گالیاں دیں گے۔ وہ جھوٹ سننے اور حرام کھانے کے عادی ہوں گے۔ وہ زنا، شراب آلاتِ موسیقی اور ساز و آواز کو جائز جان کر استعمال کریں گے۔ فقیہ ان کے نزدیک ذلیل و حقیر ہو گا اور مومن کمزور اور کم حیثیت ہو گا اور عالم ان کے نزدیک پست درجہ اور فاسق ان کے نزدیک عالی مرتبت ہو گا اور ظالم ان کے نزدیک قابلِ تعظیم ہو گا اور کمزور انسان قابلِ ہلاکت ہو گا اور طاقت رکھنے والا ان کا مالک ہو گا۔ اور وہ امربلمعروف اور نہی عن المنکر نہیں کریں گے۔ ان کے نزدیک استغناء دولت اور امانت مالِ غنیمت اور زکوۃ جرمانہ ہو گی۔ مرد اپنی بیوی کی اطاعت اور والدین کے ساتھ نافرمانی اور جفا کرے گا اور اپنے بھائی کو ہلاک کرنے کی کوشش کرے گا۔ فاجروں کی آوازیں بلند ہوں گی اور لوگ فساد، گانا اور زناکاری کو پسند کریں گے۔ لوگ مالِ حرام اور سود سے کاروبار کریں گے۔ اور علماء کو سرزنش کی جائے گی۔ آپس میں بہت خون ریزیاں ہوں گی۔ ان کے قاضی رشوتیں قبول کریں گے اور عورت عورت سے شادی کرے گی اور اس طرح آمادہ ہو گی جس طرح اپنے شوہر کے لیے آمادہ و آراستہ ہوتی ہے۔ اور ہر جگہ لڑکوں کی حکومت و سلطنت ہو گی اور نوجوان گانے اور شراب نوشی کو حلال کر لیں گے اور مرد مرد پر اکتفاء کریں گے اور عورتیں عورتوں پر اکتفاء کریں گی اور عورتٰن زینوں پر سواری کریں گی۔ اس وقت عورت ہر چیز میں اپنے شوہر پر مسلط ہو جائے گی اور لوگ تین ارادوں سے حج کے لئے جائیں گے۔ دولت مند تفریح کے لئے متوسط طبقہ والا تجارت کے لئے اور فقیر بھیک مانگنے کے لیے اور احکام(شریعت) باطل و معطل ہو جائیں گے اور اسلام پست ہو جائے گا اور شریر لوگوں کی حکومت ظاہر ہو گی اور دنیا کے ہر حصہ میں ظلم سرایت کر جائے گا۔ اس وقت تاجر اپنی تجارت میں اور سنار اپنے کام میں اور ہر پیشے والا اپنے پیشے میں جھوٹ بولے گا۔ اس وقت منافع کم ہو جائے گا۔ خواہشیں ضیق میں ہونگی۔ نظریات میں اختلافات ہوں گے اور فساد بڑھ جائے گا اور نیکی کم ہو جائے گی۔ اس وقت لوگوں کے ضمیر سیاہ ہو جائیں گے۔ لوگوں پر ظالم و جابر بادشاہ حکومت کرے گا۔ ان کی گفتگو بہت کڑوی ہو گی اور ان کے دل مردار سے زیادہ بدبودار ہوں گے۔ تو جب ایسا ہو جائے تو علماء مر جائیں گے۔ دل فاسد ہو جائیں گے۔ گناہ بکثرت ہوں گے۔ قرآن متروک ہو جائیں گے اور مسجدیں خراب ہو جائیں گی۔ آرزوئیں طویل ہوں گی اور اعمال قلیل ہوں گےاور شہروں میں نازل ہونے والے عظیم حادثوں کے لیے فصیلیں بنائی جائیں(بعید نہیں ہے کہ ان فصیلوں سے راڈار سسٹم مراد ہو۔ اس لیے کہ آج فضاؤں اور آسمانی حملوں کے عہد میں ماضی کی فصیلوں یا شہر پناہوں کی افادیت صفر ہے)۔ اس وقت ان میں سے اگر کوئی شخص دن رات میں نماز پڑھے تو نامہ اعمال میں کچھ نہیں لکھا جائے گا اور نہ اس کی نماز قبول ہو گی۔ اس لیے کہ وہ نماز میں کھڑا ہوا ہو گا اور دل میں سوچ رہا ہو گا کہ کیسے لوگوں پر ظلم کرے اور کیسے مسلمانوں کو دھوکہ دے۔
ان کی غذا چرب پرندے اور تیہوا کی اقسام ہوں گی اور ان کا لباس حریر و ریشم کا ہو گا۔ وہ سود اور مالِ شبہہ کو حلال سمجھیں گے۔ سچی گواہیوں کے متعارض ہوں گے اپنے اعمال میں ریاکاری کریں گے۔ ان کی عمریں کم ہوں گی چغل خور ان سے فائدہ اٹھائیں گے۔ یہ حلال کو حرام قرار دیں گے۔ ان کے افعال منکرات پر مبنی ہوں گے اور قلوب مختلف ہوں گے۔ ایک دوسرے کو باطل کا سبق پڑھائیں گے اور اعمال بد کو ترک نہیں کریں گے ان کے اچھے لوگ ان کے بُروں سے خوف کھائیں گے۔ لوگ خدا کے ذکر کے علاوہ کاموں میں ایک دوسرے کے محارم کی ہتک حرمت کریں گے۔ ایک دوسرے کی مدد کی بجائے روگردانی کریں گے اگر کسی صالح کو دیکھیں گے تو اسے واپس کر دیں گے اور اگر کسی گنہہ گار کو دیکھیں گے تو اس کا استقبال کریں گے۔ جو ان کی برائی کرے گا اس کی تعظیم کریں گے۔ غیر حلال زادوں کی کثرت ہو جائے گی اور باپ اپنی اولاد کے اعمال قبیحہ کو دیکھ کر خوش ہوں گے نہ انہیں منع کریں گے نہ باز رکھیں گے۔ مرد اپنی زوجہ کو قبیح حالت میں دیکھے گا نہ اسے منع کرے گا نہ اسے باز رکھے گا بلکہ اس کے حاصل کردہ مال کو خرچ کرے گا یہاں تک کہ اگر وہ عورت طول و عرض میں مناکحت کرتی پھرے تو وہ اسے مہتم نہ کرے گا۔ اور اگر لوگ اس عورت کے بارے میں کچھ کہیں گے تو کان نہیں دھرے گا تو یہی وہ دیوث ہے خدا جس کا کوئی قول اور عذر قبول نہیں فرمائے گا۔ اس کی غذا اور نکاح حرام ہے اور شریعتِ اسلام میں اس کا قتل اور لوگوں کے درمیان اس کی تذلیل واجب ہے اور قیامت کے دن وہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ اس وقت کے لوگ ماں باپ کو اعلانیہ گالیاں دیں گے۔ اور بزرگانِ قوم ذلیل ہوں گے اور کم درجہ عوام بلندی پائیں گے اور بے شعوری اور اعصاب زدگی بڑھ جائے گی۔ اخوت فی اللہ نایاب ہو جائے گی۔ حلال پیسے کم ہو جائیں گے۔ لوگ بدترین حالت کی طرف پلٹ جائیں گے۔ اس وقت شیاطین کی حکومت کا دور دورہ ہو گا اور سلاطین کمزور انسان اور عوام پر اس طرح جست کریں گے جیسے چیتا اپنے شکار پر جست کرتا ہے۔ مال دار اپنی دولت میں بخل کریں گے اور فقیر اپنی آخرت کو دنیا کے عوض فروخت کر دے گا افسوس ہے فقیر پر کہ زمانہ اسے خسارہ ذلت اور سبلی میں مبتلا کر دے گا وہ اپنے اہل و عیال میں ضعیف و حقیر ہو گا۔ اور یہ فقیر لوگ ان چیزوں کی خواہش کریں گے جو حلال نہیں ہیں تو جب ایسا ہو گا تو ان پر ایسے فتنے وارد ہوں گے کہ ان سے مقابلہ کی طاقت نہ ہو گی۔
آگاہ ہو جاؤ کہ فتنہ کا آغاز ہجری اور رقطی ہیں(“ھجر“ بحرین کی نواحی بستی ہے۔ ہجری وہاں کا رہنے والا ہو گا اور رقطی اس شخص کو کہتے ہیں جسے برص کا مرض یا کوئی ایسا مرض ہو جس میں جلد پر داغ ہو جائیں) اور اس کا اختتام سفیانی اور شامی ہیں÷ اور تم سات طبقوں میں منقسم ہو۔ پس پہلا طبقہ سختی سے زندگی گزارنے والوں کا ہے(دوسرے نسخہ کے مطابق پہلا طبقہ تقوی کی افزونی کا ہے)اور یہ سنہ70 ہجری تک ہے۔ اور دوسرا طبقہ مروت و مہربانی والوں کا ہے یہ سنہ 230 ہجری تک ہے۔ اور تیسرا طبقہ روگردانی کرنے والوں اور روابط کاٹنے والوں کا ہے یہ سنہ 550 ہجری تک ہے۔ اور چوتھا طبقہ سگ فطرتوں اور حاسدوں کا ہے یہ سنہ 700 ہجری تک ہے۔اور پانچوں طبقہ تکبر کرنے والوں اور بہتان لگانے والوں کا ہے یہ سنہ 820 ہجری تک ہے۔ اور چھٹا طبقہ فساد اور قتل اور دشمنوں سے سگ فطری کرنے والوں کا اور خائنوں کے ظاہر ہونے کا ہے یہ سنہ 940 تک ہے اور ساتواں طبقہ حیلہ جویوں، فریب کاروں، جنگ آزماؤں، مکاروں، دھوکہ بازوں، فاسقوں، روگرداں رہنے والوں اور ایک دوسرے سے دشمنی کرنے والوں کا ہے۔ یہ طبقہ لہو و لعب کے لئے عظیم الشان مکانات بنوانے والوں کا، غذائے حرام کے شائقین کا، مشکل امور میں گرفتاروں کا،شہوت دانوں کا، شہروں اور گھروں کی تباہی کا اور عمارات اور محلات کے انہدام کا ہے۔ اس طبقہ میں منحوس وادی سے ملعون(سفیانی شام میں وادی یابس سے خروج کرے گا) ظاہر ہو گا اس وقت پردے چاک اور بروج منکشف ہوں گے اور یہی حالات رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا قائم مہدی( صلوات اللہ وسلامہ علیہ) ظاہر ہو گا۔
1 comments:
Ap ny wazahat sahi nhi kia hai as khutba ki tafseer kuch r hai jo k ap nh khool kar bayan nhi kia hai
Post a Comment